حسان خان
لائبریرین
مخمس بر غزلِ اوستادی اعنیٰ حضرت مولانا شمس الدین فیض نور اللہ مرقدہ
نے غیر سے ہم خوش ہیں نہ اپنے سے خفا ہیں
کہنے کو ہیں عالم میں پہ عالم سے جدا ہیں
جوں آئینہ ہم زنگِ تعلق سے صفا ہیں
مردودِ خلائق ہیں کہ مقبولِ خدا ہیں
اب تک نہیں معلوم ہمیں کون ہیں کیا ہیں
تحصیل ہوئی شکرِ خدا علمِ لَدُن کی
آئینہ ہوئی پیشِ نظر صورتِ معنی
ہوشیاری میں رہتی ہے ہمیں بے خبری سی
آتے ہیں شب و روز سماعت میں ہماری
ہرچند کلام آپ کے بے صوت و صدا ہیں
فقرہ یہ کوئی برہمن و شیخ کو سمجھائے
تم مسجد و بت خانہ میں بتلاؤ تو کیا پائے
باز آؤ دو رنگی سے تو یک رنگ نظر آئے
ہم تم ہیں اسی پردے میں جس وقت یہ اٹھ جائے
کچھ اور ہی عالم ہے کہاں ما و شما ہیں
اوراق کے الٹانے کو سمجھے ہیں شریعت
معلوم نہیں روح کو بھی اُن کی طریقت
نے معرفت ان کو ہے میسر نہ بصارت
اربابِ ظواہر سے نہ کچھ پوچھ حقیقت
یہ لوگ ہیں خوش لفظ سے معنی سے خفا ہیں
نے صومعہ میں جائے پڑھے اور نہ ہدایا
نے کنز کے دیکھے سے ہو معلوم یہ فِقرا
داتا مرے کس طرح سے حل ہو یہ معمّا
کہتے ہیں جسے علم وہ ہے ایک ہی نقطا
اس رمز سے آگاہ اگر ہیں فُقرا ہیں
دکھلائی ہے وہ رشکِ قمر صورتِ بے مثل
جو خواب میں دیکھے نہ بشر صورتِ بے مثل
تکتا ہوں میں اب آٹھ پہر صورتِ بے مثل
رہتی ہے سدا پیشِ نظر صورتِ بے مثل
آنکھیں مری آئینۂ اربابِ صفا ہیں
زنہار نہ ہو طاعتِ جسمانی پہ نازاں
کھل جائے اگر بھید تو ہو گا تُو پشیماں
صورت تو ذرا دیکھ لے آئینے میں ناداں
اک بینی و دو گوش نہیں معنیِ انساں
انسان جنہیں کہتے ہیں وہ لوگ جدا ہیں
کیوں آئے ہیں یاں کون ہے اس کام سے واقف
کیا لطف ہوئے چار ہیں جو نام سے واقف
نے دل کی خبر ہے نہ دل آرام سے واقف
آغاز سے آگاہ نہ انجام سے واقف
افسوس کہ ہم لوگ بھی کیا بے سر و پا ہیں
کیا منہ ہے کریں جو صفتِ ذاتِ مکرم
دیکھا ہے وہ عالم کہ تصدق ہے دو عالم
سنتے ہیں جنہیں لوگ وطنؔ ثانیِ ادہم
کہتے ہیں جنہیں فیضؔ اُنہیں جانتے ہیں ہم
درویش کی صورت ہیں محبِ فُقرا ہیں
(سید افتخار علی شاہ چشتی قادری وطنؔ )
نے غیر سے ہم خوش ہیں نہ اپنے سے خفا ہیں
کہنے کو ہیں عالم میں پہ عالم سے جدا ہیں
جوں آئینہ ہم زنگِ تعلق سے صفا ہیں
مردودِ خلائق ہیں کہ مقبولِ خدا ہیں
اب تک نہیں معلوم ہمیں کون ہیں کیا ہیں
تحصیل ہوئی شکرِ خدا علمِ لَدُن کی
آئینہ ہوئی پیشِ نظر صورتِ معنی
ہوشیاری میں رہتی ہے ہمیں بے خبری سی
آتے ہیں شب و روز سماعت میں ہماری
ہرچند کلام آپ کے بے صوت و صدا ہیں
فقرہ یہ کوئی برہمن و شیخ کو سمجھائے
تم مسجد و بت خانہ میں بتلاؤ تو کیا پائے
باز آؤ دو رنگی سے تو یک رنگ نظر آئے
ہم تم ہیں اسی پردے میں جس وقت یہ اٹھ جائے
کچھ اور ہی عالم ہے کہاں ما و شما ہیں
اوراق کے الٹانے کو سمجھے ہیں شریعت
معلوم نہیں روح کو بھی اُن کی طریقت
نے معرفت ان کو ہے میسر نہ بصارت
اربابِ ظواہر سے نہ کچھ پوچھ حقیقت
یہ لوگ ہیں خوش لفظ سے معنی سے خفا ہیں
نے صومعہ میں جائے پڑھے اور نہ ہدایا
نے کنز کے دیکھے سے ہو معلوم یہ فِقرا
داتا مرے کس طرح سے حل ہو یہ معمّا
کہتے ہیں جسے علم وہ ہے ایک ہی نقطا
اس رمز سے آگاہ اگر ہیں فُقرا ہیں
دکھلائی ہے وہ رشکِ قمر صورتِ بے مثل
جو خواب میں دیکھے نہ بشر صورتِ بے مثل
تکتا ہوں میں اب آٹھ پہر صورتِ بے مثل
رہتی ہے سدا پیشِ نظر صورتِ بے مثل
آنکھیں مری آئینۂ اربابِ صفا ہیں
زنہار نہ ہو طاعتِ جسمانی پہ نازاں
کھل جائے اگر بھید تو ہو گا تُو پشیماں
صورت تو ذرا دیکھ لے آئینے میں ناداں
اک بینی و دو گوش نہیں معنیِ انساں
انسان جنہیں کہتے ہیں وہ لوگ جدا ہیں
کیوں آئے ہیں یاں کون ہے اس کام سے واقف
کیا لطف ہوئے چار ہیں جو نام سے واقف
نے دل کی خبر ہے نہ دل آرام سے واقف
آغاز سے آگاہ نہ انجام سے واقف
افسوس کہ ہم لوگ بھی کیا بے سر و پا ہیں
کیا منہ ہے کریں جو صفتِ ذاتِ مکرم
دیکھا ہے وہ عالم کہ تصدق ہے دو عالم
سنتے ہیں جنہیں لوگ وطنؔ ثانیِ ادہم
کہتے ہیں جنہیں فیضؔ اُنہیں جانتے ہیں ہم
درویش کی صورت ہیں محبِ فُقرا ہیں
(سید افتخار علی شاہ چشتی قادری وطنؔ )