فہد اشرف
محفلین
واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں مے خانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم
کیا مگس بیٹھے بھلا اس شعلہ رو کے جسم پر
اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم
تیرے آگے کہتے ہیں گل کھول کر بازوے برگ
گلشنِ عالم سے ہیں تیار اڑ جانے کو ہم
کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا!
سر کو دے دے مار کر توڑینگے بتخانے کو ہم
جب غزالوں کے نظر آ جاتے ہیں چشمِ سیاہ
دشت میں کرتے ہیں یاد اپنے سیہ خانے کو ہم
بوسۂ خال زنخداں سے شفا ہو گی ہمیں
کیا کرینگے اے طبیب اس تیرے بہدانے کو ہم
باندھتے ہیں اپنے دل میں زلف جاناں کا خیال
اس طرح زنجیر پہناتے ہیں دیوانے کو ہم
پنجۂ وحشت سے ہوتا ہے گریباں تار تار
دیکھتے ہیں کاکل جاناں میں جب شانے کو ہم
عقل کھو دی تھی جو اے ناسخ جنون عشق نے
آشنا سمجھا کئے اک عمر بیگانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم
کیا مگس بیٹھے بھلا اس شعلہ رو کے جسم پر
اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم
تیرے آگے کہتے ہیں گل کھول کر بازوے برگ
گلشنِ عالم سے ہیں تیار اڑ جانے کو ہم
کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا!
سر کو دے دے مار کر توڑینگے بتخانے کو ہم
جب غزالوں کے نظر آ جاتے ہیں چشمِ سیاہ
دشت میں کرتے ہیں یاد اپنے سیہ خانے کو ہم
بوسۂ خال زنخداں سے شفا ہو گی ہمیں
کیا کرینگے اے طبیب اس تیرے بہدانے کو ہم
باندھتے ہیں اپنے دل میں زلف جاناں کا خیال
اس طرح زنجیر پہناتے ہیں دیوانے کو ہم
پنجۂ وحشت سے ہوتا ہے گریباں تار تار
دیکھتے ہیں کاکل جاناں میں جب شانے کو ہم
عقل کھو دی تھی جو اے ناسخ جنون عشق نے
آشنا سمجھا کئے اک عمر بیگانے کو ہم