جناب
محب علوی ، @ عینی صاحبہ
دوسری لڑی میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے صفحات 74 تا 78 یہیں پوسٹ کر رہی ہوں۔
صفحہ ۷۴
کوہ سے لے کر چوٹی تک تمام دھواں دار سے گھٹ رہا تھا۔ اس کے قدم سے سیاہی کے دھویں اڑ گئے اور تمام تاریکی برطرف ہو گئی۔ یہاں اگر چھا نو بھی تھی, تو نہ بارش کی سیرابی سے, بلکہ گھٹاؤ کے پسینے سے سیل رہی تھی؎۔ اب اس نے اپنی سرسبزی کو ہرا کیا۔ کچھ پھول تھے تو روشنی بغیر ٹھٹھر رہے تھے۔ وہ بھی چمک کر لال رنگ نکال لائے۔ غرض ہر شے کی طبیعت اپنی اصلیت پر آ کر شگفتگی کے جوش سےکھل گئی اور خوشبوؤں سے عالم مہک گیا۔
روئے زمین پر بہار کا یہ عالم دیکھ کر سلطانِ آسمانی نے بھی یہ حکم دیا کہ سامنے سے پردے اٹھا دو۔ عالمِ بالا کے پاک نہادوں نے گلدستے ہاتھ میں لے لیے اور خوش ہو کر پھول اچھالنے لگے ۔
جب اس پہاڑ کو گلوں سے گلزار اور شادابی سے نوبہار دیکھا تو علمِ تعمیر وہاں آیا۔ اپنے کمال سے ایک محل عالی شان تعمیر کیا۔ بہار نے کوسوں تک گلزار لگایا۔ طرح طرح کے اوزار کام میں آئے۔ سڑکیں نکالیں۔ اتار چڑھاؤ درست کیے۔ ریلیں جاری کیں۔ جابجا فرودگاہیں اور ان میں مہمان خانے اور آرام خانے بنائے۔ غرض عجائبات اور خرابات سے سجا کر ایسا طلسمات کر دیا کہ جس کے دیکھنے سے آنکھوں کو طراوت اور خیالات کو بلندی وسعت حاصل ہو اور تصنیفات میں ایجاد اور مضمون آفرینی کے لیے سامان بہم پہنچیں۔ چنانچہ ملکہ نے یہیں سکونت اختیار کی۔ قسمت نے آکر انعاموں کا دروازہ کھول دیا۔ صداقت جانچتی تھی اور عدل بےرود رعایت دیے جاتا تھا۔ یہ دروازہ رات دن کھلا رہتا تھا۔ امید دروازے پر بیٹھی رہتی اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ بند اور گھٹی ہوئی جگہ پر نہ نباتات بڑھتے ہیں، نہ ان کے پھول لگتے ہیں، نہ پھل لگتے ہیں۔ سورج کی روشنی اور چلتی ہوئی ہوا کو اس میں بڑا دخل ہے۔ یہ نہ ہو، تو سب ٹھٹھر کر رہ جاتے ہیں۔
صفحہ ۷۵
جن کے لیے علوم و فنون سفارش کرتے تھے، انہیں بلا لیتی تھی۔ تمام دربار کثرتِ خلائق سے بھرا رہتا تھا۔ اور ہر چند اکثر ناکام بھی جاتے تھے، مگر شکایت کوئی نہ کر سکتا تھا کیونکہ خود ملکہ کی آنکھ کسی سے غافل نہیں تھی۔ جو لوگ وہاں سے ناکام پھرتے تھے، ان کا نام نالائقوں کی فہرست میں درج ہو جاتا تھا۔ پھر وہ عالمِ شہرت سے خارج ہو کر یا تو گمنامی کے گوشہ میں بیٹھ جاتے تھے کہ کوئی انہیں پوچھتا نہ تھا۔ یا ہیچ و پوچ اور واہیات کاموں پر جھک پڑتے تھے۔ بعض ایسے بھی ہوتے تھے کہ محنت سے مدد لیتے تھے اور پھر اپنے نقص کی تکمیل میں کوشش کرتے تھے۔
اب اہلِ نظر غباری عینکیں لگا لیں کہ
بے کمالوں کے دلوں کے غبار آندھی ہو کر اٹھتے ہیں، ان کے اقبال کا دور آیا ہے۔
ناکاموں میں اکثر نااہل ایسے بھی تھے کہ
نہ اپنی ناکامی پر شرمندہ ہوتے تھے، نہ شرمندگی کے گوشہ میں بیٹھتے تھے۔ چند روز کے بعد ان کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ ایک دن سب نے محل کو گھیر لیا اور باغ میں آ کر بستر ڈال لیے۔ ہر چند ملکہء مذکور کا جوہر افلاکی تھا، مگر باپ کی طرف سے پیوند خاکی تھا۔ اس لیے تجویز میں کچھ نہ کچھ چوک بھی ہوتی تھی۔ اور اگرچہ اس خطا کی اصلاح بھی بہت جلد ہو جاتی تھی، مگر پھر بھی حریف جو تاک میں لگے ہوئے تھے۔ انہیں کہیں نہ کہیں موقع گرفت کا ہاتھ میں لگ ہی گیا۔ چنانچہ انہوں نے کچھ اپنے، کچھ اپنے رفیقوں کے گھروں میں کمیٹياں شروع کر دیں اورآپس ہی میں نالش اور اپیل کے رنگ ڈال دیے۔
تمام عالم میں رفاہِ عام اور اصلاح، نام لے کر فریاد مچا دی، جن سے جمعیت بےشمار اکٹھی ہوگئی۔ صبح و شام جمع ہوتے، لمبی لمبی تقریریں کرتے، مگر اس میں مطلب کا نام نہیں، جھوٹ موٹ کی بکواسیں کرتے، جن میں دلیل سے کام نہیں۔ کوئی سروقد بن کر رائے دیتا۔ کوئی شمشاد قد ہو کر رائے شامل کرتا۔ کوئی تائید کرتا، کوئی تسلیم کرتا۔ آپ ہی اتفاق رائے کر لیتے، آپ ہی
صفحہ ۷۶
واہ واہ، واہ واہ کرلیتے۔ اسی تودہء طوفان کو لکھتے اور پروسیڈنگ (رویداد) نام رکھتے، جسے مشتہر کر کےبڑے فخر کیا کرتے۔
ان ناکاموں کی امید سے راہ تھی۔ اور بے حیائی ان کی بڑی خیر خواہ تھی۔ چنانچہ وہ ہمیشہ ان کو ملکہ کے دربار کی طرف دھکیلتی رہتی تھی کہ چلو اور دوبارہ دعوٰی پیش کرو۔ اگرچہ وہاں سےدھکے کھاتے تھے، اور جب جاتے، نکالے جاتے تھے، اس پر بھی امید کا یہ حال تھا کہ ان کی رفاقت چھوڑتی نہ تھی اور بے حیائی برابر زور لگائے جاتی تھی۔ غرض ان اندرونی راہوں کےساتھ انہوں نے ایک اور راستہ نکالا۔ یعنی خیال کیا کہ یہ جمعیت ہماری, جو امید کی حمایت اور بے حیائی کی عنایت سے روز افزوں ہے، اس کی کثرت ہمیں ضرور فتحیابی بخشے گی۔ پس جس طرح ہو سکے، اپنی بھیڑ بھاڑ کو بڑھانا چاہیے۔
جب پروردگار کسی بندہء خاص کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اپنے بندوں کے کام اس کے سپرد کرتا ہے، تو خواہ مخواہ کے خیر خواہ، مشورہ دینے کو بہت پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر دیکھو، ان کی باتوں میں آکر حقیّت اور واقعیت کو نہ بھول جانا چاہیے۔ خیال کر کے سنو، یہ خیر خواہ کیسے کیسے ہوتے ہیں۔
ادھر تو بے لیاقت اہلِ فساد نے یہ سامان بہم پہنچائے، ادھر یہ قدرتی پیچ پڑا کہ ملکہ کو آسمان سے اترے ہوئے مدت ہوئی تھی۔ عالمِ خاک میں آ کر نیت اس کی پستی کی طرف زیادہ تر مائل ہونے لگی، اور عدل و انصاف کی نصیحتیں سب بھول گئی۔ یا تو صحبت اس کی علوم و فنون سے تھی، یا غرور سے دوستی ہوگئی۔ آرام اور غفلت کو مصاحبت میں لیا اور رفتہ رفتہ غرور سے ایسی رسم و راہ بڑھی کہ اس سے شادی ہو کر دو لڑکیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ ایک ان میں سے خوشامد اور دوسری خام خیالی۔ خوشامد نے فیاضی سے فیض تعلیم پایا تھا، اور خام خیالی نے قسمت سے۔
صفحہ نمبر ۷۷
غرور کے محل میں بی بی خودپسندی بھی تھیں، جن کا اس نے دودھ پیا تھا۔ دوسری دایہ خود رائی تھی، اس نے پالا تھا۔ ملکہ علم افروز نے یہ غضب کیا کہ ساری خُو بُو خاوند کی اختیار کر لی۔ رفتہ رفتہ خود آرائی کی صلاح سے فیصلے اور خود پسندی کے دفتر سے احکام جاری ہونے لگے۔ صداقت نے جو سبق پڑھائے تھے، سب بھُلا دیے, اور عدل تو بے کار ہی ہو گیا۔ جب ان مصاحبوں کے اختیار اور لڑکیوں کی محبت زیادہ ہوئی، تو علوم کا زور بالکل گھٹ گیا۔ اس کے رفیق اور قدر دان دربار سے بند ہو گئے۔ وہ بچارے بُجھے چراغوں کی طرح طاقوں میں پڑے رہتے۔ ملکہ کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوتا۔ انجام اس کا یہ ہوا کہ علوم و فنون کے خدمت گزار محنتیں کر کے راتوں کو صبح اور صبحوں کو رات کرتے، برسوں کی دستکاریوں میں اپنے کمال ظاہر کرتے، مگر صلہ کے نام خاک بھی نہ پاتے۔ البتہ ان میں جو چالاک ہوتے اور خام خیالی اور خوشامد کی وساطت سے وہاں تک جا پہنچتے، ان کے لیے سب کچھ موجود تھا۔
جب ارکانِ سلطنت کی بے اعتدالیاں حد سے گزر جائیں تو اہلِ فساد کیوں نہ سر اٹھائیں۔
جب دربار کا رنگ اس طرح بے رنگ ہوا، نہ علوم کے قدردان وہاں رہے، نہ فنون کے جوہر شناس، تو چرچے اس کے جا بجا پھیلے اور ان نالائقوں کو بھی خبریں پہنچیں، جن کی علوم سفارش نہ کرتے۔ چنانچہ یہ خبریں سُن سُن کر ان کے ہاں بڑی خوشیاں ہوتی تھیں۔ وہ ملکہ کے دل سے دشمنِ بد خواہ تھے۔ ان باتوں کو اس کے زوالِ دولت کی آثار سمجھ کر اپنی کامیابی کی تدبیروں میں زیادہ تر سرگرم ہوئے۔ ادھر ملکہ کے دربار کا یہ حال تھا کہ امید، خام خیالی کے آنے سے خوش تھی۔ ادھر بے حیائی اپنے یاروں کو خوشامد کے سپرد کرتی جاتی تھی۔ دشمن مخفی جو شیطانوں کی طرح
صفحہ ۷۸
لپٹے ہوئے تھے، ملکہ کو ان کا خیال بھی نہ تھا۔
حضرت انسان کا قاعدہ ہے جب اپنی اوج پر آتے ہیں، تو اصلیت کو بھول جاتے ہیں۔ اچھّوں کو گھٹاتے ہیں، بُروں کو بڑھاتے ہیں۔ ویسے ہی اپنے کیے کی سزا پاتے ہیں۔
مقامِ افسوس یہ ہے کہ اب ملکہ کی شانِ شاہی نہ رہی۔ دکھاوے کی رسموں پر رہ گئی۔ زبانی جمع خرچ بہت، باقی ندارد۔ مبالغے, استعارے، بلند پروازیاں, لفاظیاں حد سے زیادہ، مضمون و مدعا غائب۔ کتابیں جلدیں کی جلدیں، مطلب پڑھو تو ایک حرف نہیں، یا تعریف اور خوشامد یا بے لطف اور بے معنی عبارتیں۔ انجام یہ ہوا کہ فقط اوپر اوپر کے توزک و احشام تھے، اندر کچھ نہ تھا۔ یا تو ہر عرضی فورًا سنی جاتی تھی اور ہر بات پر خاطر خواہ توجہ ہوتی تھی، یا باہر ایک ایوان بنوا کر اس کا نام منتظر خانہ رکھا گیا کہ امیدوار وہاں جا کر حاضر ہوا کریں۔ جن لوگوں کو بے حیائی، خوشامد کے سپرد کرتی تھی، وہ بے روک اس گھر میں چلے جاتے تھے، کوئی مزاحم نہ ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رنگ برنگ کا آدمی، دربار میں آ کر بھر گیا۔ ملک ملک کے لوگ چلے آتے تھے اور فقط حمایتیوں کی بھروسے پر اس جوش و خروش سے اظہارِ کمال اور امتحان دینے کو بڑھتے تھے کہ ایک پر ایک گرتا تھا۔
جب دربار کا رنگ بگڑتا ہے، تو غرض مندوں کے خیالات اس سے زیادہ بگڑ جاتے ہیں۔ مگر تم یہ خیال کرو کہ اس عالم میں غریب غرض مندوں پر کیا گزرتی ہے۔
جو لوگ اس دربارِ عام میں شریک ہوتے تھے، وہ سمجھتے تھے ہم ملکہ کی خدمت میں پہنچ لیے، کیونکہ ان کے لیے بڑا قوی وسیلہ تھا یعنی خوشامد۔ خوشامد کے ہاں حقیّت اور واقعیت دونو کو دخل نہیں۔ مگر اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہاں سے معاملہ قسمت پر