پروف ریڈ اول نیرنگ خیال

نیرنگ خیال گفتگو دھاگہ

"نیرنگ خیال" مولانا آزاد کی نمایاں تصنیف ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد کے بارے میں رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں ”آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں اور شاعری کرتے ہوئے نثر لکھتے ہیں۔“

اردو ویکیپڈیا سے اقتباس
"نیرنگ خیال تیرہ مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین تمثیلی انداز میں لکھے گئے ہیں۔ آغاز میں اسے دو حصوں میں لکھا گیا۔ سات مضامین پر مشتمل پہلا حصہ 1880ءمیں شائع ہوا۔ چھ مضامین پر مشتمل دوسرا حصہ آزاد کی وفات کے بعد 1923ءمیں شائع ہوا۔
نیرنگ خیال کے مضامین انگریزی کے معروف انشاءپردازوں جانسن، ایڈیسن اور سٹیل کے مضامین سے ماخوذ ہیں۔ آزاد ان میں جانسن سے زیادہ متاثر معلوم ہوتے ہیں اور ان ہی کے ہاں سے اخذ و ترجمہ بھی زیادہ کیا ہے۔ خود آزاد نیرنگ خیال کے دبیاچے میں تسلیم کرتے ہیں، ” میں نے انگریزی کے انشاءپردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ روشن کیا ہے۔“اگرچہ نیرنگ خیال کے مضامین آزاد کا ترجمہ ہیں مگر آزاد کی چابکدستی اور انشاءپردازانہ مہارت نے انہیں تخلیقی رنگ دے دیا ہے۔ ان میں کچھ اس طرح حالات اور مقامی ماحول کے مطابق تبدیلی کی ہے کہ وہ طبع ذاد معلوم ہوتے ہیں۔ نیرنگ خیال میں تیرہ مضامین ہیں۔"
 
آخری تدوین:

مقدس

لائبریرین
صفحہ 69

زیادہ اس نوجوان کے حال پر افسوس آتا تھا کہ بیچارہ لکڑی ٹیکتا گرتا پڑتا چلا جاتا تھا۔ کمر جھکی ہوئی، گردن بیٹھی ہوئی تھی۔ کھوے سر سے اونچے نکل آئے تھے اور جو عورتیں پہلے اس کی سج دھج پر جان دیتی تھیں، ان کا غول گرد تھا۔ یہ انہیں دیکھتا تھا اور پانی پانی ہوا جاتا تھا۔ جب سب کے مبادلے بیان کیے ہیں، تو اپنے مبادلے بھی مجھے صاف نہ گزر جانا چاہیے۔ چنانچہ اس کی صورت حال یہ ہے کہ بڑے چہرے والے یار میرے چھوٹے چہرے کو لے کر اسے بدنما معلوم ہونے لگے کہ جب میں نے ان کی طرف دیکھا، تو اگرچہ میرا ہی چہرہ تھا، مگر میں بے اختیار ہنسا کہ میری اپنی بھی صورت بگڑ گئی۔ اور صاف معلوم ہوا کہ وہ بیچارہ میرے ہنسنے سے شرما گیا۔ مگر مجھے بھی اپنے حال پر کچھ فخر کی جگہ نہ تھی کیونکہ جب میں پیشانی سے عرق ندامت پونچھنے لگا تو وہاں تک ہاتھ نہ پہنچ سکا۔ چہرہ اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ ہاتھ رکھتا کہیں تھا اور جا پڑتا کہیں تھا۔ ناک اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جب چہرہ پر ہاتھ پھیرا، تو کئی دفعہ ہاتھ نے ناک سے ٹکر کھائی۔ میرے پاس ہی دو آدمی اور بھی تھے کہ جن کے محال پر تمسخر کرنا واجب تھا۔ ایک تو وہ شخص تھا کہ پہلے ٹانگوں کے مٹاپے کے سبب سے چھدرا کر چلتا تھا۔ اس نے ایک لم ٹنگو سے مبادلہ کر لیا تھا کہ جس میں پنڈلی معلوم ہی نہ ہوتی تھی۔ ان دونوں کو جو دیکھتا تھا، ہنستا تھا۔ ایک تو ایسا معلوم ہوتا تھا، گویا دو بلیوں پر چلا جاتا ہے ۔ سر کا یہ عالم تھا، گویا ہوا میں اڑا جاتا ہے۔ اور دوسرے کا حال تھا کہ چل ہی نہ سکتا تھا۔ کمال کوشش سے قدم اٹھاتا تھا، مگر یہ حال تھا کہ دونوں طرف دو دو دائرے کھچتے چلے جاتے تھے۔ میں نے اس عجیب الخلقت کی حالت غریب کو دیکھ کر کہا میاں، اگر دس قدم سیدھے چلے جاو تو سوا دمڑی کی ریوڑیاں کھلاتے ہیں۔
غرض وہ سارا انبار عورتوں اور مردوں میں تقیسم ہو گیا۔ مگر لوگوں کا یہ حال تھا کہ دیکھنے سے ترس آتا تھا۔ یعنی جان سے بے زار تھے اور اپنے اپنے بوجھوں میں

صفحہ 70

دبے ہوئے، اوپر تلے دوڑتے پھرتے تھے۔ سارا میدان گریہ و زاری، نالہ و فریاد، آه و افسوس، سے دھواں دھار ہو رہا تھا۔ آخر سلطان الافلاک کو بےکس آدم زاد کے حال دردناک پر رحم آیا، اور حکم دیا کہ اپنے اپنے بوجھ اتار کر پھینک دیں، پہلے ہی بوجھ انہیں مل جائیں۔ سب نے خوشی خوشی ان دبالوں کو سر و گردن سے اتار کر پھینک دیا۔ اتنے میں دوسرا حکم آیا کہ وہم جس نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، وہ شیطان مابکار یہاں سے دفع ہو جائے۔ اس کی جگہ ایک فرشتہ رحمت آسمان سے نازل ہوا۔ اس کی حرکات و سکنات نہایت معقول و باوقار تھیں۔ اور چہرہ بھی سنجیدہ اور خوشنما تھا۔ اس نے بار بار اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور رحمت الہی پر توکل کر کے نگاہ کو اس کی آس پر لگا دیا۔ اس کانام صبر و تحمل تھا۔ ابھی وہ اس کوہ مصیبت کے پاس آ کر بیٹھا ہی تھا، جو کوہ مذکور خود بخود سمٹنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ گھٹتے گھٹتے ایک ثلث رہ گیا۔ پھر اس نے ہر شخص کو اصلی اور واجبی بوجھ اٹھا اٹھا کر دینا شروع کیا اور ایک ایک کو سمجھاتا گیا کہ نہ گھبراؤ اور بردباری کے ساتھ اٹھاؤ۔ ہر شخص لیتا تھا اور اپنے گھر کو راضی رضامند چلا جاتا تھا۔ ساتھ ہی اس کا شکریہ ادا کرتا تھا کہ آپ کی عنایت سے مجھے اس انبار لا انتہا سے اپنا بار مصیبت چننا نہ پڑا۔

صفحہ 71

علم کی بدنصیبی

تمہید

تمام صاحب جو ہر اور کل اہل کمال ہمیشہ سے ان نالائقوں اور غلط نما باکمالوں کے ہاتھوں سے نالاں ہیں، جن فلک کی سفلہ پروری یا قسمت کی یاوری سے ہو اے مراد کے بلون میں بیٹھے ہیں اور ترقیوں کے آسمان پر سیر کرتے پھرتے ہیں۔ اس معاملہ میں اہل علم سے زیادہ کو واجب الرحم نہیں۔ صدیوں کے بعد تو کوئی صاحب صنعت پیدا ہوتا ہے۔ پھر اگرچہ ہر شخص کے کام کی ترقی خاص وعام کی قدردانی پر منحصر ہے، لیکن بنیاد اس کی حکام اہل دول کی بدولت ہوتی ہے۔ اسی واسطے اس کی رونق بازار کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے اور ان خرابیوں کا بیان کرنا حد قلم سے باہر ہے۔ اول تو اہل کمال ہمیشہ کم اور بے کمال انبوه در انبوہ ہیں۔ ان کی بھیڑ بھاڑ ایسی خاک اڑاتی ہے کہ ان کے کمال پر خاک پڑ جاتی ہے۔ ناچار دل شکستہ ہو کر بیٹھ رہتے ہیں۔ جو ثابت قدم رہتے ہیں، ان کی بدنصیبی یہ کہ جن قدردانوں پر مدار کار ہے، کبھی کثرت کار سے، کبھی بےپروائی سے، غرض تھوڑے ہی دنوں میں وہ اپنے شوق کو ان لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں، جو اس کام کے لائق نہیں۔ اس صورت میں اگر قسمت سے ہوا چلی اور خودبخود کسی کی گود میں ثمر مراد آ پڑا، تو آ پڑا۔ نہیں تو ذلت، تباہی، اور در بدری کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ان ناگوار باتوں کو غلط نما باکمال گوارا کر لیتے ہیں، مگر اصل باکمال مرنے کو اس سے بہتر سمجھتے ہیں۔


صفحہ 72

پھر بھی ناچار گوارا کرنی پڑتی ہیں۔ سفارشیں اٹھاتے ہیں۔ دربدر پھرتے ہیں۔ خوشامدیں کرتے ہیں۔ غرض کہ اس رستہ کی منزلوں میں جو مصیبتیں پیش آتی ہیں، وہ ایک افسانہ کے استعارہ میں بیان ہوتی ہیں۔

آغاز طلب

علوم وفنون نے دیکھا کہ مدت گزر گئی ہمارے مرید اور خدمت گزار فقط اپنی ارادت ولی سے انسان کے فائدوں کے لیے محنت کر رہے ہیں، اور جڈ صدق دل سے جان فشانی اور عرق ریزی کرتے ہیں، اس کا صلہ کچھ نہیں ملتا، کہ جن کے بےلیاقتوں کو جوہر کمال سے کچھ واسطہ نہیں اور انسان کی نفع رسانی کی بھی کچھ پروا نہیں رکھتے، وہ کامیابی اور عیش و عشرت کی بہاریں لوٹ رہے ہیں۔ سب کو اس بات کا بہت رنج ہوا اور سلطان آسمانی کے دربار میں عرضی کی۔ خلاصہ جس کا یہ کہ انصاف و عدالت کے بموجب تمام مریدان خدمت گزار کو بمقتضائے انصاف و عزت اور دولت کے انعام مرحمت ہونے واجب ہیں۔ دربار میں مشتری صدر اعلی تھا اور عطارد میر منشی۔ جب یہ عرضی پڑھی گئی، تو جو جو خدمتیں اور ادائے خدمت میں مشقتیں تھیں، سب جتائی اور
دکھائی گئیں اور حق تلفیوں کا دعوی کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ فی الحقیقت عالم خاک میں علوم و فنون کی کوششوں اور کارگزاریوں کا شکریہ کسی نے ادا نہیں کیا۔ اب وہ آئے دن کے دکھ بھرتے بھرتے ایسے دق ہو گئے ہیں کہ یقین ہے چند روز میں دنیا کو چھوڑ کر عالم بالا کی طرف چلے آئیں اور اگر وہ دنیا میں نہ رہے تو حضرت انسان جنہوں نے یہ شوکت و شان بنائی ہے، حیوانوں سے بدتر ہو جائیں گے، پھل پھلاری، گھاس پات، چرتے پھریں گے،، جنگوں کے جانور بن جائیں گے۔ اور جو ان سے زیادہ وحشی ہوں گے، وہ انہیں پھاڑ کھائیں گے۔ اس کے فیصلے کے لیے عالم بالا

صفحہ 73

میں کمیٹی ہوئی۔ قاعدہ ہے کہ جو اراکین دربار کا رنگ ہوتا ہے، وہی کل دربار کا رنگ ہوتا ہے۔ چنانچہ سب کا اتفاق رائے اس بات پر ہوا کہ ضرور کسی کو بھیجنا چاہیے۔
ملکہ کوکب جمال کی ایک بیٹی تھی کہ باپ اس کا عالم خاکی سے تھا، مگر اس کے نور جمال اور حسن کمال نے تمام عالم بالا کو روشن کر رکھا تھا، اور صداقت و حقیقت کے بعد مدرسہ میں تعلیم پائی تھی۔ اسے حضور سے ملکہ علم افروز کا خطاب عطا ہوا، اور عقل کا تاج سر پر رکھا گیا، جس میں آفتاب کی طرح فہم و ادراک کی شعاعیں جگمگاتی تھیں، رفعت کا تخت پھولوں سے سجایا، اس پر ملکہ موصوفہ کو جلوہ گر کر کے اس طرف روانہ کیا۔ آسمان نے تارے اور زمین نے بجائے غبار کے نور اڑایا۔ اس نے بھی عالم میں آ کر باپ کی طرف سے وہ شوکت و شان اور لیاقت دکھائی جس سے تمام بےلیاقت تھرا گئے اور ماں کی طرف سے وہ روشنی پھیلائی کہ خاک کا کرہ نور کی قندیل ہو گیا۔ دن رات دربار جاری تھا۔ علوم کے مسائل اور تصنیفات کے مقدمات پیش ہوتے تھے۔ استاد یعنی صداقت کی طرف سے متانت اور خاموشی مصاحبت میں آئی تھیں۔ چنانچہ علوم و فنون جن لوگوں کی سفارش کرتے تھے، وہ انہی کے ذریعہ سے آ کر پیش ہوتے تھے۔
عالم بالا کے لوگ علم کے عاشق تھے۔ سب اس کی فرماں روائی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جلوس دربار کے لیے ہر طرح کے سامان بھیجے، اور بارگاہ شاہی نے عجب شان و شکوہ حاصل کی۔ جب دربار میں آ کر بیٹھتی، تو عدل و انصاف کھوٹے کھرے کے پرکھنے کو کھڑے رہتے، امید سامنے ناچا کرتی۔ قدردانی دست راست پر کھڑی رہتی اور سخاوت کے اشارہ کے بموجب ہر ایک کو انعام دیتی کہ قسمت کے ہاتھوں لوگوں تک پہنچ جاتے تھے۔
ایک دن ملکہ علم افروز اپنی رفعت کے تخت ہوا دار پر سوار ہو کر ہوا کھانے نکلی، اتفاقاً ایک پہاڑ کی طرف گزر ہوا۔ کوہ مذکور پر جہالت ایسی چھائی ہوئی تھی کہ دامن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 17

اردو اور انگریزی کو فقط اظہار مطلب کا وسیلہ ہی کہیں، تو گویا وہ ایک اوزار ہے کہ جو کام ایک گونگے بچارے یا بچۂ نادان کے اشارے سے ہوتے ہیں، وہی اس سے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس کا مرتبہ ان لفظوں سے بہت بلند ہے۔ زبان حقیقت میں ایک معمار ہے کہ اگر چاہے تو باتوں میں ایک قلعۂ فولادی تیار کر دے جو کسی توپخانے سے نہ ٹوٹ سکے؛ اور چاہے تو ایک بات میں اسے خاک میں ملا دے جس میں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ زبان ایک جادوگر ہے جو کہ طلسمات کے کارخانے الفاظ کے منتروں سے تیار کر دیتا ہے، اور جو اپنےمقاصد چاہتا ہے۔ اُن سے حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ایک نادر مرصع کار ہے کہ جس کی دست کاری کے نمونے کبھی شاہوں کے سروں کے تاج اور کبھی شہزادیوں کے نو لکھے ہار ہوتےہیں۔ کبھی علوم و فنون کے خزانوں سے زر و جواہر اس کی قوم کو مالا مال کرتے ہیں۔ وہ ایک چالاک عیار ہے جو ہوا پر گرہ لگاتا ہے اور دلوں کے قفل کھولتا اور بند کرتا ہے۔ یا مصور ہے کہ نظر کے میدان میں مرقع کھینچتا ہے۔ یا ہوا میں گلزار کھلاتا ہے۔ اور اسے پھول، گل، طوطی و بلبل سے سجا کر تیار کر دیتا ہے۔ اس نادر دست کار کے پاس مانی اور بہزادوں کی طرح مُو قلم اور رنگوں کی پیالیاں دھری نظر آتی ہیں۔ لیکن اس کے استعاروں اور تشبیہوں کے رنگ ایسے خوشنما ہیں کہ ایک بات میں مضمون کو شوخ کر کے لال چہچہا کر دیتا ہے، پھر بے بے اس کے کہ بُند پانی اُس میں ڈالے، ایک ہی بات میں اُسے ایسا کر دیتا ہے کہ کبھی نارنجی، کبھی گلنار، کبھی آتشی، کبھی ایسا بھینا بھینا گلابی رنگ دکھاتا ہے کہ دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بوقلموں اور رنگا رنگ۔ اور پھر سرتاپا عالمِ نیرنگ


صفحہ 18

جس زبان میں ہم تم باتیں کرتے ہیں، اس میں بڑے بڑے نازک قلم مصور گزر گئے ہیں، جن کے مرقعے آج تک آنکھوں اور کانوں کے رستہ سے ہمارے تمہارے دلوں کو تازہ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ آج کل گویا اُن کے قلم گھس گئے ہیں، اور پیالیاں رنگوں سے خالی ہو گئی ہیں، جس سے تمہاری زبان کوئکی نئی تصویر یا باریک کام کا مرقع تیار کرنے کے قابل نہیں رہی اور تعلیم یافتہ قومیں اسے سُن کر کہتی ہیں کہ یہ ناکامل زبان ہر قسم کے مطالب ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔

میرے دوستو! یہ قول اُن کے حقیقت میں بے جا نہیں ہے۔ ہر ایک زبان تعلیم یافتہ لوگوں میں جو عزت پاتی ہے، تو دہ سبب سے پاتی ہے۔ اول یہ کہ اس کے الفاظ کے خزانے میں ہر قسم کے علمی مطالب ادا کرنے کے سامان موجود ہوں۔ دوم اُس کی انشا پردازی ہر رنگ اور ہر ڈھنگ میں مطالب ادا کرنے کی قوت رکھتی ہو۔ ہماری زبان میں یہ دونوں صفتیں ہیں، مگر ناتمام ہیں۔ اور اس کے سبب ظاہر ہیں۔

علمی مطالب ادا کرنےکے سامانوں میں جو وہ مفلس ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ تم جانتے ہو، کل ڈیڑھ سو برس تخمیناً اس کی ولادت کو ہوئے۔ اس کا نام اُردو خود کہتا ہے کہ میں علمی نیہں، بازار کی زبان ہوں؛ اٹھنے بیٹھنے، لین دین کی باتوں کے لیے کام میں آتی ہوں۔ سلاطینِ چغتائیہ کے وقت تک اس میں تصنیف و تالیف کا رواج نہ تھا۔ مگر خدا کی قدرت دیکھو کہ ایک بچہ شاہ جہان کے گھر پیدا ہو، اور انگریزی اقبال کے ساتھ اس کا ستارہ چمکے۔ جب صاحب لوگ یہاں آئے، تو انہوں نے ملکی زبان سمجھ کر اس کے سیکھنے کا ارادہ کیا۔ مگر سوا چند دیوانوں کے اس میں نثر کی کتاب تک نہ تھی۔ اُن کی فرمایش سے کئی کتابیں فقط افسانے اور داستانیں تھیں، تصنیف ہوئیں اور اُنہی کے ڈھب کی صرف و نحو بھی درست ہوئی۔ 1835ء سے دفتر بھی اردو ہونے شروع ہوئے۔ 1836ء میں ایک اُردو اخبار جاری ہوا۔ 1842ء سے دہلی کی


صفحہ 19

سوسائٹی میں علمی کتابیں اسی زبان میں ترجمہ ہونے لگیں، اور اُردو نے براے نام زبان کا تمغہ اور سکہ پاپا۔ اب خیال کرنا چاہیے کہ جس زبان کی تصنیفی عمر کل 70 – 72 برس کی ہو، اس کی بساط کیا؟ اور اُس کے الفاظ کے ذخیرہ کی کائنات کیا؟ پس اس وقت ہمیں اس کی کمیِ الفاظ سے دل شکستہ نہ ہونا چاہیے۔

میرے دوستو! کسی زبان کو لفظوں کے اعتبار سے مفلس یا صاحبِ سرمایہ کہنا بے جا ہے۔ ہر زبان اہلِ زبان کے باعلم ہونے سے سرمایہ دار ہوتی ہے۔ اور کسی ملک والے کا یہ کہنا کہ علمی تصنیف یا بات چیت میں اپنے ہی ملک کے الفاظ بولیں، بالکل بے جا ہے۔

عربی زبان بھی ایک علمی زبان تھی، مگر دیکھ لو، اس میں سارے لفظ تو عربی نہیں؛ صدہا رومی، صدہا یونانی؛ صدہا فارسی کے لفظ ہیں وغیرہ۔ اور زبانِ فارسی کا تو ذکر ہی نہیں۔ انگریزی زبان آج علوم کا سرچشمہ بنی بیٹھی ہے۔ مگر اس میں بھی غیر زبان کے لفظوں کا طوفان آ رہا ہے۔ زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے اہلِ ملک میں علم آتا ہے، پھر علمی اشیا کے لیے الفاظ یا تو اُس علم کے ساتھ آتے ہیں یا وہیں ایجاد ہو جاتےہیں، علمی الفاظ کا ذخیرہ خدا نے بنا کر نہیں بھیجا ہے، نہ کوئی صاحبِ علم پہلے سے تیار کر کے رکھ گیا ہے۔ جیسے جیسے کام اور چیزیں پیدا ہوتی گئیں، ویسے ہی ان کے الفاظ پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے جاتے ہیں۔

اول خاص و عام میں علم پھیلتا ہے، ساتھ ہی اس کے الفاظ بھی عام ہوتے ہیں۔ مثلاً ریل کا انجن اور اس کے کارخانہ کے صدہا الفاظ ہیں کہ پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب وہ کارخانے ہوئے تو ادنیٰ ادنیٰ ناخواند، سب جان گئے۔ اگر بے اس کے وہ الفاظ یہاں ڈھونڈتے یا پہلے یاد کرواتے، تو کسی کی سمجھ میں بھی نہ آتے۔ اسی طرح مثلاً میجک لینٹرن اس وقت یہاں کوئی نہیں جانتا، خواہ اس کا یہی نام لیں،


صفحہ 20

خواہ فانوسِ جادو کہیں، خواہ اچنبھے کا تماشا کہیں، ہرگز کوئی نہیں سمجھے گا۔ لیکن اگر وہ مشاہدہ میں عام ہو جائے اور گھر گھر میں جاری ہو جائے، تو اُلٹے سے اُلٹا اس کا نام رکھ دیں، وہی بچہ بچہ کی زبان پر مشہور ہو جائے گا اور وہی سب سمجھیں گے۔ انگریزی میں جو علمی الفاظ ہیں، مثلاً ٹیلی گراف یا الیکٹریسٹی وغیرہ، ان میں بھی بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنے اصلی معانی پر پوری دلالت نہیں کرتے۔ مگر چونکہ ملک میں علم عام ہے اور وہ چیزیں عام ہیں، اس لیے الفاظِ مذکورہ بھی ایسے عام ہیں کہ سب بے تکلف سمجھتے ہیں۔ پس لفظوں کو کوتاہی ہماری زبان میں اگر ہے، تو اس سبب سے ہے کہ وہ بے علمی کے عہد میں پیدا ہوئی اور اسی عہد میں پرورش اور تربیت پائی۔ اب اس کی تدبیر ہو سکتی ہے تو اہل ملک ہی سے ہو سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ خود علوم و فنون حاصل کرو، اپنے ملک میں پھیلاؤ، اور بھائی بندوں کو اس سے آگاہ کرو۔ جب اس میں سب قسم کے کاروبار ہوں گے، تو اُن کے الفاظ بھی ہوں گے؛ ملک کے افلاس کے ساتھ زبان سے بھی افلاس کا داغ مٹ جائے گا۔

تمہاری انشا پردازی پر جو نقص کا الزام ہے، وہ بھی کچھ درست ہے اور کچھ قابل چشم پوشی کے ہے۔ یہ تو ابھی بیان ہوا کہ زبانِ مذکور علمی زبان نہیں۔ سو برس ہوئے کہ ہندوستان کے رنگین مزاجوں نے فقط اس حُبُ الوطنی سے کہ ہمارے زبان بھی اور زبانوں کی طرح نظم سے خالی نہ ہو، اس میں اپنی مرصع کاری اور نقش نگاری دکھانی شروع کی۔ اور حق یہ ہے کہ 1215ھ میں جو کچھ زور اس نے پایا، انہی کی بدولت پایا۔ انشا پردازی کا قاعدہ ہے کہ ابتدا میں جو مطالب کسی زبان میں ادا ہوتے ہیں، تو اُن میں سیدھی سادی تشبیہیں اور قریب قریب کے استعارے خرچ ہوتے ہیں۔ اسی واسطے جو مطالب اس میں ادا کیے جاتے ہیں، وہ سنتے ہی سمجھ میں آ جاتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس پاس کے استعارے اور اُن چیزوں کی تشبیہیں جو آنکھوں کے سامنے ہمارے


صفحہ 21

آس پاس موجود ہیں، وہ فقط مطلبِ مذکور کو سمجھاتے ہی نہیں، بلکہ اپنی رنگینی اور لطافت سے اُس کے لطف کو روشن کر کے دکھاتے ہیں؛ اور چوں کہ سادگی اور آسانی کے سبب سے اُنہیں سب سمجھتے ہیں، اس لیے سب کے دل اُس کی تاثیر سے اثر پذیر ہوتے ہیں۔ چند روز کے بعد قریب قریب کے تشبیہیں اور استعارے تو خرچ ہو جاتے ہیں اور آس پاس کی تشبیہیں عام تام ہو کر تمام ہو جاتی ہیں۔ لیکن علم اور مشق جو مختلف رستوں سے آگاہ کر دیتے ہیں، اس لیے ان کے فکر کبھی دائیں بائیں پھیلتے ہیں، اور کبھی بلند ہونا شروع کرتےہیں اور دُور دُور ہاتھ بڑھاتے ہیں، فارسی اور اُردو زبان میں جو کیفیت اس کی گزری ہے، اس وقت میں اُسی کا اشارہ کرتا ہوں کہ شعرا نے مستعمل استعاروں سے بچنے کے لیے استعارہ اور استعارہ در استعارہ نکالا اور اسے ایک ایجادِ دلپذیر تصور کر کے "نازک خیالی" نام رکھا۔ چونکہ دنیا میں ہر ایک نئی چیز بہت مزا دیتی ہے، اس لیے اوروں نے بھی اسے پسند کیا اور علم کی مشکل پسندی نے اسے زیادہ قوت دی اور یہ معاملہ روز بروز زور پکڑتا گیا۔ چنانچہ ان بلند خیالوں میں دنیا کے کاروبار مثلاً خط و کتابت یا تاریخی مقاصد یا علمی مطالب کا ادا کرنا تو بہت دشوار تھا، مگر ایک فرقہ پیدا ہوا جنہوں نے "خیال بند‘ کا خطاب حاصل کیا۔ انہی کی نثریں پنچ رقعہ، مینا بازار، چار عنصر وغیرہ اور نظم میں جلالؔ، اسیرؔ، قاسمؔ مشہدی، بیدلؔ، ناصر علی اور ان کے مقلدوں کے دیوان موجود ہیں۔ چنانچہ دونوں کے امتیاز کے لیے دو شعر بھی اس مقام پر لکھتا ہوں۔ پہلے طریقہ میں ایک استاد کہتا ہے :

سحر خورشید لرزاں برسرِ کوے تو مے آید
دل آینیہ را نازم کہ بر روے تو مے آید

دیکھو ناصر علی سرہندی نے اسی مضمون کو اپنی نازک خیالی کے زور سے الگ کیا ہے۔


صفحہ 22

نیا رد چشم بیدل تابِ حُسنِ بیجا بس را
کہ باشد صافیِ آینیہ شبنم آفتا بس را

چونکہ اُردو نے فارسی کا دودھ پی کر پرورش پائی تھی، اس لیے چند روز کے بعد یہی دقت اسے بھی پیش آئی۔ میر سوزؔ، میرؔتقی، سوداؔ، جراءتؔ وغیرہ کے زمانے تھے۔ان میں اگرچہ مضامین شاعرانہ تھے، مگر زبان میں ابتدائی خوبی موجود تھی۔ بعد اُن کے وہی استعاروں کے ایچ پیچ اور خیالوں کی معمولی ترقی شروع ہوئی۔ البتہ خال خال آدمی ایسے رہے، جو بزرگوں کی تقلید سے صفائی اور سادگی کی لکیر پر فقیر رہے۔ مثلاً قدما میں خواجہ میر درد کہتے ہیں :

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

متاخرین میں غالبِؔ نازک خیال اس سے الگ ہو کر کہتے ہیں :

دریاے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

ہمیں ممنون ہونا چاہیے کہ جو کچھ لطافت یا زور ہمارے زبان میں پیدا ہوا، انہیں شعرا کی برکت سے ہوا۔ مگر وہ عاشقانہ مضامین ادا کرنے کے سامان اور تغزل کے خوشنما انداز، اور اُ کے الفاظ اور ترکیبوں کی دلآویز تراشیں تھیں۔ بھلا خیالات فلسفہ کے سامان، علوم کی اصطلاحیں، مختلف مضامینِ تاریخی کے ادا کی طاقت، دلائل و براہین کے لڑانے کے زور اس میں کہاں سے آتے۔ اگرچہ ابتدا میں جو کچھ تھا، یہ رنگ بہت خوشنما تھا۔ مگر ایک دیکھتا ہوں، تو زمانے کے انداز نے اُسے بھی پھیکا کر دیا ہے، اور تمہاری انشا پردازی کا یہ حال ہو لیا ہے کہ غیر قومیں تو کچھ کہیں بجا ہے، میں خود دیکھتا ہوں اور شرماتا ہوں۔ کیونکہ مستعمل چیز میں شگفتگی اور تازگی دکھانی بہت مشکل ہے۔ پھر بھی خدا کا شکر کرنا چاہیے کہ ایک خزانہ مصوری کا تمہارے ہاتھ آ گیا ہے۔ مگر اتنا ہے کہ وہ انگریزی


صفحہ 23

قفلوں میں بند ہے۔ جس کی کنجی انگیریزی زبان ہے۔

اس سے میرا یہ مطل نہیں کہ جس طرح ہم فارسی، عربی کے الفاظ اُردو میں بولتے ہیں، اسی طرح انگریزی الفاظ بولنے لگیں، یا ان کے محاروں اور اصطلاحوں کے ترجمے اُردو میں استعمال کرنے لگیں۔ لیکن تم خیال کرو کہ عبارت اور الفاظ حقیقت میں انسان کے خیالات اور مقاصد کے لباس ہیں، اور چوں کہ طبعی خیال فرقہ ہاے انسان کے ہمیشہ قریب قریب ہوتے ہیں، اس لیے وہ جس ملک میں چاہیں، رنگِ ظہور دکھائیں۔ اصلیت میں کچھ نہ کچھ ملتے جلتے ہی ہوں گے، بلکہ اُن می۸ں بعض ڈھنگ ایسے ہوں گے کہ ذرا رنگ پلٹ کر چاہیں گے، تو دوسری طرف آ جائیں گے اور نئی بہار دکھائیں گے۔ چنانچہ جب بنظرِ غور دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ دو قوموں کے ارتباط سے ہمیشہ ایک زبان دوسرے زبان سے پرتوہ لیتی رہی ہے۔ دیکھ لو، بھاشا پر جب فارسی عربی آ کر گری، تو اُس کا کیا اثر ہوا اور اب انگریزی کیا اندرونی اثر کر رہی ہے۔ فارسی اُردو میں تم نے وقت کے باب میں دیکھا ہو گا کہ زمانہ یا زندگی کو عمرِ رواں یا آبِ گزران کہتے ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ زمانہ عمر کی کھیتی کو یا رسنِ عمر کو کاٹ رہ اہے۔ اور یہ بھی کہ

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

اسی طرح غصہ کے باب میں دیکھا ہو گا کہ اسے آتشِ غضب کہہ کر آگ سے تعبیر کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہمچو مارِ سیاہ برخود پیچید اور کبھی جوشِ غضب کے لیے کہتے ہیں کہ آتش از چشمش پرید، دُود از نہاوش برآمد، اور ہمجو شپند از جابر جست۔ پس انگریزی میں متھالیجی ایک خاص علم ہے کہ اس میں ان سب قوتوں یا جذبوں کو ایک ایک مجسم دیبی یا دیوتا مقرر کیا ہے اور اُنہی سامانوں سے سجایا ہے، جو اُن کے لیے لاز اور شایان ہیں، چنانچہ


صفحہ 24

وقت
ایک پیرِ کہن سال کی تصویر ہے۔ اس کے بازوؤں میں پریوں کی طرح پرِ پرواز لگے ہیں کہ گویا ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میں شیشۂ ساعت ہے کہ جس سے اہل عالم کو اپنے گزرنے کا اندازہ دکھا جاتا ہے۔ اور ایک میں درانتی ہے کہ لوگوں کی کشتِ امید یا رشتۂ عمر کا کاٹتا جاتا ہے۔ یا طالم خونریز ہے کہ اپنے گزرنے میں ذرا رحم نہیں کرتا۔ اس کے سر پر ایک چوٹی بھی رکھی ہے کہ جو دانا ہیں، اُسے پکڑ کر قابو میں کر لیتے ہیں۔ لیکن اوروں کے چوٹیاں پیچھے ہوتی ہیں، اُس کی چوٹی آگے رکھی ہے۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ جو وقت گذر گیا، وہ قابو میں نہیں آ سکتا۔ ہاں جو پیش بین ہیں، وہ پہلے ہی سے روک ہے، سو روک لے۔

غصہ
ایک عورت ہے، کالا رنگ، ڈراؤنی صورت۔ تمام بدن پر بال کھڑے ہیں جیسے لوہے کی سلاخیں۔ سر پر اور بازوؤں پر ہزاروں سانپ پھن اٹھائے لہرا رہے ہیں، اور آنکھوںسے خون برستا ہے۔

بعض صورتوں میں اُس کے دو پر ہیں کہ اڑائے لیے جاتے ہیں۔ اور اس کے ہاتھ میں شعلۂ آتش ہے کہ بدم بدم بھڑکتا چلا جاتا ہے۔ اور ایک ہاتھ میں خونریزی کا برچھا ہے۔

عشق
ایک موقع پر اُسے نوجوان، خوبصورت لڑکا فرض کیا ہے کہ خوش ہے اور اپنے عالم میں اچھلتا کودتا ہے، مگر آنکھوں سے اندھا رکھا ہے۔ اس میں نکتہ یہ ہےکہ بھلائی بُرائی کو نہیں سوچتا۔ کبھی ایک جوان آدمی بنایا ہے اور ہاتھ میں چڑھی ہوئی


صفحہ 25

کمان میں تیر جوڑا ہوا ہے کہ جدھر چاہتا ہے، مار بیٹھتا ہے، اس کی پناہ نہیں۔

ایک موقع پر ایسی تصویر کھینچی ہے کہ پہلو میں تیروں کا ترکش لٹکتا ہے، اور ہاتھ سے تیر کا پیکان تیز کر رہا ہے۔ یہ تصویر ایک ہیرے پر کھدی ہوئی ہاتھ آئی تھی۔ خدا جانے کس عہد میں کھدی ہو گی اور کیا طلسم اس میں باندھا ہو گا۔

افواہ یا شہرت
اس کی تصویر دیکھی۔ ایک بُڑھیا عورت ہے کہ اس کے تمام بدن پر زبانیں ہی زبانیں ہیں۔ پہلے اس کے منہ میں زبان ہلتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ساری زبانیں سانپوں کی طرح لہرانے لگتی ہیں۔ اشارہ یہ ہے کہ جو بات اس کی زبان سے نکلتی ہے، وہی عالم میں ایک ایک کی زبان پر آتی ہے۔

حُسن کی پری
سمندر کے کف سے پیدا ہوئی ہے۔ شاید اس سے جوش و خروش کے ساتھ اس کی لطافت اور نزاکت کا اشارہ ہو۔ وہ خود بھی محبت رکھتی ہے، مگر لڑائی کے دیوتا پر عاشق ہے۔ جس کو وہ نصیب ہو جائے، وہ اس کے پرتوِ جمال سے کامیاب ہو، پھولوں میں مہندی، گلاب، سیب، لالہ، نافرمان وغیرہ سے اس کی درگاہ میں نذر چڑھتی ہے۔ فاختہ، ہنس، ابابیل، ہُد ہُد وغیرہ اُس کے تخت کو اُڑاتے ہیں۔ خوشبوؤں کی دُھونی اور پھولوں کا ہار اس کا متبرک چڑھاوا ہے۔ انگریزی میں انہیں گاڈز کہتے ہیں اور ہر ایک جذبۂ انسانی بلکہ خزاں اور بہار اور موسیقی وغیرہ کے لیے مختلف گاڈر تیار کیے ہیں۔ زمانے کی گردشوں نے ہمارے علوم کو مٹا دیا، اس لیے آج یہ باتیں نئی معلوم ہوتی ہیں، ورنہ سنسکرت میں بھی اکثر اشیاء کےلیے ایک ایک دیبی یا دیوتا ہیں۔


صفحہ 26

مسلمانوں کے دماغ بھی اس خیال سے خالی نہیں تھے۔ ان کی تصنیفات میں فلاسفر کا قول منقول ہے کہ اگر ایک مور کے پر کو دیکھیں اور اس کے صنائع و بدائع پر نظر کریں، تو عقل حیران ہوتی ہے کہ کون سا صانع ہو گا جو ایسی دست کاری کر سکے۔ پھر مور کے تمام جسم کو دیکھو اور اسی نسبت سے تمام عالمِ موجودات اور اس کے جزئیات کو دیکھو۔ پھر جب دیکھتے ہیں الواحدُ لا یصدرُ عنہُ الا الواحدُ یعنی ایک فاعل سے ایک قت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے، تو ضرور ہے کہ کائنات کے مختلف کارخانوں کے لیے ایک ایک رب النوع فرض کیا جائے، جو اپنے اپنے کارخانے کا سربراہ ہو اور سب کا مالک رب الارباب جامع جمیع صفاتِ کمال۔ اہل شریعت نے اسی کو ہر ایک سلسلہ کا ایک ایک فرشتۂ موکل مانا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ صرف زبان کا فرق ہے، ورجہ وہی دیہی یا دیوتا، وہی گاڈز، وہی رب النوع، وہی فرشتۂ مؤکل۔ یہ خیال مدت سے دل میں کھٹکتا تھا۔ چند روز ہوئے کہ شاہِ ایران نے جو سفر نامہ یورپ کا آپ لکھا ہے، وہ میری نظر سے گزرا۔ فرانس کے معنی آفرینوں نے ایک جگہ باغِ رنگین میں ایک نقلی پہاڑ بنایا ہے اور اس پر بہار کی گاڈس سجائی ہے۔ چنانچہ شاہ نے وہاں پہنچ کر اُسے دیکھا ہے اور اپنے بیان میں اُسے رب النوع ہی لکھا ہے۔

غرض یہ ہے کہ خیالات کے اتفاقوں کو غور سے دیکھو کہ فقط طبیعت کی تاثیر ہے جس نے مختلف ملکوں میں مختلف طور پر طبیعتوں کے جوش ظاہر کیے ہیں، مگر سب کا راستہ کسی قدر قریب قریب ہو کر نکلا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ جب ایک جذبۂ موہوم کو مجسم فرض کرتے ہیں اور اس کی صفات اور لوازمات کو آنکھوں کے سامنے سجاتے ہیں تو اس پر طبیعت کی تاثیر پوری پوری قائم ہوتی ہے، اور جو خیالات اس پر نکلتے ہیں، ٹھیک درستی کے ساتھ ہوتے ہیں اور برجستہ الفاظ میں ادا ہوتے ہیں کہ یہی انشا پردازی کا ایمان ہیں۔ خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے انداز پرانے اور مستعمل ہو گئے، تو ہمیں چاہیے کہ انگریزی باغ میں سے نئے پودے لے کر اپنا گلزار سجائیں۔ البتہ دونوں زبانوں میں ایسی مہارت ہونی چاہیے کہ یہ


صفحہ 27

تصرف خوبصورتی کے ساتھ ہو سکے۔ جیسا کہ ابتدا میں ہمارے اُردو، فارسی کے انشا پرداز کر گئے۔ اور پھر کہتا ہوں کہ یہ مطلب جب کبھی ہو گا، ان انگریزی دانوں سے ہو گا، جو دونوں زبانوں میں پوری پوری مہارت رکھتے ہوں گے، کیونکہ ان کے دو آنکھیں روشن ہیں۔ اُردو اپنی زبان سے اور انگریزی کنجی خدا نے دی ہے۔ ہم اور ہمارے ساتھ پرانی لکیروں کے فقیر، جو کچھ کرنا تھا سو کر چکے، نہ ان میدانوں میں اب ہم سے کچھ ہو سکے، چقماق کے دونوں جُزوں کو ٹکراؤ کہ آگ نکلے۔ اُون اور شیشے کو رگڑوں کہ ایلکٹرسٹی کے فوائد حاصل ہوں۔ لیکن فقط پتھر ہو، تو پتھر ہی ہے اور رقط شیشہ، ڈر کا گھر۔ اپنی زبان کے زور سے اس میں اس طرح جان ڈالو کہ ہندوستانی کہیں : سوداؔ اور میرؔ کے زمانے نے عمر دوبارہ پائی۔ اس پر انگریزی روغن چڑھا کر ایسا خوش رنگ کرو کہ انگریز کہیں : ہندوستان میں شکسپیر کی روح نے ظہور کیا۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 38


سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ


عہد قدیم کے مورخ لکھتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں فارس کے شرفاء اور اپنے بچوں کے لیے تین باتوں کی تعلیم میں بڑی کوشش کرتے تھے۔شہسواری، تیر اندازی اور راست بازی۔ شہسواری اور تیر اندازی تو بےشک سہل آ جاتی ہو گی، مگر کیا اچھی بات ہوتی اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ راست بازی کن کن طریقوں سے سکھاتے تھے اور وہ کونسی سپر تھی کہ جب دروغ دیو زاد آ کر ان کے دلوں پر شیشہ جادو مارتا تھا، تو یہ اس چوٹ سے اس کی اوٹ میں بچ جاتے تھے۔

اس میں شک نہیں کہ دنیا بری جگہ ہے! چند روزہ عمر میں بہت سی باتیں پیش آتی ہیں، جو اس مشت خاک کو اس دیو آتش زاد کی اطاعت کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ انسان سے اکثر ایسا جرم ہو جاتا ہے کہ اگر قبولے، تو مرنا پڑتا ہے؛ ناچار مکرنا پڑتا ہے، کبھی ابا فریبی کر کے جاہلوں کو پھنساتا ہے، جب لقمہ رزق کا پاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت مزے دنیا کے ہیں کہ مکرو دغا ان کی چاٹ لگاتی ہے، اور جزوی جزوی خطائیں ہو جاتی ہیں جن سے مکرتے ہی بن بناتی ہے۔ غرض بہت کم انسان ہوں گے جن میں یہ حوصلہ و استقلال ہو کہ راستی کے راستے میں ہر دم ثابت قدم ہی رہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ انسان کے سچ بولنے کے لیے سننے والے بھی ضرور ہیں، کیونکہ خوشامد جس کی دکان میں آج موتی برس رہے ہیں، اس سے زیادہ جھوٹ کیا ہوگا اور کون ایسا ہے جو اس قید کا زنجیری نہیں۔ ڈرپوک بیچارا ڈر کا مارا خوشامد کرتا ہے، تابعدار امید کا بھوکا آقا کو خوش کر کے پیٹ بھرتا ہے۔ دوست محبت کا بندہ ہے۔ اپنے


صفحہ 39


دوست کے دل میں اسی سے گھر کرتا ہے۔ ایسے بھی ہیں کہ نہ غلام ہیں، نہ ڈرپوک ہیں۔ انہیں باتوں باتوں میں خوش کر دینے ہی کا شوق ہے۔ اسی طرح جب جلسوں میں نمودیے گدھوں کے دعوے بل ڈاگ¹ کی آواز سے کہیں میدان آگے نکل جاتے ہیں, تو ان میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں کچھ امید، کچھ ڈر، کچھ مروت سے، غرض چار ناچار کبھی ان کے ساتھ ساتھ، کبھی پیچھے پیچھے؛ دوڑنا پڑتا ہے

آج کل تو یہ حال ہے کہ جھوٹ کی عملداری دور دور تک پھیل گئی ہے، بلکہ جن صاحب تمیزوں کو قوت عقلئ جھوٹ نہیں بولنے دیتی اور خود اس مردار سے متنفر ہیں، وہ بھی اسی کے حامی ہو کر اوروں کے اخلاق خراب کرتے ہیں۔

سچ کا عجب حال ہے کہ اتنا تو اچھا ہے، مگر پھر بھی لوگ اسے ہر وقت اچھا نہیں سمجھتے۔ چنانچہ جب کسی شخص پر دل آتا ہے اور سچ اس کے بر خلاف ہوتا ہے، تو اس وقت سچ سے زیادہ کوئی برا نہیں معلوم ہوتا۔ اصل یہ ہے کہ حضرت انسان کو حقیقت اور واقعیت سے کچھ غرض نہیں۔ جس چیز کو جی نہیں چاہتا، اس کا جاننا بھی نہیں چاہتے۔ جو بات پسند نہیں آتی، اس کا ذکر بھی نہیں سنتے، اس کان سنتے ہیں، اس کان سے نکال دیتے ہیں۔

حکیموں نے جھوٹ سے متنفر ہونے کی بہت سی تدبیر نکالی ہیں اور جس طرح بچوں کو کڑوی دوا مٹھائی میں ملاکر کھلاتے ہیں، اسی طرح انواع و اقسام کے رنگوں میں اس کی نصیحتیں کی ہیں، تاکہ لوگ اس سے ہنستے کھیلتے چھوڑ دیں۔

واضح ہو کہ ملکہ صداقت زمانی، سلطان عثمانی کی بیٹی تھی، جو کہ ملکہ دانش خاتون کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ جب ملکہ موصوفہ نے ہوش سنبھالا، تو اول تعلیم و تربیت کے سپرد ہوئی۔ جب انہوں نے اس کی پرورش پر اپنا حق ادا کر لیا، تو باپ کے دربار میں سلام کو حاضر ہوئی۔ اسے نیکی اور نیک ذاتی کے ساتھ خوبیوں اور محبوبیوں کے زیور سے


1- ایک قسم کا شکاری کتا ہے، جسے ہندوستانی زبان میں گلڈانک کہتے ہیں۔


صفحہ 40


آراستہ دیکھ کر سب نے صدق دل سے تعریف کی، عزت دوام کا تاج مرصع سر پر رکھا گیا۔ اور حکم ہوا کہ جاؤ اولاد آدم میں اپنا نور پھیلاؤ، عالم سفلی میں دروغ ديوزاد ایک سفلہ نابکار تھا کہ حمق تیرہ دماغ اس کا باپ تھا اور ہوس ہوا پرست اس کی ماں تھی اگرچہ اسے دربار میں آنے کی اجازت نہ تھی مگر جب کسی تفریح کی صحبت میں تمسخر اور ظرافت کے بھانڈ آیا کرتے تھے، تو ان کی سنگت میں وہ بھی آجاتا تھا۔ اتفاقا اس دن وہ بھی آیا ہوا تھا اور بادشاہ کو ایس خوش کیا تھا، کہ اسے لمبوس خاص کا خلعت مل گیا تھا یہ منافق دل میں سلطان آسمانی سے سخت عداوت رکھتا تھا۔ ملکہ کی قدر و منزلت دیکھ کر اسے حسد کی آگ نے بھڑکایا چنانچہ وہاں سے چپ چپانے نکلا اور ملکہ کے عمل میں خلل ڈالنے کو ساتھ ساتھ روانہ ہوا، جب یہ دو دعوے دار نے نئے ملک اور نئی رعیت کے تسخیر کرنے کو اٹھے۔ تو چونکہ بزرگان آسمانی کو ان کی دشمنی کی بنیاد ابتدا سے معلوم تھی سب کی آنکھیں ادھر لگ گئیں کہ دیکھیں ان کی لڑائی کا انجام کیا ہو؟


سچ کے زور و طاقت کو کون نہیں جانتا ، چنانچہ ملکہ صداقت کو بھی حقیت کے دعوے تھے، اٹھی، اور اپنے زور میں بھرری ہوئی اٹھی، اسی واسطے بلند ہوئی، اکیلی آئی، اور کسی کی مدد ساتھ نہ لائی، ہاں آگے آگے فتح و اقبال، نور کا غبار اڑاتے آتے تھے اور پیچھے پیچھے ادراک پری پرواز تھا مگر صاف معلوم ہوتا تھا کہ تابع ہے۔ شریک نہیں، ملکہ کی شان شاہانہ تھی ا ور دبدبہ خسردانہ تھا۔ اگرچہ آہسته آہسته آتی تھی مگر استقلال رکاب پکڑے تھا اور جو قدم اٹھتا تھا۔ دس قدم آگے پڑتا نظر آتا تھا۔ ساتھ اس کے ایک دفعہ جم جاتا تھا تو انسان کیا فرشتہ سے بھی نہ ہٹ سکتا تھا۔


دروغ دیو زاد بہروپ بدلنے میں طاق تھا۔ ملکہ کی ہر بات کی نقل کرتا تھا اور نئے نئے سانگ ک بھرتا تھا، تو بھی وضع اد کی گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی تھی، دنیا کی ہواو ہوس ہزاروں رسالے اور پلٹنیں اس کے ساتھ لیے تھیں، اور چونکہ یہ ان کی مدد کا محتاج


صفحہ 41


تھا اسی لیے لالچ کا مارا کمزور تابعداروں کی طرح ان کے حکم اٹھاتا تھا۔ ساری حرکتیں اس کی بے معنی تھیں اور کام بھی الٹ پلٹ بےاوسان تھے کیونکہ استقلال ادھر نہ تھا۔ اپنی شعبده بازی اورنیرنگ سازی سے فتح یاب تو جلد ہو جاتا تھا۔ مگر تھم نہ سکتا۔ ہوا و ہوس اس کے یار وفادار تھے اور اگر کچھ تھے تو وہی سنبھالے رہتے تھے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتا تھا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہو کر سخت لڑائی آ پڑتی تھی۔ اس وقت دروغ دیو زاد اپنی دهوم دهام بڑھانے کے لیے سر پر بادل کا دھواں دھار پگڑ لپیٹ لیتا تھا، لاف و گزاف کو حکم دیتا کہ شیخی اور نمود کے ساتھ آگے جا کر غل مچانا شروع کر دو ساتھ ہی دغا کو اشارہ کر دیتا تھا کہ گھاٹ لگا کر بیٹھ جاو، دائیں ہاتھ میں طراری کی تلوار، غلط نما نیزوں کا ترکش آویزاں ہوتا۔ ہوا و ہوس دائیں بائیں دوڑتے پھرتے تھے۔ دل کی ہٹ دھرمی بات کی پچ پیچھے سے زور لگاتے تھے۔ غرض کبھی مقابلہ کرتا تھا تو ان زوروں کے بھروسے پر کرتا تھا، اور باوجود اسکے ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ دور دور سے لڑائی ہو، میدان میں آتے ہی نیزوں کی بوچھاڑ کر دیتا تھا مگر وہ بھی باد ہوائی، اٹکل پچو بے ٹھکانے ہوتے تھے۔ خود ایک جگہ پر نہ ٹھہرتا تھا، دمبدم جگہ بدلتا تھا۔ کیونکہ حق کی کمان جب تیر نظر اس کی طرف سر ہوتا تھا۔ تو جھٹ تاڑ جاتا تھا، ملکہ کے ہاتھ میں اگرچہ باپ کی کڑک بجلی کی تلوار نہ تھی مگر تو بھی چہرہ ہیبت ناک تھا اور رعب خدا داد کا خود سر پر دھرا تھا۔ جب معرکہ مار کر ملکہ فتح یاب ہوتی تھی تو یہ شکست نصیب اپنے تیروں کا ترکش پھینک بے حیائی کی ڈھال منہ پر لے ہوا و ہوس کی بھیٹر میں جا کر چھپ جاتا تھا۔ نشان لشکر گر پڑتا تھا اور لوگ پھریرا پکڑے زمین پر گھسیٹتے پھرتے تھے۔

ملکہ صداقت زمانی کبھی کبھی زخمی بھی ہوتی تھی، مگر شان کو آنچ نہیں زخم جلد بھر جاتے تھے، اور جھوٹا نابکار جب زخم کھاتا تھا تو ایسے سڑتے تھے کہ اوروں میں


صفحہ 42


بھی وبا پھیلا دیتے تھے مگر ذرا انگور بندھے اور پھر میدان میں آن کودا۔

دروغ دیو زاد نے تھوڑے ہی تجربے میں معلوم کر لیا تھا کہ بھائی اور دانائی کا پردہ اسی میں ہے کہ ایک جگہ نہ ٹھہروں، اس لیے دھوکہ بازی اور شبہ کاری کو حکم دیا کہ ہمارے چلنے پھرنے کے لیے ایک سڑک تیار¹ کرو، اس طرح کے ایچ پیچ اور ہیر پھیر دے کر بناو کہ شاہراہ صداقت جو خط مستقیم میں ہے اس سے کہیں نہ ٹکرائے چنانچہ جب اس نابکار پر کوئی حملہ کرتا تھا تو اسی کے رستے سے جدھر چاہتا تھا نکل جاتا تھا اور جدھر سے چاہتا تھا پھر آن موجود ہوتا تھا۔

ان رستوں سے اس نے ساری دنیا پر حملے شروع کر دیے اور بادشاہت اپنی تمام عالم میں پھیلا کر دروغ شاه دیو زاد کا لقب اختیار کیا۔ جہاں جہاں فتح پاتا تھا، ہوا و ہوس کو اپنا نائب چھوڑتا اور آپ فورا کھسک جاتا۔ وہ اس فرمان روائی سے بہت خوش ہوتے تھے۔ اور جب ملکہ کا لشکر آتا تھا تو بڑے گھاتوں سے مقابلے کرتے تھے۔ جھوٹی قسموں کی ایک لمبی زنجیر بنائی تھی۔ سب اپنی کمریں اس میں جکڑ لیتے تھے کہ ہر گز ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ مگر سچ کے سامنے جھوٹ کے پاؤں کہاں؟ لڑتے تھے اور متابعت کر کے ہٹتے تھے۔ پھر ادھر ملکہ نے منہ پھیرا، ادهر باغی ہو گئے۔ ملکہ جب آسمان سے نازل ہوئی تھی، تو سجھتی تھی کہ بنی آدم میرے ان سے خوش ہوں گے۔ جو بات سنیں گے اسے مانیں گے اور حکومت میری تمام عالم میں پھیل کر مستقل ہوجائے گی۔ مگر یہاں دیکھا کہ گزارہ بھی مشکل ہے۔ لوگ ہٹ دھرمی کے بندے ہیں اور ہوا و ہوس کے غلام ہیں، اور اس میں شک بھی نہیں کہ ملکہ کی خدمت آگے بڑھتی تھی، مگر بہت تھوڑی۔ اس پر بھی یہ دشواری تھی کہ ذرا اس طرف سے ہٹی اور پھر بدعملی ہو گئی۔ کیونکہ ہوا و ہوس جھٹ بغاوت کا نقارہ بجا



1- جب جھوٹ کی قلعی کھلنے لگتی ہے، تو جھوٹا آدمی ایسے باتیں پیش کرتا ہے جس سے لوگ شبہہ اور شک میں پڑ جائیں اور سمجھیں کہ ہو تو سکتا ہے، شاید جو یہ کہتا ہے وہی سچ ہو۔


صفحہ 43


دشمن کے زیر علم جا موجود ہوتے تھے۔ ہر چند ملکہ صداقت زمانی ان باتوں سے کچھ دبتی نہ تھی کیوں کہ اس کا زور کسی کے بس کا نہ تھا۔ مگر جب بار بار ایسے پاجی کمینے کو اپنے مقابلے پر دیکھتی تھی اور اس میں سوا مکر و فریب اور کمزوری و بےہمتی کے اصالت اور شجاعت کا نام نہ پاتی تھی، تو گھٹتی تھی اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتی تھی۔ جب سب طرح سے نا امید ہوئی، تو غصہ ہو کر اپنے سلطان آسمانی کو لکھا کہ مجھے آپ اپنے پاس بلا لیجیے۔ دنیا کے لوگ اس شیطان کے تابع ہو کر جن بالاوں میں خوش ہیں، ان ہی میں رہا کریں، اپنے کیے کی سزا پا لیں گے۔ سلطان آسمانی اگرچہ اس عرضی کو پڑھکر بہت خفا ہوا، مگر پھر بھی کوتاہ اندیشوں کے حال پر ترس کھایا اور سمجھا کہ اگر سچ کا قدم دنیا سے اٹھا، تو جہان اندھیر اور تمام عالم تہ و بالا ہو جائے گا۔ چنانچہ اس خیال سے اس کی عرض نامنظور کی، ساتھ اسکے یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ میرے جگر کا ٹکڑا جھوٹے بداصلوں کے ہاتھوں یوں مصیبت میں گرفتار رہے۔ اسی وقت عالم بالا کے پاک نقادوں کو جمع کر کے ایک انجمن منعقد کی۔ اس میں دو امت تنقیح طلب قرار پائے۔

(1)کیا سبب ہے کہ ملکہ کی کارروائی اور فرمانروائی دنیا میں ہر دل عزیز نہیں۔


(2) کیا تدبیر ہے، جس سے اس کے آئین حکومت کو جلد اہل عالم میں رسائی ہو۔ اور اسے بھی ان تکلیفوں انتہائی ہو۔

کمیٹی میں یہ بات کھلی کہ درحقیقت ملکہ کی طبعیت میں ذرا سختی ہے اور کارروائی میں تلخی ہے۔ صدر انجمن نے اتفاق رائے کر کے اسقدر زیادہ کہا کہ ملکہ کے دماغ میں اپنی حقیقت کے دعووں کا دھواں اسقدر بھرا ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ ریل گاڑی کی طرح سیدھے خط میں میں چل کر کامیابی چاہتی ہے، جس کا زور طبیتوں کو سخت اور دھواں آنکھوں کو کڑوا معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو اس کی راستی سے نقصان اٹھانے پڑے ہیں۔ کبھی ایسے فساد اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جن کا سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ دور اندیشی اور اصلاح وقت کے بغیر کام نہیں چلتا۔ پس اسے چاہیے کہ جس طرح ہو سکے اپنی سختی اور


صفحہ 44


تلخی کی اصلاح کرے، جب تک یہ نہ ہوگا، لوگ اس کی حکومت کو رغبت سے قبول نہ کریں گے کیونکہ دیو دروغ کی حکوت کا ڈھنگ بالکل اس کے بر خلاف ہے۔ اول تو اس میں فارغ البالی بہت ہے اور جو لوگ اس کی رعایا میں داخل ہو جاتے ہیں، انہیں سوا عیش و آرام کے دنیا کی کسی بات سے خبر نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ خود بہروپیا، جو صورت سب کو بھائے، وہی بہروپ بھر لیتا ہے اور اوروں کی مرضی کا جامہ پہنے رہتا ہے۔ غرض

اہل انجن نے صلاح کر کے ملکہ کے طرز لباس بدلنے کی تجویز کی۔ چنانچہ ایک ویسا ہی ڈھیلا ڈھالا جامہ تیار کیا، جیسا کہ جھوٹ پہنا کرتا تھا، اور وہ پہن کر لوگوں کوجل دیا کرتا تھا۔ اس جامہ کا مصلحت زمانہ نام ہوا، چنانچہ اس خلعت کو زیب بدن کر کے ملکہ پھر ملک گھیری کو اٹھی، جس ملک میں پہنچتی، اور آگے کو رستہ مانگتی ہوا و ہوس حاکم وہاں کے اسے دروغ شاه دیو زاد سمجھ کر آتے اور شہر کی کنجیاں نذر گزارتے، ادھر اس کا دخل ہوا ادھر ادراک آیا او جھٹ وہ جامہ اتار لیا، جامے کے اترتے ہی اس کی اصلی روشنی اور ذاتی حسن و جمال پھر چمک کر نکل آیا۔ چنانچہ اب یہی وقت آگیا ہے یعنے جھوٹ اپنی سیاہی کو ایسا رنگ آمیزی کر کے پھیلاتا ہے کہ سچ کی روشنی کو لوگ اپنی آنکھوں کے لیے مضر سمجھنے لگے ہیں۔ اگر سچ کہیں پہنچ کر اپنا نور پھیلانا چاہتا ہے تو پہلے جھوٹ سے کچھ زرق برق کے کپڑے مانگ تانگ کر لاتا ہے، جب تبدیل لباس کر کے وہاں جا پہنچتا ہے تو وہ لفافہ اتار کر پھینک دیتا ہے پھر اپنا اصلی نور پھیلاتا ہے کہ جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے۔


صفحہ 45


گلشن امید کی بہار


انسان کی طبیعت کو خدا نے انواع واقسام کی کیفیتیں عطا کی ہیں، گر زمین جس قدر تخم امید کو پرورش کرتی ہے، اس کثرت سے کسی کیفیت کو سرسبز نہیں کرتی۔ اور اور کیفیتیں خاص خاص وقت پر اپنا اثر کر اٹھتی ہیں بابمقتضائے سن خاص عمروں میں ان کے اثر ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر امید کا یہ حال ہے کہ جس وقت سے اس بات کی تمیز ہونے لگی کہ حالت موجودہ ہماری خوش حالی یا بدحالی بھی ہوسکتی ہے، اسی وقت اس کی تاثیر شروع ہو جاتی ہے۔ امید ایک رفیق ہمدم ہے کہ ہر حال اور ہر زمانہ میں ہمارے دم کے ساتھ رہتا ہے۔ دم بدم دلوں کو بڑھاتا ہے اور سینے کو پھیلاتا ہے۔ خیالات کو وسعت دیتا ہے۔ اور نئی نئی کامیابیوں کی ترغیبیں دیتا ہے۔ غرض ہمیشہ کسی نہ کسی خوش حالی کا باغ پیش نظر رکھتا ہے کہ یا اس سے کوئی کلفت رفع ہو یا کچھ فرحت زیادہ ہو۔ خدائی کی نعمتیں اور ساری خوش نصیبی کی دولتیں حاصل ہو جائیں، پھر بھی یہ جادو نگار مصور ایک نہ ایک ایسی تصویر سامنے کھینچ دیتا ہے، جسے دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ بس یہ بات ہو جائے گی، تو ساری ہوسیں پوری ہو جائیں گی اور پھر سب آرزووں سے جی سیر ہو جائے گا۔

اس میں بھی شک نہیں کہ امید کا ہونا ہرحال میں ضرور ہے۔ مفلسی، بیماری، قید۔ مسافرت، بہت سے دنیا کے دکھ درد ہیں کہ امید نہ ہو تو ہر گز نہ جھیلے جائیں۔ آسا جیے، نراسا مرے۔ یہ نعمت جو بظاہر ہرکس و ناکس میں عام ہو رہی ہے، وہ ضروری شے ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر حالت بھی ہم کو اس صورت سے بے نیاز نہیں کرسکتی کیوں کہ حقیقت میں یہ مشغلہ زندگی کے بہلاوے ہیں۔ اگر ان کا سہارا ہمارا دل نہ بڑھاتا رہے، ترایک دم گزارنا



صفحہ 46


مشکل ہو جائے اور زندگی وبال معلوم ہونے لگے۔


ایک دم میں ہم کر جینا ہجر میں تھا ناگوار

پر امید وصل پر برسوں گوارا ہوگیا


اس میں شک نہیں کہ امید دھوکے بہت دیتی ہے اور ان باتوں کی توقع پیدا کرتی ہے، جو انسان کو حاصل نہیں ہو سکتیں۔ مگر وہ دھوکے اصلی نعمتوں سے سوا مزه دیتے ہیں اور موہوم وعدے قسمت کی لکھی ہوئی دولتوں سے گراں بہا اور خوشنا معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاملہ میں ناکام بھی کرتی ہے، تو اسے ناکامی نہیں کہتی، بلکہ قسمت کی دیر کہہ کر ایک اس سے بھی اعلى يقين سامنے حاضر کر دیتی ہے۔ میں ایک رات انہی خیالات میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ انسان کے دل میں یہ شوق کہاں سے پیدا ہو جاتا ہے، جس سے اپنے تیئں آپ دھوکے دیتا ہے اور زمانہ آینده پر رنگ آمیزیاں چڑھا کر خود اپنے لیے امید و بہم اور نفع و نقصان کے سامان تیار کر لیتا ہے۔ یکایک آنکھ لگ گئی۔ دیکھتا ہوں کہ میں ایک باغ نو بہار میں ہوں جس کی وسعت کی انتہا نہیں۔ امید کے پھیلاؤ کا کیا ٹھکانا ہے۔ آس پاس سے لے کر جہاں تک نظر کام کرتی ہے، تمام عالم رنگین و شاداب ہے۔ ہر چمن روپ کی دھوپ سے چمکتا، خوشبو سے مہکتا، ہوا سے لہکتا، نظر آتا ہے۔ زمین فصل بہار کی طرح گلہائے گونا گوں سے بوقلمون ہو رہی ہے اور رنگا رنگ کے جانور درختوں پر چہچے بھر رہے ہیں. یہ سماں بہار کا دیکھ کر دل پر ایک عالم طاری ہوا کہ سرتاپا محو ہو گیا۔ جب ذرا ہوش آیا تو ان چمن ہائے دلکشا کو نظر غور سے دیکھنے لگا اور ایسا معلوم ہوا کہ اگر آگے چلوں تو شگفتگی اور تفریح کا لطف زیادہ ہو۔¹


پھر دیکھا کہ تھوڑی ہی دور آگے رنگیلے چمکیلے پھول کھلے ہیں۔ آب زلال کے


1- دیکھ لو، دنیا میں جوں جوں انسان کا میاب ہوتا ہے، اس سے آگے کی کامیابیوں کی ہوس دل میں پیدا ہوتی جاتی ہے۔


صفحہ 47


چشمے دھوپ کی چمک سے جھلمل جھلمل کر رہے ہیں۔ اونچے اونچے درخت جھنڈ کے جھنڈ چھائے ہوئے ہیں۔ جو جانور دھیمی دھیمی آواز سے بولتے سنائی دیتے تھے، یہاں خوب زور شور سے چہکار رہے ہیں۔ چاروں طرف ہرے ہرے درخت لہلہاتے ہیں اور پھول اپنی خوشبو سے مہک پھیلاتے ہیں۔ مگر پھر یہاں سے جو نظر اٹھائی، تو اور ہی طلسمات نظر آیا۔ یعنی دیکھا کہ سامنے جو درخت جھوم رہے ہیں، ان کے تیار میوے زمین کو چوم رہے ہیں۔

اس لطف نے اور آگے بڑھنے کو للچایا۔ چنانچہ قدم اٹھایا۔ مگر جوں جوں آگے بڑھتا گیا، زیادہ حیران ہوتا گیا۔ کیونکہ ہریاول سامنے سے لہلہاتی دکھائی دیتی تھی، پاس پہنچ کر اس کی رنگت پھیکی پڑ گئی¹ اور میوے تو گر ہی چکے تھے۔ بلبلیں جو چہچے بھر رہی تھیں، وہ آگے آگے چلی جاتی تھیں۔ اگرچہ میں بہت پھرتی سے پینچا تھا، اور جو بہاریں تھیں، وہ ہر قدم پر سامنے ہی تھیں، مگر تو بھی ہاتھ نہ آ سکیں۔² گویا میرے شوق آرزو کو ڈہکاتی تھیں کہ جوں جوں میں آگے بڑھتاتھا وہ اور بھی آگے بڑھتی جاتی تھیں۔

اگرچہ بار بار خوش اور دمبدم غمگین ہوتے ہوتے میں دق ہوگیا تھا، مگر دل کے کان میں کوئی یہیں کہے جاتا تھا کہ چلے چلو، جو نعمتیں ڈہکا رہی ہیں، کبھی نہ کبھی ہاتھ بھی آئیں گی۔ آخر چلتے چلتے ایک جمگھٹا نظر آیا کہ جس میں زن و مرد، خوردو کلاں بہت سے آدمی اچھلتے کودتے چلے جاتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب کسی مجلس یا میلے میں جاتے ہیں یا کسی نشاط عام کے جشن میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ ہر ایک کے منہ پر یقین کا رنگ چمک رہا تھا، اور ایک ایک کی آنکھ سرمہ شوق سے روشن نظر آتی تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی


1- انسان کی طبعیت کا عجب حال ہے جو ہوس پوری ہو جاتی ہے، وه مزہ نہیں دیتی، اس سے آگے

کے لطف دل میں ارمان اور ذوق وشوق پیدا کرتے ہیں۔


2- جوں جوں حصول مراد میں دیر لگتی ہے، شوق زیادہ ہو جاتا ہے اور امید بھی اس کے ملنے کے سامان سامنے دکھائی جاتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۔89

مٹاتا کہ اہل نظر کو سر ہلانے اور بجا اوربر حق کہنے کے، کچھ بن نہ آتی یہاں تک که رفتہ رفتہ اب محفل نے اپنی غلط ہی کر چھوڑنا شروع کیا اور جب محفل کاخاتمہ کر کے اٹھے، تو علم کے دلائل صادقہ کے لیے عظمت دلوں میں لیے اٹھے۔
مگر جتنے اس کی عظمت لیے اٹھے، اتنی ہی اس کی شوخی و شگفتہ بیانی کے لیے مہر و محبت لیے اُٹھے۔
جب دونوں کے کمال اپنی اپنی اعزاز و قدر دانی کے لیے اہل نظر سے سفارش کرتے تھے، تو حسنِ طلب کے انداز بالکل الگ الگ تھے۔ ذکاوت تیز اور بے باک ہوکر ایسی چمک دمک سے آتی کہ دیکھنے والوں کی آنکھ نہ ٹہرتی تھی۔ علم بھی آگے قدم
بڑھتا تھا مگر اپنے وقارو متانت میں کمال بندوبست اور نہایت روک تھام سےقدم اُٹھاتا۔ ذکاوت کند ذہنی اور دیر فہمی کے داغ سے بہت بچتی تھی اور
علم چوک جانے اور دھوکا کھانے کے سواکسی تہمت سے نہیں دیا تھا ذکاوت
کی طراری کایہ عالم تھا کہ سمجھنے سے پہلے ہی جواب دے اُتھتی کہ ایسا نہ ہو،
میری تیز فہی پر حرف آئے۔ علم کی یہ قباحت تھی کہ سیدھی بات میں بھی اس
خیال سے اٹک جاتا تھاکہ حریف نے اپنی تقریر میں جو جوڑتوڑ مارے ہیں رہے ہیں، ان
میں سے ایک دقیقہ بھی بےکھولے نہ رہ جائے۔ برخلاف اس کے ذکاوت، علم کی
ہر بحث کو جھٹ پٹ بلکہ اس گھبراہٹ سے خاک میں ملا دیتی تھی کہ وہ دیکھتارہ بتا
تھا۔ مگر پرعلم اس کی بات میں بال بال کے فرق اس تفصیل سے دکھاتا ہے کہ سنے والا نے
اکتا جانے تھے،بلکہ جن باتوں کا آج تک کسی نے انکار نہ کیا تھا، ان کے
ثبوتوں میں خواہ مخواہ بات کو طول دے کر وقت ضائع کرتا تھا۔ ذکاوت نمو کی ہوس
میں ایسی ایسی باتیں بھی نہیں کرتی تھی کہ جنہیں نہ سوچا تھانہ سمبجھا تھا اور اس میں بھی
شک نہیں کہ اکثر دل چسپ اور دل پسند کو خوش نمائی د کھا کر کامیاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ۔۔90


بھی اس قدر ہوجاتی تھی جس کی اسے خود بھی امید نہ تھی ۔
برخلاف اس کے علم اکثرقدماء کے قدموں پر چلتاتھا ۔ اور نئیے خیالوں سے بچتا تھااور ڈرتا تھا کہ ایسا نہ کہ کہیں ان تتیجوں میں پھنس جائے جنہیں اس کی نظر پیش بین دیکھ
نہیں سکتی۔ اکثر ڈھب ایسے آپڑتے تھے کہ ذرابھی ہمت کو آگے بڑھاتا
تو دشمن کو مار ہی ڈالتا مگر احتیاط اس کا جانی رفیق تھا،وہ روک لیا تھا ۔
حق یہ ہے کہ غلط فہمی سے دونوں خالی نہ تھے اور اس نے دونو کو تیر ہائے
اعتراض کے نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ ایجاد اور اختراع تو ذکاوت کے مصاحب
تھے اور قدامت او تقلید علم سے بہت محبت رکھتے تھے چنانچہ اسی واسطے ذکاوت
کو تو وہی بات پسند آتی تھی، جو کہ آج تک کسی نے دیکھی ہو نہ سنی ہو۔ علم کا قاعده
تھا کہ بزرگان سلف کے قدم بقدم چلتا تھا اور ان کی ایک ایک بات پرجان
قربان کرتا تھا۔ بلکہ اس کے نزدیک جس قدر بات پرانی تھی، اسی قدر سراور
آنکھوں پر رکھنے کے قابل تھی ۔ برخلاف اس کے ذکاوت پرُانے پن سے بہت گھبراتی
تھی اور ہر رنگ میں نیا شعبدہ دکھلاتی تھی۔ اس کا یہ قاعدہ تھاکہ دلائل سے قائل کرنہ سکتی تو لطائف
و ظرائف ہی سہی ۔وہ غرض واہ واہ لئیے بغیر نہ چھوڑتی تھی ، اور اسے قائل کرنے
کی بھی پرواہ نہ تھی ،مگر علم اپنی رائے کو ہمیشہ ایسے سنجیده اصول اور نپے تلے
قواعد سے سنبھالے رہتا تھا کہ اگرمقدمہ اس کے برخلاف بھی فصیل ہو جائے تو اس کے
دلائل برجستہ کو یاد کر کے یاد کر کے مدتوں تک تعریفیں ہوتی رہیں۔
مناظرہ کے شوقین اب دیکھو اب دونوں حریف اپنی اپنی چال بھولتے ہیں
چند روز کے بعد ان کی طبیعتوں میں ایک تبدیلی واقع ہوئی که دوتونے اپنی اپنی
خاصیت اصل کو چھوڑ دیا۔ یعنی ہرایک یہ سمجھنے لگا کہ جوحربہ حریف نے کیا ہے،یہی
حربہ میں کروں میں دو ٹوک فتح ہوجائے یعنی اس نے اس کے رنگ لینے شروع کر دیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ ۔91
اور اس نے اس کے ڈنگ پر چلنا شروع کیا۔ چنانچہ دونوں طرف یہی چلتا ہتھیار ہوگیا،
یعنی کبھی ذکاوت دلالمنطقی پرطبع آزمائی کرتی تھی ۔ علم ان دلیلوں کو لچر سمجھ کر
فقط مسکرا دیتا تھا۔ مگر اس طرح کہ ان سب کی صورت بگڑ جاتی تھی۔ ساتھ ہی اسکے طرف دار چلاتے تھے کہ واہ واہ دلیل کانام بھی نہ تھا یہ توباتوں ہی باتوں کامصالح تھا۔ ان تجربوں میں دونو نقصان پرنقصان پاتے تھے اور خود اپنی حقیقت کو دشمن کے
ہاتھوں میں ڈال کر سبک ہوتے تھے اور ذلتیں اٹھاتے تھے غرض جس طرح ذکاوت
کی طبیت میں متانت و وقار اور بات میں بوجھ بھار نہ تھا اسی طرح علم کے کلام میں
ظرافت کا نمک اوررنگینی کانقش ونگار نہ تھا دو قدم چلتا اورگرپڑتا۔
ئہ مباحثے ایسے اپنی مدت دراز تک جاری رہے کہ لازم ملزوم ہو گئے۔ اور عالمِ بالا میں فرقے فرقے ہو کر دونو طرف جتھے بندھ گئے۔ چنانچہ ذکاوت کو زہرہ نے اپنے دامنِ حمایت میں لے لیا۔ اور تبسم ،تمسخر،مزاح ، دل لگی کو اس کے ساتھ کر کے کہا کہ
حسن و جمال کی پریوں میں جا کر جلسے کیا کرو اور ادھر علم پر مشتری کی نظرِ عنائت رہی۔ مگر
وہ توخشک مغزتھے ،اپنے محل سے باہر نہ نکلتے تھے اور جب نکلتے تھے تو عصمت
حرمت، عزت، محنت، اعتدال، تحمل،تقویٰ روکھے پھیکے کبھی کسی بڈھےکےاور پراتم بڑیاں جلومیں لے کر نکلے تھے اور کسی درگاه یا خانقاہ تک جاکر چلے آتے۔
خوش بیانوں دیکھنا، طنز وتعریض نہ ٹہرے ورنہ خواہ مخواہ لڑائی ہو پڑے گی
نئی بات یہ ہوئی کہ ذکاوت کو سنگار خانے میں زیور و لبا س پنہانے کے لیے
دو کار دانوں کی ضرورت ہوئی اور اس میں طنز اور تعرض آکر نوکر ہو گئے ۔ انھوں
نے اپنی رفاقت میں ایک شخص کر رکھا تھا کہ جسے بغض دیو زاد کہتے تھے۔ اس کے ہاتھ
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
صفحہ 79
-----------------------------------------------------------------------
جا پڑتا تھا۔اس کا سبب یہ تھا کہ اندر کا دروازہ خام خیالی کے سپرد تھا۔اور وہ اپنے دل کی راجہ تھی۔جب چاہتی تھی ، کھول لیتی تھی۔جب چاہتی تھی ، بند کر دیتی تھی۔غرض کہ بدنصیب عرضی دار اپنی سری عمر عزیز اس بدحالی میں برباد کرتے تھے کہ کبھی آس کبھی بے آس۔ابھی خوش ، ابھی اُداس۔اُس ایوان کے اندر دسواس داروغہ تھا اور امیدواروں کا یار بنا ہوا تھا۔وہ دم بہ دم آتا تھا اور ایسی ایسی باتیں کان میں پھونک جاتا تھا کہ جن کا پورا ہونا قیامت تک ممکن نہ ہو۔ اور امید کہتی تھی خ ہاں ہاں ، اب حُسنِ قبول کا خلعت دلواتی ہوں ۔
ساتھ اُس کے رشک ڈیوڑھی کا داروغہ تھا۔ اُس کے گھر میں رات دن آگ پڑی دہکتی تھی۔یہ سب اُس کی سپردگی میں تھے، اور باوجود یہ کہ اس حال تباہ میں گرفتار تھے، مگر بدقسمتی یہ کہ اب بھی اتفاق نہ کرتے تھے۔ ایک ایک کو دیکھتے تھے اور جلے مرتے تھے اور آپس میں لڑتے تھے۔عمارت مذکور میں اندھیرا چھایا تھا۔دیواروں پر اُلّو بول رہے تھے۔گرد بدنامی کی چمگادڑیں اُڑتی پھرتی تھیں اُن کی آنکھوں میں علم کی شعاعیں، سوئیاں ہو کر چبھتی تھیں۔ اور پروں سے ایسی خرابی و خواری کی بوندیں جھاڑتی تھیں کہ جس پر گرتی تھیں ، داغ پڑ جاتا تھا۔
حق داروں کا حق بھی کچھ نہ کچھ زور رکھتا ہے، مگر نہ اس قدر کی طوفانِ نوح کا مقابلہ کر سکے۔
ہر چند کہ جس شخص کے داغ لگتا تھا ، نیک نامی بھی اُس کے پیچھے پیچھے ہو لیتی تھی ۔ یہ بیچاری
_____________________________________________
؎ یہ بیہودہ بے کمال اور نکتہ چیں معترض ہیں۔ہنرمندوں کے ہنر اُن کی آنکھوں میں چبھتے ہیں اور خواہ مخواہ عیب لگا کر اُن کی تصنیفات کو خراب کرتے ہیں۔



صفحہ 80
-----------------------------------------------------------------------

ہر چند کوشش کرتی تھی کہ کسی طرح اپنا رنگ پھیر کر اُس دھبّے کو چھپاوے ۔ لیکن خرابی یہ تھی کہ اُس کا رنگ بہت کچا تھا ۔ ذرا سا پانی لگنے سے یہ دھوپ میں رہنے سے اُڑ جاتا تھا کہ اُس سے دھبّے اور بھی روشن ہو جاتے تھے ، اور بدنامی کے داغ کبھی نہ مٹتے تھے۔ البتہ صداقت کے تخت کے نیچے ایک چشمہ جاری تھا۔اُس کے پانی سے خوب دھوئے جاتے تھے ، مگر وہاں سے اُس کا پانی آنا مشکل تھا ۔ ہاں اگر لاتا تو وقت ہی لاتا تھا۔؎
طوفانِ بے تمیزی میں قدم رکھنے کو جگہ ملے ، تو بھی گوشہ گیری ہی بہتر ہے۔
چوں کہ علوم کا دل گوارہ نہ کرتا تھا کہ اپنے معتقدوں کو اس طرح تباہی کی حالت میں دیکھیں ، اس لئے اکثروں کو لے لیتے تھے۔ چنانچہ تاک میں لگے رہتے تھے اور جب موقع پاتے ، کسی نہ کسی ڈھب سے ملکہ کی خدمت میں جا پہنچتاتے تھے۔ ملکہ دیکھ کر فقط ابرو کا اشارہ کر دیتی تھی ، یعنی منتظر خانہ میں حاضر ہوں ۔ وہاں کوئی اُن کی سنتا نہ تھا ۔ کیوں کہ اُن بیچاروں کو نہ فقط رشک بلکہ وسواس بھی ستاتا تھا ۔ بے حیائی ایک چیخ مار کر کہتی تھی کہ کیوں خواہ مخواہ گھس آئے۔ اور بدنامی کو اشارہ کرتی تھی کہ جاؤ ، داغ لگا دو۔ اخباروں میں چھاپ دو ، اشتہار دے دو ، سارے جہان میں رسوا کر دو ۔ یہ بیچارے گھبرا کر گرتے پڑتے بھاگتے تھے ۔ کسی کی کتاب چھٹ پڑتی تھی ۔ کسی کا عمامہ رہ جاتا۔ مگر اکثر داغ بھی کھاتے تھے۔ جو جو داغ لگ جاتے تھے ، وہ نہایت مشکل سے دھوئے جاتے تھے ۔ اور جن کے وہ داغ لگا ہوا تھا ، لوگ دور ہی سے تاڑ جاتے تھے کہ یہ ضرور کبھی نہ کبھی منتظر خانے کی ہوا کھا آئے ہیں۔
_____________________________________________
؎ زمانہ کہ ہنر کا دشمن ہے ۔ کیسا ہی اندھیر مچا دے ، مگر خود بہ خود ایک ایسا وقت آتا ہے کہ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی الگ ہو جاتا ہے۔

صفحہ 81
-----------------------------------------------------------------------
غرض مند بیچارے ہر طرح ادائے خدمت کو حاضر ہیں ، کاش کہ وہاں قبول ہو ،
باقی امیدوار اُس مبارک گھڑی کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے کہ کب خام خیالی اندر آنے کو اشارہ کرے اور کب ہم حضور میں باریاب ہوں ۔ یہ غرض مند بیچارے ، احتیاج کے مارے ، اُسے خوش کرتے تھے ۔ مگر نہ فصاحت اصلی ، یا اشعار واقعی ، یا خیال عالی سے ، بلکہ برخلاف اُس کے جھوٹی داستانیں ، عاشقانہ افسانے ، زٹلیات ، ڈھکوسلے کہ اُن میں ملکہ کی بھی تعریف ہوتی تھی اور اس کے شوہر یعنی غرور کی بھی خوشامد ہوتی تھی ۔ غضب یہ تھا کہ وہاں یہ بھی ایک آدھ ہی دفعہ سنی جاتی تھی ۔ کچھ تو خوش طبعی چٹکیوں میں اڑا دیتی تھی ، کچھ بد دماغی کی چین جبیں میں چلے جاتے تھے ۔ بعض اشخاص خام خیالی کی بدولت دربار تک پہنچ بھی گئے اور ملکہ نے قسمت سے انعام بھی ایسے ایسے دلوائے جن کی اُنہیں خود بھی امید نہ تھی ۔ مگر تخت کے پا انداز میں کچھ سونے کی زنجیریں پڑی تھیں ۔ جھٹ گلے میں ڈالیں اور وہیں باندھ دیا کہ ہر دم زیرِ نظر رہو ، مگر اشاروں پر کام کرو اور اسی طرح زندگی بسر کر دو ۔ لطف یہ تھا کہ لوگ اُن زنجیروں کو پہن کر فخر کرتے تھے اور کیسے ہی نازیبا اور بے عزتی کے کام لے ، بلکہ گالیاں بھی دے تو پیشانی پر بل نہ لاتے تھے ۔ اُس پر بھی خام خیالی جب چاہتی تھی پکڑ لیتی تھی اور زیور و لباس اُتار ، پِھر منتظر خانے میں دھکیل دیتی تھی ۔
یہ لوگ وہاں آکر پھر طوفانِ بے تمیزی کی بھیڑ میں مل جاتے تھے ۔ ہاں ، بعض اشخاص جنہیں تجربہ کی نصیحت نے کُچھ اثر کیا تھا ، وہ تو کسی اور رستے سے ہو کر نکل گئے اور کوئی اور خوشحالی کی راہ ڈھونڈ لی ۔ باقی وہیں

صفحہ 82
-----------------------------------------------------------------------

پڑے رہے ۔ عمر گزار گئے ، اور خوشامد کے ذریعہ سے خام خیالی کو خوش کرتے رہے ۔ اتنے میں ایک اور بھیڑ کا ریلا آ گیا ۔ چنانچہ جب جگہ نے تنگی کی ، تو گرد مکان مذکور کو بہت سے کمرے تھے ، اُن میں سے ہر ایک کو حیثیت کے بموجب بیماری ، کاہلی ، سستی ، شرمندگی ، مفلسی ، مایوسی کے کمروں میں ڈال دیا کہ وہاں وعدے اور وعدہ شکنی ، خوشی اور نا خوشی ، امید اور نا اُمیدی میں زندگی کے دِن پورے کرتے رہیں ۔ اور آخر ملک عدم کو چلے جائیں ۔

دیکھو صبح کو رستہ بھولے شام کو گھر آتے ہیں

علوم و فنون نے بہت سے دھکے کھا کر معلوم کیا کہ اب اس جہان میں رہنا عزت نہیں ، بلکہ بے عزتی ہے ۔ ملکہ کے محل سے نکلے ، تمام دنیا میں پھرے ، تکلیف و مصیبت کے سوا کچھ نہ پایا ۔ اتفاقاً ایک سبزہ زار میں گزر ہوا ۔ ایک بہتے چشمے کے کنارے پر کچھ چھوٹے چھوٹے مکان اور کئی جھونپڑیاں نظر آئیں ۔ معلوم ہوا کہ آزادی کی آرام گاہ یہی ہے ۔ وہ تحمل کی بیٹی تھی ، اور قناعت کی گود میں پلی تھی ۔ چنانچہ سب سے الگ اس گوشۂ عافیت میں پڑی رہتی تھی ۔ اور کنجِ عافیت اُس کا نام رکھا تھا ۔ یہ مقام علوم و فنون کو بھی گزران کے قابل معلوم ہوا ۔ وہاں جاکر دیکھا تو دانائی ، دور اندیشی ، کفایت شعاری بھی موجود ہیں ۔ علوم نے چند روز تک اُن کی صحبت کو غنیمت سمجھا اور آزادی کے دامن کے نیچے اپنی عزت اور آسائش کو چھپا کر زندگی بسر کرنے لگے ۔ اے اہلِ علم ! اب وہی زمانہ ہے ۔ عزت و آسائش چاہو ، تو اس طرح گزارا کرو ۔
کیوں آزاد ! مجھے تو اُن لوگوں پر رشک آتا ہے ، جو شہرت کی


صفحہ 83
-----------------------------------------------------------------------
ہوس یا انعاموں کی طمع پر خاک ڈال کر گوشۂ عافیت میں بیٹھے ہیں اور سب بلاؤں سے محفوظ ہیں ، نہ انعام سے خوش ، نہ محرومی سے نا خوش ، نہ تعریف کی تمنّا ، نہ عیب چینی کی پرواہ ۔ اے خدا ، دلِ آزاد دے اور حالتِ بے نیاز ۔











_____________________________________________
 

La Alma

لائبریرین
جناب محب علوی ، @ عینی صاحبہ
دوسری لڑی میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے صفحات 74 تا 78 یہیں پوسٹ کر رہی ہوں۔


صفحہ ۷۴

کوہ سے لے کر چوٹی تک تمام دھواں دار سے گھٹ رہا تھا۔ اس کے قدم سے سیاہی کے دھویں اڑ گئے اور تمام تاریکی برطرف ہو گئی۔ یہاں اگر چھا نو بھی تھی, تو نہ بارش کی سیرابی سے, بلکہ گھٹاؤ کے پسینے سے سیل رہی تھی؎۔ اب اس نے اپنی سرسبزی کو ہرا کیا۔ کچھ پھول تھے تو روشنی بغیر ٹھٹھر رہے تھے۔ وہ بھی چمک کر لال رنگ نکال لائے۔ غرض ہر شے کی طبیعت اپنی اصلیت پر آ کر شگفتگی کے جوش سےکھل گئی اور خوشبوؤں سے عالم مہک گیا۔

روئے زمین پر بہار کا یہ عالم دیکھ کر سلطانِ آسمانی نے بھی یہ حکم دیا کہ سامنے سے پردے اٹھا دو۔ عالمِ بالا کے پاک نہادوں نے گلدستے ہاتھ میں لے لیے اور خوش ہو کر پھول اچھالنے لگے ۔

جب اس پہاڑ کو گلوں سے گلزار اور شادابی سے نوبہار دیکھا تو علمِ تعمیر وہاں آیا۔ اپنے کمال سے ایک محل عالی شان تعمیر کیا۔ بہار نے کوسوں تک گلزار لگایا۔ طرح طرح کے اوزار کام میں آئے۔ سڑکیں نکالیں۔ اتار چڑھاؤ درست کیے۔ ریلیں جاری کیں۔ جابجا فرودگاہیں اور ان میں مہمان خانے اور آرام خانے بنائے۔ غرض عجائبات اور خرابات سے سجا کر ایسا طلسمات کر دیا کہ جس کے دیکھنے سے آنکھوں کو طراوت اور خیالات کو بلندی وسعت حاصل ہو اور تصنیفات میں ایجاد اور مضمون آفرینی کے لیے سامان بہم پہنچیں۔ چنانچہ ملکہ نے یہیں سکونت اختیار کی۔ قسمت نے آکر انعاموں کا دروازہ کھول دیا۔ صداقت جانچتی تھی اور عدل بےرود رعایت دیے جاتا تھا۔ یہ دروازہ رات دن کھلا رہتا تھا۔ امید دروازے پر بیٹھی رہتی اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ بند اور گھٹی ہوئی جگہ پر نہ نباتات بڑھتے ہیں، نہ ان کے پھول لگتے ہیں، نہ پھل لگتے ہیں۔ سورج کی روشنی اور چلتی ہوئی ہوا کو اس میں بڑا دخل ہے۔ یہ نہ ہو، تو سب ٹھٹھر کر رہ جاتے ہیں۔



صفحہ ۷۵

‎جن کے لیے علوم و فنون سفارش کرتے تھے، انہیں بلا لیتی تھی۔ تمام دربار کثرتِ خلائق سے بھرا رہتا تھا۔ اور ہر چند اکثر ناکام بھی جاتے تھے، مگر شکایت کوئی نہ کر سکتا تھا کیونکہ خود ملکہ کی آنکھ کسی سے غافل نہیں تھی۔ جو لوگ وہاں سے ناکام پھرتے تھے، ان کا نام نالائقوں کی فہرست میں درج ہو جاتا تھا۔ پھر وہ عالمِ شہرت سے خارج ہو کر یا تو گمنامی کے گوشہ میں بیٹھ جاتے تھے کہ کوئی انہیں پوچھتا نہ تھا۔ یا ہیچ و پوچ اور واہیات کاموں پر جھک پڑتے تھے۔ بعض ایسے بھی ہوتے تھے کہ محنت سے مدد لیتے تھے اور پھر اپنے نقص کی تکمیل میں کوشش کرتے تھے۔

‎اب اہلِ نظر غباری عینکیں لگا لیں کہ
‎بے کمالوں کے دلوں کے غبار آندھی ہو کر اٹھتے ہیں، ان کے اقبال کا دور آیا ہے۔

‎ناکاموں میں اکثر نااہل ایسے بھی تھے کہ
‎نہ اپنی ناکامی پر شرمندہ ہوتے تھے، نہ شرمندگی کے گوشہ میں بیٹھتے تھے۔ چند روز کے بعد ان کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ ایک دن سب نے محل کو گھیر لیا اور باغ میں آ کر بستر ڈال لیے۔ ہر چند ملکہء مذکور کا جوہر افلاکی تھا، مگر باپ کی طرف سے پیوند خاکی تھا۔ اس لیے تجویز میں کچھ نہ کچھ چوک بھی ہوتی تھی۔ اور اگرچہ اس خطا کی اصلاح بھی بہت جلد ہو جاتی تھی، مگر پھر بھی حریف جو تاک میں لگے ہوئے تھے۔ انہیں کہیں نہ کہیں موقع گرفت کا ہاتھ میں لگ ہی گیا۔ چنانچہ انہوں نے کچھ اپنے، کچھ اپنے رفیقوں کے گھروں میں کمیٹياں شروع کر دیں اورآپس ہی میں نالش اور اپیل کے رنگ ڈال دیے۔
‎تمام عالم میں رفاہِ عام اور اصلاح، نام لے کر فریاد مچا دی، جن سے جمعیت بےشمار اکٹھی ہوگئی۔ صبح و شام جمع ہوتے، لمبی لمبی تقریریں کرتے، مگر اس میں مطلب کا نام نہیں، جھوٹ موٹ کی بکواسیں کرتے، جن میں دلیل سے کام نہیں۔ کوئی سروقد بن کر رائے دیتا۔ کوئی شمشاد قد ہو کر رائے شامل کرتا۔ کوئی تائید کرتا، کوئی تسلیم کرتا۔ آپ ہی اتفاق رائے کر لیتے، آپ ہی



صفحہ ۷۶

‎واہ واہ، واہ واہ کرلیتے۔ اسی تودہء طوفان کو لکھتے اور پروسیڈنگ (رویداد) نام رکھتے، جسے مشتہر کر کےبڑے فخر کیا کرتے۔
‎ان ناکاموں کی امید سے راہ تھی۔ اور بے حیائی ان کی بڑی خیر خواہ تھی۔ چنانچہ وہ ہمیشہ ان کو ملکہ کے دربار کی طرف دھکیلتی رہتی تھی کہ چلو اور دوبارہ دعوٰی پیش کرو۔ اگرچہ وہاں سےدھکے کھاتے تھے، اور جب جاتے، نکالے جاتے تھے، اس پر بھی امید کا یہ حال تھا کہ ان کی رفاقت چھوڑتی نہ تھی اور بے حیائی برابر زور لگائے جاتی تھی۔ غرض ان اندرونی راہوں کےساتھ انہوں نے ایک اور راستہ نکالا۔ یعنی خیال کیا کہ یہ جمعیت ہماری, جو امید کی حمایت اور بے حیائی کی عنایت سے روز افزوں ہے، اس کی کثرت ہمیں ضرور فتحیابی بخشے گی۔ پس جس طرح ہو سکے، اپنی بھیڑ بھاڑ کو بڑھانا چاہیے۔

‎جب پروردگار کسی بندہء خاص کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اپنے بندوں کے کام اس کے سپرد کرتا ہے، تو خواہ مخواہ کے خیر خواہ، مشورہ دینے کو بہت پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر دیکھو، ان کی باتوں میں آکر حقیّت اور واقعیت کو نہ بھول جانا چاہیے۔ خیال کر کے سنو، یہ خیر خواہ کیسے کیسے ہوتے ہیں۔

‎ادھر تو بے لیاقت اہلِ فساد نے یہ سامان بہم پہنچائے، ادھر یہ قدرتی پیچ پڑا کہ ملکہ کو آسمان سے اترے ہوئے مدت ہوئی تھی۔ عالمِ خاک میں آ کر نیت اس کی پستی کی طرف زیادہ تر مائل ہونے لگی، اور عدل و انصاف کی نصیحتیں سب بھول گئی۔ یا تو صحبت اس کی علوم و فنون سے تھی، یا غرور سے دوستی ہوگئی۔ آرام اور غفلت کو مصاحبت میں لیا اور رفتہ رفتہ غرور سے ایسی رسم و راہ بڑھی کہ اس سے شادی ہو کر دو لڑکیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ ایک ان میں سے خوشامد اور دوسری خام خیالی۔ خوشامد نے فیاضی سے فیض تعلیم پایا تھا، اور خام خیالی نے قسمت سے۔



صفحہ نمبر ۷۷

‎غرور کے محل میں بی بی خودپسندی بھی تھیں، جن کا اس نے دودھ پیا تھا۔ دوسری دایہ خود رائی تھی، اس نے پالا تھا۔ ملکہ علم افروز نے یہ غضب کیا کہ ساری خُو بُو خاوند کی اختیار کر لی۔ رفتہ رفتہ خود آرائی کی صلاح سے فیصلے اور خود پسندی کے دفتر سے احکام جاری ہونے لگے۔ صداقت نے جو سبق پڑھائے تھے، سب بھُلا دیے, اور عدل تو بے کار ہی ہو گیا۔ جب ان مصاحبوں کے اختیار اور لڑکیوں کی محبت زیادہ ہوئی، تو علوم کا زور بالکل گھٹ گیا۔ اس کے رفیق اور قدر دان دربار سے بند ہو گئے۔ وہ بچارے بُجھے چراغوں کی طرح طاقوں میں پڑے رہتے۔ ملکہ کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوتا۔ انجام اس کا یہ ہوا کہ علوم و فنون کے خدمت گزار محنتیں کر کے راتوں کو صبح اور صبحوں کو رات کرتے، برسوں کی دستکاریوں میں اپنے کمال ظاہر کرتے، مگر صلہ کے نام خاک بھی نہ پاتے۔ البتہ ان میں جو چالاک ہوتے اور خام خیالی اور خوشامد کی وساطت سے وہاں تک جا پہنچتے، ان کے لیے سب کچھ موجود تھا۔

‎جب ارکانِ سلطنت کی بے اعتدالیاں حد سے گزر جائیں تو اہلِ فساد کیوں نہ سر اٹھائیں۔

‎جب دربار کا رنگ اس طرح بے رنگ ہوا، نہ علوم کے قدردان وہاں رہے، نہ فنون کے جوہر شناس، تو چرچے اس کے جا بجا پھیلے اور ان نالائقوں کو بھی خبریں پہنچیں، جن کی علوم سفارش نہ کرتے۔ چنانچہ یہ خبریں سُن سُن کر ان کے ہاں بڑی خوشیاں ہوتی تھیں۔ وہ ملکہ کے دل سے دشمنِ بد خواہ تھے۔ ان باتوں کو اس کے زوالِ دولت کی آثار سمجھ کر اپنی کامیابی کی تدبیروں میں زیادہ تر سرگرم ہوئے۔ ادھر ملکہ کے دربار کا یہ حال تھا کہ امید، خام خیالی کے آنے سے خوش تھی۔ ادھر بے حیائی اپنے یاروں کو خوشامد کے سپرد کرتی جاتی تھی۔ دشمن مخفی جو شیطانوں کی طرح



صفحہ ۷۸

لپٹے ہوئے تھے، ملکہ کو ان کا خیال بھی نہ تھا۔

حضرت انسان کا قاعدہ ہے جب اپنی اوج پر آتے ہیں، تو اصلیت کو بھول جاتے ہیں۔ اچھّوں کو گھٹاتے ہیں، بُروں کو بڑھاتے ہیں۔ ویسے ہی اپنے کیے کی سزا پاتے ہیں۔

مقامِ افسوس یہ ہے کہ اب ملکہ کی شانِ شاہی نہ رہی۔ دکھاوے کی رسموں پر رہ گئی۔ زبانی جمع خرچ بہت، باقی ندارد۔ مبالغے, استعارے، بلند پروازیاں, لفاظیاں حد سے زیادہ، مضمون و مدعا غائب۔ کتابیں جلدیں کی جلدیں، مطلب پڑھو تو ایک حرف نہیں، یا تعریف اور خوشامد یا بے لطف اور بے معنی عبارتیں۔ انجام یہ ہوا کہ فقط اوپر اوپر کے توزک و احشام تھے، اندر کچھ نہ تھا۔ یا تو ہر عرضی فورًا سنی جاتی تھی اور ہر بات پر خاطر خواہ توجہ ہوتی تھی، یا باہر ایک ایوان بنوا کر اس کا نام منتظر خانہ رکھا گیا کہ امیدوار وہاں جا کر حاضر ہوا کریں۔ جن لوگوں کو بے حیائی، خوشامد کے سپرد کرتی تھی، وہ بے روک اس گھر میں چلے جاتے تھے، کوئی مزاحم نہ ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رنگ برنگ کا آدمی، دربار میں آ کر بھر گیا۔ ملک ملک کے لوگ چلے آتے تھے اور فقط حمایتیوں کی بھروسے پر اس جوش و خروش سے اظہارِ کمال اور امتحان دینے کو بڑھتے تھے کہ ایک پر ایک گرتا تھا۔

جب دربار کا رنگ بگڑتا ہے، تو غرض مندوں کے خیالات اس سے زیادہ بگڑ جاتے ہیں۔ مگر تم یہ خیال کرو کہ اس عالم میں غریب غرض مندوں پر کیا گزرتی ہے۔

جو لوگ اس دربارِ عام میں شریک ہوتے تھے، وہ سمجھتے تھے ہم ملکہ کی خدمت میں پہنچ لیے، کیونکہ ان کے لیے بڑا قوی وسیلہ تھا یعنی خوشامد۔ خوشامد کے ہاں حقیّت اور واقعیت دونو کو دخل نہیں۔ مگر اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہاں سے معاملہ قسمت پر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 131

نکتہ چینی

نکتہ چینِ نا انصاف کی بدولت تصنیف کا کیا حال ہوتا ہے

مصنف اپنی تصنیف میں یا تو نئے نئے مطالب اور تازہ مضامین سے دلوں کو شگفتہ کرتا ہے، یا مطالبِ معلوم کو بنا سنوار کر نئی آرایش زیبایش سے سامنے لاتا ہے۔ کبھی نئی روشنی کا جلوہ دے کر دیدۂ نظر باز کو عجائب و غرائب تماشے دکھاتا ہے، کبھی دیکھی بھالی چیزوں کو نئے رنگ دے کر اور موقع و مقام بدل کر انہی میں تازگی و دل ربائی کے انداز پیدا کرتا ہے۔ بلکہ ایسے رنگ برنگ کے گل پھولوں سے سجاتا ہے کہ ہر چند ایک دفعہ طبیعت ان کی گلگشت کر چکی ہو، مگر خواہ مخواہ دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ اور جن چمنوں پر عقلِ سُبک سیر جلدی گزر گئی ہو، یا سرسری نظر کر گئی ہو، اُس کا دوبارہ دل میں اشتیاق پیدا ہو جاتا ہے۔

درحقیقت ان محنتوں میں سے جس محنت کو دیکھو، مشکل سے مشکل ہے، کیونکہ تصنیفِ مذکور کے مفید اور کارآمد ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی نہیں ہے کہ لوگوں کو اُن کی غلط فہمی یا عیب و صواب سے آگاہ کر دے، بلکہ ایک انداز برتنا چاہیے، جس سے ان کے دلوں میں اپنے رہنما یعنی مصنف کا اُنس اور اس کے کلام کا اشتیاق پیدا ہو۔ اور اس کے


صفحہ 132

سبب سے وہ اپنی ناواقفیت کا اقرار ہی نہ کریں، بلکہ ایک اس سے بھی کڑوا گھونٹ ہے، اُسے گوارا کریں۔ یعنی یہ بھی سمجھیں کہ یہ دل آگاہِ خیرخواہ ہم سے زیادہ تر دانا ہے۔

جو شخص مراتبِ مذکورۂ بالا پر نظر کرے گا، وہ خود سمجھ لے گا کہ ہر ایک بات ان میں سے پرلے سرے کی خطرناک اور نہایت جان کا ہی کا کام ہے۔ پھر ایسا بے درد کینہ توز کون ہو گا کہ قارون بے چارہ جو خود عذابِ خدا کا مارا ہے، اس کے بوجھ میں پتھر بھر دے اور اسے ایک دل لگی سمجھے۔

کیسی بے درد کوششیں ہوں گی جو ایسے آرزو مند دل کا توڑنا گوارا کریں کہ نہ اُن سے کسی شے کا طالب ہے، نہ اُن کے کام میں کچھ حارج ہے۔ فقط اتنی بات ہے کہ اپنی یا اپنے کلام کی شہرت چاہتا ہے۔ اسی کے لیے یہ سب تکلیفیں ہیں کہ وقتِ عزیز کو صرف کرتا ہے۔ آرام کو تکلیف سے بدلتا ہے۔ چراغوں کے دھوئیں کھاتا، دماغ کا عطر پیشانی سے ٹپکاتا ہے۔ اور ان سب منزلوں کا پہلا قدم یہ ہے کہ اکثر تو کامیابی کی جگہ ناکامی اٹھاتا ہے، اور کامیاب ہو تو فائدہ قلیل، یہ بے چارہ ان ساری مصیبتوں پر بھی صبر کرتا ہے اور اپنے شوق کو پورا کرتا ہے۔

ہاں، ایک نسل کے آدمی ایسے بھی ہیں کہ یا تو ایسی خلل اندازیوں کو فرضِ الٰہی سمجھے ہوئے ہیں، یا اپنے دل کا بہلاوا سمجھتے ہیں، جو ہمیشہ اسی تاک میں رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کسی صاحب کمال کا جوہرِ قابل لوگوں کی نظر پڑ جائے۔ ہاں ہاں، یہ وہی لوگ ہیں کہ قلعۂ شہرت کے دروازے پر عصاے منصب داری لیے کھڑے ہیں اور فخر اپنا اس بات میں سمجھتے ہیں کہ جہالت اور عداوت جو چنگیز و ہلاکو کے تیر و تلوار لیے بیٹھے ہیں، یہ ان کے دربار میں سب سے پہلے عرض پہنچائیں کہ حضور کا شکار حاضر ہے۔

جو لوگ تصنیف کا ارادہ کریں، انہیں ابتدا میں اتنا ضرور چاہیے کہ جو اشخاص نکتہ چینی کے خطاب و القاب سے شہرہ آفاق بننا چاہتے ہیں، ان کی خدمت میں ایک سفارش کا بند و بست


صفحہ 133

کریں کیوں کہ اُن مردم آزاروں میں بڑے سے بڑا بے درد تھوڑا سا نرم ہو سکتا ہے یا کچھ عرضہ کےلیے طبیعت کی نیش زنی کو چھوڑنا بھی گوارا کر سکت اہے۔ میں نے اس تدبیر کی تلاش میں طبع سلیم کی طرف رجوع کی اور عہدِ قدیم کے بہت پُرانے پُرانے دفتر اُلٹے۔ آخر دیکھتے دیکھتے یہ معلوم ہوا کہ کالا ناگ راگ سے پرچ جاتا ہے۔ اور بھونکتا کُتا بھی ہڈی سے چُپ ہو جاتا ہے۔ آج کل کے نکتہ چین اگرچہ سانپ جتنے دانت بھی نہیں رکھتے، مگر اُس سے بھی سوا زہر اگلتے ہیں۔ اور کُتے کے برابر بھی نہیں کاٹ سکتے، مگر بھونکنے میں اس سے بھی کئی میدان پرے نکل جاتے ہیں۔

پس یقین ہے کہ اس قسم کے طریقوں سے وہ بھی بند ہو جائیں گے۔ چند اشخاص کے باب میں میں نے سنا کہ بعض تو ایک گلاس شراب، اور ایک سیخ کباب پر راضی ہو گئی اور بعض اُ میں سے خوشامد کے راگوں کی چار تانیں سُن کے بے قابو ہو گئے۔

لیکن شوقِ ہمت نے بے ڈھب کام پر کمر باندھی ہے۔ اگرچہ عقل نصفت اندیش اُسے دلائلِ یقینی سے قائل کرتی ہے اور سمجھاتی ہے کہ اس بد اندیش نسل کے حملہ ہاے متواتر سے ڈرنا چاہیے۔ مگر وہ اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا ہے۔ اب تک صلح کی تدبیر یا راہِ گریز کا خیال بھی نہیں کیا۔ وہ سمجھ گیا کہ جس مخالفت کا انہوں نے دعویٰ باندھا ہے، وہ انہیں قانونِ مصلحت کی رُو سے جائز نہیں۔ بلکہ یہ ان کی جعلی حکومت ہے، جس کی نہ سند ہے، نہ شہادت اور اسی دعوے پر انہوں نے استادِ نکتہ چین کے خطاب سے حاکمِ دار العدالت کی طرح فیصلے کیے ہیں۔ حق پوچھو تو مجھے یہ بھی صاف دھوکہ نظر آتا ہے۔

داستان

حقیقت حال یہ ہے کہ نکتہ چینی جس کی بدولت ان لوگوں نے مصنفوں کی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار پایا ہے، اصل میں خواجہ حق پرست اور محنت خاتون کی سب سے بڑی بیٹھی تھی۔


صفحہ 134

جب وہ پیدا ہوئی، تو پرورش کے لیے انصاف کے سپرد ہوئی۔ چنانچہ اس نے دانش کے محلوں میں پال کر تربیت کیا۔ وہاں دن رات علوم کی جواہر کاری اور فنون کی مرصع نگاری کو دیکھا کرتی تھی اور صبح و شام عقل آرارئی کے باغوں میں جی بہلایا کرتی۔ جب بڑی ہوئی تو عالمِ بالا کے بزرگوں نے اُسے حسنِ کمال اور کمالِ حسن میں بے مثال دیکھ کر ملکِ خیال کا تاج سر پر رکھ دیا۔ کہ چند روز کے کے بعد مملکتِ خیال کی ملکہ ہو کر عالم بالا کی پریوں میں داخل ہو گئی۔ وہاں کی پریاں موسیقی، ناچ رنگ، سانگ، شاعری، افسانہ، تاریخ وغیرہ اپنے اپنے فن کی مالک تھیں۔ چونکہ انہیں بھی ملکِ خیال سے تعقق تھا، اس لیے ملکہ نکتہ چینی نے اُس کے کلام میں بھی دخل پیدا کر لیا۔ جب انہوں نے عالمِ خاک کی طرف نزول کیا، تو ملکہ نکتہ چینی کہ خود فرمانرواے ملکِ خیال تھی، وہ بھی ان کے ساتھ روے زمین پر آئی۔ محل سے چلتے وقت انصاف یعنی اس کے استاد نے ایک پھولوں کی چھڑی دے دی تھی کہ اُسے تمغاے شاہی کی طرح ہر وقت اپنے داہنے ہاتھ میں رکھا کرے۔ عالمِ بالا کے دربار میں دستور تھا کہ جس رات کوئی پری اکھاڑا جیتا کرتی تھی، تو اس مبارک باد میں اسے ایک ہار ملا کرتا تھا، جس میں گل ہاے جنت کی کلیاں اور امرت کے درخت کی کونپلیں پروئی ہوتیں۔ چنانچہ عصائے مذکور کے ایک سرے پر وہی ہار اور طر؁ سجا کر انہیں آبِ حیات کے چشمہ سے شاداب کیا جاتا اور دوسرے میں سر و بے ثمر کی پتیاں اور پوست کے ڈوڈے باندھ دیے جاتے۔ یہ دریاے محویت کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ جن سے افیون کا گھولو اور پوست کا پانی ٹپکتا تھا۔ ملکۂ موصوفہ کے بائیں ہاتھ پر ایک مشعل بھی تھی کہ اس کی روشنی کبھی بجھتی نہ تھی۔ اس مشعل کو خود محنت خاتون نے بنایا تھا اور حق پرست نے روشن کیا تھا۔ بڑا جوہر اس میں یہ تھا کہ چیز کیسی ہی مخفی ہو، اس کی روشنی سارا حال جوں کا توں آینیہ کر دیتی تھی۔ بلکہ ہنر کی الجھاوٹ اور حمق کی خرابی کام کو کیسا ہی درہم برہم کر کے الجھا دے، مشعلِ حق کی روشنی پڑتے ہی اس کی سدھاوٹ کا حال بال بال روشن ہو جاتا تھا۔ ظاہر آرائی اور غلط نمائی


صفحہ 135

کے پیچوں میں اس کی شعاع سوئی کی طرح بیٹھ جاتی تھی، اور جن جن ایچ پیچ میں ان کے لغویات پیچیدہ تھے، انہیں دفعتہً کھول دیتی تھی۔ بہت سے زرق برق کے لباس کہ فصاحت اور عبارت آرائی نے جھوٹ کے ہاتھ بیچ ڈالے تھے، یہ ان کے بھی بخیے کھول دیتی تھی اور گھٹت بڑھت کی پتلیاں جو بناوت کے کپڑے پہن کر ٹھیک ٹھاک بن بیٹھتی تھیں، انہیں بھی جھٹ پکڑ لیتی تھی۔

غرض کہ ملکہ موصوفہ ایسے ایسے شاہانہ سنگاروں سے سن کر آسمان سے نازل ہوئی تاکہ جو لوگ ان صاحبِ کمال پریوں کے دم بھرتے ہیں اور اعتقاد کا حق زبانِ قلم سے ادا کرتے ہیں، اُن کی جان کا ہی اور محنتوں کی قدردانی کرے۔ چنانچہ جو کچھ اس کے سامنے پیش ہوتا تھا، اس پر مشعلِ حق کی روشنی سے نظر کرتی تھی اور جب سب طرح دیکھ بھال کر خاطر جمع کر لیتی تھی اور سمجھ لیتی تھی کہ اس تحریر میں قانون درشتی پر کما حقہ عمل ہوا ہے، تو عصا کا آبِ حیات دالا سر چُھوا کر اجراے دوامی کا حکم چڑھا دیتی ہے۔ اس سے آبِ حیات کی شبنم برستی تھی اور تصنیفِ مذکور کو خاص و عام میں رواجِ دوام ہو جاتا تھا۔ لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ جو کتابیں اس کے سامنے پیش ہوئیں، ان میں دیکھا کہ بہت سے مضامین بے اصل ہیں۔ بلکہ دغل فصل کے مطالب خرچ ہوئے ہیں۔ البتہ محنت نے ان پر جھوٹ موٹ کے رنگ روغن چڑھا کر رنگ آمیزی کی ہے۔ مگر پھر بھی الفاظ اور مطالب ٹھیک ٹھیک مطابق نہیں بیٹھے یا فکرِ صحیح نے مطلب اصلی دے درست جوڑ نہیں دکھایا، یا کچھ کچھ واہیات زٹلینِ احمقوں کے خوش کرنے کو لکھ دی ہیں، یا کتاب کی ضحامت بڑھانے کے لیے بے فائدہ مطالب درج کر دیئے ہیں کہ نہ اُن میں لطفِ مضامین ہے، نہ بات کی پختگی ہے، نہ کچھ زیادہ فائدہ مند ہے۔ غرض جہاں کوئی بات کھٹکتی تھی (اور ایسی چُوک اس پر کھل تو جاتی ہی تھی) پس وہاں ملکہ نکتہ چینی اس سرے کے چھوانے سے انکار کرتی تھی، جس سے تصنیفِ مذکور کے رواج کو استقلال دوام ہو جائے۔ مگر جس میں بہت موٹی موٹی غلطیاں دیکھیں، تو اُسے عصا کے دوسرے سرے سے


صفحہ 136

ٹھکرا کے ہٹا دیا۔ یہ پوست کے ڈوڈے اور سرو کے پتے ایسا زہر بہاتے تھے کہ اسی وقت سے کتابِ مذکور آہستہ آہستہ محو ہونے لگتی تھی۔ اس جس طرح کوئی افیونی نشہ کے رنگ میں اونگتے اونگتے تحت الثریٰ پہنچ جائے، اسی طرح تھوڑے ہی عرصہ میں بالکل نیشت و نابود ہو جاتی تھی۔ چند روز کے بعد کسی کو خبر بھی نہیں رہتی تھی کہ کیا تھی اور کیا ہو گئی۔ کئی کتابیں ایسی بھی نکلیں کہ انہیں دیکھ کر ملکہ متردد ہوئی اور اپنی چھڑی کو جو درحقیقت عدل کی ترازو تھی، بیچوں بیچ سے پکڑے کھڑی رہی اور دیر تک سوچتی رہی۔ چنانچہ رفتہ رفتہ ایسی کتابیں اس کثرت سے جمع ہو گئیں کہ ملکہ ان کے مشکوک دعووں اور بے جا سفارشوں پر توجہ کرتے کرتے تھک گئی۔ آخر بنظرِ احتیاط کہ مبادہ انصاف کی چھڑی بے جا کام میں آئے، اُن کے مقدمہ کو وقت کے حوالے کر دیا کہ وہ خود بخود ان کے بُرے بھلے کی حقیقت کھول دے گا۔ مطلب اس سے یہ تھا کہ تصانیفِ مذکورہ دعووں کے زور اور سفارشوں کو قوت سے چار دن کی چاندنی کی طرح چند روز رہیں گی، مگر ایک زمانہ کے بعد خود بخود سب کو معلوم ہو جائے گا کہ کتنا اندھیرا ہے، کتنا اُجالا ہے۔

وقت کے کاروبار سپست تو تھے اور شروع میں کچھ باتیں واہیات بھی معلوم ہوتی تھیں، مگر اور سب باتوں میں اس کی راے بالکل انصاف سے متفق ہوئی۔ بعض اشخاص ایسے بھی تھے کہ اُن کی تصنیفات پر جو چھڑی کے چُھوانے میں کچھ توقف ہوا، تو اس سے انہوں نے سمجھلیا کہ ہم بالکل کامیاب ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اپنی کتابیں بغل میں مارے رواجِ دوام کے یقین میں خوشی خوشی زمانِ آیندہ کی طرف بھاگے جاتے تھے۔ مگر زمانۂ گزران کی درانتی کے نیچے انہیں بھی گِھسا کھانا پڑا اور ایک زمانۂ معہود کے بعد خود بخود کٹ کر گر پڑے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ان میں سے بعض تصنیفات تو آہستہ آہستہ کٹ کر برباد ہوئیں، اور بعض ایک ہی رگڑے میں دو ٹکڑے ہو کر فنا ہو گئیں۔

ملکۂ نکتہ چینی بہت دیر تک وقت کے عمل درآمد کو دیکھتی رہی اور آخر کار اس کے کاروبار سے مطمئن ہو کر اپنے استاد خداوند انصاف کے ساتھ دنیا سے چلی گئی۔ مگر یہ


صفحہ 137

غضب ہوا کہ غلط فہمی اور ہٹ دھرمی کو عداوت، دغا اور خرابی کی رفاقت میں کھلا چھوڑ گئی کہ جس کی محنت اور جانکاہی کو چاہیں، بے دھڑک برباد کیا کریں۔ بلکہ اب تو ملکہ نے اتنی ہی بات پر اکتفا کیا ہے کہ وہ دور سے بیٹھی تماشا دیکھا کرتی ہے، مگراس میں بھی شک نہیں جکہ جو دل علم کے فیض اور نیکی کے نور سے اثر پذیر ہیں، ان تک اپنا فیض پہنچاتی ہے۔

اکثر نالائقوں کی بدتمیزی کے سبب سے ملکہ چلتے وقت غصہ بھی ہوئی تھی اور اپنے عصا کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اچھال دیا تھا، چنانچہ آبِ حیات والا ٹکڑا تو خوشامد اور چاپلوسی نے اُچک لیا تھا اور دوسرا سرا جو آبِ محویت سے آلودہ ہو رہ اتھا، وہ عداوت نے لپک لیا تھا۔ چاپلوسی جسے آبِ حیات والا سرا ہاتھ آیا تھا، اس کے مرید اور غلام بہت موجود تھے، مگر ان کے پاس نہ تو روشنی موجود، نہ وہ روشنی چاہتے تھے، اسی واسطے اچھے بُرے کا خیال نہ کیا۔ کبھی تو زبردست کے دباؤ سے، کبھی دنیا کی طمع سے، کبھی اپنے لطفِ طبع کے لیے جو کچھ کوئی پیش کرتا، اسے آبِ حیات والا سرا چُھوا دیتے، ادھر عداوت کی چغل خوروں سے بڑی راہ تھی۔ انہوں نے اسے ایک لالٹین تیار کر دی۔ مگر اس میں خرابی یہ تھی کہ روشنی اس کی ایک رخی تھی، یعنی فقط برائیوں پر ہی پڑتی تھی، خوبیاں بالکل نظر نہ آتی تھیں۔ ؂

دشمنانِ تیرہ دل کی تیرگی کو کیا لکھوں
جس قدر دیکھو سوا، اتنا سوا اندھیرا ہے

غرض چاپلوسی اور عداوت دونوں کے مُرید اپنے اپنے سونٹے کے زور پر اپنی اپنی ملکہ کے اجراے احکام کے لیے عالم میں پھیل گئے کہ جسے چاہیں، عمرِ دوام بخشیں، اور جسے چاہیں ایک دم میں فنا کر دیں۔ مگر اب اس ٹوٹی پھوٹی چھڑی کی بھی طاقت بالکل جاتی رہی ہے۔ وقت ان کے فیصلے کا ذرا لحاظ نہیں کرتا، جو چاہتا ہے، بے لاگ حکم چڑھا دیتا ہے، اور وہی تمام عالم میں جاری ہو جاتا ہے۔ آؤ، میرے دوستو! اُسی کی راہِ انتظار پر بیٹھ جاؤ۔
*********************************************************************

صفحہ 138

مرقع خوش بیانی
خوش بیانی کا مُرقع اور فصاحت اصلی و نقلی کی جنگ

جس شغل میں مدت تک انسان کی دل لگی رہی ہو، اُس سے بالکل دل کا اٹھا لینا بہت دشوار ہے۔ ہر چند دل کو اس کی یاد سے حرکت نہ دیں، مگر اس میں آپ ہی آپ خیالات پیدا ہوتے ہیں، جیسے سمندر میں مد و جزر آ کر ٹھہر جاتا ہے اور ہوا کے جھونکے بھی تھم جاتے ہیں، مگر پانی گھڑیوں پڑا لہرایا کرتا ہے۔ اسی طرح آج مجھے خیال ہوا، یعنی پچھلی رات باقی تھی جو بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی۔

اس عالمِ خواب میں خوش بیانی کا ایک مرقع مسلسل مری آنکھوں کے سامنے سے گزرا۔ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خوش بیانی اصلی تھی یا نقلی، یا دونوں سے مرکب تھی۔ مگر ایسا معوم ہوا گویا مجھے ایسی سرزمین میں لے گیا ہے، جو دنیا کے عجائب و غرائب سے مالا مال، بلکہ سحر کاری اور نیرنگ سازی سے بھری ہوئی ہے۔ اس ملک میں ایک ملکہ کی حکمرانی تھی، جسے وہاں کے لوگ ملکۂ سخن آرا سمجھتے تھے۔ مگر دنیا کے لوگ خوش بیانی بے معنی مشہور کرتے تھے۔ دیکھتا ہوں کہ باغ سے شہر اور شہر سے اُجاڑ تک، بلکہ کھیت سے جنگل اور جنگل سے پہاڑ تک کوئکی شے ایسی نظر نہیں آتی، جو ذرا اصلیت کا رنگ رکھتی ہو۔ بعضے درختوں پر سونے روپے کے پتے لہلہاتے تھے، بعضو پر تاش تمامی کے پھول جگمگاتے تھے۔ ٹہنیوں میں گوہرِ یکتا اور جوہر بے بہا آویزاں تھے۔ فواروں میں کیوڑا اور بید مشک پڑا اُچھلتا تھا اور اس کی دھاروں میں


صفحہ 139

سُریلی آوازیں لہراتی تھیں۔ جنگل کی گود کے پالے، ہرنیاں اور پاڑھے صحرا کے دامن میں لوٹ رہے تھے۔ دریا کے پیارے یعنی آبی جانور اور رنگین رنگین مچھلیوں کے لچھے نہروں میں جھلملا رہے تھے۔ پرندے بھی بے شمار تھے، مگر اکثروں کی چونچیں سنہری تھیں؛ اکثرو کے بازو ہیرے اور یاقوت سے تراشے تھے۔ اس پر نغمہ سنجی کا یہ عالم تھا کہ اُن کے سامنے شعرا کی غزل خوانی کا دم بند ہوتا تھا۔ پھولوں نے ہوا کو عنبر و لوبان، مشک و زعفران سے بسا رکھا تھا۔ عطر کی لپٹیں چلی آتی تھیں۔ اور یہ ملی جلی خشبوئیاں الگ الگ ایسی کیفیتیں دیتی تھیں گویا روشِ ہوا پر گل کاری کے تختے کھلے ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے صبا و نسیم کے دامن عاشقانِ مہجور کی آہوں سے بھرے ہوئے تھے اور جو موجِ ہوا تھی، حسرت زدوں کے پیاموں میں اُلجھی ہوئی تھی۔

میں اس دشتِ سحر نگار میں اِدھر اُدھر پھرتا رہا۔ آخر اُن عجائبات کو دیکھ کر مجھ سے بولے بغیر نہ رہا گیا، اور آپ ہی آپ باتیں کرنے لگا۔ مگر یہ معلوم ہوتا تھا کہ جو میری آواز گونج کر پلٹتی تھی، وہی میری باتوں کا جواب ہوتی تھی۔ باوجود اس کے کبھی اتفاق کرتی تھی، کبھی تردید کرتی تھی۔ غرض ان دیکھے ہمراہیوں کے ساتھ باتیں کرتا چلا جاتا تھا، جو ایک غار کے سرے پر پہنچا، دیکھوں، تو اندھیرا گھپ ہے۔ آگے بڑھا تو ذرا آنکھیں روشن ہوئیںا ور معلوم ہوا کہ ایک عمارت عالی شان بنی ہوئی ہے۔ اس کے دروازہ پر جو اشعار سونے کے حرفوں سے لکھے ہوئے تھے، اُن سے معلوم ہوا کہ یہ خیال پرستوں کا مندر ہے، اور ایک دیوتا مہاراج اس کے دروازے پر بیٹھے ہیں کہ عالمِ حماقت کے فرمانروا ہیں۔ سر پر دستار سرگردانی ہے اور تاج کی جگہ ایک سرد سر پر باندھ لیا ہے۔ قلندرانہ لباس پہلے ہیں۔ ایک ہاتھ میں کتاب لیے ہیں، دوسرے میں جُھنجھناتے ہیں۔ داہنے ہاتھ کی طرف محنت بیٹھی عرق ریزی کر رہی ہے اور آگے چراغ جل رہا ہے۔ بائیں ہاتھ پر تلون مزاجی کھڑی ہر دم نیا رنگ بدل رہی ہے؛ کندھے پر ایک عجیبُ الحرکات یعنی بندر بیٹھا اچھل رہا ہے۔ وہ کبھی جھک جھک کر سلام کرتا ہے، کبھی منہ چڑانے


صفحہ 140

لگتا ہے، کبھی ٹہنیاں ہلانے لگتا ہے۔ اس کے پیش قدم بھینٹ چڑھانے کی جگہ عجیب ڈھنگ کی بنائی تھی۔ اور پیچھے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت وہ ایسی ہی تھی، جیسا کہ اس کے گرد لکھا ہوا تھا۔ بہت سی بھینٹ اور قربانیاں وہاں چڑھی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ اکثر صورت ہاے بے معنی کے جانور وہاں لٹکتے تھے، جن کا نام ان کے معتقدوں نے نازک خیالی اور رنگین بیانی رکھا تھا۔ یہ جانور حروفِ بے آواز اور آوازِ بے حروف کے زمزمے بھرتے تھے، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ سراسر مضمون، مدعا غائب۔ بہت سی متشابہ صورت کی طوطیاں اور غلط نما بُلبلیں تھیں کہ کبھی نظر آتی تھیں، کبھی غائب ہو جاتی تھیں۔ اکثر نیم بسمل پڑے تڑپتے تھے۔ معلوم ہوا کہ تشبیہوں اور استعاروں کا گنجِ شہیداں یہی ہے۔ وہیں ایک مجلس نظر آئی جس کے اہل محفل میں کسی کی ایک آنکھ، کسی کی دونوں آنکھیں بھینگی تھیں اور جو بھینگے نہ تھے، وہ طاقی تھے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے تجنیس اور ایہام وغیرہ صنعتوں پر اپنی آنکھیں قربان کر دی ہیں۔ ایک طرف زمینِ شعر میں درخت بنا کر کھڑےکر دیے تھے، مگر ثمر اصلا نہیں تھا اور ثمر تھا، تو مزہ ذرا نہ تھا۔ یہ مندر اُن کے پجاریوں اور مہنتوں سے بھرا ہوا تھا۔ جن کی آنکھیں تو بند تھیں مگر وہم و وسواس انگلی پکڑے انہیں لیے پھرتے تھے، اور جس شغلوں میں لگا دیتے تھے، انہی میں لگ جاتے تھے۔ ایک طرف ایک پلٹن تھی، فقط ہیرے پھیرے کرتی پھرتی تھی؛ اس کا نام قواعد رکھا تھا۔ کبھی ننگے سر ہو جاتے تھے، کبھی ایک ننگے سر اور ایک ننگے پاؤں (1) ہو کر گنڈے دار ہو جاتے تھے۔ کبھی اکہرے ہو جاتے تھے، کبھی دوہرے ہو جاتے تھے، کبھی سب باہم گلے میں ہاتھ ڈال کر لوٹ جاتے تھے۔ اضطراب اور گھبراہٹ نے ایک غلط ملط کتاب بنا کر اُن کے ہاتھ میں دے دی تھی اسی کے بموجب اُن کی قواعد تھی۔
******************************************************************************************
(1) یعنی بے نقط یا منقوط، یا فقط اوپر ہی نقطے ہوں، یا نیچے ہی نقطے ہوں، یا حروف اس کے ایک ایک الگ الگ تحریر ہوں، یا سب کے سب ملا کر لکھے جا سکتے ہوں۔


صفحہ 141

آگے دیکھتا ہوں کہ ایک مجمع ایسا کھڑا ہے گویا دربار کو جاتا ہے۔ اتنے میں ایک ننگا آدمی آیا اور برابر سب کی پگڑیاں اُتارتا چلا گیا کہ اپنے لیےکپڑے بنائے۔ معلوم یہ ہوا کہ کوئی شاعر ہے کہ توشیح کا عمل کر کے کسی بادشاہ کا نام نکال رہا ہے۔ اُن سے آگے اور بھی اعلیٰ درجہ کے لوگ نظر آئے۔ دیکھتا ہوں کہ بہت سی کرسیاں بچھی ہیں۔ ان پر کچھ اشخاص کھڑے ہیں، کسی کے ہاتھ میں ایک ریت گھڑی ہے کہ وقت کا اندازہ بتائے۔ کسی نے ایک دائرہ کھینچ کر ہاتھ میں لے لیا ہے اور منہ سے نفیری بجا رہا ہے۔ مگر بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ معلوم ہوا کہ ایک امیر کا بیاہ ہوا ہے اور ایک کے گھر لڑکا پیدا ہونے والا ہے۔ یہ اُن کی تاریخیں کہہ رہے ہیں۔ اور ایک طرف دیکھتا ہوں کہ دو رُخے انسان بیٹھے ہیں، مگر منہ سے کچھ نہیں بولتے۔ معلوم ہوا کہ یہ ایسے فقرے اور شعر ہیں جو اُلٹے سیدھے دونوں طرف سے پڑھے جاتے ہیں، مگر لطفِ معنی ندارد۔

مندر کی مغربی جانب میں دیکھا کہ چند اشخاص نہایت محنت کے کام میں مصروف ہیں اور بہت سے ڈھیر ان کے آگے پیچھے پڑے ہیں۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ صاحب کیا کر رہے ہو؟ بولے کہ معموں کا ذخیرہ تیار کر رہے ہیں کیونکہ دیوتا کو اس سے زیادہ کوئی بھینٹ نہیں بھاتی۔ ان ڈھیروں میں ایسی طرح بہ طرح کی چیزیں تھیں کہ ایک کو دوسری سے نسبت نہ تھی۔ بہت سی گڈیاں بھی بندھی تھیں اور لکڑی کے انبار کی طرح اوپر تلے پڑی تھیں۔ انہی میں ایک جگہ لنگر لنگوٹے، ایک طرف جُبے اور عمامے، پھر انہیں میں پشواز اور در پاؤں کے گھنگرو چھوٹی بڑی تھیلیوں اور پوٹلیوں میں بندھے اَٹملگے ہوئے تھے۔ ایک گٹھڑی میں سے ایک کاٹ کے گھوڑے کا سر بھی نکلا ہوا تھا۔ میں وہاں سے گھبر کر چلا۔ اتنے میں ایک کاری گر نے مجھے متحیر دیکھ کر پکارا کہ جناب ایک ایک پوٹلی میں گنج کے گنج نازک خیالیاں ہیں۔ اگر آپ کہیں، تو دکھاؤں۔ میں نے سلام کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا، کہ معاف کیجیے، اس وقت مجھے ایک نہایت ضروری کام ہے۔


صفحہ 142

میں مندر سے باہر جاتا تھا، جو دیکھا کہ بہت سے آدمی آگے پیچھے بے ترتیب ایک جگہ جمع ہیں۔ مگر آمنے سامنے بیٹھے پٹاپٹ قافیہ بازی کر رہے ہیں۔ اپنی تک بندی پر آپ ہی آپ خوش ہوتے ہیں اور تفاخر کے ٹوپیاں اچھالتے ہیں۔ ابھی ان کے پاس ہی تھا، جو دیکھا کہ آگے دوہری دوہری، تہری تہری تُک بندیاں ہو رہی ہیں۔ انہیں سُن کر میں بے اختیار ہنس پڑا۔ اُن کے پاس ہی دیکھا کہ بہت سی خندہ جبیں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، مگر جسے دیکھتے ہیں، اسے کوئی اور شخص سمجھ کر ہنسنے لگتے ہیں، اور ایسی مسخرا پن کی غلطیاں کرنے کے لیے جوڑی جوڑی ہو گئے ہیں۔ ہر جوڑی سر سے پاؤں تک ایک ہی لباس پہلے ہے، مگر اصل میں ایک کو دوسرے سے مناسبت بھی نہیں۔ کبھی کسی بوڑھے پُر اتم کو لڑکا فرض کر لیتے ہیں۔ کبھی مرد کو عورت سمجھ لیتے ہیں، کبھی حبشی کی جگہ فرنگی بٹھا لیتے ہیں۔ اور اس پر آپ ہی آپ خوش ہو کر واہ واہ کرتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ معموں کا جمگھٹ ہے۔

جب ان طلسمات کو دیکھتے دیکھتے میرا سر پھر گیا، تو گھبرا کر وہاں سے نکلا۔ باہر دو چار کھیت آگے بڑھا تھا، جو دفعتہً ایک ہیبت ناک محل اور ساتھ ہی طبلِ جنگ کی آواز آئی اور ایسا معلوم ہوا، گویا کوئی فوج جنگی چڑھی چلی آتی ہے۔ آخر جو میں نے ویاس کیا تھا، وہی نکلا، یعنی دور سے ایک روشنی کا غبار نمودار ہوا۔ اس کے درمیان ایک مرد باوقار، صاحب شکوہ، سریر اعزاز کا تاج رکھے، گھوڑے پر سوار چلا آتا ہے۔ جو اُسے دیکھتا تھا، کہتا تھا کہ سچ ہے اور برحق ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ پر اس کا فرزندِ دلبند خراماں خراماں آتا تھا۔ پشت پر بہت سے ترکش لٹکتے تھے۔ ہاتھ میں چڑھی کمان اور کمان میں تیر جوڑا ہوا تھا۔ اُس کا نام حسنِ بیان تھا۔ جوں ہی ان دونوں کے آنے کی خبر اُڑی، ظرافت بے معنی کے تمام ملک میں ایل تہلکہ پڑ گیا۔ عالمِ حماقت کے دیوتا یعنی اوت مہا بھوت بداتِ خود اپنی ایک کالی گھٹا کے رنگ میں فوج لے کر اتھے۔ بادل کی طرح گرجتے، اور مینہ کی طرح برستے، سر پا آ موجود ہوئے۔ اور جن جن نامعقولوں


صفحہ 143

کو میں نے مندر میں دیکھا تھا، وہ انبوہِ بے تمیزی اندھیری رات کی طرح ایک لشکر کی صورت میں نمودار ہوئے، اور جھٹ صفیں باندھ لیں کہ دشمن کا آگا روکیں۔ جو جو معتقد جان نثار تھے، انہیں حکم پہنچا کہ گھوڑے اُڑا اُڑا کر سامنے اُچھلو اور لغات کی لفاظی اور مبالغوں کی دھوم دھام سے غل مچاؤ کہ حریف سنتے ہی ڈر کر بھاگ جائے۔ چونکہ حریف بہت آہستہ آہستہ کوچ کر رہا تھا، اس لیے یہاں کے سرحدی لوگوں کو بھی موقع مل گیا کہ بھیڑ اکٹھی کر کے الگ کھڑے ہو جائیں اور اُس وقت کے منتظر رہیں کہ اخیر کو میدان کس کے ہاتھ رہتا ہے۔

شائقینِ سخن ذرا اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ سرحدی ملک خوش بیانیِ مرکب کے فرقہ ہاے مختلفہ سے آباد تھا یعنی کچھ اصل، کچھ بد اصل۔ چنانچہ ان کی فوج کی عجیب شان تھی۔ مردوں کے جسموں میں برچھیاں چھبی ہوئی تھیں۔ عورتوں کی آنکھوں کی جگہ آتشی شیشے لگے ہوئے تھے۔ اگر مردوں کے دل انگارے تھے، تو عورتوں کی چھاتیاں برف کی تھیں۔ غرض کہ جیسے عجائب و غرائب مخلوقات سے یہ لشکر آراستہ تھا، اُس حالت کی رنگا رنگی بیان کے احاطہ میں محصور نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جس وقت حریف کا نشان نمودار ہوا، دفعتہً ان میں ایل ہل چل مچی، اور فوراً دو حصہ ہو کر ایک حصہ سچ کے سایۂ علم میں جا کھڑا ہوا، دوسرے اوت مہا بھوت یعنی جھوٹے دیوتا کے نشان کے نیچے ہو گیا۔ دیو دروغ اپنا کالا پہاڑ سا ڈیل ڈول لیے چند قدم آگے بڑھے۔ مگر جوں ہی سچ کی روشنی اس پر پڑنی شروع ہوئی، وہ اس طرح بے معلوم تحلیل ہونا شروع ہوا کہ تھوڑی ہی دیر میں اصلی جسم کی جگہ فقط ایک پرچھائیں سا نظر آنے لگا۔ آخر ادھر سے سچ بھی آگے بڑھا۔ جب اس کی روشنی پاس آئی تو وہ دیو روسیاہ نیست و نابود ہو گیا اور جہاں کالا پہاڑ تھا، وہاں خاک سی اُڑ کر رہ گئی۔ تم نے آفتاب کو دیکھا ہو گا، کہ جوں جوں نکلتا آتا ہے، چھوٹے موٹے تارے برابر چھپتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ


صفحۃ 144

اُن کا نقشِ وجود سامنے کے نصف کُرہ سے بالکل محو ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہاںمعلوم ہوا کہ دیو دروغ یعنی اوت مہا بھوت تو بالکل نیست و نابود ہو گئے اور نہ فقط دیو دروغ بلکہ سارا لشکرِ شیطان جو ہمدردی اور جان نثاری کو حاضر تھا، دم کے دم میں ہوا ہو گیا۔ طلسمِ باطل کا مندر زمین میں غرق ہو گیا۔ مچھلیاں دریاؤں میں چلی گئیں۔ پرندے چڑیوں کی طرح اُڑ گئے۔ جنگلی حیوان جنگل میں چلے گئے۔ اور اب زمانہ نے نئے سرے سے اصلی رنگ بدلا یعنی چشموں کی روانی، مرغانِ خوش الحان کے چہچہے، پھولوں کی خوشبویاں، روے زمین کی سرسبزی نے سچا رنگ نکالا۔ اگرچہ میں ابھی پڑا سوتا تھا، مگر اس عالم میں ایسا معلوم ہوا کہ اب خوابِ غفلت سے میری آنکھ کھل گئی اور ان طلسمی عجائب و غرائب کی جگہ پر سرسبز جنگل، اصلی نہریں، ہری بھری کیاریاں ہو گئی ہیں۔

جن شعبدوں کے اچنبھے نے میری عقل و حواس کو درہم برہم کر دیا تھا، جب وہ سامنے سے دور ہوا، تو میں نے خوش بیانی اور صداقت کے جلوہ کو نظرِ غور سے مشاہدہ کیا، کیونکہ انسان ایک چیز سے نظر اٹھائے بغیر دوسری چیز کو نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ ان کے بعد مجھے ایک انبوہ نظر آیا، جن میں شاہنامہ کی بحرِ متقارب فردوس کے پھولوں کا تاج سر پر رکھے شمشیرِ برہنہ علم کیے کھڑی تھی۔ خاقانی قصائد کے تاتار میں خاقانِ چین بنا ہوا تھا۔ پہلو میں انوری اور بدر چاچی مضامین سے نُور اُڑا رہے تھے۔ خاص خاص قسم کی مثنویاں، غزلیں اور رباعیاں اپنے اپنے درجہ سے اس کے دائیں بائیں اور پس و پیش آراستہ تھیں۔ نثر اپنے پیادوں کی صفیں باندھ رہی تھی۔ مرثیوں کی نظم و نثر غم ناک سنبل سے بال بکھیرے، جامۂ خون آلود پہنے، خاموش کھڑی تھی۔ ہجو کے ہونٹوں پر تبسم تھا، مگر خنجر زیر قبا لیے کھڑی تھی کہ جدھر موقع پاؤں گی، ہرگز نہ چوکوں گی۔ فصاحت کا علمِ نصرت بلند تھا اور اس سے پہچانا جاتا تھا کہ بجائے پھریرے کے اس پر بجلی کوند رہی تھی۔ اس سارے مرقع کے پیچھے لطائف و ظرائف بھی نسیم و صبا کی طرح خراماں خراماں پھر رہے تھے، اور درحقیقت مہم کے شروع


صفحہ 145

ہونے سے پہلے انہیں یہاں جمایا تھا کہ ایسا نہ ہو۔ دشمن سے جا ملیں کیونکہ وہ دلوں سے ایک نگاہ ادھر بھی رکھتے تھے۔ انہیں کے پہلو میں مشاعرہ کا جلسہ تھا اور حافظؔ اور سعدیؔ کی غزلوں سے شرابِ شیرازی کا دور چل رہا تھا۔ سلطانِ خوش بیان کے ظہور سے میرے دل پر ایک ہیبت طاری ہوئی، مگر ساتھ ہی خوشی کا بھی اثر ہوا۔ اس کی نگاہ موہنی تھی کہ دل سے پیار آتا تھا۔ مگر ساتھ ہی ایسی تیز تھی کہ دل کانپا جاتا تھا۔ میں اس کی طرف نظرِ غور سے دیکھ رہا تھا کہ اُس نے اپنے تیروں کا ترکش لے کر مجھے دینے کا اشارہ کیا۔ میں نہایت خوش ہوا اور اس کے لینے کے لیے گھبرا کر ہاتھ بڑھایا۔ مگر ہاتھ جو کسی سے ٹکرایا تو دفعتہً آنکھ کھل گئی۔
**********************************************


صفحہ 146

سیرِ عدم
مسافرانِ عدم کے پسماندوں کی سرگزشت

جب کوئی نہایت چاہیتی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اور معلوم ہو کہ اب ہاتھ نہ آئے گی تو کیا دل بے قرار ہوتا ہے اور جان صحرائے تصور میں کیسی اس کے پیچھے بھٹکتی پھرتی ہے! مگر جب تھک کر ناچار ہو جاتی ہے، تو اداس بے آس ہو کر آتی ہے اور اپنے ٹھکانے پر گر پڑتی ہے۔ عقل و فہم البتہ دلِ غم کین کو سہارا دے سکتے ہیں۔ مگر دل ایسا بھولا بھالا شخص ہے کہ ذرا نہیں سمجھتا اور جو غذا اس کے جی کو بھاتی ہے، اسی کو ڈھونڈتا ہے۔ درحقیقت یاد جو دل کی ہمسائکی ہے، وہ ہمیشہ غم کو خانۂ دل میں بلاتی ہے، اور ایام گذشتہ میں جو مزے اٹھائے ہیں، یا دولت کھو کر عیش اُڑائے ہیں، اُن کی گذری ہوئی بہاروں کے افسانے سناتی ہے۔ کسی کو اس دولت و عظمت کا غبار اُڑتا دکھائی دیتا ہے، جس کی سواری گزر گئی۔ کسی کو اقربا کی آوازیں اور دوستوں کی باتیں سُناتی ہے، جو شہرِ خموشاں میں پڑے سوتے ہیں۔ کبھی عزیزوں کی صورتوں اور ان کی طبعیتوں کی تصویریں دکھاتی ہے، کبھی پیاروں کے پیار اور ان کی محبتوں کے افسانے سُناتی ہے۔ دل نے حسرتؔ اور اشتیاقؔ کو بھی اپنے گوشے میں رکھ چھوڑا ہے۔ وہ ان باتوں سے ایسے پھولتے اور پھلتے ہیں کہ دل پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ مگر زمانہ اور اس پر


صفحہ 147

وقت کا گزر جانا حالتِ مذکورہ کو کچھ کچھ کمزور کرتا ہے۔ ساتھ اس کے یا تو عقل و فہم آ کر حسرت و اشتیاق کو دباتے ہیں یا کوئی اور باہر کا شوق اُن سے بھی زبردست آتا ہے؛ وہ اُن کا زور گھٹاتا ہے۔

میں انہیں خیالات میں پڑا تھا، جو نیند آ گئی، دیکھتا ہوں کہ گویا ایک چٹیل میدان، صحرائے بیابان سمندر کا کنارہ ہے اور میں وہاں بہت سے لوگوں میں کھڑا ہوں کہ جن کے سوگوار چہرے اُن کے دل کے غم و اندوہ کی گواہی دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے جو دریا بہ رہا تھا، اس کا چپ چاپ بہاؤ اور سناٹے کا چڑھاؤ پکار رہا تھا کہ یہاں تھاہ کا پتا نہیں۔ اس دریا کو دریاے اشک کہتے ہیں۔ اُسی دریا میں ایک ٹوٹی پھوٹی سی کشتی بھی پڑی ہوئی تھی۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ بہت سے مسافر پار جانے والوں نے اضطراب اور بے صبری سے اس میں بیٹھ بیٹھ کر اُسے خراب کر دیا ہے۔ مصیبت اس کشتی پر ملاحی کرتی تھی۔ چنانچہ وہ اسے فوراً ہمارے پاس لے آئی۔ ہم بھی سوار ہونے کو تیار ہی تھے کہ اتنے میں ایک بی بی دیرینہ سال شرم و حیا کا برقعہ اوڑھے، حلم کی لاتھی ٹیکتی آئی۔ شفقتِ مادرانہ سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا اور سفرِ دریا کے خطر بیان کرنے لگی، تاکہ ہم کسی طرح سے اپنے ارادہ سے باز رہیں۔ اکثر لوگوں نے اُسے پہچان لیا کہ بی بی صابرہ خاتون ہیں۔ چنانچہ بعض اشخاص جو رو رو کر آنکھوں سے دریا بہا رہے تھے، انہوں نے اس کا کہا مانا اور پیچھے ہٹ ائے۔ باقی ہم میں سے سوار ہوئے۔ بڑھیا بے چاری کی نیک ذاتی اور اُس کے دل کی خیر خواہی نے مصیبت زدوں کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ اور کہا کہ اے فرزندو! اگر تم کہو، تو میں بھی تمہارے ساتھ سوار ہو لوں کہ بھلا اگر سفر میں دقت پڑے تو تمہیں تسکین یا صلاح مناسب تو دے سکوں۔

غرض ہم کشتی میں سوار ہو کر سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ کشتی چل نکلی اور بادبان


صفحہ 148

کُھل گئے۔ مگر ان بادبانوں میں فقط آہوں کا دُھواں بھرا تھا کیونکہ اس ملک کی ہوا یہی تھی۔ رستہ میں اگرچہ بہت سے صدمے اور تہلکے اٹھائے، مگر اکثر لوگ ہم میں سے ایسے تھے کہ انہیں اس کی پروا بھی نہ تھی۔ غرض ہزار دقت کشتی کنارہ پر لگی۔ جب پار اُترے، تو دیکھا کہ ایک جزیرہ ہے۔ مگر وہاں ایسی دھند چھائی ہوئی تھی کہ سورج نے اپنی شعاعوں کے ہزاروں تیر مارے، ایک پار نہ جا سکا۔ سامنے ایک بھیانک اندھیرا اس طرح پھیلا ہوا تھا کہ جو لوگ ہم میں ذرا دلوں کے نرم تھے، وہ تو اس مقام کو دیکھ کر سخت گھبرائے اور ناچار ہو کر صبر کے دامن کو ہاتھ لگایا۔ چنانچہ ان نے ایک طرف کو اشارہ کیا۔ اور وہ ہمیں وہیں چھوڑ کر اُدھر اتر گئے۔ پھر یہ بھی ہم نے سُنا کہ اس کے پتے کے بموجب جزیرہ کی سرحد پر پہنچ کر انہیں ایک پایاب مقام ہاتھ آ گیا۔ میں ابھی تک انہیں لوگوں کے ساتھ تھا، جن کا یہ ارادہ تھا کہ جزیرہ کے بیچوں بیچ ہی میں جا کر دم لیں گے۔ چنانچہ وہ سب نہایت آہستگی اور سنجیدگی سے جیسے کوئی جنازہ کو لیے جاتا ہے، چلے جاتے تھے۔ انہی ہم سفروں کے حلقۂ رفاقت میں میں بھی چلا جاتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم ایک سر سبز بن میں جھاڑیوں کے اندر اندر چلے جاتے ہیں اور اُن درختوں کو قبرستان پر ہی سایہ کرنے کا عشق ہے۔ یہاں کچھ آدمی بھی رہتے معلوم ہوتے تھے، مگر وہ بھی نالہ و زاری میں مصروف تھے کہ کسی طرح انہیں تسکین نہ ہوتی تھی۔ کوئی شاخِ درخت کو پکڑے کھڑا تھا اور زار زار روتا تھا۔ کوئی اپنے ہاتھ کو مروڑتا تھا اور دل مسوس کر رہ جاتا تھا۔ کوئی چھاتی پیٹتا تھا، اور بال نوچتا تھا۔ کوئی خاموش تھا، مگر ایسا معلوم ہوتا تھا، گویا صدمۂ غم سے سکتہ کا عالم ہو گیا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر اور آوازوں کو سُن کر ہمارا غم اور بھی زیادہ ہوا۔ بلکہ ایک رفیق تو ایسا بے تاب ہوا کہ رستہ پر ایک درخت کا ٹہنا جھکا ہوا تھا، اس نے ارادہ کیا کہ اس میں لٹک کر رہ جائے، مگر ساتھیوں نے تسلی دلاسا دے کر سنبھالا۔


صفحہ 149

اب ہم چلتے چلتے ایسے مقام پر پہنچے کہ زمین آسمان اندھیر اور بالکل سنسان مقام تھا۔ جنگل کی سائیں سائیں، ٹہنی ٹہنی سے رونے کی آواز، ہوا کا تھٹاؤ، دلوں کے دھڑکنے سے جب ہمارا حال بہت ابتر ہوا، تو سب کو یقین ہو گیا کہ اب ہم کنجِ غم کے پاس آ پہنچے۔ وہ ایک گہری گھاٹی کے بیچ میں اندھیرا گھپ ایک لمبا غار تھا۔ اسی کے رستوں کے ایچ پیچ میں کچھ کچھ پانی بھر رہا تھا، مگر عجب رنگت پائی تھی کہ نہ کالی، نہ لالی؛ وہی نیلا پیلا کیچڑ پانی تھا کہ نالہ و زاری کی آوازوں پر آہستہ آہستہ سرسراتا تھا اور مارے غم کے دل کو لہو پانی کر کے بہاتا تھا۔ غارِ مذکور کے اندر ایک تہ خانہ تھا جس کے دروازہ پر آہ کے قلم اور تیرہ بختی کی سیاہی سے لکھا تھا کہ کلبۂ احزان کا دہانِ غم یہی ہے۔ اندر اس غارِ مصیبت کے دیو غم انجام کا وجود بد نمود نظر آتا تھا۔ اس کے رستے میں کوڑا، کانٹے اور سانپ بچھوؤں کے ڈنک بکھرے ہوئے تھے۔ جس تخت پر اس کا جلوس حاکمانہ تھا، وہ ایک ٹوٹی پھوٹی پہاڑی چٹان تھی۔ تکیوں کی جگہ پیچھے اور پہلوؤں میں کئی کڈھنگے بے ڈھنگے پتھر ڈال دیتے تھے۔ سر پر تاجِ بے کلاہی دھرا تھا، جس پر اندھا دُھند اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اور بارِ غم کے مارے سر کو بازو پر شہار دیئے ہوئے تھا۔ اس شان سے اپنی غم پرست و غم آیین رعایا پر حکمرانی کرتا تھا، اور افسردہ پژمردہ، چُپ چاپ، خاموش، خود اپنے خیال میں گم ہو کر حماقت کی تصویر بن گیا تھا۔

اس کے ایک طرف ملامت و افسردگی کھڑی تھیں کہ مارے ضعف کے جُھکتے جُھکتے نقش زمین ہو گئی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ غش آ گیا۔ دوسری طرف فکر تھا کہ دم بدم کی سرگوشی سے ہزاروں وہم و وسواس کے عذاب میں گرفتار تھا۔ زردی سر پر کھڑی رومال ہلاتی تھی کہ رنگ دُھواں ہو کر اُڑے جاتے تھے۔ پہلو میں درد بیٹھا تھا کہ جونک کی طرح اندر لہو پیے جاتا تھا۔ تمام غم خانہ میں ویرانی و بربادی چھائی ہوئی


صفحہ 150

تھی اور اس کھنڈر کے چھیدوں میں کئی چراغِ سحری بھی ٹمٹما رہے تھے، جن کے نیلے نیلے شعلے اُٹھتے تھے اور اپنی ہی نلاہٹ میں بیٹھ کر اُٹھ کھڑے ہوتے تھے کہ وہ غم کی حالتِ اصلی کو اور بھی زیادہ خوف سے روشن کرتے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اکثر لوگ رستہ کے دھکوں کے مارے جاتے ہی گر پڑے۔ چنانچہ جو ظالم ستم گار تخت کے آس پاس کھڑے تھے، اُن کے حوالے ہو گئے۔ بعض خوش نصیب تھے کہ رنج و عذاب سہتے سہتے دروازے کی طرف بھاگے۔ وہاں بی بی صابرہ خاتون اُن کے استقبال کے لیے منتظر کھڑی تھیں کیونکہ جب ہم اندر گئے تو اس بیچاری کو وہاں چھوڑ گئے تھے۔ اس کی رفاقت ایسے وقت میں نہایت غنیمت معلوم ہوئی۔ چنانچہ اس نے ہمیں اس کلبۂ احزان کے گرد ایک چکر دیا۔ جب پچھواڑے کی طرف آئے، تو ایک بلندی نظر آئی۔ اس پر چڑھ کر دفعتہً معلوم ہوا کہ گویا ہم اس ماتم درہ کے نکاس کی راہ پر آ گئے۔ اس بلندی پر اس نے کہا کہ فرزندو! یہاں ذرا ٹھہر کر دم لےلو کہ تمہارے ہوش و حواس ٹھکانے آ جائیں۔ چنانچہ فی الحقیقت خمارِ غم کی سرگرانی سے آنکھیں ہماری جو زمین میں لگی ہوئی تھیں، اب ذرا کھلتی معلوم ہوئیں، اور ایک قسم کی خوشی محسوس ہوئی جس نے زبانوں پر تسکین کا مزہ دیا۔ یا تو دنیا اندھیر معلوم ہوتی تھی، یا ایسا معلوم ہوا گویا ہم چھاؤں میں ہیں۔ یہاں ہم نے اپنے ہمراہیوں کے شمار پر بھی خیال کیا کہ کتنے لوگ جزیرہ میں داخل ہوئے تھے۔ چنانچہ اُن کیکثرت سے دل کو ایک اور قسم کی خوشی ہوئی، جس کو تسلی سمجھنا چاہیے۔ ہر چند یہ خوشی کہ اوروں کو مبتلاے ٹم دیکھ کر حاصل ہوئی تھی، معیوب ہے، مگر اس وقت قابل عذر تھی کیونکہ وقت کو خیال کرو۔ دیکھو کہ ہم خود کس آفت میں مبتلا تھے۔ اسی واسطے ہم کو فقط ان کے حالِ زار پر رحم نہ آیا۔ ہاں یہ افسوس آیا کہ ہاے ہم سب کیسی بے کسی اور بے چارگی کی حالت میں گرفتار ہیں۔ بلکہ اس میں کچھ اُنسِ انسانیت اور رحمِ ہمدردی بھی شامل تھا۔ اگرچہ دل اس وقت ایسے اندھیرے اور عالمِ مدہوشی


صفحہ 151

میں تھا کہ اُسے کسی بات کا ہوش نہ تھا۔ مگر جوں جوں آگے بڑھے، ہوش میں آتا گیا۔ تھوڑی دور چل کر ایک دوسرے کو پہچاننے لگے۔ بلکہ ایک ایک کو غمگین دیکھ کر پوچھنے لگا کہ ہم کب ملے تھے،ا ور وہ کیا مصیبتیں تھیں کہ جن کے لیے ہم سب جمع ہوئے تھے۔ ہر ایک نے اپنی سرگزشت بیان کی۔ سارے ماجرے سن کر سب نے ایک دوسرے کی تکلیف کو تولا اور باہم مقابلہ کیا۔ پھر آپس میں ہی رحم کر کے ایک دوسرے کے حال پر بہت افسوس کیے۔ غرض اس طرح غمناک قافلہ نے رفیقوں کو صبر و تسلی کے توشے دے کر تھوڑی سی مصیبت کی راہ قطع کی۔ آخر ان درختوں کا تنگ راستہ ذرا کھلنا شروع ہوا اور ہوا بھی کچھ کچھ صاف ہونے لگی۔ تھوڑی دُور سے صبح کا سفیدہ غبار کی طرح اُڑتا معلوم ہوا۔ وہ ایسا رہ رہ کر اُبھرتا تھا، جیسے کہیں دور بجلی چمکتی ہو۔ چمکارے اس کے ذرا ماند تھے، مگر باوجود اس کے دل کو فرحت بخشتے تھے۔ چنانچہ اس ملک میں اُسے دل کا بہلاوا کہتے تھے۔ تھوڑی دیر میں یہ روشنی زیادہ نظر آنے لگی اور پھر زیادہ تر روشن اور دیر تک ٹھہرنے لگی۔ بعد اس کے وہ آہیں جنہوں نے اب تک زمین و آسمان کو دھواں دھار کر رکھا تھا، نسیم و صبا کی سنساہٹ بن گئیں، اور تمام جزیرہ پر جو دیو ہیبت کا سا چھایا ہوا تھا، وہ بھی کم ہونے لگا۔

اب ہم چلتے چلتے اس پایاب مقام پر پہنچے، جہاں سے ہمیں پار اُترنا تھا۔ یہاں دیکھیں تو وہ ماتم زدے بھی بیٹھے ہیں، جو پہلے ہمارے ساتھ اسے ادھر اُترے تھے، اور پھر کلبۂ احزان کے دروازہ سے گھبرا کر بھاگے تھے۔ لیکن یہاں بیٹھے انتظار کر رہے تھے کہ جس طرح ساتھ ادھر آئے تھے، ساتھ ہی پھر دنیا میں دوبارہ پیدا ہوں، جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ بھی کلبۂ احزان کی تکلیفوں میں شریکِ حال تھے۔ اگرچہ اور طرف پانی بہت گہرا تھا، مگر ادھر بالکل پایاب تھا۔ جب ہم دریا اُترے، تو تمام دوست آشنا استقبال کو آئے کیونکہ انہیں ہماری عمر دوبارہ کی مبارک باد دینے کے لیے تسلی بلا کر لائی تھی۔ ان میں سے بعض تو ہمیں اتنے دن تک جُدا رہنے کے لیے ملامت کرتے تھے۔ بعض


صفحہ 152

کہتے تھے کہ خیر جو ہوا، سو ہوا؛ پھر اُدھر جانے کا ارادہ نہ کرنا۔ بعض دانش مندوں نے سفر کا حال بھی نہ پوچھا کہ مبادا پھر رنج تازہ ہو جائے۔ مگر یہ ہر شخص نے کہا کہ اگر تقدیر سے ایسا سفر پیش آئے، تو صبر سے بہتر کوئی رفیقِ راہ نہیں۔ یہاں صبر نے چاروں طرف سے اپنی تعریفیں اور شکریہ سُن سُن کر ہمیں تسلی کے سپُرد کر دیا۔ تسلی نے اس پر تبسم کیا۔ تبسم کے ساتھ ہی اُدھر سے آسمان کا رنگ ارغوانی ہو گیا اور شبِ ماتم صبح ہو کر روز روشن بن گئی،
******************************************************
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 118

کمال پر مفتخر اور نازاں ہوتے ہیں۔ ہر چند امور مذکور بجائے خود قابل فخر و ناز کے ہیں، مگر بشرطیکہ ان میں کمال نصیب ہو۔ فی الحقیقت اسے غلط فہمی کہنا چاہیئے جو کہ نتیجہ حماقت اور ایک قسم کی کوتاه اندیشی کا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ بھی ابتدا میں ناواقفیت عوام کے سبب سے رونق بازار پاتے ہیں، مگر چند درجہ طے کر کے گر پڑتے ہیں اورسخت ندامت اٹھاتے ہیں۔ افسوس کہ کوئی زمانہ اس قسم کے گناہوں سے خالی نہیں، بلکہ روز بروز حال ابتر نظر آرہا ہے۔ اس لیے یہ مضمون ابنائے جنس کی عبرت کے لیے ایک استعارہ اور کنایہ کے رنگ میں لکھا جاتا ہے۔ ہر چند یہ رنگ صورت مضمون کے منہ پر ایک باریک نقاب ہے، لیکن اگر اہل نظر چند ساعت کے لیے نظر غور کو تکلیف دیں گے، تو یہ استعارے اور کنائے صراحت اور وضاحت کے پہلو میں رکھے ہوئے پائیں گے۔

دل تیرا آپ پردہ ہے دیدار کے لیے
ورنہ کوئی نقاب نہیں یار کے لیے

دنیا میں اکثر قباحتیں اور حماقتیں ایسی ہیں کہ ہم سب ان میں آلودہ ہیں۔ مگر معلوم نہیں ہوتیں۔ درحقیقت وہ ہماری رسائی فہم سے بہت اونچے طاق پر رکھی ہیں اور کچھ ایسے ڈھب سے سجائی ہوئی ہیں کہ ہر بدی عین خوبی نظر آتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ وہ آلودگی ہمیں کچھ بری بھی نہیں معلوم ہوتی، بلکہ بجائے اس کے رفع کرنے یا چھپانے کے خود دکھاتے ہیں اور آرزوئیں کر تے ہیں کہ اپنی قبباحتوں میں ترقیاں کریں اور انھیں میں ہماری قدردانیاں ہوں۔ چنانچہ سینکڑوں واہیات، ہزاروں لغو خیالات، نئے مسخراپن ظرافتوں کے چمن ہیں کہ وہی ہماری تفریح طبع اور خوش دلی کا سرمایہ ہو رہے ہیں۔ اور یہ رنگینیاں ہمیں ایسے ایسے رنگوں میں رنگین کر کے ابنائے جنس کے سامنے جلوہ دیتی ہیں کہ ہم بھی انھیں میں خلعت افتخار لیتے ہیں۔ اس فخر بےہودہ اور خیال

صفحہ 119

بے بنیاد کی خوشی میں خدا جانے کیا لطف دیکھا ہے کہ سیانے دنیاداروں نے اس کی دل فریبیوں کا اشارہ کرنے کے لیے ایک لطیف اصطلاح چھانٹی ہے یعنی
(جنت الحمقاء)

لفظ آخر میں شاید لوگوں کو کر غلطی کا خیال ہو اور جو کچھ میں نے کہا، انہیں اس کی نسبت کچھ اور وضع دکھائی دیتی ہو۔ لیکن مجھے اب اس کا امتحان کرنا بےجا ہے کیونکہ میں جو اس وقت آنکھیں مل رہا ہوں، تو یہی خواب دیکھ رہا تھا۔
ابھی سوتے سوتے ایسا معلوم ہوا گویا کسی نے مجھے ایک پہاڑ پر پھینک دیا ہے۔ مگر عجیب پہاڑ ہے کہ سبزہ سے لہراتا، پھولوں سے چہچاتا، جا بجا پانی لہراتا ہے۔ چڑھائی اس کی ہمت بلند کا نمونہ ہے۔ مگر باوجود اس کے اعتدال پر ہے کہ دم نہیں چڑھنے دیتی۔ بلکہ ساعت بہ ساعت سینہ کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ میں ادھر ادھر پھرنے لگا۔ اتنے میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا تو میدان فراخ پایا، اور دور سے نظر آیا کہ ایک جگہ آب رواں میں پاؤں لٹکائے کوئی شہزادی بیٹھی ہے کہ زیور اور لباس سے طاؤس مرصع کا عالم ہے، مگر آنکھ سے بھینگی ہے، اور اسی بھینگی آنکھ پر ایک رنگین عینک بھی لگائے ہے کہ اسی سبب سے اسے کوئی شئے حالت اصل پر نظر نہیں آتی۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ ملکہ کی غلط فہمی یہی ہے اور کل اہل عالم کی غلط فہمی گویا اسی نگاہ پر منحصر ہے۔
برابر اس کے ایک اور عجوبہ روزگار نظر آئی کہ اس کے بے انتہا سر ہیں اور دھڑ ایک۔ جس بات کی پسند یا ناپسند پر سر ہلاتی ہے، تمام جہان کے سر اسی طرح ہل جاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پسند عام اسی کا نام ہے۔ ان میں سے ایک غلط نمائی کرتی ہے، اور دوسری دل ربائی کر کے جس شئے پر چاہتی ہے سب کو شیفتہ و فریفتہ کر لیتی ہے۔ یہ دونوں رات دن جادو گری میں مصروف ہیں اور

صفحہ 120

تسخیر خلائق کے عمل میں شہرہ آفاق ہوگئی ہیں۔
لوگوں کا یہ حال دیکھا کہ چاروں طرف سے انبوه در انبوه امڈے چلے آتے ہیں اور اگرچہ آمد کے رستے بھی دور ہیں مگر ہر رستہ انہی دونوں کی طرف جاتا ہے۔ آنے والوں میں بعض آدی جو خود آرائی کے رنگ سے رخ چمکائے ہوئے اور زیبائی کے روغن سے سر چکنائے ہوئے تھے، انھیں کچھ ہدایت یا اشارت کی حاجت نہ تھی، خود بخود غلط فہمی کی طرف چلے جاتے تھے، اور وہ عالم فریب ایک ایک شخص کو اس کی طبیعت کے موافق اسی طرح لبھاتی تھی کہ لٹو ہوجاتا تھا۔ بعد ازاں کچھ ایسی کل مروڑتی تھی کہ خود پسند عام کے پھندے میں جا کر گلا رکھ دیتا تھا۔
غرض کہ اسی طرح پھرتے پھرتے ہم ایک میدان جانفرا میں جا نکلے۔ وہاں دیکھیں تو پسند عام چہل قدمی کر رہی ہے اور بہت سے لوگ جو ہم سے بھی وہاں پہنچے ہوئے تھے، انہیں پھسلا رہی ہے۔ آواز اس کی ایسی رسیلی تھی کہ دل مست ہوئے جاتے تھے۔ جب بات کرتی تھی، تو منہ سے پھول جھڑتے تھے۔ بولتی تھی، تو سانس کے ساتھ خوشبو کی لپٹیں آتی تھیں۔ لطف یہ تھا، جس شخص سے بات کرتی تھی، جدا زبان اور جدا طرز بیان تھا۔ اور جو سنتا تھا، یہی خیال کر رہا تھا کہ وہ جو ہر بےمثل جو خاص میری ذات باکمال میں قابل قدر ہے، اسی کی بابت یہ گفتگو ہو رہی ہے۔ بس گویا اس جنت بے زوال کا فرمان ملا، جس کے انعام کا استحقاق کلی مجھ میں موجود ہے۔

غرض اسی حال میں ہم سب کے کھچے کھچے اس کے پیچھے چلے جاتے تھے اور مسافت راہ میں یا تو اپنی خوبیوں کی خود آپس میں تعریف کرتے جاتے تھے، یا اپنی خیالی خوبیوں پر اپنی اتراتے تھے، یا جنھیں اپنی وضع کا نہ پاتے، ان کی ہجو کرتے جاتے تھے۔ کچھ اپنے اپنے مدارج کمال پر آپس میں لڑتے جھگڑتے

صفحہ 121

چلے جاتے تھے۔
غرض اسی عالم میں چلتے چلتے ایک باغ نظر آیا جو کہ اسم با مسمیٰ اندھیریا باغ تھا۔ اس کے دروازے پر دیکھیں، تو غلط فہمی بیٹھی ہے۔ مگر جیس مکان میں وہ بیٹھی تھی، اسے عمدا ایسی حکمت عملی سے بنایا تھا کہ صورت اس کی دھندلی سی نظر آتی تھی۔ اس نے کچھ سفید سا لباس پہنا ہوا تھا کہ جس سے دیکھنے والوں کو ملکہ صداقت کا دھوکا ہوتا تھا اور چونکہ شہزادی صداقت پری ایک مشعل بھی ساتھ رکھا کرتی ہے جس سے اپنے عاشقوں کو حسن خدا آفرین کی خوبیوں کا جلوہ دکھاتی تھی، اس نے اس کے جواب میں داہنے ہاتھ پر شیشہ جادو اور بائیں ہاتھ پر سحر سامری کی چھڑی رکھی تھی۔ انہی ٹونے ٹوٹکوں سے دلوں کو لبھاتی تھی اور دھوکے دغا سے سب کو پرچاتی تھی۔ چنانچہ کبھی کبھی بڑی تمکنت سے ہاتھ بڑھا کر اس چھڑی کو اٹھاتی اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتی تھی۔
اس کے علاوہ نرگس جادو بہت ناز و انداز کے پھول اور نمود و نمائش کی کلیاں گودیں بھرے کھڑی تھی، انھیں اہل اشتیاق کے سامنے بکھیرتی جاتی تھی۔

دفعتاً عصا کا اشارہ آسمان کی طرف ہوا اور ساتھ ہی اس کے سب کی نگاہیں اوپر اٹھ گئیں۔ ایک نیلا قطعہ آسمان کا ایسا صاف و مصفا دکھائی دیا ہے جیسے صبح بہار میں فلک فیروزی کا رنگ نکھرا ہوا ہو۔ اس فضائے دلکشا میں ملکہ خام خیالی کا محل نظر آیا کہ آسمان سے باتیں کرتا تھا، مگر نہ معلوم ہوتا تھا کہ کون سی بنیاد ہے جس پر قائم ہے۔ فقط پیچ در پیچ بادلوں کا ایک زنجیرہ تھا کہ جادو کے زور سے ادھر کھڑا تھا، اس کی چڑھائی کا راستہ جو ہمارے زیر قدم تھا، قوس قزح کی طرح خوش رنگ و خوشنما تھا۔ نسیم جاں بخش جو ادھر ادھر سبزہ پر لوٹتی تھی، ہر جھونکے میں عقل و حواس پر جادو کی پڑیاں مارتی تھی۔ تمام دیواریں طلسمات کے رنگ سے دم میں سنہری تھیں، اور دم میں رو پہلی۔ سب سے نیچے کے درجے کے ستون اگرچہ باغ ارم والی تراش پر اتارے

صفحہ 122

تھے، مگر برف کے تراشے تھے۔ چھت کا گنبد نہایت عالی شان تھا۔ لیکن برج کی جگہ ایک شیشہ کا بلبلہ دھرا تھا اور اس کے کلس پر طائر خیال کا ہما پر پھیلائے تھر تھرا رہا تھا۔
مسافروں نے وہاں پہنچ کر نہ کوئی دربان پایا، نہ کسی کا انتظار کیا۔ جو آیا، اپنے جوہر قابلیت کو پروانہ اجازت سمجھے ہوئے بے دھڑک اندر داخل ہو گیا۔ دربار کے کمرے میں پہنچے، تو دیکھتے ہیں کہ بہت سی نمود بے بود صورتیں ہیں کہ ہم ہی میں ملی جلی اہتمام کرتی پھرتی ہیں۔ اور اس انبوہ بےتمیزی میں اپنے اپنے خیالات کے بموجب ایک ایک کے درجے قائم کر کے صفیں ترتیب دیتی پھرتی ہیں۔ مدارج عزت بھی وہاں روشن ہوتے ہیں، مگر ساعت بہ ساعت دھوپ کی طرح ڈھلتے جاتے ہیں، اور لوگ تھے کہ بتاشے کی طرح بیٹھے جاتے تھے۔ استحقاق پوچھو، تو دادا پردادا کے وقت کا ایک پھٹا پرانا سا چغہ تھا، اس کے سوا کچھ نہیں۔
ایک طرف لاف گزاف تھی جس نے خود اپنی ذات خوش صفات کا ایک قصیده بنا رکھا تھا۔ آپ ہی اس اعمال نامے کو پڑھتی تھی اور خوش ہوتی تھی۔ اسے اپنے سوا دوسرا ذکر نہ تھا۔ اجڑ تکڑ تھی کہ پنجوں کے بل چلتی تھی اور اینٹھتی پھرتی تھی۔ خود پرستی ایک طرف آئینہ کے سامنے کھڑی تھی۔ آپ ہی اپنے تئیں دیکھتی تھی اور پھولی نہ سماتی تھی۔ کمرے کے صدر میں تخت شاہانہ اور آگے ایک شامیانہ اس شان و شوکت سے سجا ہوا تھا کہ جس قدر سجاوٹ کے گمان میں گنجایش اور حوصلہ آرائش میں وسعت تھی، سب اس میں خرچ ہو گئی۔ تخت پر ہالہ ماه کا چتر، اس کے نیچے ملکی خام خیالی¹ مہتاب آتش بازی کے دو پر لگائے پری بنی بیٹھی تھی۔ جو اس کے خیال پرست تھے،وی اسے پری حسن آفریں کہتے تھے اور زہرہ ثانی اعتقاد

1- بات تو سچ ہے۔ خام خیالی سے خود پرستی پیدا ہوتی ہے۔
 

محمد عمر

لائبریرین
28

آغازِ آفرنیش میں باغِ عالم کیا رنگ تھا

اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا

سیر کرنے والے گلشنِ حال کے اور دوربین لگانے والے ماضی و استقبال کے روایت کرتے میں کہ جب زمانہ کے پیراہن پر گناہ کا داغ نہ لگا تھا، اور دنیا کا دامن بدی کے غبار سے پاک تھا تو تمام اولادِ آدم مسرّتِ عام اور بے فکری مدام کے عالم میں بسر کرتے تھے۔ ملک ملکِ فراغ تھا اور خسرو آرام رحم دل فرشتہ مقام گویا اُن کا بادشاہ تھا۔ وہ نہ رعیت سے خدمت چاہتا تھا، نہ کسی سے خراج باج مانگتا تھا۔ اس کی اطاعت و فرمانبرداری اس میں ہوا ہو جاتی تھی کہ آرام کے بندے قدرتی گلزاروں میں گلگشت کرتے تھے، ہری ہری سبزہ کی کیاریوں میں لوٹتے تھے۔ آبِ حیات کے درباروں میں نہاتے تھے۔ ہمیشہ وقت صبح کا اور سدا موسم بہار کا رہتا تھا۔ نہ گرمی میں تہ خانے سجانے پڑتے، نہ سردی میں آتش خانے روشن کرتے، قدرتی سامان اور اپنے جسموں کی قوتیں ایسی موافق پڑی تھیں کہ جاڑے کی سختی ہو یا ہوا کی گرمی، معلوم ہی نہ ہوتی تھی۔ ٹھنڈے اور میٹھے پانی نہروں میں بہتے تھے۔ چشمے پر لوگ جھکتے اور منہ لگا کر پانی پیتے تھے۔ وہ شربت سے سوا مزا اور دودھ سے زیادہ قوت دیتے تھے۔ جسمانی طاقت قوتِ ہاضمہ کے ساتھ رفیق تھی۔ بھوک نے ان کی اپنی ہی زبان میں ذائقہ پیدا کیا تھا کہ سیدھے سادے کھانے اور جنگلوں کی پیداواریں رنگا رنگ نعمتوں کے مزے دیتے تھے۔ آب و ہوا قدرتی غذائیں تیار کر کے زمین کے دسترخوان پر چُن دیتی تھیں، وہ ہزار مقوّی اور مفرّح کھانوں کے کام دیتی تھی۔ صبا و نسیم کی شمیم میں ہوائی

29

خوشبوؤں کے عطر مہک رہے تھے۔ بلبلوں چہچہے خوش آواز جانوروں کے زمزمے سنتے تھے، خوبصورت خوبصورت چرند، پرند آس پاس کلیلیں کرتے پھرتے تھے۔ جا بجا درختوں کے جھرمٹ تھے، انہی کے سایہ میں سب چین سے زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ عیش و آرام کے قدرتی سامان اس بہتات سے تھے کہ ایک شخص کی فراوانی سے دوسرے کے لیے کمی نہ ہوتی تھی اور کسی طرح ایک سے دوسرے کو رنج نہ پہنچا تھا۔ سب کی طبیعتیں خوشی سے مالا مال اور دل فارغ البال تھے۔

دیکھو اب انسان کی نیّت میں فرق آتا ہے اور کیا جلد اس کی سزا پاتا ہے۔

اتفاقاً ایک میدانِ وسیع میں تختہ پھولوں کا کھلا کہ اس سے عالم مہک گیا، مگر بُو اس کی گرم اور تیز تھی۔ تاثیر یہ ہوئی کہ لوگوں کی نیّتیں بدل گئیں، اور ہر ایک کے دل میں خود بخود یہ کھٹک پیدا ہوئی کہ سامان عیش و آرام کا جو کچھ ہے میرے کام آئے، اور کے پاس نہ جائے۔ اس غرض سے اس گلزار میں گلگشت کے بہانے بھی تو فریب کے جاسوس اور کبھی سینہ زوری کے شیاطین آ کر چالاکیاں دکھانے لگے۔ پھر تو چند روز کے بعد کھلّم کھلا اُن کی ذُرّیات یعنی غارت، تاراج، لوٹ مار آن پہنچے اور ڈاکے مارنے لگی۔ جب راحت و آرام کے سامان یوں پیدا ہونے لگے، تو رفتہ رفتہ غرور، خود پسندی، حسد نے اس باغ میں آ کر قیام کر دیا۔ اُن کے اثرِ صحبت سے لوگ بہت خراب ہوئے کیونکہ وہ اپنے ساتھ دولت کا پیمانہ لائے۔ پہلے تو خُدائی کے کارخانے فارغ البالی کے آئین اور آزادی کے قانون کے بموجب کھلے ہوئے تھے یعنی عیش وافر اور سامانِ فراواں جو کچھ درکار ہوں موجود تھا۔ اور اسی بے احتیاجی کو لوگ تو نگری کہتے تھے۔ پھر یہ سمجھنے لگے کہ اگر ہمارے پاس ہر شے ضرورت سے زیادہ ہو اور ہمیں اس کی حاجت بھی نہ ہو، لیکن تو نگر ہم جبھی ہوں گے جب کہ ہمسایہ ہمارا محتاج ہو۔ ہر چند اس بے چارے ضرورت کے مارے کو خرچوں کی کثرت اور ضرورتوں کی شدّت سے زیادہ سامان لینا پڑا ہو۔ مگر انہیں جب ہمسائے خوشحال نظر

30

آتے تھے، تو جل جاتے تھے اور اپنے تئیں محتاج خیال کرتے تھے۔

جہاں لوٹ مار اور غارت و تاراج کا قدم آئے، یہاں احتیاج و افلاس نہ ہو تو کیا ہو۔

اس بدنیتی کی سزا یہ ہوئی کہ احتیاج اور افلاس نے بزرگانہ لباس پہنا اور ایک پیر زادے بن کر آئے۔ حضرت انسان کی طمعِ خام کے خمیر تھے، خسرو آرام کی عقیدت کو چھوڑ کر ان کی طرف رجوع ہوئے۔ چنانچہ سب ان کے مرید اور معتقد ہوئے اور بھی اپنے تئیں حاجت مند ظاہر کر کے فخر کرنے لگا۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ اس بدنیّت نجس قدم کے آنے سے ملکِ فراغ کا رنگ بالکل بدل گیا۔ یعنی انواع و اقسام کی حاجتوں نے لوگوں کو آن گھیرا، سال میں چار موسم ہو گئے، زمیں بنجر ہو گئی، میوے کم ہونے لگے، ساگ پات موٹی قسم کے نباتات پر گزران ٹھہری۔ خزاں کے موسم میں کچھ بُرے بھلے اناج بھی پیدا ہونے لگے، لیکن جاڑے نے بالکل لاچار کر دیا، کبھی کبھی قحط سالی کا ٹڈی دل چڑھ آتا۔ اسی لشکر میں وبا اور امراض غول کے غول بیماریاں اپنے ساتھ لے کر آتے اور تمام ملک میں پھیل جاتے۔ غرض عالم میں ایسا تہلکہ پڑا کہ اگر ملک فراغ کے انتظام میں نئی اصلاح نہ کی جاتی، تو یک قلم برباد ہو جاتا۔ سب دکھ تو سہہ سکتے تھے، گر قحط کی مصیبت غضب تھی۔ چوں کہ یہ ساری نحوستیں احتیاج اور افلاس کی نحوست سے نصیب ہوئی تھیں، اس لیے سب اپنے کیے پر پچھتائے۔

اب پچھتانے سے کیا حاصل ہے، ہاں ہمّت کرو اور محنت پر کمر باندھو۔

عالم کا رنگ بے رنگ دیکھ کر تدبیر اور مشورہ دو تجربہ کار دنیا سے کنارہ کش ہو گئے تھے اور ایک سیب کے درخت میں جھولا ڈالے الگ باغ میں جھولا کرتے تھے، البتہ جو صاحبِ ضرورت اُن کے پاس جاتا، اُسے صلاح مناسب بتا دیتے کرتے تھے۔ یہ سب مل کر اُن کے پاس گئے کہ برائے خدا کوئی ایسی راہ نکالیے جس سے احتیاج و افلاس کی بلا سے بندگانِ خدا

31

کو نجات ہو۔ وہ بہت خفا ہوئے اور کہا کہ اپنے کیے کا علاج نہیں۔ خسرو آرام ایک فرشتہ سیرت بادشاہ تھا۔ تم نے اس کا حقِ شکر نہ ادا کیا، اور اس آفت کو اپنے ہاتھوں سر پر لیا۔ یہ افلاس ایسی بُری بلا ہے کہ انسان کو بے کس اور بے بس کر دیتی ہے۔ مانگے تانگے کے سوا خود اس کا کچھ پیشہ نہیں۔ دیکھو، اسی نے ملکِ فراغ کو کیسا تباہ کر دیا ہے کہ دلوں کے باغ ہرے بھرے ویران ہوئے جاتے ہیں۔ اب اس کے نکلنے کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ مگر یہ کہ ہم نے سُنا ہے، احتیاج و افلاس کا ایک بیٹا بھی ہے جس کا نام محنت پسند خرد مند ہے۔ اس کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہے، کیونکہ اُس نے امّید کا دودھ پیا ہے۔ ہنرمندی نے اسے پالا ہے۔ کمال کا شاگرد ہے۔ ہو سکے تو جا کر اس کی خدمت کرو۔ اگرچہ اُسی کا فرزند ہے، لیکن اوّل تو سلطنت کا مقدمہ درمیان ہے۔ دوسرے، ماں کے دودھ کا زور اس کے بازوں میں ہے۔ استاد کی پھرتی اور چالاکی طبعیت میں ہے۔ شاید کچھ کر گزرے۔ تدبیر اور مشورہ کا سب نے شکریہ ادا کیا اور سیدھے محنت پسند خرد مند کے سراغ پر آئے۔ دامنِ کوہ میں دیکھا کہ ایک جوان قوی ہیکل کھڑا ہے۔ چہرہ اس کا ہوا سے جھُریا ہوا، دھوپ سے تمتمایا ہوا، مشقّت کی ریاضت سے بدن اینٹھا ہوا، پسلیاں ابھری ہوئی؛ ایک ہاتھ میں کچھ کھیتی کا سامان، ایک ہاتھ میں معماری کے اوزار لیے ہانپ رہا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ ابھی ایک بُرج کی عمارت کی بنیاد ڈالی ہے۔ سب نے جھُک کر سلام کیا، اور ساری داستان اپنی مصیبت کی سنائی۔(1)

وہ انہیں دیکھتے ہی ہنسا اور ایک قہقہہ مار کر پُکارا کہ آؤ افسانو، نادانو! آرام کے دور میں کے نندو! آؤ آؤ، آج سے تم ہمارے سپرد ہوئے۔ اب تمھاری خوشی کی امیدوار بچاؤ کی راہ اگر ہے، تو ہمارے ہاتھ ہے۔ خسرو آرام کی کمزور، کام چور،

---

1) اس عمارت سے گویا وہی کاروبار مراد ہیں۔ انہی میں آیندہ یہ لوگ گزران کر کے اپنی قسمت کا لکھا پورا کریں گے۔

32

بے ہمت، کم حوصلہ، بھولا بھالا، سب کے مُنہ کا نوالہ تھا۔ نہ تمہیں سنبھال سکا، نہ مصیبت سے نکال سکا۔ بیماری اور قحط سالی کا ایک ریلا بھی نہ ٹال سکا۔ پہلے ہی حملے میں تمہیں چھوڑ دیا۔ اور ایسا بھاگا کہر پھر مڑ کر نہ دیکھا۔ سلطنت کو ہاتھ سے کھویا اور تم کو منجدھار میں ڈبویا۔ آج سے تم ہماری خدمت میں حاضر ہو۔ ہماری آواز پر آیا کرو۔ ہم تمہیں ایسی ایسی تدبیریں سکھائیں گے کہ جس سے یہ شوریت زمین کی دور ہو جائے گی۔ ہوا کی شدّت اعتدال پائے گی۔ گرمی سے سردی کی خوراک نکل آئے گی۔ ہم تمہارے لیے پانی سے مچھلیاں، ہوا سے پرندے، جنگل سے چرندے نکالیں گے۔ زمین کا پیٹ چاک کر ڈالیں گے اور پہاڑوں کی انتڑیاں تک نکالیں گے۔ ایسے ایسے دھات اور جواہرات دیں گے کہ تمہارے خزانوں کے لیے دولت ہو، ہاتھوں میں طاقت ہو، اور بدن کی حفاظت ہو۔ زبردست حیوانوں کے شکار کرو گے اور ان کے آزاروں سے محفوظ رہو گے۔ جنگل کے جنگل کاٹ ڈالو گئے۔ پہاڑ کے پہاڑ اکھاڑو گے۔ تم دیکھنا، میں زمانہ کو وابستہ تدبیر اور تمام عالم کو اپنے ڈھب پر تسخیر کر لوں گا۔ غرض ان باتوں سے سب کے دلوں کو لبھا لیا۔ وہ بھی سمجھے کہ محنت پسند خرد مندی آدم کا خیر خواہ ہمارا دلی دوست ہے۔ ہاتھ جوڑ جوڑ، اس کے پاؤں پر گرے، ہمت اور تحمل اس کے پہلو میں کھڑے تھے اسی وقت انہیں جماعت مذکور پر افسر کر دیا۔

اے حضرت انسان! قدرتی گلزاروں کی بہار دیکھ چکے اب اپنی دستکاریوں کی گل کاری دیکھو۔

الغرض ہمّت اور تحمل ان سب کو جنگلوں اور پہاڑوں میں لے گئے۔ کانوں کا کھودنا، اتار چڑھاؤ ہموار کرنا، تالابوں سے پانی سینچنا، دریاؤں کی دھاروں کا رخ پھیرنا، سب سکھایا۔ لوگوں کے دلوں پر اس کی بات کا ایسا اثر ہوا تھا کہ سب دفعۃً کمریں باندھ، آنکھیں بند کر، دیمک کی طرح روئے زمین کو لپٹ گئے۔

33

عالمِ صورت چند روز میں رنگ نکال لایا۔ مگر نئے ڈھنگ سے یعنی ساری زمین شہر قصبوں اور گاؤں سے بھر گئی۔ کھیت اناج سے اور باغ میوؤں سے مالا مال ہو گئے۔ شہروں میں بازار لگ گئے، عمارتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، گھر آباد ہو گئے۔ جدھر دیکھو، ڈالیاں اور گلزاریوں میں میوے دھرے، دسترخوان گھروں میں سجے، ذخیرے غلّوں سے بھرے؛ کیا گھر، کیا باھر، اس کے سوا کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔ غرض محنت پسند خرد مند نے اس فرمانبردار رعیت کی بدولت یہ کامیابیاں اور فتوحات نمایاں حاصل کر کے سلطان محنت پسند کا لقب حاصل کیا اور جا بجا ملک اور شہر قائم کر کے اپنی سلطنت جمائی۔

اے محنت کشو! محنت کی بھی ایک مدت ہے۔ آخر ایسا تھکو گے کہ گر پڑو گے۔

سلطان محنت پسند اپنے ملک میں ہمیشہ دورہ کرتا رہتا تھا۔ اتفاقاً اس کی سواری ایک کوہستان میں گزری، وہاں میوؤں کی بہتات، پانی کے چشمے جیسے آب حیات، ہرے ہرے سبزے، درختوں کے سائے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، خوبصورت خوبصورت جانور کلیل کر رہے تھے۔ یہ جگہ بہت بھائی۔ چاہا کہ کوئی دم ٹھہرے اور دم لے۔ اتفاقاً وہاں ایسی ایک قوم سے سامنا ہو گیا، جن کی کثرت و انبوہ کا کچھ ٹھکانا نہ تھا، مگر سب کے سب ضعف و ناطاقتی سے زمین میں بچھے جاتے تھے۔ ان میں تھکن اور سُستی کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اور ناتوانی ان پر سردار تھی۔ صورت اس کی یہ کہ آنکھیں بیٹھی ہوئی، چہرہ مُرجھایا ہوا، رنگ زرد، منہ پر جھریاں پڑی، کمر جھکی، گوشت بدن کا خشک، ہڈیاں نکلی ہوئی۔ غرض دیکھا کہ سب ہانپتے کانپتے، روتے بسورتے ،آہ آہ کرتے، چلے آتے ہیں، ان کی آوازیں بی سن سن کر، لوگوں کے دل مردہ اور جی افسردہ ہوئے جاتے تھے۔

تحمل اور ہمت کو جوں ہی ان کی صورت نظر آئی، دفعۃً غش کھا کر گر پڑے۔ اس جنگل کی ہوا میں عجیب تاثہت تھی کہ بھلے چنگے آدمیوں کے جی چھوٹ جاتے تھے اور حوصلے پست ہوئے جاتے تھے۔ سب کے ہتھیار اور اوزار ہاتھوں سے چھُٹ پڑے۔ بہترا دلوں

34

سنبھالتے تھے مگر دل قابو میں نہ آتے تھے۔ اس حال کو دیکھ کر سب کی عقلیں جاتی رہیں اور پھر نئے سرے سے اپنے حال پر افسوس کرنے لگے کہ ملکِ فراغ کو کیوں چھوڑا اور خسرو آرام کی اطاعت سے کیوں مُنہ موڑا۔ آپس میں صلاح کی کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ آخر ،مصلحت یہ ٹھہری کہ چلو پھر سے اپنے قدیمی بادشاہ خسرو آرام کی خدمت میں چل کر سلام کرو اور باقی زندگی جس طرح ہوا، اس کی اطاعت میں بسر کر دو۔

جو آساتش کے قدرتی سامان تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں کھوئے اب محنت کے بنائے ہوئے سامانوں سے آرام چاہتے ہو۔ نہ ہو گا! نہ ہو گا !

خسرو آرام بھی دنیا کے پردے سے اٹھ نہ گیا تھا۔ ایک پل میں اس کے پاس جا پہنچے عذرِ تقصیر عرض کیا کہ جو کچھ ہم نے محنت کی مدد سے حاصل کیا ہے، وہ سب نذر ہے۔ ہمیں حضور اطاعت میں قبول فرمائیں۔ یہاں خسرو آرام نے بھی اب دربار کا آئین کچھ اور کر دیا تھا۔ تكلّف، آرائش، بناؤ سنگار، عیش، آرام بہت سے لوگ رکنِ دربار ہو گئے تھے۔ قدرتی سبزہ زار اور خدائی مرغزاروں کو چھوڑ کر محلوں میں جا بیٹھا تھا۔ بالا خانوں اور دیوان خانوں میں رہتا تھا۔ خانہ باغوں کی روشوں پر گشت کرتا تھا۔ جاڑوں میں نرم نرم بستروں اور گرم گرم مکانوں میں سوتا تھا۔ گرمیوں میں تکلف کے تہ خانوں میں بیٹھتا، اور بناوٹ کے فوّارے سامنے چھُٹّا کرتا۔ باوجود اس کے کوئی نعمت مزا نہ دیتی تھی، اور کوئی غذا انگ نہ دیتی تھی۔ سب کچھ موجود تھا مگر خاطر خواہ خوشی ایک بات سے بھی حاصل نہ ہوتی تھی۔ غرض ملکِ فراغ میں جو اس کے انتظام اور آزادی کا لطف تھا، وہ نہ رہا تھا کیوں کہ سلطان محنت پسند کے زیر حکم رہ کر لوگ خالی بیٹھنے سے بھی گھبراتے تھے؛ اور جسے خوشحالی اور فارغ البالی کہتے ہیں وہ کسی طرح حاصل نہ ہوتی تھی۔

آرام کے بندو! دیکھو، بہت آرام بہت سی خرابیاں پیدا کرتا ہے

35

آرام شاہ کے وزیر اعظم عیش اور نشاط دو شخص ہوئے تھے۔ مگر عیش نے دغا کی، کیوں کہ مرض ایک بڑا غنیم سلطنت کا تھا، وہ مدّت سے ملک آرام کے در پے تھا۔ چنانچہ مرض نے عیش سے سازش کی اور ایک رات یکایک قلوۂ جسم پر کمند ڈال کر شبستان شاہی میں آن پنچا۔ جب مرض آیا تو آرام کجا۔ آرام نے دشمن کو بلائے ناگہانی کی طرح سر پر دیکھا؛ گھبرا گیا اور ناچار ہو کر بھاگنا پڑا۔

ان دونوں نمک حراموں نے سلطنت پر قبضہ کر لیا اور عیش و نشاط کی بدولت تمام عالمِ اجسام امراض اور بیماریوں میں مبتلا ہو گیا۔ مرض کے سوا کئی اندرونی مفسد اور بھی سلطنت کے بد خواہ تھے۔ چنانچہ ای سیری(1) تھی، اور دوسرے اکتاہٹ؛ وہ بھی ملک کے دعوے سے ملکہ بننا چاہتی تھیں، دیکھنے کو بڑا سا پیٹ بہت پھولا تھا، لیکن حقیقت میں کچھ نہیں، فقط پھونس کا پُولا تھا۔ انہیں کوئی چیز مزا ہی نہ دیتی تھی اور ہمیشہ ہر چیز سے دل بے زار اور دل بھرا رہتا تھا۔ ان کی مصاحب ایک بد دماغی، دوسری بے زاری تھی کہ آٹھ پہر منہ بنائے، تیوری چڑھائے الگ کرسی پر بیٹھی رہتی تھیں۔ جو نعمت انہیں ملتی، شکریہ کا ھو خفگی اور بدمزاجی کے ہاتھوں ادا ہوتا۔ ملکۂ مذکور کی نگاہ میں تاثیر تھی کہ ایک نظر میں ساری دنیا کی نعمتیں خاک میں مل جاتی تھیں۔ کیسی ہی سہانی خوشبوئیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، ہرے ہرے سبز زار بہار پر ہوتے، مگر جب اس کے سامنے آتے، سب مٹّی ہو جاتے۔ اس سے آرام کا لطفِ زندگی بالکل نہ رہا اور اس کے سبب سے رعایا کا بھی جی بے زار ہونا شروع ہوا۔

عیش کے بندے جب حد سے زیادہ دق ہوئے تو طبیب کیا خوب ڈھونڈا ہے

رفتہ رفتہ سب ہمراہی آرام شاہ سے کنارہ کش ہو گئے۔ بعض بے مروّت تو عیش سے گھل مل گئے۔ اور عیش نے بھی وعدہ کیا کہ میرے پاس دو حکیم ہیں، جن کی پانی

---

1) کیسی ہی نعمت ہو، جب برابر ملے جائے ،تو آخر دل سیر ہو جاتا ہے۔

36

کی بوند تیزاب اور خاک کی چٹکی اکسیر ہے۔ سیری کی خاک اُڑ جائے گی۔ ہر ایک چیز مزا دینے لگے گی۔ اور ہر ایک بات کا لطف آئے گا۔ ان حکیموں کا نام حرص اور ہوش ہے۔ یہ سن کر بہت سے لوگ تو عیش کے بہلاوے میں آ کر حرص کے پیچ میں پھنس گئے اور جو عاقبت اندیش دانا تھے وہ پھر تدبیر اور مشورہ کے پاس پہنچے۔ سارے دکھ سنائے اور جو بھی مصیبتیں گزری تھیں، سب داستان بیان کی، انہوں نے بہت افسوس کیا اور کہا کر ضسرو آرام کی بدولت تم نے بہت آرام کیے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کسی کام کے نہ رہے۔ محنت سے اس کا تدارک کیا اس تمہیں برداشت نہ ہوئی اور ضعف و ناتوانی سے فریاد کرنے لگے۔ عیش و نشاط سے تفریح کا بندوبست کیا۔ اس سے بہت لطف اٹھائے۔ مگر اہھوں نے یہ سلوک کیا کہ امراض کے حوالے کر دیا اور آپ الگ ہو گئے، جس سے سب کی زندگی کا مزا جاتا رہا۔ ہم تمہارے معاملہ میں حیران ہیں کہ کیا کریں۔ سب نے بہت منت اور التجا کی۔ آخر ان دونوں کو ساتھ لے پھر جب سلطان محنت پسند کے پاس گئے اور خسرو آرام کی طرف سے پیامِ سلام دوستانہ پہنچا کر صلح کی تدبیر کی۔

محنت کی ہزار ہمّت کرے مگر کوئی نہ کوئی دشمن اس کے پیچھے لگا ہوا ہے

جس طرح خسرو آرام سیری کے ہاتھ سے عاجز آ گیا تھا، اسی طرح سلطان محنت ہسند کاہلی کے ہاتھ سے تنگ تھے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ ان کی سرحد پر گھات لگائے بیٹھی رہتی تھی۔ چنانچہ دونوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ باہم اتفاق کر لیں۔

حق یہ ہے کہ آرام بھی بغیر نہیں۔ اب ذرا محنت کا لطف دیکھو

غرض تدبیر اور مشورہ کی صلاح سے دونوں نے متفق ہو کر ملکِ فراغ اور کشورِ راحت کو باہم تقسیم کر لیا۔ محنت پسند خرد مند کو دن کی سلطنت ملی اور خسرو آرام کو رات کی۔ دونوں سلطنتوں میں عہد نامہ ہو کر بنیاد محنت کے استحکام کے لیے بندوبست ہونے لگے۔ چند روز بعد مشورہ کی وکالت سے یہ تجویز ٹھہری کہ خسرو آرام کی شادی سلطان محنت پسند

37

کے خاندان میں ہو جائے۔ محنت پسند نے کہا کہ آپ کے اہل دربار میں نبض اشخاص سلطنت کے خلافِ مصلحت ہیں۔ اس واسطے جب تک آپ انہیں خارج نہ کریں گے، مجھے یہ امر منظور نہیں۔ خسرو آرام نے کہا کہ کس کو تم کہو، اسی وقت جلا وطن کر دوں۔ چنانچہ مشورہ وغیرہ مشیروں کی صلاح سے راحت، تكلّف، بناؤ سنگار وغیرہ سب نکالے گئے۔ ایک دن رسمِ شادی کہ وہ بھی سیدھی سادی تھی، سرانجام ہو گئی اور دونو سرکاروں کا انتظام ایک ہو گیا۔

جب آرام و محنت دونوں اعتدال سے ہوں تو کیوں صحت حاصل نہ ہو۔

اتفاق کو خدا نے بڑی برکت دی ہے۔ چند روز کے بعد خسرو آرام کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام صحت شاہ رکھا گیا۔ بڑی خوشیاں ہوئیں۔ دونوں طرف رسوم مبارکبادی ادا ہوئیں۔ گنہگارانِ سلطنت یعنی نشاط اور عیش کی خطائیں بھی اس خدا داد خوشی کے شکرانہ میں معاف ہوئیں، مگر اس شرط پر کہ بے طلب سامنے نہ آنے پائیں، نہ بے تقریب بلائے جائیں۔ غرض صحت شہزادہ بی بی سلامت خاتون کا دودھ پیتا تھا۔ خواجہ پرہیز اسے پرورش کرتے تھے۔ ان ہی کی تعلیم و تربیت میں بڑا ہوا۔ چونکہ دو گھروں میں ایک چراغ تھا خسرو آرام اور سلطان محنت پسند دونوں آنکھوں کا نور سمجھتے تھے۔ صحت شہزادہ بھی دونوں بزرگوں کی برابر اطاعت اور دونوں سلطنتوں کی برابر رعایت کرتا تھا۔ اتفاق کی برکت سے خدا نے دونوں گھر روشن اور سلطنت آباد کی۔ اور خدا کے بندوں کو بھی آئے دن کی مصیبت سے نجات دی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
-------------
نیرنگ خیال ۔پی ڈی ایف
صفحہ 48
-------------
معلوم ہوتا تھا کہ ہر ایک کی خوشی ایک خاص قسم کی ہے کہ وہ اسی کے دل میں ہے۔ سب ملے جلے ساتھ ہی چلے جاتے ہیں مگر نہ کوئی اپنا ارادہ دوسرے کو بتانا چاہتا تھا، نہ اپنے فکر کا راز دوسرے کو جتانا گوارا کرتا تھا۔ ؏1 بہت لوگوں کی گرمی رفتار سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر کوئی آرزو مند شوق کی پیاس سے تڑپتا ہو، تو انہیں اس کے بجھانے کی فرصت نہیں۔ ؏2 اس واسطے ان کے روکنے کو جی نہ چاہا۔ ار توھڑی دیر تک غور سے دیکھا کیا۔ آخر ایک بڈھا نظر آیا کہ باوجود بڑھاپے کے انہیں میں شامل تھا۔ ہاتھ پاؤں بہت مارتا تھا مگر کچھ نہ ہو سکتا تھا۔؏3 میں نے خیال کیا کہ اب بڈھے کو کیا ہوس ہو گی، اسے تو شاید کچھ جواب دینے کی فرصت ہو۔ چنانچہ اسے سلام کیا۔ بڈھے نے تیوری بدل کر منہ پھیر لیا۔ اور کہا: "صاحب دق نہ کیجیے ، آپ جانتے بھی ہیں، جس وقت کی ہم عمروں سے آرزق کر رہے تھے، وہ وقت آن پہنچا ہے اب ایک عہد آیا ہے کہ تمام عالم فارغ البالی سے مالا مال ہو جائے گا، افلاس زدہ اور طالب روزگار بیچارے۔ ٹیکس اور محصولوں کے مارے، آئے دن جان کنی سے خلاص ہو جائیں گے، بلکہ فلک کے سیمرغ جو اہل عالم کے کاروبار میں رات دن سرگرداں ہیں، وہ بھی بازو ڈال کر آرام سے بیٹھ جائیں گے۔

میں نے بڈھے کو اس کی خشکی دماغ کے حوالے کیا اور وہیں ٹھہر گیا۔ اتنے میں ایک شخص شانے آیا جس کی ملائمت شکل اور آہستگی رفتار سے معلوم ہوا کہ کہ شاید کچھ اخلاق سے پیش آئے۔ مگر جب اس کی طرف بڑھا تو اس نے جھک کر ایک سلام کیا اور کہا "اگر آپ کی خدمت کی فرصت ہوتی، تو میں بہت خوش ہوتا۔ مگر اب اس خوشی کا ہوش نہیں کیونکہ بیس برس سے میں ایک عہدے کی امیدواری کر رہا تھا؛ اب وہ خوانی ہوا چاہت ہے۔" میں نے
------------------------------------
؏1 انسان جس مقصد کے لیے کوشش کرتا ہے، کب کسی سے کہتا ہے، اند ہی اندر تدبیریں کرتا ہے۔

؏2 اپنے کام کے آگے کسی اور کی احتیاج کی کون پروا کرتا ہے!

؏3 سچ ہے، بڈھوں کے جوانوں سے زیادہ ہوس ہوتی ہے۔


-------------
نیرنگ خیال ۔پی ڈی ایف
صفحہ 49
-------------

اسے بھی چھوڑا اور ایک اور کو جالیا۔ وہ گھبرایا ہوا جاتا تھا کہ چچا کی میراث پہ قبضہ کرے، کیونکہ اس کی بیماری کی خبر سننے میں آئی تھی۔ اس کے پیچھے ایک اور شخص کو دیکھا کہ بے تحاشا بھاگا چلا آتا تھا۔ اس نے ایک غوطہ خوری کیمکل ایجاد کی تھی۔ اس کے دریائے مناع میں گوطہ مارنا چاہتا تھا۔ یعنی اگر کچھ اور نہ ہو تو ایجاد کا انعام ہی ہاتھ میں آجائے۔ ایک شخص کو دیکھا کہ تھوڑی دور چلتا ہے اوت ٹھہر جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ طول بلد اور عرض بلد کے خیالات پھیلا رہا ہے۔ اور سرکار علم سے انعام کا امیدوار ہے۔

جب جابجا سے ٹکریں کھائیں، تو سوچا کہ اوروں سے دریافت کرنا بے حاصل ہے۔ اب جو اپنی آنکھ کہے وہ ٹھیک ہے۔ آگے بڑھو اور آپ دیکھو۔ کہ اتنے میں ایک نوجوان شوقین بے پروا سا نظر آیا۔ وہ آزادی کے عالم میں چلا جاتا تہے۔ اسے دیکھ کر دل میں کہا کہ بھلا ایک دفعہ تو اسے بھی ٹٹولنا چاہیے۔ چنانچہ معمولی سوال کا سبق اسے بھی سنایا۔ وہ ہنسا اور کہا: " صاحب ، جہاں آپ کھڑے ہیں یہ ملکۂ مامید کا باغ ہے۔ وہ ملکۂ آرزو کی بیٹی ہے۔ ذرا سامنے دیکھو، بہت سی پریاں خوشنما اور نفیس نفیس چیزیں لیے کھڑی ہیں۔ جن لوگوں کو تم نے زور شور مچاتے دیکھا، انہی کے اشاروں پر للطائے ہوئے دوڑے جاتے ہیں۔

آنکھ اٹھا کر دیکھوں، تو فی الحقیقت سامنے ایک ایوان عالیشان ہے اور اس کے صدر میں ایک پری جس کا گلزار جوانی عین بہار پر ہے، سر تخٹ جلوہ گر ہے۔مسکراہٹ اس کے زیر لب پارہ کی طرح لوٹتی ہے۔ لعل و جواہر تاج مرصع، موتیوں کے ہار، خلعت زرنگار، کشتیوں میں چنے آگے دھرے ہیں۔ قسمت اور نصیب جہان کی نعمتیں سجائے، اس کے دست بستہ حاضر ہیں، اور بہار زندگی کے پھولوں کا فرش سامنے بچھا ہے۔ عیش مدام اور فرحت دوام سے چہرہ روشن ہے۔ اس کے لبوں کی مسکراہٹ اور آنکھ کی لگاوٹ عام سے خاص تک برابر سب کی حق شناسی کر رہی ہے۔ اس سے ہر شخص یہی سمجھ رہا ہے کہ ملکہ
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
-------------
نیرنگ خیال ۔پی ڈی ایف
صفحہ 50
-------------
نیری ہی طرف متوجہ ہے اور اسی بھروسے پر ہر ایک فخر اور ناز کے مارے پھولا نہیں سماتا۔ رستہ کے دونوں طرف کہیں کہیں ایک آدھ جھونپڑی نظر آجاتی تھی۔ وہ دیکھنے میں پست اور بے حقیقت تھی۔ مگر ہرے درختوں نے سایہ کیا ہوا، دیواریں لپی ہوئیں، دروازے پر روشن حرفوں میں لکھا تھا "قناعت کا آرام گھر" ۔ بعضے ھتکے ماندے ان میں چکے جاتے اور پاؤں پھیلا کر بیٹھ جاتے۔ رستہ والے دیکھ دیکھ کر غل مچاتے کہ بھاگ گئے اور ہمت میدان ہار گئے۔

باغ امید کے دروازے
یہ دیکھ کر ایک ٹیلے پر چڑھ گیا کہ وہاں سے ہر جگہ نظر پہنچ سکتی تھی، اور اس جھمگھٹ کے بھی ایک ایک آدمی کا حال خوب خیال میں آجاتا تھا۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ باغ امید کے اندر جانے کے دو دروازے ہیں۔ ایک دارقغۂ دانش کے اختیار میں ہے، دوسرا داروغۂ خیال کی تحت میں ہے، داروغۂ دانش ایک تند مزاج اور وسواسی شخص ہے کہ جب بہت سے سوال اور الٹی سیدھی حجتیں نہیں کر لیتا، تب تک قفل کی کنجی کو جنبش نہیں دیتا۔ مگر داروغۂ خیال خلیو اور ملنسار شخص ہے۔ وہ اپنا دروازہ کھلا ہی رکھتا ہے۔ بلکہ جو اس کی حد میں جائے، اس سے بڑی عزت اور توقیر کے ساتھ پیش آتا ہے، چنانچہ جو لوگ داروغۂ دانش کی حجتوں ست گھبراتے تھے، یا جنہیں اس نے جانے نہیں دیا تھا، ان کوگوں کی بھیڑ اس کے دروازے پر لگ رہی تھی۔ داروغۂ دانش کے دروازے سے ملکہ کی تخت گاہ خاص کو
--------------------------------------
؀ یہ باتیں ہم پر روز گزرتی ہیں مگر کوئی خیال نہیں کرتا۔ دیکھو، یہاں انہیں کس خوبصورتی ہے رنگ دے کر بیان کیا گیا ہے۔ عقل جب تک سب تدبیروں اور تجویزوں کے پورے بندوبست نہیں کر لیتی، تب تک کسی امید پر کوشش کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ وہم و گمان کے بندے ذرا سا سہارا دیکھتے ہیں اور اٹھ دوڑ تہیں، وہیں ٹکراتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 64

انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا

سقراط مرحوم نے کیا خوب لطیفہ کہا ہے کہ اگر تمام دنیا کی مصیبتیں ایک جگہ لا کر ڈھیر کر دیں اور پھر سب کو برابر بانٹ دیں، تو جو لوگ اب اپنے تئیں بدنصیب سمجھ رہے ہیں، وہ اس تقسیم کو مصیبت، اور پہلی مصیبت کو غنیمت سمجھیں گئے۔
ایک اوحکیم اس لطیفہ کے مضمون کو اور بھی بالا تر لے گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ہم اپنی اپنی مصیبتوں کو آپس میں بدل بھی سکتے، تو پھر بھی ہر شخص اپنی ہی مصیبت کو اچھا سمجھتا۔ میں ان دونوں خیالوں کو وسعت دے رہا تھا، اور بے فکری کے تکیے سے لگا بیٹھا تھا کہ نیند آگئی۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ سلطان الا فلاک کے دربار سے ایک اشتہار جاری ہوا ہے۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ "تمام اہل عالم اپنے اپنے رنج والم اور مصائب و تکالیف کو لائیں اور ایک جگہ ڈھیر لگائیں چنانچہ اس مطلب کے لیے ایک میدان کو میدان خیال سے بھی زیادہ وسیع تھا، تجویز ہوا اور لوگ آنے شروع ہوئے۔ میں بیچوں بیچ میں کھڑا تھا اور ان کے تماشے کا لطف اٹھا رہا تھا۔ دیکھتا تھا کہ ایک کے بعد ایک آتا ہے اور اپنا بوجھ سر سے پھینک جاتا ہے، لیکن جو بوجھ گرتا ہے مقدار میں اور بھی بڑا ہو جا تا ہے، یہاں تک کہ دو مصیبتوں کاپہاڑ بادلوں سے بھی اونچا ہو گیا۔
ایک شخص سوکھا سہما، دبلاپے کے مارے فقط ہوا کی حالت ہو رہا تھا، اس ابنوہ میں میں نہایت چالاکی اور ترقی سے پھر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا،

صفحہ 65
جس میں دیکھنے سے شکل نہایت بڑی ہونے لگتی تھی۔ وہ ایک ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے تھا، جس کا دامن، دامن قیامت سے بندھا ہوا تھا۔ اس پر دیو زادوں اور جناتوں کی تصویریں کڑھی ہوئی تھیں۔ اور جب وہ ہوا سے لہراتی تھی، تو ہزاروں عجیب و غریب صورتیں اس پر نظر آتی تھیں۔ اس کی آنکھ وحشیانہ تھی، مگر نگاہ میں افسردگی تھی، اور نام اس کا وہم تھا۔ یر شخص کا بوجھ بندھواتا تھا، اور لدواتا تھا۔ اور مقام مقررہ پر لے جاتا تھا۔ میں نے اپنے جنسوں اور ہم صورت بھائیوں کو
جب بوجھوں کے نیچے گڑگڑاتا دیکھا اور ان مصیبتوں کے انبار کو خیال کیا، تو بہت گھبرایا اور دل میں ایسا ترس آیا کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ اس عالم میں بھی چند شخصوں کی حالت ایسی نظر آئی کہ اس نے ذرا میرا دل بہلایا۔ صورت بہلاوے کی یہ ہوئی کہ دیکھتا ہوں، ایک شخص پرانے سے چکن کے چغے میں ایک بھاری سی گٹھڑی لیے آتا ہے۔ جب وہ گٹھڑی انبار میں پھینکی، تو معلوم ہوا کہ افلاس کا عذاب تھا۔ اس کے پیچھے ایک اور شخص دوڑا آتا تھا، بدن سے پسینہ بہتا تھا، اور مارے بوجھ کے ہانپا جاتا تھا۔ اس نے بھی وہ بوجھ سر سے پھینکا۔ اور معلوم ہوا کہ اس کی جورو بہت بری تھی۔ اس نے وہ بلا سر سے پھینکی ہے۔
ان کے بعد ایک بڑی بھیڑ آئی کہ جس کی تعداد کا شمار نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ عاشقوں کا گروہ ہے۔ ان کے سر پر درد آہ کی گٹھڑیاں تھیں کہ انہی میں آہوں کے تیر خیال، اور نالوں کے نیزہ وبالی دبے ہوئے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ مارے بوجھ کے اس طرح دردے آہیں بھرتے تھے کہ گویا اب سینے ان کے پھٹ جائیں گے، لیکن تعجب یہ ہے کہ جب اس انبار کے پاس آئے، تو اتنا نہ ہو سکا کہ ان بوجوں
کو سر سے پھینک دیں۔ کچھ کچھ جدوجہد سے سر ہلایا، مگر جس طرح لدے ہوئے تھے اسی طرح چلے گئے۔

صفحہ 66
بہت بڑھیاں دیکھیں کہ بدن کی جھریاں پھینک رہی تھیں۔ چند نوجوان اپنی کالی رنگت، کچھ موٹے موٹے ہونٹ، اکثر ایسے میل جمے ہوئے دانت پھینکتے تھے کہ جنہیں دیکھ کر شرم آتی تھی۔ مگر مجھے یہی حیرت تھی کہ اس پہاڑ میں سب سے زیادہ جسمانی عیب تھے۔ ایک شخص کو دیکھتا ہوں کہ اس کی پیٹھ پر بھاری سے بھاری بڑے سے بڑا بوجھ ہے، مگر خوشی خوشی اٹھائے چلا آتا ہے۔ جب پاس آیا، تو معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت کبڑا ہے اور آدم زاد کے انبار رنج و الم میں اپنے کبڑے پن کو پھینکنے آیا ہے کہ اس کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی مصیبت نہیں، اس انبار میں انواع و اقسام کے سقم اور امراض بھی تھے جن میں بعض اصلی تھے اور بعض ایسے تھے کہ غلط فہموں نے خوامخواہ انہیں مرض سمجھ لیا تھا۔ ایک بوجھ مجھے اور نظر آیا، جو امراض آدم زاد پر عارض ہوتے ہیں، ان سب کا مجموعہ تھا۔ یعنی بہت سے حسین نوجوان تھے کہ اپنے ہاتھوں کی کمائی یعنی امراض نوجوانی ہاتھوں میں لیے آتے تھے۔ مگر میں فقط ایک ہی بات میں حیران تھا، اور وہ یہ تھی کہ اتنے بڑے انبار میں کوئی بے وقوفی یا بد اطواری¹ پڑی ہوئی نہ دکھائی دی۔ میں یہ تماشے دیکھتا تھا اور دل میں کہتا تھا کہ اگر ہوس ہائے نفسانی اور ضعف جسمانی اور عیوب عقلی سے کوئی نجات پانی چائیے، تو اس سے بہتر موقع ہاتھ نہ آئے گا، کاش کہ جلد آئے اور پھینک جائے۔ اتنے میں ایک عیاش کو دیکھا کہ اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے بے پرواہ چلا آتا ہے۔ اس نے بھی ایک گٹھڑی پھینک دی۔ مگر جب دیکھا، تو معلوم ہوا کہ گناہوں کے افسوس اپنی عاقبت اندیشی کو پھینک گیا۔ ساتھ ہی ایک چھٹے ہوئے شہدے آئے۔ میں سمجھا کہ اپنی کوتاہ اندیشی کو پھینکیں گے، مگر وہ بجائے اس کے اپنی شرم و حیا کو پھینک گئے۔ جب تمام بنی آدم اپنے بوجھوں کا وبال سر سے اتار چکے، تو میاں وہم کہ جب سے آب تک اس مصروفیت میں سرگرداں تھے، مجھے الگ کھڑا دیکھ کر سمجھے کہ یہ شخص

1- مراد اس سے یہ ہے کہ اپنی بے وقوفی یا بد اطواری کو کوئی برا نہیں سمجھتا۔ اسی واسطے اسے کسی نے نہیں پھینکا۔

صفحہ 67

خالی ہے۔ چنانچہ اس خیال سے میری طرف جھکے۔ ان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میرے حواس اڑ گئے۔ مگر انہوں نے جھٹ اپنا آئینہ سامنے کیا۔ مجھے اپنا منہ اس میں ایسا چھوٹا معلوم ہوا کہ بے اختیار چونک پڑا۔ برخلاف اس کے بدن اور قد و قامت ایسا چوڑا چکلا نظر آیا کہ جی بیزار ہو گیا، اور ایسا گھبرایا کہ چہرہ کو نقاب کی طرح اتار کر پھینک دیا اور خاص خوش نصیبی اس بات کو سمجھا کہ ایک شخص نے اپنے چہرے کو بڑا اور اپنے بدن پر ناموزوں سمجھ کر اتار پھینکا تھا۔ یہ چہرہ حقیقت میں بہت بڑا تھا، یہاں تک کہ فقط اس کی ناک میرے سارے چہرے کی برابر تھی۔
ہم اس انبوہ پر آفات پر غور کر رہے تھے۔ اور اس عالم ہیولانی کی ایک ایک بات کو تاک تاک کر دیکھ رہے تھے، جو سلطان الافلاک کی بارگاہ سے حکم پہنچا کہ اب سب کو اختیار ہے، جس طرح چاہیں اپنے اپنے رنج و تکلیف تبدیل کر لیں، اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ یہ سنتے ہی میاں وہم پھر مستعد ہوئے اور بڑی ترت پھرت کے ساتھ انبار عظیم کے بوجھ باندھ باندھ کر تقسیم کرنے لگے۔ ہر شخص اپنا اپنا بوجھ سنبھالنے لگا اور اس طرح کی ریل پیل اور دھکم دھکا ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ اس وقت چند باتیں جو میں نے دیکھیں وہ بیان کرتا ہوں؛
ایک پیر مرد کہ نہایت معزز و محترم معلوم ہوتا تھا درد قولنج سے جان بلب تھا اور لاولدی کے سبب سے اپنے مال و املاک کے لئے ایک وارث چاہتا تھا، اس نے درد مذکور پھینک کر، ایک خوبصورت نوجوان لڑکے کو لیا، مگر لڑکے نابکار کو نافرمانی اور سرشوری کے سبب سے دق ہو کر اس کے باپ چھوڑ دیا تھا، چنانچہ اس نالائق نوجوان نے آتے ہی جھٹ بڈھے کی داڑھی پکڑ لی اور سر توڑنے کو تیار ہوا۔ اتفاقاً برابر ہی لڑکے کا حقیقی باپ نظر آیا کہ اب وہ درد قولنج کے مارے لوٹنے لگا تھا۔ چنانچہ بڈھے نے اس سے کہا کہ برائے خدا میرا درد قولنج مجھے پھیر دیجیے اور اپنا لڑکا

صفحہ 68

لیجیئے کہ میرا پہلا عذاب اس سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ مگر مشکل ہوئی کہ یہ مبادلہ اب پھر نہ سکتا تھا۔
ایک بیچارہ جہازی غلام تھا کہ اس نے قید زنجیر اور جہازی محنت کی تکلیف سے دق ہو کر اس عذاب کو چھوڑا تھا اور جھولے کے مرض کو لے لیا تھا۔ اسے دیکھا کہ دو قدم چل کر بیٹھ گیا ہے اور سر پکڑ کر بسور رہا ہے۔
غرض اسی طرح کئی شخص تھے کہ اپنی حالت میں گرفتار تھے، اور اپنے کیے پر پچھتا رہے تھے مثلاً کسی بیمار نے افلاس لے لیا تھا، وہ اس سے ناراض تھا۔ کسی کو بھوک نہ لگتی تھی، وه اب جوع البقر کے مارے پیٹ کو پیٹ رہا تھا۔ ایک شخص نے فکر سے دق ہو کر اسے چھوڑا تھا، اب وہ درد جگر کا مارا لوٹ رہا تھا، اور اسکی طرح برعکس۔ غرض ہر شخص کو دیکھ کر عبرت اور پیشمانی حاصل ہوتی تھی۔
عورتیں بچاری اپنے ادل بدل کے عذاب میں گرفتار تھیں۔ کسی نے تو سفید بالوں کو چھوڑا تھا، مگر اب پاؤں میں ایک پھوڑا ہو گیا تھا کہ لنگڑاتی تھی اور ہائے ہائے کرتی چلی جاتی تھی۔ کسی کی پہلے کمر بہت پتلی تھی، مگر چونکہ سینہ اور بازو بھی دبلے تھے، اس لیے پتلی کمر کو چھوڑا تھا۔ اب گول گول بازوؤں کے ساتھ بڑی سی توند نکالے چلی جاتی تھی۔ کسی نے چہرے کی خوبصورتی لی تھی، مگر اس کے ساتھ بے آبروئی کا داغ اور بدنامی کا ٹیکا بھی چلا آیا تھا۔ غرض ان سب میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جسے پہلے نقص کی نسبت نیا نقص گراں نہ معلوم ہو رہا ہو۔ ان سب کی حالتوں کو دیکھ کر یہ میری سمجھ میں آیا ہے کہ جو مصیبتیں ہم پڑتی ہیں، وہ حقیقت میں ہماری سہار کے بموجب ہوتی ہیں۔ یا یہ بات ہے کہ سہتے سہتے ہمیں ان کی عادت ہو جاتی ہے۔
مجھے اس بڈھے کے حال پر نہایت افسوس آیا کہ ایک خوبصورت سجیلا جوان بن کر چلا، مگر مثانہ میں پتھری ہو گئی کہ اب بھی سیدھی طرح نہ چل سکتا تھا۔ اس سے بھی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
-------------
نیرنگ خیال ۔پی ڈی ایف
صفحہ 51
-------------

رستہ جاتا تھا۔ مگر اس راہ کی زمین پھلسنی، سڑک پتھریلی، رستے ایسے ایچ پیچ تھے کہ کٹھن گھاٹی اسی کو کہتے ہیں۔ جب کسی قسمت والے کو داروغہ سے اجازت مل جاتی تھی، تو اس کٹھن گھاتی میں دکھ بھرنے پڑتے تھے، اگر چہ چڑحنے والے پہلے سے بھی رستے کے ایچ پپیچ اچھی طرح جانچ لیتے تھے اور جو جو بچاؤ کے مقام تھے، ، ان مین قدم قدم پر نشان کر لیتے تھے۔مگر پھر بھی اکثر ایسی مشکلیں پیش آتی تھیں، جن کا سان گمان بھی نہ ہوتا تھا۔ بلکہ جہاں صاف سیدھا راستہ سمجھے ہوئے تھے، وہاں کچھ ایسا تہلکہ پیش آتا تھا کہ یکایک تھم جانا پڑتا تھا۔ ہزاروں الجھاؤ میں الجھتے تھے۔صدہا رپٹنیوں میں رپٹتے تھے۔ بہتیرے ٹھوکریں کھا کھا کے گرتے تھے۔ اکثر خس پوش گڑھوں میں جا پڑتے تھے۔ غرض ایسی ایسی خطرناک وارداتیں اور ناکامی کے صدمے تھے کہ بہت آدمی تو پہلے ہی دھاوے میں الٹے پھر آتے تھے۔ بہتیرے رستے میں غش کھا کر رہ جاتے تھے۔ بعض بعض ایسے بھی تھے کہ ان کی استقلال سے راہ تھی۔ وہ اس کی دستگیری سے ملکہ کے ایوان تک جا پہنچتے تھے۔ ان میں اکثر ایسے ہوتے تھے جو صلے کو دیکھ کر پچھتاتے تھے کہ ہائے ہماری محنت تو اس سے بہت زیادہ تھی؛ یہ تو کامیابی نہیں ہوئی،حق تلفی ہوئی ہے۔ باقی جو لوگ کہ اخیر انعام لے کر پھرتے تھے، ان کا انجام یہ ہوتا تھا کہ دانائی، داروغْ دانش کی بی بی، ملکہ کی مصاحب تھی، وہ ان کا ہاتھ پکڑتی تھی، اس کی رہنمائی سے لوگ گقشْ قناعت میں جا بیٹھتے تھے۔ ---اے راہ امید کے مسافرو ! کیونکہ داروغْ دانش کی حجتیں اور ان کے رستے کی مشکلیں مجھے بہت سخت معلوم ہوئیں، اس لیے میں نے داروغْ خیال کی طرف رخ کیا، یہاں بارگاہ کی طرف جانے کو کوئی معمولی سڑک نظر نہ آئی مگر ملکہ صاف سامنے کھڑی تھی۔ وہ یہاں ست سر تا پا ساری نظر آتی تھی، اور اپنی عجائب غرائب ، نایاب اور بیش قیمت پر سب کو برابر حسن طلب کے اندر دکھاتی تھی۔ پھر بھی لطف یہ تھا کہ ایک ایک دل کو اپنی ہوا میں جدا جدا انداز سے اڑا رہی تھی، جس سے ہر شخص یہ جانتا
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
صفحہ 113

اور بیگم نور جہاں تھی ۔
شاہجہاں بڑے جاہ و جلال سے آیا۔بہت سے مورخ اُس کے ساتھ کتابیں بغل میں لیے تھے ۔ اور شاعر اُس کے آگے آگے قصیدے پڑھتے آتے تھے ۔ میر عمارت اُن عمارتوں کے فوٹو گراف ہاتھ میں لیے تھے ، جو اُس کے نام کے کتابے دکھاتی تھیں ، اور سیکڑوں برس کی راہ تک اُس کا نام روشن دکھاتی تھیں ۔ اُس کے آنے پر رضا مندی عام کا غلغلہ بلند ہوا چاہتا تھا ، مگر ایک نوجوان آنکھوں سے اندھا چند بچوں کو ساتھ لیے آیا کہ اپنی آنکھوں کا اور بچوں کے خون کا دعویٰ کرتا تھا ۔ یہ شہریار ، شاہجہاں کا چھوٹا بھائی تھا اور بچے اُس کے بھتیجے تھے ۔ اُس وقت وزیر اُس کا آگے بڑھا اور کہا جو کیا گیا ، بد نیتی اور خود غرضی سے نہیں کیا ، بلکہ خلقِ خدا کے امن اور ملک کا انتظام قائم رکھنے کو کیا ۔ بہر حال اُسے دربار میں جگہ ملی اور سلاطین چغتائیہ کے سلسلے میں معزز درجہ پر ممتاز ہوا ۔
ایک تاجدار آیا کہ جبہ اور عمامہ سے وضع زاہدانہ رکھتا تھا ۔ ایک ہاتھ سے تسبیح پھیرتا جاتا تھا ، مگر دوسرے ہاتھ میں جو فرد حساب تھی ، اُس میں غرق تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ اُس کی میزان کو پر تالتا ہے ۔ سب نے دیکھ کر کہا کہ اُنہیں خانقاہ میں لے جانا چائیے ، اس دربار میں اس کیا کچھ کام نہیں ۔ لیکن ایک ولایتی کہ بظاہر مقطع اور معقول نظر آتا تھا ، وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر آگے بڑھا اور کہا کہ اے اراکینِ دربار ، ہمارے ضل سبحانی نے اس کمبخت سلطنت کے لئے بھائی سے لے کر باپ تک کا لحاظ نہ کیا ۔ اُس پر بھی تمہارے اعتراض اُسے اُس دربار میں جگہ نہ دیں گے ۔ یہ لطیفہ اُس نے اس مسخراپن سے ادا کیا کہ سب مسکرائے اور تجویز ہوئی کہ تیموری خاندان کے سب سے اخیر میں اُنہیں بھی جگہ دے دو ۔ معلوم ہوا کہ وہ عالم گیر بادشاہ اور ساتھ اُس کے نعمت خان عالی تھا ۔
اُس کے ساتھ ہی ایک بینڈا جوان ، دکھنی وضع ، جنگ کے ہتھیار لگائے، راجگی

صفحہ 114

کے سکّے تمغے سے سجا ہوا آیا ۔ اُس کی طرف لوگ متوجہ نہ ہوئے ، بلکہ عالم گیر کچھ کہنا بھی چاہتا تھا ، مگر وہ کرسی کھینچ کے اُس کے سامنے ہی بیٹھ گیا اور بولا کہ صاحبِ ہمت کو جگہ دو یا نہ دو ، وہ آپ جگہ پیدا کر لیتا ہے ۔ یہ شیوا جی تھا ، جس سے مرہٹہ خان دان کی بنیاد قائم ہوئی ہے ۔
تھوڑی دیر کے بعد دور سے گانے بجانے کی آواز آئی اور بعد اُس کے بادشاہ آیا ۔ اُس کی وضع ہندوستانی تھی۔ مصنفوں اور مورخوں میں سے کوئی اس کے ساتھ نہ تھا ۔ البتہ چند اشخاص تھے کہ کوئی اُن میں گویا اور کوئی بھانڈ ، کوئی مسخرا نظر آتا تھا ۔ یہ سب گھبرائے ہوئے آتے تھے کیوں کہ ایک ولایتی دلاور اور اُن کے پیچھے پیچھے شمشیرِ برہنہ علم کیے تھا ۔ اُس کی اصفہانی تلوار سے لہو کی بوندیں ٹپکتی تھیں ۔ مخمل رومی کی کلاہ تھی ، جس پر ہندوستان کا تاجِ شاہی نصب تھا اور اسپ بخارائی زیر ران تھا ۔ وہ ہندوستانی وضع بادشاہ محمد شاہ تھا اُسے دیکھتے ہی سب نے کہا کہ نکالو ، نکالو ، ان کا یہاں کُچھ کام نہیں ۔ چنانچہ وہ فوراً دوسرے دروازے سے نکالے گئے ۔ ولایتی مذکور نادر شاہ تھا ، جس نے سرحد روم سے بخارا تک فتح کر کے تاجِ ہندستان سر پر رکھا تھا ۔ اُسے چنگیز خاں کے پاس جگہ مل گئی ۔
تھوڑی دیر ہوئی تھی ، جو ایک غول ہندوستانیوں کا پیدا ہوا ۔ اُن لوگوں میں بھی کوئی مرقع بغل میں دبائے تھا ، کوئی گلدستہ ہاتھ میں لیے تھا ۔ اُنہیں دیکھ کر آپ ہی آپ خوش ہوتے تھے اور وجد کر کے اپنے اشعار پڑھتے تھے ۔ یہ ہندوستانی شاعر تھے ۔ چنانچہ چند اشخاص انتخاب ہوئے ۔ اُن میں ایک شخص دیکھا کہ جب بات کرتا تھا اُس کے منہ سے رنگا رنگ کے پھول جھڑتے تھے ۔ لوگ ساتھ ساتھ دامن پھیلائے تھے ، مگر بعض پھولوں میں کانٹے ایسے ہوتے تھے کہ لوگوں کے کپڑے پھٹ جاتے تھے۔ پِھر بھی مشاق زمین پر گرنے نہ دیتے تھے ، کوئی نہ کوئی اٹھا ہی لیتا تھا ۔ وہ مِرزا رفیع سودا تھے ۔

صفحہ 115

میر بد دماغی اور بے پروائی سے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے تھے۔ شعر پڑھتے تھے اور منہ پھیر لیتے تھے ۔ درد کی آواز دردناک دنیا کی بے بقائ سے جی بیزار کیے دیتی تھی۔ میر حسن اپنی سحر البیانی سے پرستان کی تصویر کھینچتے تھے ۔ میر انشاء اللہ خان قدم قدم پر ایک سے زیادہ بہروپ دکھاتے تھے ۔ دم میں عالمِ ذی وقار ، متقی پرہیزگار ، دم میں ڈاڑی چٹ نگ کا سونٹا کندھے پر۔
جرأت کو اگرچہ کوئی خاطر میں نہ لاتا تھا ، مگر جب وہ مٹھی آواز سے ایک تان اڑاتا تھا ، تو سب کے سر بل ہی جاتے تھے۔ ناسخ کی گل کاری چشم آشنا معلوم ہوتی تھی اور اکثر جگہ قلم کاری اُس کی عینک کی محتاج تھی۔ مگر آتش کی آتش بیانی اُسے جلائے بغیر نہ چھوڑتی تھی۔ مومن کم سخن تھے ، مگر جب کچھ کہتے تھے تو جرأت کی طرف دیکھتے جاتے تھے۔
ایک پیر مرد دیرینہ سال محمد شاہی دربار کا لباس ، جامہ پہنے ، کھڑکی دار پگڑی باندھے ، جریب ٹیکتے آتے تھے۔ مگر ایک لکھنؤ کے بانکے پیچھے پیچھے گالیاں دیتے تھے۔ بانکے صاحب ضرور اُن سے دست و گریبان ہو جاتے ، لیکن چار خاکسار اور پانچواں تاجدار اُن کے ساتھ تھا، یہ بچا لیتے تھے ۔ بڈھے میر امن دہلوی چار درویش کے مصنف تھے اور بانکے صاحب سرور فسانۂ عجائب والے تھے ۔ ذوق کے آنے پر پسند عام کے عطر سے دربار مہک گیا ۔ اُنہیں نے اندر آ کر شاگردانہ طور پر سب کو اسلام کیا ۔ سودا نے آٹھ کر ملک الشعرائی کا تاج اُن کے سر پر رکھ دیا ۔ غالب اگرچہ سب سے پیچھے تھے ، پر کسی سے نیچے نہ تھے ۔ بڑی دھوم دھام سے آئے اور ایک نقارہ اس زور سے بجایا کہ سب کے کان گنگ کر دیے ۔ کوئی سمجھا ، کوئی نہ سمجھا ، مگر سب واہ واہ اور سبحان اللہ کرتے رہ گئے ۔
اب میں نے دیکھا کہ فقط ایک کرسی خالی ہے اور بس اتنے میں آواز آئی کہ آزاد کو بلاؤ ۔ ساتھ آواز کہ شاید وہ اس جرگہ میں بیٹھنا قبول نہ کرے۔ مگر وہیں سے پھر کوئی بولا کہ اُسے جن لوگوں میں بٹھا دوگے ، بیٹھ جائے گا۔ اتنے میں چند اشخاص نے غل مچایا کہ اُس کے

صفحہ 116

قلم بے ایک جہاں سے لڑائی باندھ رکھی ہے ۔ اُسے دربار شہرت میں جگہ نہ دینی چاہیئے۔ اُس مقدمہ پر قیل و قال شروع ہوئی ۔ میں چاہتا تھا کہ نقاب چہرہ سے الٹ کر آگے بڑھوں اور کچھ بولوں کہ میرے ہادی ہمدم یعنی فرشتہ رحمت نے ہاتھ پکڑ لیا اور چپکے سے کہا کہ ابھی مصلحت نہیں ۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی ۔ میں اُس جھگڑے کو بھی بھول گیا اور خدا کا شکر کیا کہ بلا سے دربار میں کرسی ملی یا نہ ملی ، مردوں سے زندوں میں تو آیا۔

خاتمہ


اگرچہ خیالات کے جلسے جمے ہوئے ہیں اور اشخاص تصوری زبان ہائے بے اجسام سے طلسم کاری کر رہے ہیں، لیکن سو کے قریب صفحے سیاہ ہو چکے۔ اب جلسہ ختم اور کچھ عرصہ کے لئے کلام کا دروازہ بند ۔ اے اہلِ انجمن آپ کا آنا مبارک آنا ۔ قدم بر چشم ، مگر جلسۂ آئندہ کی ابھی سے گزارش قبول ہو کہ حصہ دوئم کا سامان بہم پہنچے ۔

صفحہ 117

جنت الحمقاء


تمہید

مضمون مفصلۂ ذیل ایک مرقع خاص کی تصویر کا خاکہ ہے، جس کی صورتِ اصلی یہ ہے کہ ہم اور ابنائے جنس ہمارے ، کچھ اپنی غلط فہمی سے ، اور کچھ کوتاہ اندیشی سے اعمال قبیحہ یا حرکات نے پسندیدہ میں مبتلا ہیں اور باوجود یہ کہ اُس کے حال و مال کی قباحتوں سے آگاہ ہیں ، بلکہ اور ہم صورتوں کو اُن کے خمیازے بھرتے دیکھتے ہیں ، پِھر بھی کنارا کش نہیں ہوتے ۔ تعجب یہ ہے کہ جب اپنی جگہ بیٹھتے ہیں ، تو اس ارتکاب کو داخل حسن سمجھ کر اُس نے افراط اور زیادتی کرنی سرمایۂ فخر سمجھتے ہیں ۔ ایک شراب خوار آدمی یاروں نے بیٹھ کر فخریہ بیان کرتا ہے کہ میں کئی کئی بوتلیں برابر اڑا جاتا ہوں اور حواس میں بالکل فرق نہیں آتا ۔ دوسرا اُس سے بڑھ کر اچھلتا ہے کہ میں پانی تک نہیں ملاتا، نگر آواز میں اصلا تغیّر نہیں ہوتا۔ اسی طرح عیاش تماش بین اپنی روسیاہیوں کو کہتا ہے اور نہیں شرماتا ، دوسرا اُس میں اپنی شدتیں اور افراطیں بیان کرتا ہے اور خوشی سے رنگ رخ چمکاتا ہے ۔ ایک دغا باز منشی یا دیوان غبن کر کے آقا کے گھر کو برباد اور اپنا گھر آباد کرتا ہے اور جو جودغل فصل حساب نے کیے اُنہیں مسائل افلاطون کی طرح فخریہ سمجھتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جیسا کرتے ہیں، ویسا بھرتے ہیں ۔مگر خدا جانے وہ کیا شئے ہے ، جس نے ایسا پردۂ غفلت آنکھوں پر ڈال رکھا ہے کہ نہ وہ برائیاں معلوم ہوتی ہیں ، نہ اُن سے باز آتے ہیں ۔ یہی کوتاہ اندیشی کبھی ایک غلط فہمی کے لباس میں ظہور پاتی ہے یعنی اکثر اشخاص خاص خاص امور میں اپنے
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 123

کرتے تھے۔ ایک نوجوان تخت کے پہلو میں کھڑا تھا اور ہر ایک کو سامنے لا کر سجده کرواتا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اس کا رشید بیٹا ہے، اور شہزادہ خود پرست اس کا نام ہے۔ اس کی خود پسندی اور خود بینی کا یہ عالم تھا کہ اپنی نظر اپنے ہی بیچ میں غرق ہوئی جاتی تھی۔ ادھر ادھر کی شے اسے اصلا نظر نہ آتی تھی۔ اس پر بھی لوگوں کا یہ حال تھا کہ ملکہ سے زیادہ اس کی طرف جھکتے تھے۔
یک گلاب پانش اس کے ہاتھ میں تھا، بقدر حیثیت ہر شخص کے سر پر چھڑک دیتا تھا کہ خود پسندی اور بلند نظری کے خمار سے دماغ ان کے آسمان پر پہنچ جاتے تھے۔ تماشہ یہ تھا کہ شہزادہ جو جو ہتھیار فتوحات کے لیے کام میں لاتا تھا، وہ انہی لوگوں سے لیے تھے جن کو شکار کرتا تھا۔ چنانچہ جس بہادر کو اپنے تیر کا نشانی کرتا تھا،
اسی کے سر کی کلغی نوچ کر اپنے تیر کی پر گیری لگاتا تھا۔ جس نیزے سے اہل علم پر وار کرتا تھا، وہ انہی کے لکھنے کا قلم تھا۔ جبمس تلوار سے دولت مندوں کو دو پارہ کرتا تھا، اس کے قبضہ پر انہی کے خزانوں سے لے کر سونا چڑھاتا تھا۔ ناظمان ملک کے لیے دام تزدیر بناتا تھا کہ پھندے اس کے انہی کی بندش تدبیر سے اڑائے ہوئے تھے۔ صاحب جمالوں کے رخساروں سے گرمی حسن لیتا تھا اور عاشقوں کے ساتھ اسی میں انھیں بھی گرماتا تھا یہاں تک کہ حسن کے پھول خود بخود کملا کر رہ جاتے تھے۔ نصیحتوں کی زبانوں سے بجلی کی تڑپ نکالتا تھا کہ اپنی آگ میں آپ ہی جل کر خاک ہو جاتے تھے۔
تخت کے نیچے تین چڑیلیں پریوں کا بیس بھرے حاضر تھیں۔ اول تو خوشامد تھی کہ بڑی خوش ادائی سے رنگ آمیزی کا خول سنبھالے کھڑی تھی۔ دوسری ظاہرداری آئینہ سامنے رکھے، اپنے فن کی مشق کر رہی تھی۔ بعد اس کے خوش رواجی تھی، جسے اب تک ہم بھیڑ چال کہتے تھے، مگر سے دربار سے رعنائی اور خوشنمائی کا خطاب ملا تھا۔ اس کا یہ عالم تھا کہ ہر نگاہ میں گرگٹ کی طرح نیا رنگ بدلتی تھی، اور

صفحہ 124

ہزاروں شکاروں کو ایک جال میں گھسیٹتی تھی۔

غرض کہ شہزادہ خودپرست، شمشیر کے زور اور تدبیر کی لاگ سے برابر فتوحات حاصل کیے جاتا ہے اور یہ تینوں دولت خواہ اس کے استحکام اور محافظت میں برابر مصروف تھے۔ ہر کام کا مہتمم اپنا حق صدق دل سے ادا کر رہا تھا۔ چنانچہ خوشامد جس شئے پر ضرورت دیکھتی تھی، نئے سے نیا رنگ چڑھا دیتی تھی کہ ہر دل کی آنکھ کو خوش آتا تھا۔ ظاہرداری ایسے ایسے ڈھنگ سے نمائش دیتی تھی کہ کیسی ہی بدنما شئے ہو، خوشنما ہو جاتی تھی۔ خوش رواجی کا یہ عالم تھا کہ موٹے موٹے عیب ہوتے، انہیں ڈھانک دیتی، بلکہ ان پر ایسی خوبیاں چپکاتی کہ جنہیں اس سے کچھ لگاؤ بھی نہ ہوتا۔

میں ان حالات کو نگاہ غور سے دیکھ رہا تھا، جو ایک آواز درد ناک کان میں آئی۔ گویا کوئی کہتا ہے: "ہائے آدم زاد، ہائے تیری غفلت! خودرائی سے ہدایت پاتا ہے، غلط فہمی کے دم میں آجاتا ہے، خود پسندی کی اشتعالک سے چمک اٹھتا ہے، خام خیال کے قدموں پر چل کر تعلیم پاتا ہے، یہاں تک کہ مفلسی اور خواری کی زنجیروں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔" یہ کلمے ابھی زبان بہ زبان پھیلنے نہ پائے تھے، جو دفعتہً ایسی ہلچل پڑی کہ تمام ابنوہ تہہ و بالا ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک طرف سے راستہ کھلتا معلوم ہوا۔ دیکھوں، تو ایک بڈھا نورانی صورت، معقول وضع، جس کے چہرے پر سنجیدگی اور متانت برستی تھی۔ اسے گرفتار کیے لاتے ہیں اور جو کلام عبرت انگیز نصیحتہً اس نے زبان سے نکالا تھا، اس کی سزا دینے کے لیے جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کے آئین حکومت میں سراسر باعث خرابی تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس نے جو کچھ کہا تھا، فقط اپنے بری الزمہ ہونے کو کہا تھا۔ اس کا نام ناصح دانش تھا۔ مگر لوگ ایسے بکھرے ہوئے تھے کہ اس بچارے کی بات سنی بھی گوارا نہ تھی۔

صفحہ 125

بلکہ اسے ایسی خواری اور زاری میں دیکھ کر خام خیال تو مسکراتی تھی، خودپسندی تیوری چڑھائی تھی۔ خوشامد اسے ذرا راست باز سمجھتی تھی، اس نے اتنا لحاظ کیا کہ برقع اوڑھ کر برابر سے نکل گئی۔ ظاہرداری نے اپنا پنکھا اٹھا کر اس کی اوٹ میں منہ چڑا دیا۔ کسی نے اس بچارے کا نام حاسد رکھا، کسی نے عیب جو کا خطاب دیا۔ رواج نے دھوم مچادی کہ بداطوار سلطنت کے برخلاف بغاوت پھیلانی چاہتا ہے۔ غرض اس پیر دیرینہ سال نے ہر طرف سے ذلت ہی ذلت اٹھائی اور اس جرم میں کہ ایسے ایسے لائق و فائق معززوں کے حق میں گستاخی کی، چاروں طرف سے دھکے کھائے۔ بلکہ تحقیق خبر لگی کہ اگرچہ اس وقت نکالا گیا ہے، مگر حکم ہے کہ آینده اگر کہیں صورت دکھائی تو اس کے حق میں بہت برا ہو گا۔
بڈھے بےچارے نے جو کچھ کہا، اس میں سے بہت کچھ تو میں آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ باقی باتوں کے لیے سوچ رہا تھا کہ دیکھئیے، کس رنگ سے پوری ہوں۔ اتنے میں باہر کی طرف سے ایک غل اٹھا اور ظلم و ستم اور بے انصافیاں چڑیوں کے برن میں اسی طرح اڑنے لگیں، گویا آندھی آئی۔ انھوں نے اس کثرت سے ہجوم کیا کہ دروازہ تیرہ و تار ہوگیا۔ بیوقوفی اور بےاعتباری نمودار ہوئیں۔ تکلیف، شرم، رسوائی، حقارت، مفلسی سب سے آگے پیچھے حاضر ہوئیں۔ ان کے آتے ہی ادھر تو خام خیالی جو سونے کی چڑیا بنی بیٹھی تھی، ادھر شہزادہ خود پرست، ان کے ساتھ ساری پریاں دم کے دم میں ہوا ہو گئیں۔ اور تمام معتقدا اور ہوا خواہ ان کے بھاگ بھاگ کر کونے گوشے اور سوراخوں میں گھس گئے۔ مگر ایک شخص میرے پاس کھڑا تھا۔ اسے کہیں سے دوربین ہاتھ آ گئی۔ چنانچہ اس نے دیکھا اور دفعتہً بولا کہ وہ گرفتاری کا حکم ہوا، وہ سو آدمیوں کا غول جیل خانے کو چلا، دو ہزار آدمی تہہ خانے میں قید ہونے کو چلے، وہ سب اندھیری کوٹھریوں میں بند ہو گئے۔ مراد اس قید سے زندگی کے عذاب،


صفحہ 126


دنیا ککے دھندے، مکر و فریب کے جھگڑے تھے۔ جن مکانوں میں وہ لوگ ڈالے گئے، ان کی خرابی دیکھنی چاہو، تو دلہائے پریشاں کی بدحالی کو دیکھ لو۔ وہ لوگ اگرچہ یہاں ہائے وائے بہت سی کرتے تھے، مگر نکلنے کے راستے کی طرف کبھی خیال نہ کرتے تھے۔ چنانچہ اس شخص نے ناک چڑھا کر کہا کہ یہ کمبخت اپنی حماقت اور شامت اعمال سے آپ یہاں پڑے ہیں۔ نہیں تو، نہ یہ مکان ان کی شان کے قابل ہیں، نہ یہ اخراجات ان کے سامان کے لیے کافی ہیں۔ خیر ہم نے ایسے تماشے بہت دیکھے ہیں۔ اب یہ ہلچل ہو چکے گی، تو پھر وہی بہار کا سماں ہوگا۔
جب میں نے یہ سنا، تو اس کارخانہ کی ناپائیداری نے میرا دل بے زار کر دیا۔ میرے رفیق نے جو خبر دی تھی، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مگر جب دیکھا کہ یہ بغیرت گرفتار ہوئے یہاں سے نہ سرکے گا تو میں چپکے سے دروازہ کی طرف کھسکا، اور چند اور شخصوں میں جا ملا کہ جو صداقت اور واقعیت کو مانتے تو نہ تھے، مگر ان کی شامت اعمال کے گرفتاروں کو دیکھ کر ڈر گئے تھے۔ جب ہم دروازے کی دہلیز پر پہنچے تو دل پر صدمہ عظیم گزرا۔ یعنی وہاں آ کر غلط نمائی کا پردہ آنکھوں سے اٹھ گیا۔ تب معلوم ہوا کہ اس محل کی بنیاد بالکل نہیں، معلق ہوا میں کھڑا ہوا ہے۔ اول تو ہم نے سوائے اس کے چارہ نہ دیکھا کہ موت کا کنواں ہے، آنکھیں بند کرو اور کود پڑو۔ مگر اس پہلی ہوس بےحاصل پر دل کو ہزار لعنت ملامت کی، جس نے اس عذاب میں گرفتار کیا۔
اب مقام تعجب یہ ہے کہ جس قدر یہ سب اپنے اپنے دل میں غور کرتے جاتے تھے، اتنا ہی وہ محل ہمیں نیچے اتارتا جاتا تھا، یہاں تک کہ جو حالت ہم اپنے مناسب حال دیکھتے تھے، اسی انداز پر آ کر ٹھہر گیا۔ رفتہ رفتہ تھوڑی دیر میں جہاں ہم کھڑے تھے، وہ مقام زمین سے لگ گیا۔ ہم سب نے نکل کر اپنا اپنا راستہ لیا اور محل

صفحہ 127

آنکھوں سے غائب ہو گیا۔ اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو لوگ اس میں رہے، ان پر کیا گزری، اور انہیں ہمارے اتر جانے کی خبر بھی ہو یا نہیں۔ میں تو جانتا ہوں کہ نہیں ہوئی۔ خیر جو ہوا، سو ہوا۔ اس سوچ میں دفعتہً میری آنکھ کھل گئی۔ خواب تو خواب و خیال ہو گیا، مگر نصیحت ہوئی کہ اب خام خیالی کے اشاروں پر کبھی نہ چلوں گا۔ اس راہ خطرناک میں پھر قدم نہ دھروں گا۔

صفحہ 128

خوش طبعی

خوش طبعی کی تعریف میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ کیا شئے ہے۔ البتہ یہ کہنا آسان ہے کہ وہ کیا شئے نہیں ہے۔ میں اگر اس کی نسبت کچھ خیالات بیان کروں، تع افلاطون حکیم الہی کی طرح کنایہ اور استعارہ سے بیان کروں، اور ظرافت کو ایک شخص قرار دے کر اس سے وہ صفتیں منسوب کروں، جو کہ نسب نامہ مندرجہ ذیل میں درج ہیں۔ یہ واضح ہو کہ سچ ہے خوش طبعی کے خاندان کا بانی مبانی ہے۔ اس گھرانے میں حسن ادب ایک نہایت معقول شخص تھا۔ اس کا بیٹا حسن بیان ہوا؛ اس نے اپنے ایک برابر کے خاندان میں شادی کی۔ اس کی دلہن کا نام خندہ جبین تھا کہ آٹھ پہر ہنستی ہی رہتی تھی۔ چنانچہ ان کے گھر میں میاں خوش طبع پیدا ہوئے۔ چونکہ خوش طبع سارے خاندان كا لب باب تھا اور بالکل مختلف طبیعت کے والدین سے پیدا ہوا تھا، اس لیے اس کی طبیعت بوقلمون اور گوناگوں تھی۔ کبھی تو نہایت سنجیدہ اور معقول وضع اختیار کر لیتا تھا۔ اور کبھی رنگین بانکا بن جاتا تھا۔ کبھی ایسا بن کر نکلتا گویا قاضی القضات یا شیخ الاسلام چلے آتے ہیں، اور کبھی ایسے مسخرے بن جاتے تھے کہ بھانڈوں کو بھی طاق پر بٹھاتے۔ لیکن چونکہ ماں کے دودھ کا بڑا اثر ہوتا ہے، اس لیے کسی حالت میں ہو، اہل محفل کو ہنسائے بغیر نہ رہتا تھا۔ اسی کے ہمسایہ میں ایک مکر باز جعل ساز بھی رہتا تھا کہ اس نے بھی خوش طبع اپنا نام رکھ لیا تھا اور لوگ بھی اس بد ذات کو اسی کا قائم مقام سمجھتے تھے۔ پس اس خیال سے کہ نیک مرد، ناواقف اسی کے دھوکے میں نہ آئیں،

صفحہ 129

میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب کے پڑھنے والے اگر کبھی ایسے شخص سے ملیں تو اس کی اصل نسل کو اچھی طرح سمجھ لیں اور غور سے دیکھیں کہ دور نزدیک کچھ رشتہ اس کا سچ کے قبیلہ سے جا ملتا ہے یا نہیں۔ اور حقیقت میں وہ حسن ادب کے گھرانے سے پیدا ہوا ہے یا کسی اور سے۔ اگر یہ نہ ہو تو وہی جعل ساز بہروپیا سمجھیں۔
ایک پہچان اس کی یہ بھی ہے کب جب وہ کسی محفل میں بیٹھا ہوتا ہے، تو اسی کے قہقہے کان میں آتے ہیں اور گرد اس کے متین اور معقول ہوگ خاموش بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اور جب ظرافت اصلی محفل آرا ہوتی ہے تو آپ کمال سنجیدگی سے بیٹھی ہوتی ہے، گرد اس کے سب ہنستے ہیں۔ بلکہ اتنی بات اور بھی کہتا ہوں اگر اس کے خاندان میں خوش طبعی یا خندہ جبینی یا خوش بیانی کسی کی بو نہ آئے، تو قسے بھی وہی جعل ساز بہروپیہ سمجھنا چاہیے۔
جس بہروپیہ بھانڈ کا میں نے ذکر کیا وہ اصل میں جھوٹ کی اولاد سے ہے اور جھوٹ حقیقت میں زٹل کا باپ تھا۔ زٹل سے ایک بیٹا پیدا ہوا، کہ اس کا نام سڑی مستان تھا۔ اسی طرح حماقت ایک پھوڑ عورت تھی اور اس کی ایک بیٹی تھی، جسے مسخرن و دانی کہتے تھے۔ اس سے سڑی مستان نے شادی کی۔ ان دونوں سے عجب طرفہ معجون بچہ پیدا ہوا جسے تم بہروپیا بھانڈ سمجھتے ہو، بعض اشخاص کو بعض اوقات اس کے کلام میں خوش طبعی یا خوش بیانی کی بو آتی ہے، مگر وہ حقیقت میں ظرافت بد اصل ہے۔ اب میں ان دونوں کا نسب نامہ لکھتا ہوں۔

جھوٹ

زٹل
سڑی مستان خاوند (مسخری دوانی بی بی)
ظرافت بد اصل یا نقلی
یعنی بہروپیا بھانڈ

سچ

حسن ادب
حسن بیان
خوش طبعی (خندہ جبینی بی بی)
ظرافت اصلی یا خوش طبعی

صفحہ 130

میں اس استعارہ کو زیادہ تفصیل دیتا اور ظرافت بد اصل یعنی بہروپیا بھانڈ کی اولاد جو ریگ بیابان سے بھی زیادہ ہے، سب کا حال نام بنام بیان کرتا، خصوصاً ان لڑکے لڑکیوں کا کچھ حال حال لکھتا جن سے ملک وجود میں اس نے اپنی ناپاک نسل پھیلائی ہے۔ مگر اس سے جا بجا حسد کی آگ بھڑک اٹھتی، اس لیے جی نہیں چاہتا۔ پھر بھی اتنا ضرور کہوں گا ظرافت اصلی اور ظرات نقلی میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا آدی اور بندر میں۔ سب پہلے تو یہ ہے کہ اسے بندر کی طرح جھوٹ موٹ کی دغابازیاں اور ویسے ہی نقلیں کرنے کی عادت ہے۔ دوسرے، اس قسم کے کام کر کے نہایت خوش ہوتا ہے۔ بلکہ دونوں باتیں اسے یکساں ہیں۔ خواہ خلعت پہناوے، خواہ رسوا کر دے۔ ابھی ایک شخص کو باعظمت و احترام بنا دے، ابھی چٹکیوں میں اڑا دے۔ کسی کی نافہمی و بدعقلی دکھا دے، کسی کی دانش و دانائی سنا دے۔ ابھی دولت و نعمت کی مسند پر بٹھا دے، ابھی کنگال فقیر بنا دے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جھوٹ کے تھیلی ہر وقت بھری ہے، کبھی خالی نہیں ہوتی۔ تیسرے ایسا کمبخت کہ جو ہاتھ اسے رزق دیتا ہے، اسی کو کاٹ کھاتا ہے۔ اور دوست دشمن دونوں کی برابر خاک اڑاتا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ انسانیت سے خارج ہے، اس لیے خوش طبعی کیے جاتا ہے۔ جیسی ہو سکے اور جہاں ہو سکے، یہ نہ ہو کہ جیسی ہونی چاہیے اور جہاں ہونی چاہیے۔ چوتھے، چونکہ عقل سے بالکل محروم ہے، اس واسطے اخلاق یا صلاحیت کی نصیحت پر ذرا کان نہیں دھرتا۔ پانچویں، چونکہ ہنسی چہل کے سوا اور کسی قابل نہیں اور ہر شخص پر فوقیت کی ہوس رکھتا ہے، اس لیے اسکا تمسخر ہمیشہ ذاتی ہے یعنی کسی صاحب معاملہ، یا صاحب تصنیف کی ذات سے منسوب ہوتا ہے، نہ کہ فقط اس کی برائی یا اس کی تصنیف سے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
-------------
نیرنگ خیال ۔پی ڈی ایف
صفحہ 52
-------------
تھا کہ جو نگاہ مجھ پر ہے، وی کسی ہر نہیں اور مجھ سے زیادہ کسی کو کامیابی کی امید نہیں ۔ اسی واسطت بجائے خود کسی کا دماغ پایا نہ جاتا تھا۔ پہاڑ اس خیالی رستے کی طرف سے ایسا ڈھلوان تھا کہ قدم نہ ٹھہر سکتا تھا، کیوں کہ وہمی باتوں میں، پائداری کہاں؟ باوجود اس کے آمد و رفت کے نشان کے نشان بہت کثرت سے تھے کیونکہ اس رستے پت چلنے والے بہت ہیں۔ اس کی سڑک سایہ دار درختوں سے ایسی چھائی ہوئی تھی کہ کسی کو جانا مشکل معلوم نہ ہوتا تھا۔ ساتھ ہی اس کے ہرشخص یہ جانتا تھا کہ جو رستہ میں نے پایا ہے وہ کسی کو ہاتھ ہی نہیں آیا۔

یہ بلا نصیب لوگ بہتیرے جتن کر رہے تھے۔ بعضے تع ایسے کلدار پر لگانے کی فکر میں تھے، جن کی حرکت کبھی تھمے ہی نہیں۔ بعضے کہتے تھے "جو ہو سو ہو، انہی قدموں سے چلے جاؤ، بلا سے مرجاؤ۔" یہ سب حکمتیں کرتے تھے۔ اس پر بھی زمین سے اٹھ نہیں سکتے تھے، اور اٹھے تو وہیں گر پڑے۔ مگر یہاں پڑے تھے ، تاک ادھر ہی لگی تھی اور اس حال تباہ پر خود پسندی کا یہ عالم تھا کہ جو لوگ عقل کی کٹھن منزل میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، ان پر پڑے پڑے ہنستے تھے۔

اکثر خیال کے پیارے اور وہم کے بندے ایسے بھولے بھالے تھے، جنہوں نے اس باغ میں آکر اوروں کی طرح چڑھنے کا ارادہ بھی نہ کیا تھا۔ یوں ہی ایک جگہ پڑ رہے تھے۔ یہ مقام کاہل گھاٹی کہلاتا تھا۔ مگر ملہک یہاں سے بھی سامنے تھی۔ یہ اسی یقین میں خوش پڑے تھے کہ کوئی دم میں وہ خود یہاں آیا چاہتی ہیں۔ اگرچہ اور لوگ ان وہمیوں کو احمق اور کاہل وجود سمجھتے تھے، مگر انہیں کچھ پروا بھی نہ تھی، بلکہ یہ غم غلط لوگ اسی دعوے میں خوش بیٹھے تھے کہ سب سے پہلے ہم پر نظر عنایت ہو گی۔

انہی بے پرواؤں میں میں بھی پڑا پھرتا تھا۔ ان میں اتنا لطف پایا کہ اگر کوئی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
-------------
نیرنگ خیال ۔پی ڈی ایف
صفحہ 53
-------------
بات کرے، تو اس کا جواب دیتے تھے، اور اپنی باتوں سے بھی دل خوش کرتے تھے۔ اسی خیال میں یکایک نظر پھیر کر جو دیکھا، تو معلوم ہوا کہ دو دیو ڈراؤنی صورت، بھیانک مورت، اس گھاٹی میں چلے آتے ہیں کہ ان کی کسی کو خبر نہیں۔ ایک کو تو میں جانتا ہوں کہ عمر ہے، مگر دوسرا افلاس تھا۔ ان کے دیکھتے ہی سارے باغ اور چمن آنکھوں میں خآک سیاہ ہو گئے، اور یہ معلوم ہوا کہ بس عہش و آرام کا خاتمہ ہو گیا۔ دلوں پر خوف و ہراس چھا گیا۔ لوگ جو ڈر کے مارے چیخیں مار مار کر چلائے، تو گویا عالم میں ایک کہرام مچ گیا۔ اسی سے میں بھی چونک پڑا اور دیکھ، تو کچھ بھی نہ تھا۔
------------
---------------
-----------------
 

سید عاطف علی

لائبریرین
-------------
نیرنگ خیال ۔پی ڈی ایف
صفحہ 54
-------------

سیر زندگی

ایک حکیم کا قول ہے کہ زندگی ایک میلہ ہے، اور اس عالم میں جو رنگارنگ کی حالتیں ہم پر گزرتی ہیں، یہی اس کے تماشے ہیں۔ لڑکپن کے تماشے کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھے، نوجوان ہوئے اور پختہ سال انسان ہوئے۔ اس سے بٹھ کر بڑھاپا دیکھا اور حق پوچھو تو تمام عمر انسانی کا عطر وہی ہے۔؂1
جب اس فقرے پر غور کیا، اور آدمی کی ادلتی بدلتی حالت کا تصور کیا، تو مجھے انواع و اقسام کے خیال گزرے۔ اول تو اس کی ضرورتوں اور حآجتوں کا بدلنا ہے کہ ہردم ادنیٰ ادنیٰ چیز کا محتاج ہے۔ پھر اس کی طبیعت کا رنگ پلٹنا ہے کہ ابھی ایک چیز کا طلبگار ہوتا ہے، ابھی اس سے بیزار ہوتا ہے اور جو اس کے برخلاف ہے اس کا عاشق زار ہوتا ہے۔ پھر غفلت ہے کہ وقت کے دریا میں تیراتی پھرتی ہے۔ لطف یہ کہ سب خرابیاں دیکھتا ہے اور چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ میرا دل ان خیالات میں غرق تھا کہ دفعۃً درد و مصیبت کی فریاد، خوشی کے ولولے، ڈر کی چیخیں، ہواؤں کے زور، پانی کے شور، ایسے اٹھے کہ میں بے اختیار اچھل پڑا۔؂2
---------------------------------
؀1
بہت سے گرم و سرد زمانے کے دیکھتا ہے۔ نشیب و فراز عالم کے طے کرتا ہے۔ بچپن سے لے کر ساری جوانی تجربوں میں گزارتا ہے۔ جب گھس پس کت بڈھا ہولیتا ہے، تو ذرا آدمی بنتا ہے، اور اس قابل ہوتا ہے کہ جو سنے یا دیکھے، اسے کچھ سمجھ بھی سکے۔
؂2
ابھی ایک طرف ناچ رنگ شادی اور مبارک بادی ہے، ابھی دوسری طرف سے رونے پیٹنے کی آواز آتی ہے۔ ابھی ایک گھر میں دولت و اقبال کا جوش و خروش ہے، ابھی ایک صدمہ ایسا پڑا کہ ساری خوشیاں مٹی ہو گئیں ہیں۔ ادھر آبادی ہے، ادھر بربادی ہے۔ ادھر ہوائے ترقی و جوش اقبال ہے، ادھر ادبار کی آندھی۔ ابھی عمر کاجہاز صحیح و سلامت بار مراد پر چلا جاتا ہے، ابھی طوفان طلاطم میں غوطے کھا رہا ہے۔

 
Top