رانا
محفلین
کئی دوستوں کو واٹس ایپ پر ایسی صورتحال سے واسطہ پڑا ہوگا کہ جب پیغام بھیجنے کے بعد بندہ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ اس عید پر ایک ایسا ہی واقعہ ہوا جس نے عید کا پورا دن ٹینشن دے کر عید کا مزہ خراب کردیا۔ تو وہ واقعہ یہاں شئیر کرتا ہوں لیکن دیگر محفلین بھی ساتھ حصہ لیں اور ان کے ساتھ کبھی واٹس ایپ پیغامات سے متعلق ایسا کوئی دلچسپ یا پریشان کن واقعہ پیش آیا ہو تو شئیر کریں۔
بہرحال اب پرسوں عید والے واقعے کا ذکر کرتے ہیں جس نے ہمیں پورا عید کا دن ٹینشن دئیے رکھی بلکہ ابھی تک ٹینشن ختم نہیں ہوئی۔ عید کی نماز کے بعد موبائل چیک کیا تو کئی عید مبارک کے ریڈی میڈ پیغامات آئے ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ ریڈی میڈ پیغامات کی بجائے خود لکھنا بہتر ہے۔ دو سطروں کا ایک پیغام لکھا اور ہر عید مبارک کے جواب میں بھیج دیا۔ وہیں ایک دوست بھی کھڑا تھا وہ بھی دیکھ رہا تھا۔ ہم نے اسے فخر سے کالر جھٹکتے ہوئے کہا کہ بھئی ہم تو ہاتھ سے میسج لکھتے ہیں ریڈی میڈ میسج ہمیں پسند نہیں۔
پھر گھر آئے تو خیال آیا کہ کچھ الگ قسم کا میسج بنانا چاہئے۔ ہم نے فورا اپنے ایک فرینڈز گروپ میں ایک میسج بنانا شروع کیا کہ ایموجیز اوپن کیں اور ایک ایک کرکے جو جو ایموجی عید کی مناسبت سے محسوس ہوئی وہ کلک کرتے گئے۔ اس طرح کوئی پانچ چھ سطروں کا ایک ایسا میسج معرض وجود میں آیا جس میں صرف اور صرف ایموجیز ہی تھیں کوئی مسکراتی ہوئی ایموجی تو کوئی ڈریس کی ایموجی تو کوئی جوتوں کی اور کوئی تالیوں کی وغیرہ وغیرہ۔ اس کے نیچے ہم نے ایک لائن لکھی کہ اٹس آل اباؤٹ عید۔ ہیپی عید مبارک۔ اور سینڈ کردیا۔ اور دل میں خوشی سے پھولے نہ سمائیں کہ واہ کیا اچھوتا عید مبارک کا میسج بنایا ہے۔
پھر خیال آیا کہ دوسرے گروپ میں بھی سینڈ کرتے ہیں۔ پہلا گروپ جس میں سینڈ کیا تھا وہ آجکل ہم ایک کورس کررہے ہیں تو اس کے کلاس فیلوز کا تھا جس میں آٹھ دس لڑکے تھے اور کوئی چھ سات لڑکیاں۔ دوسرا گروپ جس میں سینڈ کیا اس میں صرف مرد حضرات تھے۔ ان مرد حضرات والے گروپ میں سے ایک صاحب نے ہمارے میسج میں سے ایک ایموجی الگ کی اور ہم سے گروپ میں ہی پوچھا کہ بھائی باقی ایموجیز کی تو سمجھ آگئی لیکن اس کا عید سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اب جو ہم نے اس ایموجی کو غور سے دیکھا تو پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی۔ اب ہم آپ کو یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ کیا ایموجی تھی۔ہم تو جلدی جلدی میں ایموجیز پر کلک کرتے گئے اور یہ ایموجی بھی کلک ہوگئی لیکن اب الگ سے اس ایموجی کو دیکھا تو سٹپٹا کر رہ گئے۔ ہم نے اس گروپ میں تو وضاحت کردی کہ بھائی معذرت اسے نظر انداز کردیں۔ لیکن ادھر ہمارا یہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ کہ ہم اپنے فرینڈز گروپ میں بھی یہ میسج کرچکے تھے جس میں لڑکیاں بھی تھیں۔ اب پریشانی کہ کیا ہوگا۔ پھر کچھ دیر بعد خیال آیا کہ عید پر لوگ ایک دوسرے کے میسیجز ہی آگے فارورڈ کرتے رہتے ہیں کہیں ہمارا میسج بھی کوئی آگے فارورڈ کرکے شرمندہ نہ ہو۔ تو دوبارہ فرینڈز گروپ میں ایک میسج کیا کہ پلیز میرا عید مبارک والا میسج کوئی آگے فارورڈ نہ کرے اس میں ایک غلطی ہے۔ البتہ یہ بتانے کی ہمت نہ تھی کہ کیا غلطی ہے۔ یہ میسج کردیا اور پھر مرد حضرات والے گروپ میں یہی میسج شئیر کرکے لکھا کہ بھائیو ہم ایک دوسرے مخلوط گروپ میں بھی یہ میسج کرچکے ہیں اور اسکے بعد یہ معذرت والا میسج کیا ہے۔ کیا اس سے تلافی ہوجائے گی۔ تو ایک دوست نے جواب دیا کہ بھائی اتنی ساری ایموجیز میں سے کس نے نوٹ کرنا تھا لیکن اب تمہارے میسج کے بعد ہر بندہ بغور میسج کا جائزہ لے گا کہ کیا غلطی تھی۔ بس جناب اس میسج نے تمام ٹینشن کو دس سے ضرب دے دیا۔ اب دو دن سے پہلے والے فرینڈز گروپ میں ہم خاموش ہیں اور گروپ والے بھی خاموش ہیں۔
اب دو تین ماہ پرانا ایک چھوٹا سا واقعہ بھی شئیر کردوں۔ خاکسار آجکل ویب ڈیویلپمنٹ کی فیلڈ میں ہے۔ ہمارا ایک آفس دبئی میں ہے۔ خاکسار جس پروجیکٹ پر کام کررہا تھا اس کی ڈیڈ لائن گزرنے کی وجہ سے آخر میں ہنگامی بنیادوں پر کام ہونے لگا۔ اب صورتحال یہ کہ ہمیں کراچی میں پروجیکٹ مینیجر سے بھی کام مل رہا ہے اور دبئی آفس میں جو بندہ کلائینٹ سے رابطے میں تھا وہ بھی ہمیں کلائینٹ کی نئی سے نئی ڈیمانڈ بتارہا ہے۔ ہم ان دونوں کے درمیان ایسے پھنسے کہ کام ڈسٹرب ہونے لگا۔ ہم نے پروجیکٹ مینیجر سے ڈسکس کیا تو انہوں نے کہا کہ اب تم عارف کا کام نہیں کرنا میں سنبھال لوں گا۔ اسی دوران عارف نے میسج پر ہمیں ایک کام کہا۔ ہم نے فورا پروجیکٹ مینیجر کو میسج لکھا کہ عارف نے یہ کام کہا ہے اب آپ اس سے بات کرلیں۔ جب میسج سینڈ کردیا تو عارف کا میسج آیا کہ بھائی تم شائد یہ میسج پروجیکٹ مینیجر کو کرنا چاہ رہے تھے جو غلطی سے مجھے کردیا ہے۔ ہم نے سرپکڑ لیا۔
اب ذرا دیگر محفلین بھی اپنے اپنے واٹس ایپ تجربات شئیر کریں۔
بہرحال اب پرسوں عید والے واقعے کا ذکر کرتے ہیں جس نے ہمیں پورا عید کا دن ٹینشن دئیے رکھی بلکہ ابھی تک ٹینشن ختم نہیں ہوئی۔ عید کی نماز کے بعد موبائل چیک کیا تو کئی عید مبارک کے ریڈی میڈ پیغامات آئے ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ ریڈی میڈ پیغامات کی بجائے خود لکھنا بہتر ہے۔ دو سطروں کا ایک پیغام لکھا اور ہر عید مبارک کے جواب میں بھیج دیا۔ وہیں ایک دوست بھی کھڑا تھا وہ بھی دیکھ رہا تھا۔ ہم نے اسے فخر سے کالر جھٹکتے ہوئے کہا کہ بھئی ہم تو ہاتھ سے میسج لکھتے ہیں ریڈی میڈ میسج ہمیں پسند نہیں۔
پھر گھر آئے تو خیال آیا کہ کچھ الگ قسم کا میسج بنانا چاہئے۔ ہم نے فورا اپنے ایک فرینڈز گروپ میں ایک میسج بنانا شروع کیا کہ ایموجیز اوپن کیں اور ایک ایک کرکے جو جو ایموجی عید کی مناسبت سے محسوس ہوئی وہ کلک کرتے گئے۔ اس طرح کوئی پانچ چھ سطروں کا ایک ایسا میسج معرض وجود میں آیا جس میں صرف اور صرف ایموجیز ہی تھیں کوئی مسکراتی ہوئی ایموجی تو کوئی ڈریس کی ایموجی تو کوئی جوتوں کی اور کوئی تالیوں کی وغیرہ وغیرہ۔ اس کے نیچے ہم نے ایک لائن لکھی کہ اٹس آل اباؤٹ عید۔ ہیپی عید مبارک۔ اور سینڈ کردیا۔ اور دل میں خوشی سے پھولے نہ سمائیں کہ واہ کیا اچھوتا عید مبارک کا میسج بنایا ہے۔
پھر خیال آیا کہ دوسرے گروپ میں بھی سینڈ کرتے ہیں۔ پہلا گروپ جس میں سینڈ کیا تھا وہ آجکل ہم ایک کورس کررہے ہیں تو اس کے کلاس فیلوز کا تھا جس میں آٹھ دس لڑکے تھے اور کوئی چھ سات لڑکیاں۔ دوسرا گروپ جس میں سینڈ کیا اس میں صرف مرد حضرات تھے۔ ان مرد حضرات والے گروپ میں سے ایک صاحب نے ہمارے میسج میں سے ایک ایموجی الگ کی اور ہم سے گروپ میں ہی پوچھا کہ بھائی باقی ایموجیز کی تو سمجھ آگئی لیکن اس کا عید سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اب جو ہم نے اس ایموجی کو غور سے دیکھا تو پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی۔ اب ہم آپ کو یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ کیا ایموجی تھی۔ہم تو جلدی جلدی میں ایموجیز پر کلک کرتے گئے اور یہ ایموجی بھی کلک ہوگئی لیکن اب الگ سے اس ایموجی کو دیکھا تو سٹپٹا کر رہ گئے۔ ہم نے اس گروپ میں تو وضاحت کردی کہ بھائی معذرت اسے نظر انداز کردیں۔ لیکن ادھر ہمارا یہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ کہ ہم اپنے فرینڈز گروپ میں بھی یہ میسج کرچکے تھے جس میں لڑکیاں بھی تھیں۔ اب پریشانی کہ کیا ہوگا۔ پھر کچھ دیر بعد خیال آیا کہ عید پر لوگ ایک دوسرے کے میسیجز ہی آگے فارورڈ کرتے رہتے ہیں کہیں ہمارا میسج بھی کوئی آگے فارورڈ کرکے شرمندہ نہ ہو۔ تو دوبارہ فرینڈز گروپ میں ایک میسج کیا کہ پلیز میرا عید مبارک والا میسج کوئی آگے فارورڈ نہ کرے اس میں ایک غلطی ہے۔ البتہ یہ بتانے کی ہمت نہ تھی کہ کیا غلطی ہے۔ یہ میسج کردیا اور پھر مرد حضرات والے گروپ میں یہی میسج شئیر کرکے لکھا کہ بھائیو ہم ایک دوسرے مخلوط گروپ میں بھی یہ میسج کرچکے ہیں اور اسکے بعد یہ معذرت والا میسج کیا ہے۔ کیا اس سے تلافی ہوجائے گی۔ تو ایک دوست نے جواب دیا کہ بھائی اتنی ساری ایموجیز میں سے کس نے نوٹ کرنا تھا لیکن اب تمہارے میسج کے بعد ہر بندہ بغور میسج کا جائزہ لے گا کہ کیا غلطی تھی۔ بس جناب اس میسج نے تمام ٹینشن کو دس سے ضرب دے دیا۔ اب دو دن سے پہلے والے فرینڈز گروپ میں ہم خاموش ہیں اور گروپ والے بھی خاموش ہیں۔
اب دو تین ماہ پرانا ایک چھوٹا سا واقعہ بھی شئیر کردوں۔ خاکسار آجکل ویب ڈیویلپمنٹ کی فیلڈ میں ہے۔ ہمارا ایک آفس دبئی میں ہے۔ خاکسار جس پروجیکٹ پر کام کررہا تھا اس کی ڈیڈ لائن گزرنے کی وجہ سے آخر میں ہنگامی بنیادوں پر کام ہونے لگا۔ اب صورتحال یہ کہ ہمیں کراچی میں پروجیکٹ مینیجر سے بھی کام مل رہا ہے اور دبئی آفس میں جو بندہ کلائینٹ سے رابطے میں تھا وہ بھی ہمیں کلائینٹ کی نئی سے نئی ڈیمانڈ بتارہا ہے۔ ہم ان دونوں کے درمیان ایسے پھنسے کہ کام ڈسٹرب ہونے لگا۔ ہم نے پروجیکٹ مینیجر سے ڈسکس کیا تو انہوں نے کہا کہ اب تم عارف کا کام نہیں کرنا میں سنبھال لوں گا۔ اسی دوران عارف نے میسج پر ہمیں ایک کام کہا۔ ہم نے فورا پروجیکٹ مینیجر کو میسج لکھا کہ عارف نے یہ کام کہا ہے اب آپ اس سے بات کرلیں۔ جب میسج سینڈ کردیا تو عارف کا میسج آیا کہ بھائی تم شائد یہ میسج پروجیکٹ مینیجر کو کرنا چاہ رہے تھے جو غلطی سے مجھے کردیا ہے۔ ہم نے سرپکڑ لیا۔
اب ذرا دیگر محفلین بھی اپنے اپنے واٹس ایپ تجربات شئیر کریں۔
آخری تدوین: