آصف شفیع
محفلین
غزل:
نیند میں جا چکی ہے رانی بھی
قصہ گو! ختم کر کہانی بھی
شہرِ دل کو اجاڑنے والو!
یہ محبت کی ہے نشانی بھی
قافلہ کھو گیا ہے صحرا میں
ختم ہونے لگا ہے پانی بھی
لوگ خیموں کو بھی جلاتے ہیں
اور کرتے ہیں نوحہ خوانی بھی
تو نے چاہت کے خواب دیکھے تھے
دیکھ اشکوں کی اب روانی بھی
اس طرح تو جدا نہیں ہوتے
چھوڑتے ہیں کوئی نشانی بھی
آج ملنے ہی کو چلے آؤ
خوب ہے رنگِ آسمانی بھی
پھوٹ یونہی نہیں پڑی آصف
اس میں شامل ہے بد گمانی بھی
( آصف شفیع)
نیند میں جا چکی ہے رانی بھی
قصہ گو! ختم کر کہانی بھی
شہرِ دل کو اجاڑنے والو!
یہ محبت کی ہے نشانی بھی
قافلہ کھو گیا ہے صحرا میں
ختم ہونے لگا ہے پانی بھی
لوگ خیموں کو بھی جلاتے ہیں
اور کرتے ہیں نوحہ خوانی بھی
تو نے چاہت کے خواب دیکھے تھے
دیکھ اشکوں کی اب روانی بھی
اس طرح تو جدا نہیں ہوتے
چھوڑتے ہیں کوئی نشانی بھی
آج ملنے ہی کو چلے آؤ
خوب ہے رنگِ آسمانی بھی
پھوٹ یونہی نہیں پڑی آصف
اس میں شامل ہے بد گمانی بھی
( آصف شفیع)