x boy
محفلین
ایسے15 ارب پتی افراد جو اپنی دولت بچوں کی بجائے فلاحی کاموں کے لیے چھوڑنے کے خواہش مند ہیں یہ خود تو دنیا سے خالی ہاتھ جائیں گے ہی مگر اپنے بچوں کو بھی خالی ہاتھ چھوڑ کر جائیں گے
دنیا میں اولاد سے زیادہ پیارا کوئی نہیں ہوتا اور ہر انسان ان کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے دن رات محنت سے اپنی دنیا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آتے ہیں اور ان کے والدین اتنے اثاثوں کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ دونوں ہاتھ سے بھی لٹائے تو بھی ختم نہیں کرسکتے۔ عام تصور یہ ہے کہ امیر طبقہ بس بچوں کو اپنے تمام اثاثوں کا مالک بنانے کے لیے جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کمانے کو برا نہیں سمجھتا مگر دنیا کے تمام ارب پتی اپنے بچوں کے لیے اس طرح کی سوچ نہیں رکھتے، یقیناً متعدد افراد اپنی مہنگی ترین گاڑیاں، طیارے، کشتیاں اور گھر وغیرہ مرنے کے بعد اولاد کو آپس میں لڑنے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں تاہم دنیا کے کچھ ایسے امیر ترین افراد بھی ہیں جو دنیا سے خود تو خالی ہاتھ جائیں گے ہی مگر ساتھ اپنے بچوں کو بھی خالی ہاتھ چھوڑ کر جائیں گے۔ یقین نہیں آتا ناں ؟ مگر واقعی دنیا کے پندرہ امیر ترین افراد ایسے ہیں جنھوں نے اپنے مرنے کے بعد اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور سب کچھ خیرات یا فلاحی کاموں کے لیے صرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٭بزنس ٹائیکون وارن بفٹ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک اور کھلے دل کے مالک وارن بفٹ نے اپنی زندگی یا مرنے کے بعد اپنی 99 فیصد دولت بانٹنے کا وعدہ کررکھا ہے، انہوں نے اپنے 83 فیصد اثاثے ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کو دینے کا اعلان کررکھا ہے۔انہیں مرنے کے بعد بچوں کی بھی زیادہ فکر نہیں کیونکہ گیٹس فاؤنڈیشن کے نام ایک خط میں وارن بفٹ نے درخواست کی ہے میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کو اتنا دے دیا جائے کہ وہ محسوس کرسکیں کہ وہ دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے کچھ کرنا ہی ہوگا ، مگر وہ اتنا بھی نہ ہو کہ ان کے اندر کچھ کرنے کا احساس ہی پیدا نہ ہو۔ ٭ای بے کے بانی پیری او مڈائیر ای بے کے بانی 31 سال کی عمر میں ہی ارب پتی بن چکے تھے مگر انہوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اپنے تینوں بچوں میں تقسیم کرنے کی بجائے فلاحی کاموں کے لیے دان کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔انہوں نے بل گیٹس اور وارن بفٹ کے پاس ایک تحریری وعدہ 2010 میں جمع کرایا تھا اور مسلسل اپنے ای بے شیئر اومڈائیر نیٹ ان کی فلاحی سرمایہ کاری کی کمپنی کو دے رہے ہیں۔ وہ اور ان کی اہلیہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بھی دنیا کے سب سے بڑے پرائیویٹ ڈونر ہیں۔ ٭مائیکل بلومبرگ امریکی شہر نیویارک کے طویل عرصے تک مئیر رہنے والے بلومبرگ سرکاری فرائض کے دوران صرف ایک ڈالر تنخواہ لیتے تھے کیونکہ ان کے بیس ارب ڈالرز کے لگ بھگ اثاثے انہیں دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک بناتے ہیں۔مگر بلومبرگ ایک مخیر فرد بھی ہیں جو سالانہ کروڑوں ڈالرز جانز ہوپکنز یونیورسٹی، کارنیج کارپوریشن اور ہزاروں دیگر فلاحی اداروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اپنے ایک تحریری وعدے میں بلومبرگ نے تحریر کیا ہے کہ میری لگ بھگ تمام تر جمع پونجی آنے والے برسوں میں تقسیم کردی جائے گی یا میری فاؤنڈیشن کے نام ہوگی۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں مگر باپ کی موت پر انہیں کچھ نہیں ملنے والابلکہ بلومبرگ نے ایک بار کہا تھا کہ سب سے بہترین مالیاتی منصوبہ بندی اس وقت ناکام رہتی ہے جب گورکن کو آخری رسومات کے لیے دیا جانے والا چیک باؤنس ہوجائے۔ ٭راک اسٹار جین سائمنز یہ صاحب امریکا کے معروف ترین بینڈز میں سے ایک کے رکن ہیں۔ اس نے غربت سے امارات تک کا مشکل سفر طے کیا، وہ اسرائیل میں پیدا ہوا جہاں سے اپنی ماں کے ساتھ امریکا منتقل ہوا اور ایک گروپ کی بنیاد رکھی جس نے گزرے برسوں میں 28 گولڈن ریکارڈز تیار کیے۔سائمنز بھی اپنے دونوں بچوں کے لیے کچھ چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا اور اس کا کہنا ہے کہ میرے بچوں کو وراثت ملے گی جس کا وہ خیال بھی رکھیں گے تاہم وہ میری دولت سے امیر نہیں کہلائیں گے کیونکہ انہیں ہر روز اپنا بستر جلد چھوڑ کر باہر نکل کر کام کرنا پڑے گا اور اپنا راستہ خود بنانا ہوگا۔ سمز نے اپنے گانوں سے جو تیس کروڑ ڈالرز کمائے ہیں وہ اس کی موت کے بعد کسی اور جگہ کسی اچھے مقصد کے لیے خرچ ہوں گے۔ ٭آسٹریلین آئرن میگنیٹ جینا رائن ہارٹ جینا رائن ہارٹ آسٹریلیا کی امیر ترین خاتون ہیں اور یہ بھی اپنے بچوں کو اپنی وراثت سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ جینا نے اپنی قسمت اپنے والد کے ترکے میں ملنے والی کمپنی سے بنائی اور اس کے بچوں کو بھی نانا کی جائیداد میں حصہ دینے کی وصیت موجود ہے مگر عدالتی دستاویزات کے مطابق رائن ہارٹ کو نہیں لگتا کہ اس کے بچے خاندانی دولت کو سنبھالنے کے قابل ہیں۔ ٭مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس بل گیٹس دنیا کے امیرترین افراد میں سے ایک ہیں مگر وہ اور ان کی اہلیہ ملینڈا اپنی دولت اپنی ذات یا اپنے تینوں بچوں تک محدود رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بل گیٹس کہتے ہیں ’’مجھے نہیں لگتا کہ بچوں کو اپنی دولت میں حصہ دار بنانا کوئی اچھا خیال ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی بنیاد 1994 میں رکھی گئی اور آج یہ 37 ارب ڈالرز اثاثوں کی مالک ہے، اس فاؤنڈیش نے دیگر امیر افراد کو بل گیٹس کے ساتھ ملنے کی دعوت دی ہے جن کی حوصلہ افزائی کے لیے پہلا قدم بل گیٹس نے اٹھاتے ہوئے اپنی آدھی دولت فلاحی مقاصد کے وقف کردی ہے۔ ٭اداکار جیکی چن ایشیاء کے مقبول اور مہنگے ترین فلم اسٹار نے 2011 میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اپنی موت کے بعد آدھی دولت فلاحی کاموں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، جیکی کے مطابق اس نے اپنے بیٹے کے لیے فلمی کیرئیر کے دوران کمائے گئے کروڑوں ڈالرز چھوڑنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، اگر وہ کسی قابل ہوا تو اپنی قسمت خود بنالے گا اور وہ نااہل ہوا تو میری دولت کو ضائع کردے گا۔ ٭برنارڈ مارکوس روسی تارکین وطن کے گھر میں پیدا ہونے والے برنارڈ مارکوس نیو جرسی میں پلے بڑھے۔ اس نے ہوم ڈپو کی بنیاد رکھی، اس کی ریٹیل کام یابی نے اسے ڈیڑھ ارب ڈالرز کا مالک بنادیا اور پھر مارکوس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔مارکوس بھی اپنے بچوں کے لیے اپنی دولت کا بڑا حصہ چھوڑنا نہیں چاہتے تاکہ وہ خود پارس بن سکیں، مارکوس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ اپنی فاؤنڈیشن کو دینے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے جس سے معذور بچے اور تعلیم کے شعبوں کو فائدہ ہوگا۔ ٭چک فینی ڈیوٹی فری شاپرز گروپ کے شریک چیئرمین چک فینی اسّی کی دہائی میں دنیا کے چند ارب پتی افراد میں سے ایک تھے تاہم اسی زمانے میں انہوں نے اپنی پوری دولت اپنی فاؤنڈیشن اٹلانٹک فلنٹروفیز کو منتقل کردی۔اپنے اثاثوں کو منتقل کرنے سے پہلے چک نے اپنے بچوں کو دولت کی اہمیت سمجھانے کے لیے تعلیمی اداروں سے تعطیلات کے دوران کام کرنے کی عادت ڈالی۔ آج یہ افواہ گرم ہے کہ فینی کے پاس اپنا گھر یا گاڑی تک نہیں اور وہ چاہتا ہے کہ جو آخری چیک وہ لکھے وہ باؤنس ہوجائے۔ ٭برٹش شیف نیجیلا لاؤسن لاؤسن کامیاب شیف کے ساتھ بیسٹ سیلر مصنف اور ٹی وی کی معروف شخصیت بھی ہیں جو شادی سے قبل ہی لکھ پتی بن چکی تھیں۔اگرچہ لاؤسن امیرانہ پس منظر سے ابھر کر سامنے آئیں تاہم وہ کسی صورت اپنے دونوں بچوں کوو یسا فائدہ نہیں پہنچانا چاہتی اور وہ واضح طور پر کہہ چکی ہیں کہ وہ اس بات کے لیے پرعزم ہے کہ اپنے بچوں کے لیے کوئی مالیاتی سیکیورٹی نہ چھوڑیں،ان کے نزدیک جو لوگ روزگار کے لیے تگ و دو نہیں کرتے وہ تباہ ہوجاتے ہیں۔ ٭میڈیا ٹائیکون ٹیڈ ٹرنر ٹیڈ ٹرنر ممتاز ارب پتی ہیں اور وہ اپنی دولت مستحق لوگوں میں تقسیم کرنے کے حامی ہیں، سی این این اور دیگر میڈیا اداروں سے حاصل ہونے والی آمدنی نے ٹیڈ ٹرنر کو اربوں ڈالرز کا مالک بنادیا ہے جس میں سے وہ بڑی رقم مختلف مقاصد کے لیے اقوام متحدہ فاؤنڈیشن کو دے چکے ہیں۔ٹیڈ کے پانچ بچے ہیں تاہم باپ کے مرنے کے بعد انہیں کچھ زیادہ نہیں ملنے والا اور ٹیڈ ٹرنر کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت غربت کی سرحد پر کھڑے ہیں اور ان کے پاس صرف اتنی ہی رقم ہے جس سے ان کی موت کی صورت میں صرف آخری رسومات کا خرچہ ہی پورا کیا جاسکے گا۔ ٭ہیج فنڈ منیجر جان آرنلڈ جان آرنلڈ عمر کی چوتھی دہائی کو ہی عبور کرپائے ہیں مگر گزشتہ برس انہوں نے اپنا ہیج فنڈ بند کرکے چار ارب ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ ریٹائرمنٹ لے لی، آرنلڈ اور ان کی اہلیہ لورا نے اپنی باقی زندگی میں یہ دولت اپنے بچوں پر لٹانے کی بجائے اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے تخلیقی خیالات کی معاونت پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لورا آرنلڈ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اپنے بیک گراؤنڈ اور اپنے تجربات کو دیکھتے ہوئے ہم موروثی دولت پر یقین نہیں رکھتے۔ ٭برطانوی موسیقار اینڈریو لوئیڈ ویبر کروڑوںڈالرز کے مالک اور نائٹ کا خطاب پانے والے اس تھیٹر موسیقار نے اپنے اثاثے فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے خرچ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔اینڈریو لوئیڈ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ہر کوئی میری عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کردیتا ہے، مگر میں اپنے امیر بچوں اور پوتے پوتیوں کے ہجوم کے بارے میں نہیں سوچتا میرا ماننا ہے کہ میری دولت کو آرٹس کی حوصلہ افزائی کے لیے خرچ ہونا چاہئے۔ ان کے چاروں بچے کا بھی خیال رکھا جائے گا تاہم اینڈریو کی جائیداد کا بڑا حصہ آرٹس پروگرامز کے لیے وقف ہوگا۔ ٭ڈائریکٹر و پروڈیوسرز جارج لیوکاس جارج لیوکاس نے بل گیٹس اور وارن بفٹ کو جولائی 2010 میں تحریری وعدہ لکھ کر دیا تھا کہ وہ اپنی موت کے وقت اپنے آدھی دولت فلاحی کاموں کے لیے صرف کرے گا۔اس کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ تعلیم کی بہتری کے لیے مختص کردی ہے۔چار بچوں کے والد نے اپنے اس وعدے میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ چار ارب ڈالرز سمیت ڈزنی سے لیوکاس فلمز پر ملنے والی آمدنی اس مقصد کے لیے وقف کرے گا۔ ٭ٹیکساس آئل و گیس منیجر ٹی بونی پکینز ٹی پکینز نے اپنی زندگی کا آغاز گھروں میںاخبارات ڈالنے سے کیا۔ مسلسل محنت سے اس قابل ہوا کہ اس نے گلف آئل کی ملکیت حاصل کی اور اب وہ ایک اعشاریہ چار ارب ڈالرز کے اثاثوں کے مالک ہیں۔اس لیے یہ کوئی حیرت کا باعث نہیں کہ پکینز اپنی دولت مفت میں اپنے بچوں کو دینے کے لیے تیار نہیں اور انہوں نے بھی بل گیٹس کے پاس جمع کرائے گئے اپنے تحریری وعدے میں اپنی آدھی دولت فلاحی کاموں کے لیے صرف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ موروثی دولت کے حامی نہیں کیونکہ یہ فائدے کی بجائے نقصان دہ ہوتی ہے۔