جاسم
محفلین
وجود باری تعالیٰ ۔۔۔۔ سائنس کی نظر میں !
تحریر: ڈاکٹر کریسی موریسن، سابق صدر نیویارک اکیڈمی آف سائنس
حوالہ: ہفت روزہ اہلحدیث
ہمارا دور ابھی تک زمانہ سائنس کی جمع کا دور ہے اور جوں جوں اجالا بڑھتا جا رہا ہے توں توں ایک خالق کے دست قدرت کی نیرنگیوں کا زیادہ سے زیادہ انکشاف ہوتا جا رہا ہے۔ ڈارون سے نوے برس بعد ہم حیرت انگیز انکشافات کر چکے ہیں۔ سائنس کی عاجزانہ اسپرٹ اور علم کی چکی میں پسے ہوئے ایمان کے ساتھ ہم خدا کی معرفت کے مقام کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے خدا پر میرے ایمان کی بنیاد ساتھ باتوں پر ہے۔حوالہ: ہفت روزہ اہلحدیث
اول: غیر متزلزل قوانین
ریاضی کے غیر متزلزل قانون کے ذریعے ہم ثابت کر سکتےہیں کہ ہماری اس کائنات کے مدبر 'معمار اعلیٰ ' پائے کے ایک انجینئر کی ذہانت رکھنے والی ہستی ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ دس پیسوں کو ایک سے دس تک کے نشانات لگا کر جیب میں ڈال لیتے ہیں اور ان کو خوب ہلا جلا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ ان پیسوں کو نشانات کی ترتیب کے مطابق جیب سے نکالیے اور پھر واپس ڈالتے جائیے اور ہر مرتبہ جیب میں ان کو ہلا جلا دیجئے تو ریاضی کی رو سے ہمیں معلوم ہے کہ آپ کا پہلی مرتبہ صحیح نشان والے سکے کو نکال لینے کا امکان 1/10 ہے۔بالترتیب پہلے اور دوسرے نشانات والے پیسوں کے صحیح نکال لینے کا امکان 1/100 ہے۔ پہلے دوسرے اور تیسرے نشانات والے پیسوں کو بالترتیب صحیح نکال لینے کا امکان 1/10000 اور اسی طرح بڑھاتے چلے جائیے۔یہاں تک کہ پہلے سے لے کر دسویں نمبر تک کے پیسوں کو اسی ترتیب کے ساتھ صحیح نکال لینے کا امکان ناقابل یقین حد تک پہنچا ہوا حصہ یعنی 1/10،00،00،00،000 ہو گا۔ اس دلیل کے مطابق زمین پر زندگی بسر کرنے کے واسطے بہت سی لازمی شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ اور ان کا مناسب حد تک موجود ہونا کسی اتفاقی امر پر موقوف نہیں۔ زمین اپنے محور کے گرد 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کر رہی ہے۔ اگر یہ رفتار 100 میل فی گھنٹہ رہ جائے تو ہمارے دن رات کی لمبائی آج کی نسبت سے 10 تنا بڑھ جائے اور سورج کی گرمی اس طویل دن کے اندر سبزیوں اور دیگر نباتات کو جھلسا کر رکھ دے۔ ادھر لمبی لمبی راتوں میں نئی نئی کومپلیں یخ بستہ ہو کر رہ جائیں۔ زمین کا ترچھہ پن جسے ہم 23 درجے کا زاویہ کہتے ہیں ہمارے موسموں کا باعث بنتا ہے۔ اگر اس کے اندر یہ ٹیڑھ نہ ہوتی تو سمندر کے بخارات شمال جنوب کی طرف چلے جاتے جو ہمارے لیے کئ برفانی بر اعظم تیار کرتے چلے جاتے۔اگر ہمارا چاند فرض کیجئے اپنے حقیقی فاصلے کی بجائے زمین سے پچاس ہزار میل دور ہوتا تو سمندر کی لہریں اتنی زیادہ ہوتیں کہ ہمارے تمام بر اعظم دن میں دو مرتبہ زیر آب آ جایا کرتے۔ یہاں تک کہ پہاڑ بھی آہستہ آہستہ کٹ کٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے۔ اگر سطح زمین اپنی موجودہ موٹائی سے صرف 10 فٹ اور زیادہ موٹی ہوتی تو آکسیجن پیدا ہی نہ ہو سکتی۔ جس کے بغیر حیوانی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔اگر سمندر چند فٹ اور گہرے ہوتے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن جذب ہو کر رہ جاتیں اور نباتات کا وجود باقی نہ رہتا۔یا اگر ہماری فضا لطیف تر ہوتی تو لاکھوں ٹوٹنے والے ستارے جو روزانہ خلا میں جل کر رہ جاتے ہیں زمیں کے ہر حصے سے ٹکراتے اور ہر جگہ آگ لگا دیتے ۔ ان وجوہ سے اور ان جیسی کئی مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک کروڑویں حصے میں بھی اس امر کا امکان نہیں پایا جاتا کہ ہمارا سیارہ یعنی زمین ایک اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے
جاری ہے ۔۔۔