زرقا مفتی
محفلین
امسال موسمِ بہار میں پھولوں کے ساتھ ساتھسیاسی راہنماؤں کے رنگا رنگ وعدے بھی منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔ یہ انتخابی موسم میں کئے جانے والے وعدے ہیں جو موسم بدلتے ہی بُھلا دئیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا وعدہ پیپلز پارٹی کا روٹی، کپڑا اور مکان کا تھا جس کے بارے میں تازہ گمان یہ ہے کہ یہ وعدہ عوام کو دینے کا نہیں اُن سے چھین لینے کا تھا۔دوسرا بڑا وعدہمسلم لیگ ن کی جانب سے پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کا تھا جو ہنوز شرمندہٴ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک اور وعدہ اے این پینے پچھلے انتخابات میں کیا تھا کہ بر سر اقتدار آ کر کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر کر دیں گے۔ پچھلے پانچ سالوں میں سونے کی قیمت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی مگر مزدور کی تنخواہ سات آٹھ ہزار رہی جو تقریباً ایک ماشہ سونا کی قیمت ہے۔
سو عوام نے اب وعدوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ اب لاکھ کوئی کہے کہ مزدور کی تنخواہ پندرہ ہزار ہوگی یا اٹھارہ ہزار مزدور جانتا ہے صنعتوں کو تالے لگ رہے ہیں ، ملک قرض میں ڈوبا ہے تنخواہیں تو نہیں مہنگائی ہی بڑھے گی ۔ ایسے میں ایک شخص نے عوام سے سچ بولنے وعدہ کیا ہے تو جی چاہتا ہے اُس پر اعتبار کر لیا جائے۔
۲۳ مارچ ۲۰١۳ کو پاکستان تحریک ِ انصاف نے ایک نیا پاکستان بنانے کا عہد کرنے کے لئے مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں ایک جلسے کا اہتمام کیا ۔ پاکستان کا ہر محبِ وطن شہری یہاں کی روایتی سیاست اور روایتی طرزِ حکومت کو تبدیل کرنے خواہش رکھتا ہے۔ تبدیلی کے نعرے کی کشش ہمیں بھی مینار پاکستان لے گئی ۔ اکتوبر ۲۰١١ کے جلسے میں پہنچنے کے لئے ہمارا ۲۰ منٹ کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا تھا اس لئے ہم شہر کی بجائے موٹر وے کے راستے جلسہ گاہ تک گئے ۔ موٹر وے پر ایک لائن پر جا بجا ٹرک کھڑے تھے اس لئے سفر کافی سست رفتاری سے طے ہوا۔ مینارِ پاکستان سے کافی پہلے نوجوانوں کی ٹولیاں پیدل جلسہ گاہ کی طرف جاتی دکھائی دیں ۔ بادشاہی مسجد اور مینارِ پاکستان کی درمیانی سڑک پر تاحدِ نظر شرکا ءکا ہجوم تھا۔ گاڑی پارک کرنا بھی ایک مسئلہ لگ رہا تھا کیونکہ کچھ لوگوں نے فٹ پاتھ پر بھی گاڑیاں چڑھا رکیں تھیں۔ خیر ایک پولیس اہلکار نے قلعے کی دیوار کے ساتھ میدان میں گاڑی پارک کرنے کا مشورہ دیا سو میں اور میرا بڑا بیٹا گاڑی سے اُتر گئے ۔ پارک کے جنگلے کے ساتھ لوگوں کا اژدہام تھا پولیس نے سیکورٹی خدشات کے بإعث کچھ داخلی راستوں کو تالے لگا رکھے تھے میں اندر جانے سے کترا رہی تھی مگر بیٹا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا ۔ عوام کے ایک بڑے ریلے کے ساتھ سیڑھیاں اُترتے ہوئے یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں کچلے نہ جائیں ۔ بہت سی خواتین دروازے کے ساتھ ایک قطار میں جلسہ گاہ کی سیڑھیاں اُتریں ۔
کچھ دیر تو شوہر اور چھوٹے بیٹے کا انتظار کیا پھر اسٹیج کے قریب پہنچنے کی کوشش ناکام کوشش کی۔ جلسہ گاہ میں ہزاروں کُرسیاں لگائی گئیں تھیں مگر ہر پچاس لوگوں میں سےکسی ایک کو ہی کُرسی مل سکی۔خیر یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں سب سے زیادہ مطلوب شے یہ کُرسی ہی تو ہے ۔ بیٹے کا ہاتھ تھام کر ہجوم میں سے گزرنا ایک خوشگوار تجربہ تھا ۔ یوں لگا جیسے ہم نے کردار بدل لئے ہیں کل میں اسے اُنگلی پکڑ کر چلا رہی تھی اور آج وہ مجھے ۔ چلتے چلتے ہم اسٹیج کے عقب میں پہنچ گئے مگر یہاں میرا بیٹا مطمئن نہ تھا سو تھوڑی ہمت مجتمع کر کے ہجوم میں راستہ بناتے اسٹیج کے دائیں جانب پہنچے ۔ چند سو قدم کے اس سفر میں معاشرے کا ہر طبقہ نظر آیا ۔ دوپٹے سے بے نیاز لڑکیاں جینز میں ملبوس لڑکیاں۔ گھاس پر بچھی چادروں پر بیٹھے خاندان ۔ ایک ضٕعیف خاتون اپنی لاٹھی کے ساتھ نیم دراز دکھائی دیں تو ہم نے مسکراہٹ کا تبادلہ کیا ۔ جلسہ گاہ میں جگہ بدلتی ہوئی بے چین عوام ۔ مزید آگے جانا ممکن نہ تھا۔ قریب ہی کچھ برقع پوش نوجوان لڑکیاں کُرسیوں پر کھڑیں تھیں سو میں بھی وہیں کھڑی ہو گئی یہاں سے اسٹیج دکھائی دے راہ تھا مگر دوری کے باعث شکلیں واضح نہ تھیں۔ اکثر نوجوان کُرسیوں پر کھڑے تھے ۔
میری عزت افزائی
مجھے کھڑا دیکھ کر ایک بچے نے اپنے دوستوں سے کُرسی خالی کروائی صاف کی اور مجھے پیش کی ۔ میں نے اُسے قریب بُلایا اور سر پر ہاتھ پھیرا۔بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے بچوں میں ابھی کچھ اقدار باقی ہیں۔
اگلے دو گھنٹے انتظار میں گُزرے۔ایک برقع پوش بچی نے مجھے بتایا کہ وہ اور اُسکا خاندان ڈیرہ اسماعیل خان سے آیا ہے وہ ایف ایس سی کی طالبہ تھی اور پیر کے روز اُسے کیمسٹری کا پرچہ دینا تھا۔
کُرسی پیش کرنے والے بچے کے والدین ن لیگ کے حمایتی تھے مگر وہ اکیڈمی کے بہانے جلسہ گاہ آیا تھا۔ اُس کا دوست آئی ایس ایف کے یوتھ ونگ کا صدر تھا اس دُبلے پتلے صدر کے والد بھی ن لیگ کے حامی تھے اور یہ باغی ۔ میں نے کہا آپ اپنے والدین کو ہمدردی بدلنے پر قائل کرو تو کہنے لگا ایسا ہی کروں گا نہ کر سکا تو اُنکے شناختی کارڈ چُھپا دوں گا ۔ ایک بچہ پاک بحریہ کا تربیتی کیڈٹ بننے جا رہا تھا اور ایک طالبعلم پڑھائی کے ساتھ ساتھ ویب سائٹ بنانے کا کام کرتا تھا۔ ایک بچے کا خیال تھا کہ عمران خان کے بعد شہباز شریف بہترین متبادل قیادت ہے۔ بچوں کے ساتھ ہلکی پُھلکی بحث اور تبادلہ خیال میں انتظار کے دو گھنٹے گُزر گئے ۔ آخرکار عمران خان ، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی جلسہ گاہ پہنچ گئے لاہور کے صدر علیم خان اور جاوید ہاشمی نے خطاب کیا۔شاہ محمود قریشی کی تقریر بہت پسند کی گئی ۔بارش کے چھینٹے پڑتے رہے ۔ عمران خان خان نے اپنا خطاب سات بجے کے بعد شروع کیا۔ خان صاحب کے لئے کوئی بلٹ پروف سکرین نہ تھی ۔
بسم اللہ کے بعد اُنہوں نے عوام کو اپنے سترہ سالہ سیاسی سفر کی مثال پیش کرتے ہوئے صرف اللہ سے مدد مانگنے کا مشورہ دیا۔ خطاب کے ابتدا میں دو بار قرآن مجید کا ذکر مونث صیغے میں کیا جس پر شرکاء نے اُنکی تصحیح کی کہ قرآن کہتی نہیں کہتا ہے ۔
تحریکِ انصاف کے راہنما عمران خان نے ۲۳ مارچ کو عوام سے چھ وعدے کئے۔
١۔ وہ ہمیشہ قوم سے سچ بولیں گے
۲۔ ظلم کے خلاف جہاد کریں گے
۳۔ اپنے تمام اثاثے پاکستان میں رکھیں گے
تیسرے وعدے کے ساتھ ہی بارش تیز ہو گئی ۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ قیادت بھی عوام کے ساتھ بھیگتی رہی راہنماؤں کے لئے کوئی خصوصی انتظامات نہ تھے ۔ لوگوں نے سونامی سونامی کے نعرے لگانے شروع کئے ۔ میں اور میرا بیٹا خارجی راستے کی طرف چل پڑے کیونکہ واپسی میں عوامی ریلے کے ساتھ باہر نکلنا بہت دُشورا ہوتا
۴۔ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے رُتبے کو ذاتی فائدے کے لئے یا اقربا پروری کے لئے استعمال نہیں کریں گے
۵۔ ٹیکس کی آمدن کی حفاظت کریں گے اسے ایمانداری سے خرچ کریں گے
٦۔بیرونِ ملک پاکستانیوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی پر اُن کا ساتھ دیں گے
عمران خان نے شرکاء سے چار وعدے لئے
١۔ ظلم کے خلاف ساتھ دیں گے
۲۔ خوف کا بُت توڑ دیں گے
۳۔ بحیثیت قوم سچ بولیں گے
۴۔ تبدیلی کے لئے رضا کارانہ خدمات انجام دیں گے
خان صاحب نے ابھی اپنا منشور پیش کرنا تھا جس کے نکات کچھ صفحات پر درج تھے ۔ مگر سونامی کی ہوا وہ صفحات اُڑا لے گئی ۔ خان صاحب نے بارش شروع ہونے پر شرکاء سے تقریر کے خاتمے تک رُکنے کی استدعا کی تھی مگر طوفانی بارش نے سپیکرز بھی خراب کر دئیے اور اُنہوں نے تقریر ختم کردی۔
سیاسی ترانے
جلسے میں نوجوانوں کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ سلمان احمد کے گانے جذبہ جنوں میں نوجوانوں نے آواز ملائی تو جلسہ گاہ میں جنون اور جذبہ چھلکنے لگا۔ ابرار احمد بھی تھے اور جنید جمشید بھی۔
غیرملکی رپورٹر
بہت سے غیر ملکی رپورٹر کیمروں کے ہمراہ جلسے کی کاروائی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
شرکاء کی تعداد
ہمارے خیال میں جلسے میں ڈیڑھ لاکھ افراد موجود تھے۔ تحریک ِ انصاف کے مخالفین یہ دعویٰ کرتے تھے کہ جنرل شجاع پاشا کی سرپرستی میں اسٹیبلشمنٹ نے اکتوبر ۲۰١١ کا جلسہ کروایا۔ اُن ناقدین کو اب اپنے تجزیے پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی ۔ تحریکِ انصاف نے ثابت کر دیا کہ وہ ایجینسیوں اور غیر ملکی حمایت کے بغیر ایک بڑےعوامی اجتماع کا اہتمام کر سکتی ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں چار سیاسی جلسوں میں شرکت کی ۔ پہلی بار بچپن میں اپنے نانا کے ہمراہ جہانگیربدر کی دعوت ِ افطار میں گئی تھی ۔ دوسری بار شہباز شریف کے لئے خواتین کے جلسے کا اہتمام کیا تھا۔ مینار پاکستان پر تحریکِ انصاف کے دونوں جلسوں میں شرکت کی ۔کل کے جلسہ میں پولیس نے سیکیورٹی کا کچھ خیال نہ رکھا۔ عوامی ریلے نے واک تھرو دروازے توڑ ڈالے ۔ خار دار تاریں ہٹا دیں۔ایک داخلی دروازے پر تقریبا بیس پولیس اہلکار کھڑے تھے جو بدنظمی یا بھگدڑ روکنے میں قطعا ناکام تھے۔ اس موقع پر عوام میں نظم و ضبط کے فقدان پر بہت افسوس ہوا۔ آئی ایس ایف کے اہلکار اپنی اپنی جگہ پر خواتین کا احترام کرتے رہے ۔ تاہم جلسہ انتظامیہ کو چاہیئے تھا کہ جلسہ گاہ کو بیس ٹکڑوں میں بانٹ کر آئی ایس ایف کے اہلکاروں کو ایستادہ کرتے۔ شرکاء خان صاحب کی جھلک دیکھنے کے لئے کرُسیوں پر کھڑے رہے جس کی وجہ سے اسٹیج ہماری نگاہوں سے اوجھل رہا۔ مقررین نے بھی شرکاء سے بیٹھنے کی درخواست نہیں کی۔
ذاتی طور پر میں عمران خان سے وقت کی پابندی کی توقع رکھتی ہوں۔ کیونکہ نظم کے بغیر تبدیلی ادھوری رہے گی۔ وہ خود جلسہ گاہ میں چار گھنٹے کی تاخیر سے آئے اور اس تاخیر کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑا۔ سونامی نے ہمیں اچھی طرح بھگو دیا۔ مجھے اپنے شوہر اور چھوٹے بیٹے کی تلاش میں خاصی دُشواری ہوئی کیونکہ موبائل سروس معطل تھی۔ واپسی کے سفر کا احوال بھی ایک الگ قصہ ہے۔خیر گھر پہنچ کر دو نفل شکرانے کے ادا کئے۔
میرا چھوٹا بیٹا پانچ سال سے اپنے سکول کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کا صدر ہے اُسے خان صاحب کی تقریر زیادہ پسند نہیں آئی۔ہم دونوں اس بات پر متفق ہیں خان صاحب کو ایک پیشہ ور تقریر لکھنے والے کی خدمات حاصل کرنی چاہیئیں۔
زرقا مفتی
سو عوام نے اب وعدوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ اب لاکھ کوئی کہے کہ مزدور کی تنخواہ پندرہ ہزار ہوگی یا اٹھارہ ہزار مزدور جانتا ہے صنعتوں کو تالے لگ رہے ہیں ، ملک قرض میں ڈوبا ہے تنخواہیں تو نہیں مہنگائی ہی بڑھے گی ۔ ایسے میں ایک شخص نے عوام سے سچ بولنے وعدہ کیا ہے تو جی چاہتا ہے اُس پر اعتبار کر لیا جائے۔
۲۳ مارچ ۲۰١۳ کو پاکستان تحریک ِ انصاف نے ایک نیا پاکستان بنانے کا عہد کرنے کے لئے مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں ایک جلسے کا اہتمام کیا ۔ پاکستان کا ہر محبِ وطن شہری یہاں کی روایتی سیاست اور روایتی طرزِ حکومت کو تبدیل کرنے خواہش رکھتا ہے۔ تبدیلی کے نعرے کی کشش ہمیں بھی مینار پاکستان لے گئی ۔ اکتوبر ۲۰١١ کے جلسے میں پہنچنے کے لئے ہمارا ۲۰ منٹ کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا تھا اس لئے ہم شہر کی بجائے موٹر وے کے راستے جلسہ گاہ تک گئے ۔ موٹر وے پر ایک لائن پر جا بجا ٹرک کھڑے تھے اس لئے سفر کافی سست رفتاری سے طے ہوا۔ مینارِ پاکستان سے کافی پہلے نوجوانوں کی ٹولیاں پیدل جلسہ گاہ کی طرف جاتی دکھائی دیں ۔ بادشاہی مسجد اور مینارِ پاکستان کی درمیانی سڑک پر تاحدِ نظر شرکا ءکا ہجوم تھا۔ گاڑی پارک کرنا بھی ایک مسئلہ لگ رہا تھا کیونکہ کچھ لوگوں نے فٹ پاتھ پر بھی گاڑیاں چڑھا رکیں تھیں۔ خیر ایک پولیس اہلکار نے قلعے کی دیوار کے ساتھ میدان میں گاڑی پارک کرنے کا مشورہ دیا سو میں اور میرا بڑا بیٹا گاڑی سے اُتر گئے ۔ پارک کے جنگلے کے ساتھ لوگوں کا اژدہام تھا پولیس نے سیکورٹی خدشات کے بإعث کچھ داخلی راستوں کو تالے لگا رکھے تھے میں اندر جانے سے کترا رہی تھی مگر بیٹا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا ۔ عوام کے ایک بڑے ریلے کے ساتھ سیڑھیاں اُترتے ہوئے یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں کچلے نہ جائیں ۔ بہت سی خواتین دروازے کے ساتھ ایک قطار میں جلسہ گاہ کی سیڑھیاں اُتریں ۔
کچھ دیر تو شوہر اور چھوٹے بیٹے کا انتظار کیا پھر اسٹیج کے قریب پہنچنے کی کوشش ناکام کوشش کی۔ جلسہ گاہ میں ہزاروں کُرسیاں لگائی گئیں تھیں مگر ہر پچاس لوگوں میں سےکسی ایک کو ہی کُرسی مل سکی۔خیر یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں سب سے زیادہ مطلوب شے یہ کُرسی ہی تو ہے ۔ بیٹے کا ہاتھ تھام کر ہجوم میں سے گزرنا ایک خوشگوار تجربہ تھا ۔ یوں لگا جیسے ہم نے کردار بدل لئے ہیں کل میں اسے اُنگلی پکڑ کر چلا رہی تھی اور آج وہ مجھے ۔ چلتے چلتے ہم اسٹیج کے عقب میں پہنچ گئے مگر یہاں میرا بیٹا مطمئن نہ تھا سو تھوڑی ہمت مجتمع کر کے ہجوم میں راستہ بناتے اسٹیج کے دائیں جانب پہنچے ۔ چند سو قدم کے اس سفر میں معاشرے کا ہر طبقہ نظر آیا ۔ دوپٹے سے بے نیاز لڑکیاں جینز میں ملبوس لڑکیاں۔ گھاس پر بچھی چادروں پر بیٹھے خاندان ۔ ایک ضٕعیف خاتون اپنی لاٹھی کے ساتھ نیم دراز دکھائی دیں تو ہم نے مسکراہٹ کا تبادلہ کیا ۔ جلسہ گاہ میں جگہ بدلتی ہوئی بے چین عوام ۔ مزید آگے جانا ممکن نہ تھا۔ قریب ہی کچھ برقع پوش نوجوان لڑکیاں کُرسیوں پر کھڑیں تھیں سو میں بھی وہیں کھڑی ہو گئی یہاں سے اسٹیج دکھائی دے راہ تھا مگر دوری کے باعث شکلیں واضح نہ تھیں۔ اکثر نوجوان کُرسیوں پر کھڑے تھے ۔
میری عزت افزائی
مجھے کھڑا دیکھ کر ایک بچے نے اپنے دوستوں سے کُرسی خالی کروائی صاف کی اور مجھے پیش کی ۔ میں نے اُسے قریب بُلایا اور سر پر ہاتھ پھیرا۔بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے بچوں میں ابھی کچھ اقدار باقی ہیں۔
اگلے دو گھنٹے انتظار میں گُزرے۔ایک برقع پوش بچی نے مجھے بتایا کہ وہ اور اُسکا خاندان ڈیرہ اسماعیل خان سے آیا ہے وہ ایف ایس سی کی طالبہ تھی اور پیر کے روز اُسے کیمسٹری کا پرچہ دینا تھا۔
کُرسی پیش کرنے والے بچے کے والدین ن لیگ کے حمایتی تھے مگر وہ اکیڈمی کے بہانے جلسہ گاہ آیا تھا۔ اُس کا دوست آئی ایس ایف کے یوتھ ونگ کا صدر تھا اس دُبلے پتلے صدر کے والد بھی ن لیگ کے حامی تھے اور یہ باغی ۔ میں نے کہا آپ اپنے والدین کو ہمدردی بدلنے پر قائل کرو تو کہنے لگا ایسا ہی کروں گا نہ کر سکا تو اُنکے شناختی کارڈ چُھپا دوں گا ۔ ایک بچہ پاک بحریہ کا تربیتی کیڈٹ بننے جا رہا تھا اور ایک طالبعلم پڑھائی کے ساتھ ساتھ ویب سائٹ بنانے کا کام کرتا تھا۔ ایک بچے کا خیال تھا کہ عمران خان کے بعد شہباز شریف بہترین متبادل قیادت ہے۔ بچوں کے ساتھ ہلکی پُھلکی بحث اور تبادلہ خیال میں انتظار کے دو گھنٹے گُزر گئے ۔ آخرکار عمران خان ، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی جلسہ گاہ پہنچ گئے لاہور کے صدر علیم خان اور جاوید ہاشمی نے خطاب کیا۔شاہ محمود قریشی کی تقریر بہت پسند کی گئی ۔بارش کے چھینٹے پڑتے رہے ۔ عمران خان خان نے اپنا خطاب سات بجے کے بعد شروع کیا۔ خان صاحب کے لئے کوئی بلٹ پروف سکرین نہ تھی ۔
بسم اللہ کے بعد اُنہوں نے عوام کو اپنے سترہ سالہ سیاسی سفر کی مثال پیش کرتے ہوئے صرف اللہ سے مدد مانگنے کا مشورہ دیا۔ خطاب کے ابتدا میں دو بار قرآن مجید کا ذکر مونث صیغے میں کیا جس پر شرکاء نے اُنکی تصحیح کی کہ قرآن کہتی نہیں کہتا ہے ۔
تحریکِ انصاف کے راہنما عمران خان نے ۲۳ مارچ کو عوام سے چھ وعدے کئے۔
١۔ وہ ہمیشہ قوم سے سچ بولیں گے
۲۔ ظلم کے خلاف جہاد کریں گے
۳۔ اپنے تمام اثاثے پاکستان میں رکھیں گے
تیسرے وعدے کے ساتھ ہی بارش تیز ہو گئی ۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ قیادت بھی عوام کے ساتھ بھیگتی رہی راہنماؤں کے لئے کوئی خصوصی انتظامات نہ تھے ۔ لوگوں نے سونامی سونامی کے نعرے لگانے شروع کئے ۔ میں اور میرا بیٹا خارجی راستے کی طرف چل پڑے کیونکہ واپسی میں عوامی ریلے کے ساتھ باہر نکلنا بہت دُشورا ہوتا
۴۔ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے رُتبے کو ذاتی فائدے کے لئے یا اقربا پروری کے لئے استعمال نہیں کریں گے
۵۔ ٹیکس کی آمدن کی حفاظت کریں گے اسے ایمانداری سے خرچ کریں گے
٦۔بیرونِ ملک پاکستانیوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی پر اُن کا ساتھ دیں گے
عمران خان نے شرکاء سے چار وعدے لئے
١۔ ظلم کے خلاف ساتھ دیں گے
۲۔ خوف کا بُت توڑ دیں گے
۳۔ بحیثیت قوم سچ بولیں گے
۴۔ تبدیلی کے لئے رضا کارانہ خدمات انجام دیں گے
خان صاحب نے ابھی اپنا منشور پیش کرنا تھا جس کے نکات کچھ صفحات پر درج تھے ۔ مگر سونامی کی ہوا وہ صفحات اُڑا لے گئی ۔ خان صاحب نے بارش شروع ہونے پر شرکاء سے تقریر کے خاتمے تک رُکنے کی استدعا کی تھی مگر طوفانی بارش نے سپیکرز بھی خراب کر دئیے اور اُنہوں نے تقریر ختم کردی۔
سیاسی ترانے
جلسے میں نوجوانوں کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ سلمان احمد کے گانے جذبہ جنوں میں نوجوانوں نے آواز ملائی تو جلسہ گاہ میں جنون اور جذبہ چھلکنے لگا۔ ابرار احمد بھی تھے اور جنید جمشید بھی۔
غیرملکی رپورٹر
بہت سے غیر ملکی رپورٹر کیمروں کے ہمراہ جلسے کی کاروائی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
شرکاء کی تعداد
ہمارے خیال میں جلسے میں ڈیڑھ لاکھ افراد موجود تھے۔ تحریک ِ انصاف کے مخالفین یہ دعویٰ کرتے تھے کہ جنرل شجاع پاشا کی سرپرستی میں اسٹیبلشمنٹ نے اکتوبر ۲۰١١ کا جلسہ کروایا۔ اُن ناقدین کو اب اپنے تجزیے پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی ۔ تحریکِ انصاف نے ثابت کر دیا کہ وہ ایجینسیوں اور غیر ملکی حمایت کے بغیر ایک بڑےعوامی اجتماع کا اہتمام کر سکتی ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں چار سیاسی جلسوں میں شرکت کی ۔ پہلی بار بچپن میں اپنے نانا کے ہمراہ جہانگیربدر کی دعوت ِ افطار میں گئی تھی ۔ دوسری بار شہباز شریف کے لئے خواتین کے جلسے کا اہتمام کیا تھا۔ مینار پاکستان پر تحریکِ انصاف کے دونوں جلسوں میں شرکت کی ۔کل کے جلسہ میں پولیس نے سیکیورٹی کا کچھ خیال نہ رکھا۔ عوامی ریلے نے واک تھرو دروازے توڑ ڈالے ۔ خار دار تاریں ہٹا دیں۔ایک داخلی دروازے پر تقریبا بیس پولیس اہلکار کھڑے تھے جو بدنظمی یا بھگدڑ روکنے میں قطعا ناکام تھے۔ اس موقع پر عوام میں نظم و ضبط کے فقدان پر بہت افسوس ہوا۔ آئی ایس ایف کے اہلکار اپنی اپنی جگہ پر خواتین کا احترام کرتے رہے ۔ تاہم جلسہ انتظامیہ کو چاہیئے تھا کہ جلسہ گاہ کو بیس ٹکڑوں میں بانٹ کر آئی ایس ایف کے اہلکاروں کو ایستادہ کرتے۔ شرکاء خان صاحب کی جھلک دیکھنے کے لئے کرُسیوں پر کھڑے رہے جس کی وجہ سے اسٹیج ہماری نگاہوں سے اوجھل رہا۔ مقررین نے بھی شرکاء سے بیٹھنے کی درخواست نہیں کی۔
ذاتی طور پر میں عمران خان سے وقت کی پابندی کی توقع رکھتی ہوں۔ کیونکہ نظم کے بغیر تبدیلی ادھوری رہے گی۔ وہ خود جلسہ گاہ میں چار گھنٹے کی تاخیر سے آئے اور اس تاخیر کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑا۔ سونامی نے ہمیں اچھی طرح بھگو دیا۔ مجھے اپنے شوہر اور چھوٹے بیٹے کی تلاش میں خاصی دُشواری ہوئی کیونکہ موبائل سروس معطل تھی۔ واپسی کے سفر کا احوال بھی ایک الگ قصہ ہے۔خیر گھر پہنچ کر دو نفل شکرانے کے ادا کئے۔
میرا چھوٹا بیٹا پانچ سال سے اپنے سکول کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کا صدر ہے اُسے خان صاحب کی تقریر زیادہ پسند نہیں آئی۔ہم دونوں اس بات پر متفق ہیں خان صاحب کو ایک پیشہ ور تقریر لکھنے والے کی خدمات حاصل کرنی چاہیئیں۔
زرقا مفتی