ن۔م راشد

”ن۔م ۔راشد“



ڈاکٹرآفتاب احمد ”ن ۔ م ۔ راشدشاعر او ر شخص“ میں فرماتے ہیں کہ،
” راشد شاعر نہیں ، لفظوں کے مجسمہ ساز ہیں ۔ و ہ نظمیں نہیں کہتے ، سانچے میں ڈھلے ہوئے مجسّمے تیار کرتے ہیں۔“
آزاد نظم کو ایک نیا اسلوب ، نیا لہجہ اور نئی ہیئت عطا کرنے والوں میں ن۔ م ۔ راشد اور میراجی سر فہرست ہے۔ ان دونوں شعراءکا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع تھا۔ آزاد نظم کا ابتداءمیں خوب مذاق بھی اُڑایا گیا۔ شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور، شفیق الرحمن نے اس کی پیروڈیاں تحریر کیں ۔ میراجی اور ن۔م۔ راشد پر خوب الزام تراشی ہوئی لیکن انہوں نے آزاد نظم کہنا ترک نہ کی۔ ن ۔م ۔ راشد نے اپنے فکر و فن سے آزاد نظم کو اس کی کم سنی ہی کے ایام میں جوانی کی جس اٹھان سے ہمکنار کیا اور اس کے ابتدائی دور ہی میں اسے جس نقطہ عروج تک پہنچا دیا اس کی بدولت انہوں نے خود اپنے لئے بھی اور اس کے لئے بھی بقائے دوام کی سند ضرور حاصل کر لی۔بقول عزیز احمد
” ن ۔ م ۔راشد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نظم آزاد کو اردو میں مقبول کیا۔“
ن۔ م راشد کی نظموں کو ابتداءمیں نقادوں اور قارئین نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ اعترا ض لگایا کہ ان کی نظموں میں شدید ابہام ملتا ہے۔ عام ذہن کا قاری ان کے مفہوم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ پھر نقادوں نے ان کو جنس ذدگی مریضانہ فراریت ، شکست خوردہ ذہنیت ، غیر سماجی رویوں کا مالک قرار دیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ن۔م راشد نے عام قاری کے ذہن سے ایک بلند ذہنی چھلانگ لگائی۔ ان کی تمنا تھی کہ ان کا قاری ان کی ذہنی سطح پر آکر سمجھے لیکن جب تک پورے معاشرے کا ذہن ارتقائی حالت سے نہ گزرے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ معاشرے کی سوچ سے بلندسوچ رکھنے والے شاعر کو سمجھا جاسکے ۔ چنانچہ آ ج بھی اوسط درجہ کا ذہن رکھنے والے لوگ راشد کی نظموں کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ لیکن ان باتوں کے باوجود آزاد نظم کو راشد کے ہاتھوں جو مقبولیت نصیب ہوئی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ اردو میں اس کے بانی تصور کئے جانے لگے۔ اور ایک دوسرے کے بغیر دونوں کا تصور ناممکن ہوگیا۔

راشد کا ذہنی و فکری ارتقاء:۔

بعض شعراءارتقاءکے منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔ ہمارے سامنے ارتقاءکی دو بڑی مثالیں ، اقبال اور راشد ہیں۔ راشد آگے بڑھتا ہے۔ ”ماورا“ سے لےکر ”ایران میں اجنبی“ تک اور یہاں سے ”لا=انسان“تک اور یہاں سے ”گماں کا ممکن “تک یہ سلسلہ بڑھتا ہے۔ راشد کی ابتدائی شاعری جو ”ماورائ“ میں موجود ہے اس پر ایک قنوطی رنگ چھایا ہوا ہے۔ جو کسی نہ کسی حد تک آخر تک موجود ہے ۔ شاعر کو زندگی میں حسن اور دلکشی نظر نہیں آتی ۔ زندگی سے بےزاری اور بے اطمینانی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی ایک زہر بھرا جام ہے۔

الہٰی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں ، جاہلوں ، مردوں کی بیماروں کی دینا ہے
یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے

راشد کے ہاں محبت ایک تقاضا ہے اور اس تقاضے کو پورا کرنے کے لئے آس پاس اور گرد وپیش پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ وہ محبت میں داخلی اور خارجی حقائق کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اس کی نظم ”میں اسے واقف الفت نہ کروں “ بظاہر سادہ ہے مگر اس میں زندگی کی داخلی اور خارجی پہلو نمایاں ہیں۔

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیر غم الفت نہ کروں
اُس کو رسوا نہ کروں ، وقف مصیبت نہ کروں

ماوراءمیں راشد سکون کی تلاش میں ہے۔ ”خواب کی بستی“ میں وہ خوابوں میں پناہ لینا چاہتے ہیں ۔ نظم ”رخصت“ میں وہ مناظر فطرت میں سکون ڈھونڈتے ہیں ۔ انہیں روحانی محبت میں سکون نہیں ملتا ۔ لہٰذا ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جسمانی محبت کی طرف چلا جاتا ہے۔نظم”مکافات “ میں ملاحظہ کیجئے،

اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے؟

راشد ماوراءمیں ایک عملی انسان کا تصور پیش کرتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بات ہم تک پہنچائی ہے کہ ہمیں اگر کچھ کرنا ہے تو عملی طور پر کرنا ہوگا ۔ ”اجنبی عورت “اور ”دریچے کے قریب“ نظموں میں وہ اس عمل کی طر ف بڑھ رہا ہے۔
ن۔م۔ راشد نے ”ماوراء“ کی نظموں میں عملی زندگی گزارنے کا جو درس دیا تھا ”ایران میں اجنبی“ میں اس درس کو اور بھی آگے بڑھاتا ہے۔ ”ایران میں اجنبی“ کی نظمیں ”ماورائ‘ ‘سے بھی آگے ہیں ۔ راشد نے جو کچھ ”ماوراء“ میں سوچاتھا اُس کی وضاحت انہوں نے ”ایران میں اجنبی“ میں کی ۔ انہوں نے اپنی سوچ یہاں آکر بہت واضح کر دی ہے۔ ماوراءمیں سوچ محدود تھی ۔ اب یہاں اُن کاتصور انقلاب تک پھیل جاتا ہے ۔ راشد ایک طرف مشرق کا زوال بیان کرتا ہے اور دوسری طرف انقلابی کیفیات کو واضح کرتا ہے۔ ”سومنات“ ، ”نمرود کی خدائی “ اس بارے میں نمائندہ نظمیں ہیں۔

نئے سرے سے غضب کی سج کر
عجوزئہ سومنات نکلی
مگر ستم پےشہ غزنوی
اپنے حجلہ خاک میں ہے خنداں

ایران میں اجنبی نہ تو ایران کا سفر نامہ ہے اور نہ ایران کے بارے میں شاعر کی ذاتی تاثرات بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ملکی حدود سے نکل کر راشد نے ایران میں مشرق و مغرب کی کشمکش کو اور بھی قریب سے دیکھا ہے۔
لا=انسان سے لے کر”گمان کا ممکن “تک نئے انسان کے تصورات پائے جاتے ہیں لیکن اس انسان کے تعارف کے ساتھ ایک اور سلسلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہاں راشد عالمی سطح پر سوچنے کے بعد اور بہت زیادہ معلومات حاصل کرنے کے بعد الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے یہاں وہ ایک عالمی سطح کے انسان کے بارے کہہ رہے ہیں لیکن ان کے پاس اس انسان کے لئے کوئی واضح مستقبل نہیں ہے۔ وہ یہاں Confuseہے۔ اب یہاں سے راشد کائنات کی طرف چلاجاتاہے۔ اور پھر اُن کارابطہ خدا سے ہو جاتا ہے۔ لہذا یہاں ایک واضح تصور نہ ملنے کی وجہ سے راشد ابہام کا شکار ہو گیا ہے۔ اب وہ راستوں پر بھٹک رہا ہے۔ اس طرح وہ ایک مقام پر پہنچ کر بے معنی ہو جاتا ہے۔ لا=انسان سے لےکر ”گما ں کاممکن“ تک ابہام ہی ابہام ہے۔ راشد کا جو تعلق خارجی دنیا سے تھا وہ تعلق یہاں کٹ جاتاہے۔ ”اسرفیل کی موت“ ابہا م کی نمائندہ نظم ہے۔

مرگ اسرفیل سے
دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
زبان بندی کے خواب!
جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو
اُس خداوندی کے خواب!

”زندگی سے ڈرتے ہو“ اور ”میر ے بھی ہیں کچھ خواب“ رجائیت کی دو آخری آوازیں ہیں۔ اس کے بعد راشد ڈوب جاتا ہے۔ اور مایوسی کی طرف چلا جاتا ہے اور صرف اپنی ہی ذات میں مقید ہو جاتا ہے۔ راشد نے جو خواب دیکھے تھے اُن کا بھر م ٹوٹ گیا اور وہ بے یقینی کے دلدل میں پھنس گیا ہے۔ راشد آخر میں مایوس ہوکر طنزیہ شاعری بھی کرتا ہے۔ ”تعارف“ نظم میں بے عمل لوگوں پر طنز کیا ہے۔اپنے غیر مطبوعہ کلا م میں وہ ایک نئی سوچ دینا چاہتا ہے لیکن لاحاصل ،

راشد تصور انسان:۔

راشد کا انسان جدید معاشرے کا ، جدید تعلیم و تہذیب کا اور جدید مادی دور کا ایک انتشار پسند انسان ہے۔ جس کو اس سماج نے مایوسی دی اور بے یقینی سے ہمکنار کیا۔ بقول وزیر آغا۔ ” اس کے قدم زمین پر نہیں ہے بلکہ وہ زمین سے ہٹ کر خلا میں کھڑا ہواانسان ہے۔“
راشد کے انسان کے نزدیک بہت سے حقائق بے معنی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بہت سی چیزوں سے رابطہ توڑا ہے اوروہ حال کے تقاضوں میں زندہ ہے اور اس کی نظر مستقبل پر ہے۔ اس کا رابطہ ماضی سے نہیں ہے۔ روایت سے نہیں ہے ۔ مذہب سے نہیں ہے۔ اخلاقی و تہذیبی اقدار سے نہیں ہے ۔ راشد کا انسان جدید سائنس کا انسان ہے۔ راشد کا بنیادی موضوع مشرق ہے ۔ مشرق اور مغرب کے درمیان وہ ایک اکائی کو دریافت کرنا چاہتا ہے ۔ اور ان کو یکجا کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ ایسے انسان کی خواہش رکھتا ہے۔ جو باعمل ہو پھر کہیں جا کر مشرق مغرب کے ساتھ مل سکتا ہے۔ راشد نے بے عمل انسانوں پر جو صرف تن آسانی اور آرا م طلبی کو ترجیح دیتے ہیں نظم ”تعارف “ میں بہت گہرا طنزکیاہے۔

اجل ان سے مل
کہ یہ سادہ دل
نہ اہل صلوٰة اور نہ اہل ِ شراب
نہ اہل ادب اور نہ اہل ِحساب
نہ اہل کتاب
نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین
نہ اہل خلا ءاور نہ اہل زمیں
فقط بے یقین
اجل ان سے مت کر حجاب
اجل ان سے مل

اس کے علاوہ راشد ایک اور نظم ”زندگی سے ڈرتے ہو“ میں ایک ایسے انسان کا تصور پیش کرتا ہے جو ڈرتا نہیں ہے ۔ حالات کا مقابلہ جانتا ہے اور ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے

زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو ، آدمی تو ہم بھی ہیں !
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے!

راشد کا موضوع جب نیا انسان ہو گیا تو اس کی شاعری میں ابہام پیدا ہو گیا ہے ۔اب راشد کا موضوع وہ انسان ہے جو روز بروز ٹوٹ رہا ہے۔ اور وہ انسان ہے جو وجود کے معنی کھو چکا ہے۔ راشد یہاں ایک سوال اٹھاتا ہے کہ انسان کی قیمت کیا ہے؟انسان کائنات کا گم شدہ ہندسہ ہے اور ہمیں اس کی تلاش کرنی ہوگی۔ لیکن اس موضوع پر راشد کے ہاں انتہائی ابہام ہے۔ ”حسن کوزہ گر“ نظم انسان کی حقیقت تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے۔

راشد کا تہذیبی لا شعور:۔

ن۔ م راشد عمر بھر اپنے تہذیب ، ماضی اور روایات و اقدار کی پرُ زور نفی کرتے رہے لیکن اس کے باوجود ماضی کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکے۔
راشد کے تہذیبی لاشعور میں نشاطیہ رنگ نمایاں ہے۔ان کی شاعری میں تہران ، بغداد اور وسطی ایشیاءکے شہروں کی جمالیاتی قدروں کا ایک پر نشاط منظر نامہ بنتا ہے۔ میراجی کے حافظے میں جنوبی ایشیاءکے سرچشمے ملتے ہیں جبکہ راشد کے ہاں عرب ، عجم ، مشرق وسطی ٰ کے شہروں ، پہاڑوں اور دریاوں کا ذکر ملتا ہے۔ ”حسن کوزہ گر“ ”اندھا کباڑی“ ”زندگی اِک پیرہ زن“ کی علامیتں اور کرداروں سے یہی فضا ملتی ہے۔

جہاں زاد ، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف
کی دکان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں و ہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں
نوسال دیوانہ پھرتا رہا ہوں

راشد شعوری طور پر ماضی کا مخالف ہے لیکن لاشعوری طورپر وہ اپنے ماضی، اقدار اور اخلاقیات میں تہذیبی لا شعور سے نہیں نکل سکے۔

راشد ایک باغی شاعر:۔

ن۔ م راشد کے بارے میں نقادوں نے متضاد آراءدی ہیں ۔ کسی نے راشد کو جنس پرست قرار دیا ہے کسی نے ترقی پسند شاعر کا لیبل لگایا اور کسی نے سماج کا باغی شاعر قرار دیاہے۔ اگر راشد کی شاعری کو غور سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ روایت ، مذہب، خدا، مغرب کے خلاف ہے اور مشرق سے بغاو ت کر رہا ہے۔ راشد ماضی سے رشتہ توڑ چکا ہے۔ روایت سے رابطہ چھوڑ چکا ہے۔ مغربی تہذیب سے متاثر ہے اس لئے اس کائنات، خدا اور انسان کو بھی مغربی نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ راشد کہتا ہے کہ مشرق نے تمام کام خدا کے سپرد کئے ہیں۔راشد نے مشرقی محبت سے بھی بغاوت کی ہے۔ و ہ افلاطونی عشق پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

روحیں مل سکتی نہیں تو یہ لب ہی مل جائیں
آ اُسی لذت جاوید کا آغاز کریں

راشد کے کلام میں بغاوت کا ہر زاویہ نہایت نمایاں نظر آتا ہے وہ غیر ملکی استعمار اور غاصب اور اجنبی حکومت کے خلاف نفرت اور سرکشی کا اظہار کرتے ہیں ۔انہوں صرف اقبال اور اکبرکی طرح محض غیر ملکی تہذیب یا حکومت کی مذمت نہیں کی بلکہ ایک باغی سپاہی کی طرح دشمن سے انتقام لینے کی بھی ٹھانی ہے۔ اور جہاں بس چلا ہے اپنے انتقام کے زہر کو دشمن کی رگوں میں اتارا ہے۔

اس کا چہر اس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اِک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میر ے”ہونٹوں “ نے لیا تھا رات بھر
جس اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!

لیکن یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ باغی توڑٹا ہے جوڑتا نہیں ۔ مجتہد توڑ کر جوڑتا ہے۔ ہر بڑا شاعر مجتہد ہوتا ہے۔ راشد میں بھی مجتہدانہ رویہ بہت زیادہ ہے

اسلوبیاتی بغاوت:۔

بقول کرشن چندر،
”فنی نقطہ نگاہ سے راشد اےک صحےح باغی شاعر ہے۔“
لیکن اس بات سے کئی نقادوں کو اختلاف ہے۔ ان کے خیال میں راشد نے اردو شاعری کی روایات سے حسب ضرورت انحراف کیاہے لیکن وہ انحراف نہ تو فن کی سطح پر اور نہ فکر کے اعتبار سے اتنا مکمل ہے کہ اسے بغاوت کا نام دیا جا سکے۔ بغاوت کسی موجودہ نظام کو یکسر بدل کر ایک بالکل نیا نظام قائم کرنے کی کوشش کا نام ہے ۔ راشد کی آزاد شاعر ی ، جو دراصل جدید اردوشاعری کے بتدریج فکری و فنی ارتقاءکی ایک نمایاں منزل ہے، نہ تو پہلے سے موجود نظام کو یکسر بدلتی ہے اور نہ نیا نظام قائم کرتی ہے۔
بقول وقار عظیم
”راشد کی شاعری پرانے طرز سے بغاوت نہیں بلکہ نئے اور پرانے طرز میں ایک خوشگوار سمجھوتہ ہے۔
آزاد نظم کی ہیئت سے انہوں نے بہت کام لیا ہے۔ انہوں نے انگریزی اور فرانسیسی شعراءکی تقلید میں آزاد نظم کا سانچہ تیارکیا ۔ لیکن انہوں نے اسمیں جدت پیدا کی اور اپنی آزاد نظموں میں بھی بحر اور وزن کا باقاعدہ التزام رکھا۔

تیر ے رنگین رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس کے آگے ہیچ جرعات ِ شراب
یہ سنہری پھل ، یہ سمیں پھول مانند شراب

علامت نگاری:۔

راشد کی علامت نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے سب سے پہلے ان کی اساطیری علامت ”سمندر“ کا جائزہ لیتے ہیں۔یہ علامت مختلف معانی اور مفاہیم کے ساتھ قدیم تہذیبوں میں موجود رہی ہے۔ یہ ایک متنوع علامت ہے جس کے معنی اور تصورات کی بہت سی سطحیں دیکھی جا سکتی ہیں۔”سمندرکی تہہ میں “ سمندر تہ در تہ پر اسرار لاشعور کی علامت ہے۔ جس کی اتھا ہ گہرائیوں میں نامعلوم کیا کچھ پڑا ہے، ماضی اور ماضی کے تجربات اساطیر، خواب ، ناتمام خواہشیں اور پرانی یادیں۔ انسانی لا شعور ایک جنگل ہے جس میں قسم کے پودے ، پھول اورپیڑ خاموش کھڑے ہیں۔ بھولے بسرے چہرے اور فراموش شدہ آوازیں پکارتی رہتی ہیں۔

سمندرکی تہ میں
سمندر کی سنگین تہ میں
ہے صندوق۔۔۔۔۔۔۔
صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا
میں ڈبیا

راشد کی دوسری علامت صحرا کی ہے۔ راشد کی طویل نظم ”دل مرے صحرا نوردِ پیر دل “ میں صحرا تاریخی اور جبلی آزادی کی ایک بڑ ی علامت کے ساتھ نظر آتا ہے۔اس نظم میں شاعر ایک ایسی ارفع ترین سطح پر نظر آتا ہے۔ جہاں وہ آنکھ بند کئے ایک الہامی پیغام رساں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حال اور مستقبل اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ نئے آدم کی بشارت کی خوش خبری دیتا ہے۔ریت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں،

ریگ صبح عید کے مانند زرتاب و جلیل
ریگ صدیوں کا جمال

راشد کی شاعری میں ایک اور بھر پور علامت ”آگ “ کی ہے۔ جو تیسر ی دنیا میں آزادی اور حریت کی للکار بھی بنتی ہے اور اس کے ساتھ انسان کی تہذیبی لاشعور کو بھی پیش کرتی ہے۔ ”گماں کا ممکن “ میں ”آگ“ سے علامت ”نئی آگ“ کی ایک علامت بنتی ہے۔ جو مقدس پر سرور ہے۔ یہ نئی آگ نئے آدمی کی علامت ہے۔ نیا آدمی جو روایت شکن ہے۔ ماضی سے بےزار ہے ۔ نیا آدمی حال کو تبدیل کرکے ایک جہاں ِ نو تخلیق کرنا چاہتا ہے ۔ یہ جہان ِ نو آزادی ، حریت مساوات اور اعلی انسانی اقدار سے مرتب ہوگا

نئی آگ ،دل
دل ناتواں کی نئی آگ سب کا سرور
نئی آگ سب سے مقد س ہمیں
نئی آگ ہر چشم و لب کا سرور
نئی آگ سب کا سرور

”سمندر“ ، ”آگ“ اور صحرا کے علاوہ راشد کی شاعری میں اور بھی کئی قسم کی علامتیں ہیں۔ جن میں آئینہ، دروازہ ، پیڑ ، دیو، مندر ، جنگل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
راشد کی علامتوں کی بہتر تفہیم کے لئے ایک تو ان کے تہذیبی لاشعور تک رسائی ضروری ہے ۔ اور دوسرے ان کے عہد کے سماجی و سیاسی شعور کے عمل سے گزرنا ضروری ہے

کردار نگاری:۔

راشد کی شاعری کو ایک محدود سطح پر ہم کردار کی شاعری کہہ سکتے ہیں ۔ ماورا ءمیں کچھ کردار ہیں جو کہ ”میں “ کے صیغہ میں واحد متکلم میں نظر آتے ہیں۔ ”رقص “، ”خود کشی“ ”انتقام“ میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں جس میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں۔جس میں ”میں “بطور کردار استعمال ہوا ہے۔ یہ کردار متنوع نہیں ہیں اور محرومی کا شکار ہیں۔ ان لوگوں کے اپنے مسائل اور المیے ہیں اور یہ مسائل پھیلے ہوئے نہیں ہیں۔

اے میری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڈرسے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آکر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پالے میرا
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!

راشد کے علامتی کرداروں میں ”اندھا کباڑی“ بھی قابل ذکر ہے۔ وہ بے بصر ہے مگر صاحب بصیرت ہے۔ اس کا شہر صاحب بصر ہے مگر بصیرت سے محروم ہے۔ شہر خواب کے خوف کے مرگ میں مبتلا ہے۔ اور کباڑی کے شور اور خوشامد کے باوجود شہر پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اورکوئی اس کے خواب لینے کے لئے تیار نہیں ۔ اب یہ شہر رفتہ رفتہ انحطاط اور موت کی گرفت میں جا ر ہا ہے۔

خوب لے لو خواب
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے اُن سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو!

راشد نے تصور وقت پر بھی بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک نظم”حسن کوزہ گر“ نمائندہ نظم ہے۔جو”لا =انسان “ کی پہلی اور ”گماں کا ممکن “ کی آخری نظم ہے۔ یہ نظم چار حصوں پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں سب سے مضبوط کردار ”حسن کوزہ گر “ کا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کردار تمام اردو نظموں میں ایک مضبوط کردار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ راشد نے یہاں فن اور عشق کا تعلق بتایا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں۔ دونوں کے بغیر ایک چیز مکمل نہیں۔ ”حسن کوزہ گر“ ”جہاں ذاد“ سے محبت کرتا ہے۔ یہاں یہ محبت ”حسن“ میں تحریک فن پیدا کرتی ہے۔

تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں ذاد
لیکن تو چاہے تو میں پھر پلٹ جائوں
اُن اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے
اُس رنگ و روغن سے پھر وہ شرارے نکالوں
کہ جن سے دلوں کے خرابے ہوں روشن

راشد کا اسلوب:۔
بقول ڈاکٹر آفتاب احمد
”راشد شاعر نہیں لفظوں کے مجسمہ ساز ہیں وہ نظمیں نہیں کہتے ، سانچے میں ڈھلے ہوئے مجسمے تیار کرتے ہیں۔“

تشبیہات استعارات :۔

راشد نے محسوس کیا کہ قافیہ اور ردیف کی پابندی ہٹ جانے کے بعد آزاد نظم کہیں خشک اظہار خیال نہ رہ جائے ۔ اس لئے راشد نے اپنی نظموں میں بعض بہت خوبصورت بر محل تشبیہات بھی استعمال کیں ہیں۔ یہ تشبیہیں نئی طرح کی ٹھوس حقائق سے ابھری ہیں۔ جبکہ استعارہ کے حوالے سے راشد ایک معنوی نظام تشکیل دیتے ہیں ۔ بعض اوقات نظم خود استعارہ بن جاتا ہے۔

عشق کا ہیجان آدھی رات اور تیرا شباب
تیری آنکھ اور میرا دل
عنکبوت اور اس کا بےچارہ شکار
تلمیحات:۔

راشد تلمیح کا استعمال بھی کرتے ہیں جدید دور میں تلمیح کا استعمال بہت کم شاعروں نے کیا ہے۔ راشد کے ہاں پورایک تلمیحاتی نظام موجود ہے۔ راشد کا شعور تلمیح کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔اس میں کچھ تلمیحات تاریخی اور کچھ دیومالائی ہیں۔”سبا ویراں“ ”اسرفیل کی موت“ وغیر ہ نمائندہ نظمیں ہیں۔

مرگ اسرافیل پر آنسو بہائو
و ہ خدائوں کا مقرب ، وہ خدا وند ِ کلام
صورت انسانی کی روح ِ جاوداں
آسمانوں کی ندائے بے کراں۔

فارسی کا اثر:۔

راشد کی نظم پر فارسیت کا غلبہ ہے لیکن ان کا کما ل یہ ہے کہ فارسی کی ڈھلی ڈھلائی تراکیب فارسی زبان سے اردو میں اس طرح منتقل کی ہیں کہ وہ اردو ہی کا حصہ قرار پائی ہیں۔راشد کے ہاں یزداں و اہرمن،سرزمین ِانجم،جلوہ گہ راز، فردوس گم گشتہ،ملائے رومی، مجذوب ِ شیراز، سمرقندو بخارا، دیوتا وغیرہ کی تراکیب ملتی ہیں۔

اختر شیرانی کا اثر:۔

ابتدائی شاعری میں راشد کے اسلوب پر اختر شیرانی اور اقبال کا اثر بہت نمایاں ہے ۔ مثلاً نظم ”میں اسے واقف الفت نہ کروں پر اختر شیرانی کا اثر نمایاں ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ یہ نظم راشد کی نہیں ہے۔
اُس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا

کہانی کا اسلوب:۔

اصل چیز جو راشد کی پہچان ہے وہ کہانی کا اسلوب ہے۔ اس کے لب ولہجے میں اس کی زبان میں اور اسلوب میں راشد ایک داستان گوایک کہانی نگار نظرآتے ہیں۔ خاص کر لا=انسان اور گماں کا ممکن میں یہ اسلوب زیادہ مضبوط ہے۔ مثلاً حسن کوزہ گر اور ابولہب کی شادی اس بارے میں نمائندہ نظمیں ہیں۔
راشد کو روایتی اسلو ب کا باغی کہا جاتا ہے لیکن وہ ایک باغی سے زیادہ مجتہد نظر آتے ہیں ۔ اُنھوں نے روایت میں جدیدیت پیدا کی نہ کہ روایت کو ختم کر ڈالا ۔

مجموعی جائزہ:۔

کچھ شاعر مکمل جدید اور کچھ مکمل قدیم ہوتے ہیں ۔ لیکن راشد مکمل طور پر ایک جدید شاعر ہے۔ اپنی اسالیب اور موضوعات کے حوالے سے راشد ایک جدید شاعر ہے۔ اُس کا موضوع جدید معاشرہ اور جدید فرد ہے۔ راشد کے ہاں معاشرے اور انسان کے حوالے سے جو تصورات ملتے ہیں اُن تصورات کے اثرات بعد کے نظم پر گہرے ہیں ۔ راشد اور میرا جی نے انسان کی داخلیت اور بے چینی کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں ۔ بعد کے نظم نگاروں نے اُن کو آگے بڑھایا۔ راشد جدید نظم کا آدمی تھا۔ اسی وجہ سے شائد وہ اچھی غزل نہ لکھ سکا۔ غزل میں روایت کے اثرات ہوتے ہیں اس لئے راشد نے انہیں اچھی طرح نہ برت سکا۔ یہی جدیدیت راشد کو ان کے دیگر ہم عصر شعراءفیض، جوش ، احسان دانش ، میراجی ، یوسف ظفر ، قیوم نظر وغیر ہ سے ممتاز کرتی ہے۔ بقول ڈاکٹر عبدالوحید،
” راشد کے انداز میں ایک اعتماد ، لہجے میں تیقن ، اظہار میں زور اور پھیلاو پایا جاتا ہے۔ ان کی ہر نظم کے موضوع ، اس کے اجزائے ترکیبی ، اظہار ِ خیال اور ایک ایک لفظ کی نشست سے انفرادیت ٹپکتی ہے۔
 
Top