والد

والد
وہ چیخ اٹھا تھا کامپتا تھا جو میری چوٹوں پہ رو پڑا تھا
اسی وفا کے عظیم پیکر کو یاد کرکے میں رو رہا ہوں
وہ کیا گھڑی تھی میں اپنی ماں سے یہ کہ رہا تھا
کہ ابو جی نے یہ کیا کیا ہے وہ کیوں ہیں ایسے
بہت غلط ہیں یہ کیا بنے گا !
وہ کیا گھڑی تھی کسی سویرے میں بک رہا تھا
جنوں مسلط ہوا تھا مجھ پر میں کیسے بکواس کر رہا تھا
وہ بند آنکھوں سے جاگتی تھی خموش چہرے سے سن رہی تھی
وہ کچھ نہ بولی میں ڈر گیا تھا !
سلام کرکے میں اپنی ماں کو چلا گیا تھا
تڑپ رہا ہوں اسی سمے سے
اسی سویرے یہ اشک آنکھوں میں بھر گئے تھے
میں رو رہا ہوں ۔ ۔ ۔
پھر ایک دن تھا میں اپنے ابو کے پاس بیٹھا
تھا انکی باتوں کو سن رہا تھا
وہ کہہ رہے تھے سنو میاں تم کہ ایک شب تھی
جو تیرے بابا پہ رو کے گزری یہ تیرا بابا
خدا کے آگے جکا کہ سر اپنا رور رہا تھا
تڑپ رہا تھا
وہ شب تو گزری تھی گڑ گڑا کر
مگر سویرا طلوع ہوا یوں
کہ تیری صورت بنی ہوئی تھی
جو تجھ کو دیکھا
تو مسکریا یہ تیرا بابا تو رو رہا تھا ۔ ۔ ۔
اسامہ جمشید
۲۰۱۵ کی کوئی مانوس شب​
 
Top