وبا کے ہیں یہ دن…

صفی حیدر

محفلین
احتیاط تو ہے لازم وبا کے ہیں یہ دن
مانگ رحمتِ خدا تُو دعا کے ہیں یہ دن
جو سفید پوش ہیں ان کا رکھ خیال تُو
سوزِ دل کے اور جود و سخا کے ہیں یہ دن
خلق کی مدد سے راضی کرو خدا کو تم
دوست کاوشِ حصولِ رضا کے ہیں یہ دن
ایک دوسرے کا رکھنا خیال ہے ہمیں
سُن ! گدازِ دل کے مہر و وفا کے ہیں یہ دن
وہ سنے گا تیرے دل کی پکار کو ضرور
خوف کے نہیں ہیں حمد و ثنا کے ہیں یہ دن
کس طرح بچے گا موذی مرض سے اے بشر
سوچ تُو ذرا کہ فکرِ بقا کے ہیں یہ دن
زندگی ہے گھر میں تیری صفی یہ جان لے
موت پھر رہی ہے باہر قضا کے ہیں یہ دن
 
اچھے خیالات ہیں، مگر میں بحر کا تعین نہیں کر پارہا ہوں۔ کچھ اس پر روشنی ڈالئے۔
مزید یہ کہ چونکہ یہ ایک نظم ہے، اس لئے اس کے تمام اشعار میں تسلسل ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک شعر میں تم اور دوسرے میں تو کا صیغہ استعمال کریں گے تو شترگربہ کا عیب در آئے گا۔

دعاگو،
راحلؔ
 

صفی حیدر

محفلین
اچھے خیالات ہیں، مگر میں بحر کا تعین نہیں کر پارہا ہوں۔ کچھ اس پر روشنی ڈالئے۔
مزید یہ کہ چونکہ یہ ایک نظم ہے، اس لئے اس کے تمام اشعار میں تسلسل ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک شعر میں تم اور دوسرے میں تو کا صیغہ استعمال کریں گے تو شترگربہ کا عیب در آئے گا۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت شکدیہ سر آپ نے خیالات کی پذیرائی کی ....اس کی بحر ہے… فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن
سر یہ مسلسل غزل ہے اس لیے تخلص کا استعمال کیا ہے
 
بہت شکدیہ سر آپ نے خیالات کی پذیرائی کی ....اس کی بحر ہے… فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن
سر یہ مسلسل غزل ہے اس لیے تخلص کا استعمال کیا ہے
میرا اندازہ بھی یہی تھا کہ فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن ہے.
دقت یہاں مگر یہ ہے کہ اسطرح کی شکستہ بحور میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ ایک ٹکڑے کے مقابل ایک مکمل فقرہ ہو، جبکہ الفاظ کا بحر کے دو ٹکڑوں کے مابین منقسم ہونا تو بالکل بھی روا نہیں.
مثلا یہ مصرعہ دیکھئیے
سوزِ دل کے اور جود و سخا کے ہیں یہ دن
اس کی تقطیع کچھ یوں ہو رہی ہے.
سوزِ دل کِ اور جو ... فاعلن مفاعلن
دو س خا کِ دن ہِ یہ ... فاعلن مفاعلن
یہاں ایک تو بحر کے ٹکڑے کے مقابل فقرہ مکمل نہیں ہورہا، دوسرے یہ کہ جود ایک لفظ ہے جو دونوں ٹکڑوں کے افاعیل میں تقسیم ہوگیا ہے.
یہی صورت دیگر کئی مصارع میں بھی درپیش ہے.
 

صفی حیدر

محفلین
میرا اندازہ بھی یہی تھا کہ فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن ہے.
دقت یہاں مگر یہ ہے کہ اسطرح کی شکستہ بحور میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ ایک ٹکڑے کے مقابل ایک مکمل فقرہ ہو، جبکہ الفاظ کا بحر کے دو ٹکڑوں کے مابین منقسم ہونا تو بالکل بھی روا نہیں.
مثلا یہ مصرعہ دیکھئیے

اس کی تقطیع کچھ یوں ہو رہی ہے.
سوزِ دل کِ اور جو ... فاعلن مفاعلن
دو س خا کِ دن ہِ یہ ... فاعلن مفاعلن
یہاں ایک تو بحر کے ٹکڑے کے مقابل فقرہ مکمل نہیں ہورہا، دوسرے یہ کہ جود ایک لفظ ہے جو دونوں ٹکڑوں کے افاعیل میں تقسیم ہوگیا ہے.
یہی صورت دیگر کئی مصارع میں بھی درپیش ہے.
آپ کی بات درست ہے سر… اس نکتے کی طرف میرا دھیان نہیں گیا… اگر اساتذہِ سخن میں سے کسی نے اس طرز پر کچھ کہا ہے تو ٹھیک ورنہ اس غزل کو بیک جنبشِ قلم رد کر دیتے ہیں….
 
Top