فرخ منظور
لائبریرین
غزل
(امی کی پہلی برسی پر)
کسی تارے، کسی مہتاب میں ڈھل جاتا ھے
یا مرے دیدہٴ پُر آب میں ڈھل جاتا ھے
دیکھتے دیکھتے ان آنکھوں سے چہرہ کوئی
جانے کس حلقہٴ گرداب میں ڈھل جاتا ھے
ساتھ رھتا ھے کوئی موج نفس کی صورت
اور پھر لمہٴ نایاب میں ڈھل جاتا ھے
ماں بھی اک روز ھمیں چھوڑ کے چل دیتی ھے
یہ نگینہ بھی کسی آب میں ڈھل جاتا ھے
چھین لیتا ھے کوئی دست دعا بھی ھم سے
اور کوئی خلوت محراب میں ڈھل جاتا ھے
کوئی سورج کی طرح رکھتا ھے روشن ھم کو
اور پھر اپنی تب و تاب میں ڈھل جاتا ھے
جاگتا ھے کوئی راتوں کو ھماری خاطر
اور پھر نیند کے سیلاب میں ڈھل جاتا ھے
پہلے ھوتا ھے نگاھوں سے وہ اوجھل کچھ دیر
پھر وھی شخص کسی خواب میں ڈھل جاتا ھے
ایک دریا ھے جو گرتا ھے سمندر میں کہیں
اک سمندر کسی پایاب میں ڈھل جاتا ھے
گیت جو کانوں میں رس گھولتا رھتا ھے ندیم
کیوں وھی گریہٴ خونناب میں ڈھل جاتا ھے
رشید ندیم ۔ ۔ ۔ ۔
(امی کی پہلی برسی پر)
کسی تارے، کسی مہتاب میں ڈھل جاتا ھے
یا مرے دیدہٴ پُر آب میں ڈھل جاتا ھے
دیکھتے دیکھتے ان آنکھوں سے چہرہ کوئی
جانے کس حلقہٴ گرداب میں ڈھل جاتا ھے
ساتھ رھتا ھے کوئی موج نفس کی صورت
اور پھر لمہٴ نایاب میں ڈھل جاتا ھے
ماں بھی اک روز ھمیں چھوڑ کے چل دیتی ھے
یہ نگینہ بھی کسی آب میں ڈھل جاتا ھے
چھین لیتا ھے کوئی دست دعا بھی ھم سے
اور کوئی خلوت محراب میں ڈھل جاتا ھے
کوئی سورج کی طرح رکھتا ھے روشن ھم کو
اور پھر اپنی تب و تاب میں ڈھل جاتا ھے
جاگتا ھے کوئی راتوں کو ھماری خاطر
اور پھر نیند کے سیلاب میں ڈھل جاتا ھے
پہلے ھوتا ھے نگاھوں سے وہ اوجھل کچھ دیر
پھر وھی شخص کسی خواب میں ڈھل جاتا ھے
ایک دریا ھے جو گرتا ھے سمندر میں کہیں
اک سمندر کسی پایاب میں ڈھل جاتا ھے
گیت جو کانوں میں رس گھولتا رھتا ھے ندیم
کیوں وھی گریہٴ خونناب میں ڈھل جاتا ھے
رشید ندیم ۔ ۔ ۔ ۔