نیم در نیم ہوا ، ریت میں سوکھا دریا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نیم در نیم ہوا ، ریت میں سوکھا دریا
آتے آتے مری بستی ہوا صحرا دریا

اپنی مٹی میں گُہر اتنے کہاں سے آئے
ایسےلگتا ہے یہاں سے کبھی گذرا دریا

ایک دو روز کی بارش سے نہیں کچھ ہونا
پیاسی مٹی کی ضرورت تو ہے بہتا دریا

برف زاروں میں شب و روز جلا کر اپنے
قطرہ قطرہ میں نے پگھلا کے بنایا دریا

ق

باندھ لو بند شراکت کے رواداری کے
روک لو روٹھ نہ جائےکہیں چلتا دریا

یہ تو املاک ہے سبزے کی ، گلوں کی جاگیر
لڑنا کیسا کہ نہ تیرا ہے نہ میرا دریا

یہ توبادل کی وراثت ہے ، زمیں کاصدقہ
جتنا تقسیم ہو اُتنا ہے یہ اچھا دریا



اے مرے آبِ وطن تجھ کو دعا پیاسوں کی
تیری موجوں کی روانی رہے دریا دریا

ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۱



 
بہت عمدہ ظہیر بھائی۔
اپنی مٹی میں گُہر اتنے کہاں سے آئے
ایسےلگتا ہے یہاں سے کبھی گذرا دریا

برف زاروں میں شب و روز جلا کر اپنے
قطرہ قطرہ میں نے پگھلا کے بنایا دریا

یہ تو املاک ہے سبزے کی ، گلوں کی جاگیر
لڑنا کیسا کہ نہ تیرا ہے نہ میرا دریا

یہ توبادل کی وراثت ہے ، زمیں کاصدقہ
جتنا تقسیم ہو اُتنا ہے یہ اچھا دریا

اے مرے آبِ وطن تجھ کو دعا پیاسوں کی
تیری موجوں کی روانی رہے دریا دریا
آمین
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔
یہ پرانی غزل ہے اسی لیے شاید معمولی سی اغلاط در آئی ہیں۔ جیسے
قطرہ قطرہ میں نے پگھلا کے بنایا دریا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔
یہ پرانی غزل ہے اسی لیے شاید معمولی سی اغلاط در آئی ہیں۔ جیسے
قطرہ قطرہ میں نے پگھلا کے بنایا دریا

محترمی اعجاز بھائی اس مصرع میں تو کوئی غلطی نہیں ہے ۔ عروضی لحاظ سے بالکل درست ہے۔ آپ شایداس غزل کے مطلع سے سرسری گزر گئے ہیں ۔ میں نے مطلع میں حیلہ استعمال کرتے ہوئے قافیہ کشادہ کرلیا ہے ۔ صحرا کا الف اصلی ہے اور اس کے مقابل سوکھا کا وصلی الف لاکر میں نے الف کو حرفِ روی قائم کردیا ۔ سو اب وہ تما م الفاظ جن کے آخر میں یا، با، تا، جا ، سا وغیرہ آتے ہیں وہ اس غزل مین قافیہ بن سکتے ہیں ۔ چنانچہ شعر مذکور میں اس حیلے کی وجہ سے ’’بنایا ‘‘ کا قافیہ درست ہے ۔ میرا گمان ہے کہ یہ قافیہ آپ کو شاید اس لئے کھٹک رہا ہوگا کہ اس غزل کے دیگر تمام قوافی کے الفاظ تو فعلن کے وزن پر ہیں لیکن یہ والا قافیہ فعولن کے وزن پر ہے ۔ لیکن آپ تو جانتے ہی ہیں کہ قافیے کے الفاظ کا ہموزن ہونا کوئی شرط نہیں ہے ۔ صرف شرائطِ قافیہ کا پورا ہوانا لازمی ہے ۔ سو یہ مصرع بالکل درست ہے ۔
 

جاسمن

لائبریرین
اے مرے آبِ وطن تجھ کو دعا پیاسوں کی
تیری موجوں کی روانی رہے دریا دریا
آمین!ثم آمین!
یہ توبادل کی وراثت ہے ، زمیں کاصدقہ
جتنا تقسیم ہو اُتنا ہے یہ اچھا دریا
بالکل ۔بہت عمدہ خیال۔

یہ تو املاک ہے سبزے کی ، گلوں کی جاگیر
لڑنا کیسا کہ نہ تیرا ہے نہ میرا دریا
واہ کیا ستھری سوچ ہے۔

باندھ لو بند شراکت کے رواداری کے
روک لو روٹھ نہ جائےکہیں چلتا دریا
بہت مثبت۔

برف زاروں میں شب و روز جلا کر اپنے
قطرہ قطرہ میں نے پگھلا کے بنایا دریا
یہ غزل بھی ایسی ہی کوشش لگ رہی ہے۔

ایک دو روز کی بارش سے نہیں کچھ ہونا
پیاسی مٹی کی ضرورت تو ہے بہتا دریا
واقعی۔

اپنی مٹی میں گُہر اتنے کہاں سے آئے
ایسےلگتا ہے یہاں سے کبھی گذرا دریا
بہت خوب!

نیم در نیم ہوا ، ریت میں سوکھا دریا
آتے آتے مری بستی ہوا صحرا دریا
واہ واہ۔
ایک خوبصورت غزل۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آہ !!! یہ غربت کا دکھ چھپائے نہیں چھپتا ۔بہت خوب۔ظہیر بھائی ۔
اپنی جڑوں سے کٹ کر کیسے مطمئن رہا جاسکتا ہے عاطف بھائی ۔
مرنا جینا تو ابھی تک ہے انہی گلیوں میں
اس کے کچھ اشعار کالا باغ ڈیم کے پس منظر مین لکھے گئے تھے ۔ ایک مسئلہ کہ جس کے بارے میں بچپن سے سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں ۔ شاید کبھی کوئی اللہ کا بندہ قوم سے مخلص ہو کر سوچے اور یہ مسئلہ حل ہو ہی جائے ۔ آمین ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت عمدہ ظہیر بھائی۔
بہت شکریہ تابش بھائی ! خوشی ہے کہ آپ کو پسند آئی غزل ۔ :):):)

بہت خوب ظہیر بھائی !
عمدہ اشعار ہیں۔
شکریہ احمد بھائی ! آپ توآجکل آل راؤ نڈر بنے ہوئے ہیں ۔ کرکٹ کا سیزن ہے شاید! :):):)

بہت خوب!
واہ واہ۔
ایک خوبصورت غزل۔

بہت بہت شکریہ جاسمن صاحبہ!! اللہ تعالٰی آپ کا ذوق سلامت رکھے ۔ امن و امان مین رکھے ۔ آمین ۔
 

الف عین

لائبریرین
محترمی اعجاز بھائی اس مصرع میں تو کوئی غلطی نہیں ہے ۔ عروضی لحاظ سے بالکل درست ہے۔ آپ شایداس غزل کے مطلع سے سرسری گزر گئے ہیں ۔ میں نے مطلع میں حیلہ استعمال کرتے ہوئے قافیہ کشادہ کرلیا ہے ۔ صحرا کا الف اصلی ہے اور اس کے مقابل سوکھا کا وصلی الف لاکر میں نے الف کو حرفِ روی قائم کردیا ۔ سو اب وہ تما م الفاظ جن کے آخر میں یا، با، تا، جا ، سا وغیرہ آتے ہیں وہ اس غزل مین قافیہ بن سکتے ہیں ۔ چنانچہ شعر مذکور میں اس حیلے کی وجہ سے ’’بنایا ‘‘ کا قافیہ درست ہے ۔ میرا گمان ہے کہ یہ قافیہ آپ کو شاید اس لئے کھٹک رہا ہوگا کہ اس غزل کے دیگر تمام قوافی کے الفاظ تو فعلن کے وزن پر ہیں لیکن یہ والا قافیہ فعولن کے وزن پر ہے ۔ لیکن آپ تو جانتے ہی ہیں کہ قافیے کے الفاظ کا ہموزن ہونا کوئی شرط نہیں ہے ۔ صرف شرائطِ قافیہ کا پورا ہوانا لازمی ہے ۔ سو یہ مصرع بالکل درست ہے ۔
نہیں قافیے پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ ‘میں نے‘ محض ”مَ نے‘ تقطیع ہوتا ہے۔ جو ناگوار لگتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
Top