طارق شاہ

محفلین
غزلِ

ناصر کاظمی

وا ہُوا پھر درِ میخانۂ گُل

پھرصبا لائی ہے پیمانۂ گُل

زمزمہ ریز ہُوئے اہلِ چمن
پھر چراغاں ہُوا کاشانۂ گُل

رقص کرتی ہُوئی شبنم کی پَری
لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گُل


پُھول برسائے یہ کہہ کر اُس نے
میرا دِیوانہ ہے دِیوانۂ گُل

پھرکسی گُل کا اِشارہ پا کر
چاند نِکلا سرِ مےخانۂ گُل

پھر سرِشام کوئی شُعلہ نَوا
سو گیا چھیڑ کے افسانۂ گُل

آج غُربت میں بہت یاد آیا
اے وطن تیرا صنم خانۂ گُل

آج ہم خاک بَسر پِھرتے ہیں
ہم سے تھی رونقِ کاشانۂ گُل

ہم پہ گُزرے ہیں خِزاں کے صدمے
ہم سے پُوچھے کوئی افسانۂ گُل

کل تِرا دَور تھا اے بادِ صبا !
ہم ہیں اب سُرخئ افسانۂ گُل

ناصر کاظمی
 
Top