nazar haffi
محفلین
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
اس وقت پاسپورٹ آفس کوٹلی آزاد کشمیر کا درواز ہ کھل چکا ہے اور اندر مخلوق خدا کا ہجوم، صف بستہ، باادب اور ہوشیار کھڑا ہے۔ اس قدر ہجوم کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ظل الٰہی عموماً جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو دفتر بند رکھتے ہیں۔ تین دن مسلسل دفتر بند رہنے کی وجہ سے لوگوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ دفتر عموماً تین دن کیوں بند رہتا ہے۔؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاسپورٹ تیار ہوجاتے ہیں، انہیں جلدی کی صورت میں ایجنٹوں کو رشوت دے کر انہی دنوں میں پاسپورٹ لینے پڑتے ہیں، یعنی شٹر ڈاون تو ہوتا ہے لیکن کاروبار حکومت چلتا رہتا ہے۔ اب یہ تو جانیے کہ یہ دفتر واقع کہاں ہے۔؟
یہ ضلع کوٹلی کی ضلعی کچہری کا احاطہ ہے، وکلاء برادری کا مرکز یہیں ہے، یہیں پر پریس کلب ہے، یہیں پر ڈی سی اور ایس پی کا آفس ہے اور یہیں پر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر آنے والے سے پہلی ہی مرتبہ کم از کم 1500 روپے انیٹھ لیے جاتے ہیں۔ رقم انیٹھنے کا ایک طریقہ حافظ آزاد سلطانی کی زبانی سنیئے۔ حافظ صاحب قبلہ علاقے کی ایک دینی اور معروف شخصیت ہیں اور وہیں کچہری کے احاطے میں ہی تبلیغ دین میں مصروف ہیں۔ جب وہ پاسپورٹ کے سلسلے میں پاسپورٹ آفس گئے تو اُن سے ظل الٰہی نے کہا کہ جناب پہلی تصویر پر تو آپ کی داڑھی چھوٹی تھی اب قدرے لمبی ہے، لہذا 1500 روپے جمع کروائیں۔ اس پر مولانا صاحب سیخ پا ہوکر دفتر سے باہر آگئے۔
میں نے مولانا صاحب اور دوسرے لوگوں سے عرض کیا کہ آخر آپ لوگ ڈی سی آفس وغیرہ میں شکایات کیوں نہیں درج کرواتے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ شکایات بہت درج کروائی ہیں لیکن ظل الہی صاحب کا تعلق چونکہ پاکستان سے ہے، اس لئے کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یقین جانئے کہ یہ سن کر میں پاکستانی بیوروکریسی کی تاریخ کے ان واقعات میں کھو گیا کہ جن کی بدولت بنگال، بنگلہ دیش بنا تھا۔ نفرت کا جو بیج ہماری بیوروکریسی نے بنگالی اور پاکستانی کا بیچ بویا تھا وہی آج کشمیری اور پاکستانی کے بیچ میں بھی بویا جا رہا ہے۔
اسکے علاوہ ضلع کوٹلی کے تھانے سمیت دیگر اداروں میں انسانی حقوق کا کس قدر احترام ہو رہا ہے، اس سلسلے میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے اور ایمنسٹی پاکستان ضلع کوٹلی کے چیئرمین کے انٹرویو کے دوران جو دلخراش حقایق و واقعات میرے سامنے آئے ہیں، انکے بیان کے لئے الگ سے ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ اگر ایک جملے میں صورتحال پر روشنی ڈالوں تو یہی کہوں گا کہ اگر دوران سفر آپ کا آئی ڈی کارڈ گم ہوجائے تو بغیر رشوت کے آپ رپورٹ درج نہیں کروا سکتے۔ آپ پاسپورٹ کے لئے ارجنٹ فیس جمع کروانے کے باوجود بروقت پاسپورٹ وصول نہیں کرسکتے، آپ بروقت بجلی کے بل جمع کروانے کے باوجود اپنا بجلی کا کنکشن کٹنے سے نہیں روک سکتے۔۔۔
یہ آزاد کشمیر کے ایک ضلع میں رشوت اور لوٹ مار کا عالم ہے، اب آپ پورے پاکستان میں رشوت اور کرپشن کا اندازہ کیجئے اور اب ذرا پاکستان سے باہر آیئے اور تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی پر بھی ایک نگاہ ڈالئے، جہاں پر عوامی شکایات کے باوجود اسٹاف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، جہاں سے آج کے دور میں بھی آپ کا کمپیوٹرایزڈ پاسپورٹ نہیں بن سکتا، جہاں سے بچے کا فارم ب بنوانے کے لئے آپ کو حتماً پاکستان بھیجا جاتا ہے۔ جہاں پر آج بھی آپ کو صرف ایک سال کا پاسپورٹ بنا کر دیا جاتا ہے۔ جہاں پر سوال پوچھنے پر "فارم" آپ کے منہ پر مارے جاتے ہیں اور جہاں پر جو کچھ ہوتا ہے اس پر میں اس سے پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکاہوں۔۔۔
تو اب میں رخ کرتا ہوں جناب عمران خان اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادی صاحب کا ۔۔۔ اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کا نیا اور اسلامی پاکستان اسی جاری رشوت اور کرپشن کی بنیاد پر قائم ہوگا یا عدل و انصاف اور مساوات کی بنیادوں پر۔ اگر آپ نئے پاکستان کو عدل و انصاف اور مساوات کی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے ملک میں اس وقت بھی رشوت کا بازار گرم ہے۔ آپ کے اسی شہر میں جہاں آپ نے دھرنا دیا ہوا ہے، وہاں اس وقت بھی لوگ رشوت دینے پر مجبور ہیں، آپ کی آواز پر لبیک کہنے والے کروڑوں پاکستانی اس وقت بھی رشوت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ قتل و غارت سے لے کر مذہبی دہشت گردی اور لینڈ مافیا سے لے کر کرپٹ جمہوریت تک تمام جرائم رشوت کی چھتری تلے انجام پا رہے ہیں۔
اگر آپ نیا اور اسلامی پاکستان چاہتے ہیں تو اس کے فوری طور پر دو ہی حل ہیں: ایک تو تمام اداروں پر آرمی کا چیک اینڈ بیلنس قائم کیا جائے۔ عوامی شکایات کو حل کرنے کے سلسلے میں آرمی کو اختیارات دیئے جائیں۔ دوسرا حل یہ ہے آپ اپنے مقلدین اور طرفداروں سے یہ حلف لیں کہ وہ نہ ہی تو رشوت لیں گے اور نہ ہی دیں گے۔ جن لوگوں سے بھی رشوت لی جائے وہ آپ کے دھرنوں میں آکر اپنا احتجاج رقم کروائیں۔ میں اپنی آخری قسط کو اس جملے کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہوں کہ جس ملک کا ڈھانچہ راشی اور مرتشی کے اتحاد سے قائم ہو، اس ملک کے ڈھانچے کو فقط نعروں اور دھرنوں سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور جن لوگوں کے پیٹ میں لقمہ حرام داخل ہو وہ امت پیغمبرﷺ تو کجا اولاد پیغمبرﷺ کا خون بھی بہاسکتے ہیں۔ لشکر اعداء کے سامنے امام حسین (رضی اللہ) نے بھی یہ فرمایا تھا کہ تم پر میرے وعظ کا اثر اس لئے نہیں ہو رہا کہ تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہوئے ہیں۔
اگر آپ نیا اور اسلامی پاکستان چاہتے ہیں، اگر آپ ایک شخص کے نہیں بلکہ ایک کرپٹ نظام کے خلاف ہیں تو سب سے پہلے اس کرپٹ نظام کی شہ رگ "رشوت" پر ہاتھ رکھیئے اور لقمہ حرام پر چلنے والے نظام اور حرام پر پلنے والی بیوروکریسی کے خلاف میدان میں آیئے، اس طرح پاک فوج کی پاکیزہ تربیت، عوام کی مدد اور سب سے بڑھ کر اللہ کی نصرت سے یہ ملک نیا بھی اور اسلامی بھی بن سکتا ہے۔
nazarhaffi@gmail.com
اس وقت پاسپورٹ آفس کوٹلی آزاد کشمیر کا درواز ہ کھل چکا ہے اور اندر مخلوق خدا کا ہجوم، صف بستہ، باادب اور ہوشیار کھڑا ہے۔ اس قدر ہجوم کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ظل الٰہی عموماً جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو دفتر بند رکھتے ہیں۔ تین دن مسلسل دفتر بند رہنے کی وجہ سے لوگوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ دفتر عموماً تین دن کیوں بند رہتا ہے۔؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاسپورٹ تیار ہوجاتے ہیں، انہیں جلدی کی صورت میں ایجنٹوں کو رشوت دے کر انہی دنوں میں پاسپورٹ لینے پڑتے ہیں، یعنی شٹر ڈاون تو ہوتا ہے لیکن کاروبار حکومت چلتا رہتا ہے۔ اب یہ تو جانیے کہ یہ دفتر واقع کہاں ہے۔؟
یہ ضلع کوٹلی کی ضلعی کچہری کا احاطہ ہے، وکلاء برادری کا مرکز یہیں ہے، یہیں پر پریس کلب ہے، یہیں پر ڈی سی اور ایس پی کا آفس ہے اور یہیں پر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر آنے والے سے پہلی ہی مرتبہ کم از کم 1500 روپے انیٹھ لیے جاتے ہیں۔ رقم انیٹھنے کا ایک طریقہ حافظ آزاد سلطانی کی زبانی سنیئے۔ حافظ صاحب قبلہ علاقے کی ایک دینی اور معروف شخصیت ہیں اور وہیں کچہری کے احاطے میں ہی تبلیغ دین میں مصروف ہیں۔ جب وہ پاسپورٹ کے سلسلے میں پاسپورٹ آفس گئے تو اُن سے ظل الٰہی نے کہا کہ جناب پہلی تصویر پر تو آپ کی داڑھی چھوٹی تھی اب قدرے لمبی ہے، لہذا 1500 روپے جمع کروائیں۔ اس پر مولانا صاحب سیخ پا ہوکر دفتر سے باہر آگئے۔
میں نے مولانا صاحب اور دوسرے لوگوں سے عرض کیا کہ آخر آپ لوگ ڈی سی آفس وغیرہ میں شکایات کیوں نہیں درج کرواتے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ شکایات بہت درج کروائی ہیں لیکن ظل الہی صاحب کا تعلق چونکہ پاکستان سے ہے، اس لئے کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یقین جانئے کہ یہ سن کر میں پاکستانی بیوروکریسی کی تاریخ کے ان واقعات میں کھو گیا کہ جن کی بدولت بنگال، بنگلہ دیش بنا تھا۔ نفرت کا جو بیج ہماری بیوروکریسی نے بنگالی اور پاکستانی کا بیچ بویا تھا وہی آج کشمیری اور پاکستانی کے بیچ میں بھی بویا جا رہا ہے۔
اسکے علاوہ ضلع کوٹلی کے تھانے سمیت دیگر اداروں میں انسانی حقوق کا کس قدر احترام ہو رہا ہے، اس سلسلے میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے اور ایمنسٹی پاکستان ضلع کوٹلی کے چیئرمین کے انٹرویو کے دوران جو دلخراش حقایق و واقعات میرے سامنے آئے ہیں، انکے بیان کے لئے الگ سے ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ اگر ایک جملے میں صورتحال پر روشنی ڈالوں تو یہی کہوں گا کہ اگر دوران سفر آپ کا آئی ڈی کارڈ گم ہوجائے تو بغیر رشوت کے آپ رپورٹ درج نہیں کروا سکتے۔ آپ پاسپورٹ کے لئے ارجنٹ فیس جمع کروانے کے باوجود بروقت پاسپورٹ وصول نہیں کرسکتے، آپ بروقت بجلی کے بل جمع کروانے کے باوجود اپنا بجلی کا کنکشن کٹنے سے نہیں روک سکتے۔۔۔
یہ آزاد کشمیر کے ایک ضلع میں رشوت اور لوٹ مار کا عالم ہے، اب آپ پورے پاکستان میں رشوت اور کرپشن کا اندازہ کیجئے اور اب ذرا پاکستان سے باہر آیئے اور تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی پر بھی ایک نگاہ ڈالئے، جہاں پر عوامی شکایات کے باوجود اسٹاف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، جہاں سے آج کے دور میں بھی آپ کا کمپیوٹرایزڈ پاسپورٹ نہیں بن سکتا، جہاں سے بچے کا فارم ب بنوانے کے لئے آپ کو حتماً پاکستان بھیجا جاتا ہے۔ جہاں پر آج بھی آپ کو صرف ایک سال کا پاسپورٹ بنا کر دیا جاتا ہے۔ جہاں پر سوال پوچھنے پر "فارم" آپ کے منہ پر مارے جاتے ہیں اور جہاں پر جو کچھ ہوتا ہے اس پر میں اس سے پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکاہوں۔۔۔
تو اب میں رخ کرتا ہوں جناب عمران خان اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادی صاحب کا ۔۔۔ اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کا نیا اور اسلامی پاکستان اسی جاری رشوت اور کرپشن کی بنیاد پر قائم ہوگا یا عدل و انصاف اور مساوات کی بنیادوں پر۔ اگر آپ نئے پاکستان کو عدل و انصاف اور مساوات کی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے ملک میں اس وقت بھی رشوت کا بازار گرم ہے۔ آپ کے اسی شہر میں جہاں آپ نے دھرنا دیا ہوا ہے، وہاں اس وقت بھی لوگ رشوت دینے پر مجبور ہیں، آپ کی آواز پر لبیک کہنے والے کروڑوں پاکستانی اس وقت بھی رشوت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ قتل و غارت سے لے کر مذہبی دہشت گردی اور لینڈ مافیا سے لے کر کرپٹ جمہوریت تک تمام جرائم رشوت کی چھتری تلے انجام پا رہے ہیں۔
اگر آپ نیا اور اسلامی پاکستان چاہتے ہیں تو اس کے فوری طور پر دو ہی حل ہیں: ایک تو تمام اداروں پر آرمی کا چیک اینڈ بیلنس قائم کیا جائے۔ عوامی شکایات کو حل کرنے کے سلسلے میں آرمی کو اختیارات دیئے جائیں۔ دوسرا حل یہ ہے آپ اپنے مقلدین اور طرفداروں سے یہ حلف لیں کہ وہ نہ ہی تو رشوت لیں گے اور نہ ہی دیں گے۔ جن لوگوں سے بھی رشوت لی جائے وہ آپ کے دھرنوں میں آکر اپنا احتجاج رقم کروائیں۔ میں اپنی آخری قسط کو اس جملے کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہوں کہ جس ملک کا ڈھانچہ راشی اور مرتشی کے اتحاد سے قائم ہو، اس ملک کے ڈھانچے کو فقط نعروں اور دھرنوں سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور جن لوگوں کے پیٹ میں لقمہ حرام داخل ہو وہ امت پیغمبرﷺ تو کجا اولاد پیغمبرﷺ کا خون بھی بہاسکتے ہیں۔ لشکر اعداء کے سامنے امام حسین (رضی اللہ) نے بھی یہ فرمایا تھا کہ تم پر میرے وعظ کا اثر اس لئے نہیں ہو رہا کہ تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہوئے ہیں۔
اگر آپ نیا اور اسلامی پاکستان چاہتے ہیں، اگر آپ ایک شخص کے نہیں بلکہ ایک کرپٹ نظام کے خلاف ہیں تو سب سے پہلے اس کرپٹ نظام کی شہ رگ "رشوت" پر ہاتھ رکھیئے اور لقمہ حرام پر چلنے والے نظام اور حرام پر پلنے والی بیوروکریسی کے خلاف میدان میں آیئے، اس طرح پاک فوج کی پاکیزہ تربیت، عوام کی مدد اور سب سے بڑھ کر اللہ کی نصرت سے یہ ملک نیا بھی اور اسلامی بھی بن سکتا ہے۔