نوید ناظم
محفلین
وجود کی لذت ایک عارضہ ہے' جس میں انسان' انسانیت کے درجہ سے گرنا شروع ہو جاتا ہے- اس بیماری میں مبتلا آدمی حلال اور حرام کی تمیز کھو بیٹھتا ہے' ماں اور بیٹی کا خیال بھی خواب ہو جاتاہے. آرام دہ زندگی گزارنے کے لیے یہ دوسرے لوگوں کو تکالیف سے گزارتا ہے۔ ایسے شخص سے مال اور آبرو دونوں غیر محفوظ ہوتے ہیں- یہ محض جسم کی پرورش میں مصروف رہتا ہے اور جسم اسے اصل زندگی سے آشنا نہیں ہونے دیتا، وہ زندگی جس میں روح سیراب ہوا کرتی ہے، دل وجان ایمان کا میٹھا ذائقہ چکھتے ہیں۔۔۔۔ وہ زندگی جس میں خالق اور خالق کے حکم کا خیال رکھا جاتا ہے۔ انسان حرام کے مال سے جب اے سی خرید لیتا ہے تو اُس اے سی کی ٹھنڈی ہوا اس کی روح کو جلاتی رہتی ہے- خود کو سکون میں سمجھنے والا اصل میں عذاب کے اندر ہوتا ہے- یہ عذاب ' حجاب اور سراب کی صورت اس کے ساتھ بلکہ اس کے اندر ہمہ وقت موجود رہتا ہے...جس کے ظاہر ہونے کا دن مقرر ہو چکا. اللہ نے کہا یتیم کا مال کھانا ایسے ہے جیسے پیٹ کو آگ سے بھرنا مگر پیٹ کی آگ انسان کو آگ کھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ آدمی کی زندگی کم ہورہی ہو اور لالچ بڑھ رہا ہو تو اسے بد نصیبی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے- نظر کمزور ہو رہی ہو اور پھر بھی حیا سے محروم ہو تو اس سے بڑی محرومی کیا ہو گی- لالچ' حرص' ہوس۔۔۔۔ یہ سب اُسی وقت ختم ہو سکتے ہیں جب انسان وجود کے جمود سے آزاد ہو جائے- جسم پرستی کو ترک کر دے- در اصل لطف کو زندگی نہ ملے تو زندگی کو لطف نہیں مل سکتا- ہم لطف کو لذت کا متضاد کہہ سکتے ہیں۔۔۔ لذت عارضی اور لطف ابدی ہوتا ہے۔۔۔۔ حاصل میں لذت ہے مگر ایثار میں لطف ہے۔ جمع کرنے میں لذت ہے اور تقسیم کرنے میں لطف ہے۔ لذت' کثافت ہے اور لطف' لطافت۔
لذتِ وجود انسان کی زندگی کو کثیف کر دیتی ہے اور یہ اپنی ہی خواہشوں کے بوجھ کو اٹھانے سے قاصر ہو جاتا ہے۔۔۔۔ یوں زندگی کا سفر ایک مشکل سفر میں بدل جاتا ہے۔
لذتِ وجود انسان کی زندگی کو کثیف کر دیتی ہے اور یہ اپنی ہی خواہشوں کے بوجھ کو اٹھانے سے قاصر ہو جاتا ہے۔۔۔۔ یوں زندگی کا سفر ایک مشکل سفر میں بدل جاتا ہے۔