حسان خان
لائبریرین
آہ! اے روحِ مقدس طائرِ سدرہ نشیں!
تیرے بچے آج بے پر ہیں خبر ہے یا نہیں!
آہ! اس دنیائے غم میں آج ہم سا کون ہے
مضطرب، مغموم، بیتاب و ملول، اندوہگیں
زندگی بے کیف ہے اب تیری شفقت کے بغیر
ہے تہی نقدِ سکوں سے دل کی جیب و آستیں
کہہ کے ابا جان اب کس کو پکارے گا عزیز
بارِ غم اب کس طرح سر سے اتارے گا عزیز
چوم کر کس کے قدم پائے گا تسکینِ حیات
کس طرح دنیا و عقبیٰ کو سنوارے گا عزیز
جس گھڑی یہ سوچتا ہوں ڈوب سا جاتا ہے دل
اب نہ وہ بولیں گے کتنا ہی پکارے گا عزیز
کون لکھے گا خطوں میں اب دعائیں بے حساب
کون ٹالے گا مرے سر سے بلائیں بے حساب
اے خدا جب نرغہٗ آفات میں گھر جاؤں گا
کون پھر تجھ سے کرے گا التجائیں بے حساب
بے حساب اس واسطے مجھ پر ہوا تیرا کرم!
تیری رحمت بے حساب، ان کی دعائیں بے حساب
آہ وہ پُرنور صورت، آہ وہ لطفِ بیاں
بیٹھ کر پہروں سنا کرتے تھے باتیں میہماں!
آہ وہ حکمت کا مکتب، حریت کا مدرسہ
جس سے سیکھیں میں نے دل اور ذہن کی آزادیاں
آہ وہ اس طرح اب تاراج ہے، نابود ہے
جیسے لے جائے چمن کو لوٹ کر بادِ خزاں
سادگی ایسی کہ اس پر سادگی بھی ہو نثار
دل میں جو کچھ ہے زباں سے بھی وہی ہے آشکار
جس نے آ کر داستانِ درد رو رو کر کہی!
اِس کو باور کر لیا تھے اِس قدر زُود اعتبار
تھے وہ مومن، کافروں کا کس طرح کھاتے فریب
مدعیِ دیں سے لٹ جاتے تھے لیکن بار بار
بولے میری پتلی پتلی انگلیوں کو دیکھ کر!!
اے خدا دنیا میں اس کی کس طرح ہو گی بسر
نرم و نازک ہاتھ اس کے اور دنیا سنگلاخ
چھالے پڑ جاتے ہیں ہاتھوں میں تو ملتا ہے ثمر
اے خدا اس پر معیشت کے وہ رستے کھولنا
جو بہت آسان ہوں، پاکیزہ ہوں اور بے خطر
آہ یہ اُن کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ آج
کر رہا ہوں ایسی آسانی سے میں دنیا پہ راج
میری تحریروں سے باطل کا جگر صد چاک ہے
حق نے رکھا ہے مرے سر پر حق آگاہی کا تاج
ہے قلم میری قلمرو، میں ہوں اس کا تاجدار
اہلِ حق ہر لحظہ دیتے ہیں محبت کا خراج
اے خدا تجھ پر مری جاں اور دل قربان ہو
والدِ مرحوم پر تیرا مزید احسان ہو
زندگی کی مشکلیں تو سہل ان کی ہو گئیں
آخرت کا مرحلہ بھی اے خدا آسان ہو
تیری رحمت ان کے ہر ہر حال میں شامل رہے
قبر کی آغوش ہو یا حشر کا میدان ہو
(نصراللہ خان عزیز)
۱۰ نومبر ۱۹۳۵ء
تیرے بچے آج بے پر ہیں خبر ہے یا نہیں!
آہ! اس دنیائے غم میں آج ہم سا کون ہے
مضطرب، مغموم، بیتاب و ملول، اندوہگیں
زندگی بے کیف ہے اب تیری شفقت کے بغیر
ہے تہی نقدِ سکوں سے دل کی جیب و آستیں
کہہ کے ابا جان اب کس کو پکارے گا عزیز
بارِ غم اب کس طرح سر سے اتارے گا عزیز
چوم کر کس کے قدم پائے گا تسکینِ حیات
کس طرح دنیا و عقبیٰ کو سنوارے گا عزیز
جس گھڑی یہ سوچتا ہوں ڈوب سا جاتا ہے دل
اب نہ وہ بولیں گے کتنا ہی پکارے گا عزیز
کون لکھے گا خطوں میں اب دعائیں بے حساب
کون ٹالے گا مرے سر سے بلائیں بے حساب
اے خدا جب نرغہٗ آفات میں گھر جاؤں گا
کون پھر تجھ سے کرے گا التجائیں بے حساب
بے حساب اس واسطے مجھ پر ہوا تیرا کرم!
تیری رحمت بے حساب، ان کی دعائیں بے حساب
آہ وہ پُرنور صورت، آہ وہ لطفِ بیاں
بیٹھ کر پہروں سنا کرتے تھے باتیں میہماں!
آہ وہ حکمت کا مکتب، حریت کا مدرسہ
جس سے سیکھیں میں نے دل اور ذہن کی آزادیاں
آہ وہ اس طرح اب تاراج ہے، نابود ہے
جیسے لے جائے چمن کو لوٹ کر بادِ خزاں
سادگی ایسی کہ اس پر سادگی بھی ہو نثار
دل میں جو کچھ ہے زباں سے بھی وہی ہے آشکار
جس نے آ کر داستانِ درد رو رو کر کہی!
اِس کو باور کر لیا تھے اِس قدر زُود اعتبار
تھے وہ مومن، کافروں کا کس طرح کھاتے فریب
مدعیِ دیں سے لٹ جاتے تھے لیکن بار بار
بولے میری پتلی پتلی انگلیوں کو دیکھ کر!!
اے خدا دنیا میں اس کی کس طرح ہو گی بسر
نرم و نازک ہاتھ اس کے اور دنیا سنگلاخ
چھالے پڑ جاتے ہیں ہاتھوں میں تو ملتا ہے ثمر
اے خدا اس پر معیشت کے وہ رستے کھولنا
جو بہت آسان ہوں، پاکیزہ ہوں اور بے خطر
آہ یہ اُن کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ آج
کر رہا ہوں ایسی آسانی سے میں دنیا پہ راج
میری تحریروں سے باطل کا جگر صد چاک ہے
حق نے رکھا ہے مرے سر پر حق آگاہی کا تاج
ہے قلم میری قلمرو، میں ہوں اس کا تاجدار
اہلِ حق ہر لحظہ دیتے ہیں محبت کا خراج
اے خدا تجھ پر مری جاں اور دل قربان ہو
والدِ مرحوم پر تیرا مزید احسان ہو
زندگی کی مشکلیں تو سہل ان کی ہو گئیں
آخرت کا مرحلہ بھی اے خدا آسان ہو
تیری رحمت ان کے ہر ہر حال میں شامل رہے
قبر کی آغوش ہو یا حشر کا میدان ہو
(نصراللہ خان عزیز)
۱۰ نومبر ۱۹۳۵ء
مدیر کی آخری تدوین: