کاشفی
محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں
ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں
مطلب جو اپنے اپنے کہے عاشقوں نے سب
وہ بُت بگڑ کے بول اُٹھا ، کیا خدا ہوں میں
اے انقلابِ دہر، مٹاتا ہے کیوں مجھے
نقشے ہزار وں مٹ گئے ہیں تب بنا ہوں میں
محنت یہ کی کہ فکر کا ناخن بھی گھِس گیا
عقدہ یہ آج تک نہ کھُلا مجھ پہ کیا ہوں میں
رسوا ہوئے جو آپ تو میرا قصور کیا؟
جو کچھ کیا وہ دل نے کیا، بےخطا ہوں میں
مقتل ہے میری جاں کو وہ جلوہ گاہِ ناز
دل سے ادا یہ کہتی ہے تیری قضا ہوں میں
مانندِ سبزہ اُس چمن ِ دہر میں امیر
بیگانہ وار ایک کنارے پڑا ہوں میں
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں
ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں
مطلب جو اپنے اپنے کہے عاشقوں نے سب
وہ بُت بگڑ کے بول اُٹھا ، کیا خدا ہوں میں
اے انقلابِ دہر، مٹاتا ہے کیوں مجھے
نقشے ہزار وں مٹ گئے ہیں تب بنا ہوں میں
محنت یہ کی کہ فکر کا ناخن بھی گھِس گیا
عقدہ یہ آج تک نہ کھُلا مجھ پہ کیا ہوں میں
رسوا ہوئے جو آپ تو میرا قصور کیا؟
جو کچھ کیا وہ دل نے کیا، بےخطا ہوں میں
مقتل ہے میری جاں کو وہ جلوہ گاہِ ناز
دل سے ادا یہ کہتی ہے تیری قضا ہوں میں
مانندِ سبزہ اُس چمن ِ دہر میں امیر
بیگانہ وار ایک کنارے پڑا ہوں میں