والد پہ اشعار

جاسمن

لائبریرین
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کے روپ میں
 
باپ ( طاہر شہیر)
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگِ جاں سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

وہ وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہی وجہ ہے مجھے چومتے جھجکتا ہے !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہے ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پاتا مگر سسکتا ہے !
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں فقط میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

ہر ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے !
وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو، دن بھر
وجود اس کا پسینہ میں ڈھل کر بہتا ہے !
گلے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
،،، مگر کھلونے میرے سب خرید کے لاتا ہے !
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نجانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے !
میرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
 

جاسمن

لائبریرین
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ و جان سے
یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !​

وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہ ہی وجہ ہے کہ وہ مجھے چومتے ہوئے جھجکتا ہے !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہا ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پایا مگر سسکتا ہے !
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !​

ہر اک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر سوائے میرے وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے !ا
وہ لوٹتا ہے کہیں رات کو دیر گئے، دن بھر
وجود اس کا پسینہ میں ڈھل کر بہتا ہے !
گلے رہتے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !​

پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
،،، مگر کھلونے میرے سب وہ خرید کے لاتا ہے !
وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا ہے جی بھر کے
نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا ہے !
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

کیا لکھ دیا!!!!!قسم سے اتنا رونا آرہا ہے۔ واقعی ایسا ہے۔ آج پھر سے یاد آئی ہے اور پھر سے آنسووں کی روانی ہے۔اللہ انہیں اونچے درجات دے،ہر عذاب معاف کرے۔ اُن کی قبر کو ٹھندا،روشن،ہوادار اور کشادہ کرے اور اُس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے۔ ہمیں ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین! ثم آمین!
اللہ سب بچوں کے والد صاحبان کو اچھی صحت،ایمان والی،آسانیوں والی لمبی عمر عطا فرمائے۔آمین! ثم آمین!
 

عمر سیف

محفلین
المیہ

باپ سچ بات بتاتے ہوئے گھبراتا ہے
اسکو یہ خوف کہ بیٹا کہیں ناراض نہ ہو

ڈاکٹر یاسین عاطر
 
بیٹی
مجھے اتنا پیار نہ دو بابا
کل جانا مجھے نصیب نہ ہو
یہ جو ماتھا چوما کرتے ہو
کل اس پہ شکن عجیب نہ ہو
میں جب بھی روتی ہوں بابا
تم آنسو پونچھا کرتے ہو
مجھے اتنی دور نہ چھوڑ آنا
میں دور ہوں اور تم قریب نہ ہو
میرے ناز اٹھاتے ہو بابا
میرے لاڈ اٹھاتے ہو بابا
میری چھوٹی چھوٹی خواہش پہ
تم جان لٹاتے ہو بابا
کل ایسا نہ ہو اک نگری میں
میں تنہا تم کو یاد کروں
اور رو رو کے فریاد کروں
اے اللہ میرے بابا سا
کوئی پیار جتاے والا ہو
میرے ناز اٹھانے والا ہو
میرے بابا مجھ سے عہد کرو
تم مجھے چھپا کے رکھوگے
دنیا کی ظالم نظروں سے
تم مجھے بچا کے رکھوگے
بابا
ہر دم ایسا کب ہو پاتا ہے
جو سوچ رہی ہو میری لاڈو تم
وہ سب تو بس اک مایہ ہے
کوئی باپ اپنی بیٹی
کب جانے سے روک پایا ہے
سچ کہتے ہیں دنیا والے
بیٹی تو دھن پرایا ہے
گھر گھر کی یہی کہانی ہے
دنیا کی ریت پرانی ہے
ہر باپ نبھاتا آیا ہے
تیرے بابا کو بھی نبھانی ہے
دنیا کی یہ رسم پرانی ہے

شاعر : نامعلوم​
 

جاسمن

لائبریرین
باپ ( طاہر شہیر)
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگِ جاں سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

وہ وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہی وجہ ہے مجھے چومتے جھجکتا ہے !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہے ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پاتا مگر سسکتا ہے !
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں فقط میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

ہر ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے !
وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو، دن بھر
وجود اس کا پسینہ میں ڈھل کر بہتا ہے !
گلے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
،،، مگر کھلونے میرے سب خرید کے لاتا ہے !
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نجانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے !
میرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

کچھ عرصہ قبل مجھے وٹزایپ پہ یہ نظم ایک ویڈیو کی صورت ملی تھی۔ یو ٹیوب پہ دستیاب اس وڈیو میں شاعر خود اپنی یہ نظم پڑھ رہے ہیں۔ اب میں تلاش کرنے لگی تو تحریری صورت میں ہر طرف غلطیاں ہیں۔ اب میں نے یو ٹیوب سے سُن سُن کے اسے درست کیا ہے۔ اور بڑی مشکل سے باریک لکھا ہوا شاعر کا نام بھی ڈھونڈا ہے۔
امید ہے آپ کو اچھا لگے گا۔
 
Top