وجود یا موجود؟

وجود اور موجود کی کہانی یہ ہے کہ موجود ہونے کے لیے وجود کی ضرورت نہیں۔ بے شک یہ لفظی تضاد ہے۔ لیکن جو حقیقی طور پر موجود ہے وہ وجود سے آزاد ہے۔ اور جس کا وجود بظاہر نظر آتا ہے وہ حقیقی طور پر موجود ہے ہی نہیں۔
تم وجود سے موجود کو ثابت کرتے ہو لیکن وجود ہونے کے لیے پہلے وجود کو حقیقی ثابت کرنا ہوگا۔
موجود "اثر انگیز" ہے۔
وجود "متاثر" ہے۔

"الف" موجود ہے۔ لیکن اس کا کوئی "وجود" نہیں ہے۔
تمہارا وجود ہے۔ لیکن کیا تم موجود ہو؟
فلسفے میں تم اس بات کو کبھی حقیقی طور پر ثابت نہیں کر سکتے۔

"الف" بہر صورت خدا کا نام ہے۔
 

حسینی

محفلین
فلسفہ اسلامی میں وجود اور موجود ایک دوسرے کی جگہ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور ان میں کوئی خاص فرق نہیں کیا جاتا۔
ہر چیز وجود کے ذریعے موجود ہے۔۔۔ لیکن خود وجود کو موجود ہونے کے لیے کسی اور وجود کی ضرورت یا احتیاج نہیں۔۔ (شیخ اشراق نے یہ اشکال اصالۃ الوجود پر کیا تھا کہ وجود کو اصیل مانیں تو تسلسل لازم آتا ہے)۔
فلسفہ اسلامی میں وجود اک امر بسیط اور مشکک ہے۔ وجود کے مراتب ہیں جن میں سے شدید ترین مرتبہ واجب الوجود کا ہے جبکہ ضعیف ترین مرتبہ ہیولی کا ہے۔ وجود کی حقیقت تک کوئی بھی عام انسان نہیں پہنچ سکتا۔ ہم بس وجود کی بعض حیثیات کو درک کرتے ہیں۔ جیسے وجود کا طارد عدم ہونا، علت ہونا، یا معلول ہونا وغیرہ۔ وجود مشترک معنوی ہے اور اپنے تمام مصادیق پر ایک ہی معنی میں صدق کرتا ہے اور وہ "طاردیۃ العدم" کا معنی ہے۔ البتہ فرق شدت وضعف کا ہے۔
اس حوالے سے لمبی چوڑی بحث کہ وجود اصیل ہے یا ماہیت۔ یا نور اصل ہے جیسے کہ شیخ اشراق نے کہا تھا۔ یہ بہت گہری بحثی فلسفی ٰ بحثیں ہیں اور ناچیز اس حوالے سے آج کل کچھ کتابوں کا مطالعہ کر رہا ہوں۔
 

نایاب

لائبریرین
" موجود اور وجود" ہر دو کا " اثبات " اگر " دلیل " پر قائم کیا جائے ۔ تو دلیل ان دو سے آگے نکل جائے گی ۔ ٍاور یہ ہر دو " دلیل " کے بل پر " عدم و وجود " کی صف میں بے اختیار ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ موجود اور وجود کا اثبات اپنے عکس پر قائم ہے ۔
اور یوں یہ جو بحث نکلتی ہے ۔ وہ " وحدت الوجود اور وحدت الشہود " کے فلسفے کو جنم دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ہر موجود اک وجود رکھتا ہے اور یہ وجود ہر آنکھ کے دیکھنے کے زاویہ پر اپنا عکس مجسم کرتا ہے ۔
وجود ہے تو موجود لازم ہے ۔۔۔۔۔ جو وجود نہ ہو تو موجود ہونا محال امر ۔۔۔۔۔۔۔
الف تو ابتدا ہے ۔ وجود تو موجود ہے الف سے پہلے ہی ۔ اسی موجود وجود نے خلق کیا " الف " کو
وہ الف سے بے نیاز خود میں مکمل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اگر وجود اور موجود کی بحث عقیدہ توحید کے تناظر میں ہے تو بہتر ہے کہ اس بحث کو آگے نا بڑھایا جائے کہ کہیں کسی سے نا سمجھی میں ایسی بات نا کہی جائے جو ایمان پر اثر انداز ہو جائے۔ :)
 

حسینی

محفلین
" موجود اور وجود" ہر دو کا " اثبات " اگر " دلیل " پر قائم کیا جائے ۔ تو دلیل ان دو سے آگے نکل جائے گی ۔ ٍاور یہ ہر دو " دلیل " کے بل پر " عدم و وجود " کی صف میں بے اختیار ہوں گے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ موجود اور وجود کا اثبات اپنے عکس پر قائم ہے ۔
اور یوں یہ جو بحث نکلتی ہے ۔ وہ " وحدت الوجود اور وحدت الشہود " کے فلسفے کو جنم دیتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ہر موجود اک وجود رکھتا ہے اور یہ وجود ہر آنکھ کے دیکھنے کے زاویہ پر اپنا عکس مجسم کرتا ہے ۔
وجود ہے تو موجود لازم ہے ۔۔۔ ۔۔ جو وجود نہ ہو تو موجود ہونا محال امر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
الف تو ابتدا ہے ۔ وجود تو موجود ہے الف سے پہلے ہی ۔ اسی موجود وجود نے خلق کیا " الف " کو
وہ الف سے بے نیاز خود میں مکمل ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ہر موجود وجود رکھتا ہے۔۔ لیکن نہ اس طرح سے کہ وجود اور ہو موجود اور ہو۔ بلکہ وجود عین موجود ہے۔
فلسفہ اسلامی کے مطابق وجود بدیہی ہے۔ یعنی وجود معلوم بدیہی ہے کہ اس کے اثبات میں کسی دلیل کی احتیاج نہیں۔ بلکہ ہم میں سے ہر کوئی وجود کو شہود کے ذریعے درک کرتے ہیں اور وجود میں کسی قسم کا شک نہیں کرتے۔ برعکس سفسطہ کے کہ جس میں وجود جیسے بدیہی کا بھی انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ کوئی بھی چیز وجود نہیں رکھتی۔ سب وہم وگمان ہے۔
البتہ سفسطہ کا رد انتہائی آسان ہے۔ بلکہ بعض محقیقین نے تو سفسطائیوں کے ہونے میں یا ان کی طرف نسبت بات کی صحت میں بھی تامل کیا ہے چونکہ اتنے واضح اور بدیہی کا انکار ناممکن ہے اور ایسے انکار سے نظام حیات کچھ لمحوں کے لیے بھی چلانا ناممکن ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر غیر متعلقہ ہے تو براہ کرم نظر انداز کر دیں
1931 میں ریاضی دان کرٹ گوڈیل Kurt Gödel نے ریاضی کی فطرت کے متعلق اپنا مشہور "ادھورے پن "کا تھیورم ثابت کیا۔ اس تھیورم کے مطابق مقولوں (axioms)کے کسی بھی باقاعدہ نظام کے اندر ایسے سوالات ہمیشہ قائم رہتے ہیں جنہیں نظام کا تعین کرنے والے مقولوں کی بنیاد پر ثابت اور نہ ہی رد کیا جاسکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر گوڈیل نے دکھایا کہ کچھ ایسے مسائل موجود ہیں جنہیں قوانین یا طریقہ ہائے کار کے کسی بھی سیٹ کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔
گوڈیل کے تھیورم نے ریاضی پر اساسی نوعیت کی حدود لاگو کیں۔ سائنسی کمیونٹی کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ اس نے یہ مقبول عام یقین باطل کر دیا تھا کہ ریاضی واحد منطقی اساس پر مبنی ایک مربوط اور مکمل نظام تھا۔
کائنات کی تاریخ از سٹیفن ڈبلیو ہاکنگ ؛ مترجم یاسر جواد سے اقتباس
متعلقہ:-
Kurt Gödel
 

حسینی

محفلین
اگر وجود اور موجود کی بحث عقیدہ توحید کے تناظر میں ہے تو بہتر ہے کہ اس بحث کو آگے نا بڑھایا جائے کہ کہیں کسی سے نا سمجھی میں ایسی بات نا کہی جائے جو ایمان پر اثر انداز ہو جائے۔ :)
ان بحثوں میں غور وفکر کیا جائے تو توحید اور بہتر انداز میں ثابت ہوتی ہے۔ آیا کائنات میں کوئی چیز وجود سے باہر ہے؟ وجود کے علاوہ تو فقط عدم ہے۔ پس وجود میں غور وفکر کی دعوت خود خداوند متعال نے ہمیں دی ہے اور ہمارے لیے انفس اور آفاق میں اپنی نشانیاں قرار دی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
فلسفہ اسلامی میں وجود اور موجود ایک دوسرے کی جگہ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور ان میں کوئی خاص فرق نہیں کیا جاتا۔
ہر چیز وجود کے ذریعے موجود ہے۔۔۔ لیکن خود وجود کو موجود ہونے کے لیے کسی اور وجود کی ضرورت یا احتیاج نہیں۔۔ (شیخ اشراق نے یہ اشکال اصالۃ الوجود پر کیا تھا کہ وجود کو اصیل مانیں تو تسلسل لازم آتا ہے)۔
فلسفہ اسلامی میں وجود اک امر بسیط اور مشکک ہے۔ وجود کے مراتب ہیں جن میں سے شدید ترین مرتبہ واجب الوجود کا ہے جبکہ ضعیف ترین مرتبہ ہیولی کا ہے۔ وجود کی حقیقت تک کوئی بھی عام انسان نہیں پہنچ سکتا۔ ہم بس وجود کی بعض حیثیات کو درک کرتے ہیں۔ جیسے وجود کا طارد عدم ہونا، علت ہونا، یا معلول ہونا وغیرہ۔ وجود مشترک معنوی ہے اور اپنے تمام مصادیق پر ایک ہی معنی میں صدق کرتا ہے اور وہ "طاردیۃ العدم" کا معنی ہے۔ البتہ فرق شدت وضعف کا ہے۔
اس حوالے سے لمبی چوڑی بحث کہ وجود اصیل ہے یا ماہیت۔ یا نور اصل ہے جیسے کہ شیخ اشراق نے کہا تھا۔ یہ بہت گہری بحثی فلسفی ٰ بحثیں ہیں اور ناچیز اس حوالے سے آج کل کچھ کتابوں کا مطالعہ کر رہا ہوں۔
جہاں تک مجهے علم ہے تو ملا صدرہ نے برہان الصدیقین کے زریعے خدا کو وجود ثابت کیا ہے. بہت پہلے یہ دیکها تها، اب ذہن سے تفصیل محو ہو گئی ہے.
 

حسینی

محفلین
جہاں تک مجهے علم ہے تو ملا صدرہ نے برہان الصدیقین کے زریعے خدا کو وجود ثابت کیا ہے. بہت پہلے یہ دیکها تها، اب ذہن سے تفصیل محو ہو گئی ہے.
جی جی ذیشان بھائی۔ ملا صدرہ نے برہان صدیقین کے ذریعے سے وجود خدا اور توحید خداوندی کو نہایت اچھے اور گہرے انداز میں ثابت کیا ہے۔ ملا صدرا کا فلسفہ اسلامی میں نہایت اعلی مقام ہے۔ انہوں نے فلسفہ میں جدید مبانی بیان کیے۔ اسفار جیسی کتاب لکھی۔ ان کے بعد سے اب تک تقریبا تمام فلاسفہ (کم از کم شیعہ فلاسفہ) انہی کے مکتب کے پیرو ہیں۔ جن میں علامہ طباطبائی، شہید مطہری اور مصباح یزدی جیسے بڑے بڑے نام ہیں۔
برہان صدیقین کو لگ بھگ سو کے قریب طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ اور اسی عنوان پر "براھین صدیقین" کے نام سے کتاب بھی لکھی جاچکی ہے۔
اس برھان کو سب سے پہلے شیخ الرئیس بوعلی سینا نے اپنی کتاب الاشارات میں بیان کیا تھا۔ اس حوالے سے ناچیز نے اک اشارہ یہاں کیا تھا۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/برہان-امکان-ووجوب-برائے-اثبات-وجود-خدا.71480/
 
(فلسفۂ اسلامی یا تصوف سے غیر متعلق)
وجود اور موجود کو "صرفی" ساخت پر دیکھا جائے تو موجود کے لیے وجود کی ضرورت ہے۔ اس بات کی میں نے ابتدا ہی میں نفی کردی ہے کہ مجھے لفظی تضاد سے کوئی غرض نہیں لیکن مجھے موجود کے لیے موجود سے بہتر لفظ اس کی نمائندگی کے لیے نہیں مل سکا۔
موجود اثرات سے موجود ہے۔ وجود متاثر ہونے کی وجہ سے وجود ہے۔ ہم موجود کے اثرات دیکھتے ہیں۔ وجود کو متاثر دیکھتے ہیں۔
یعنی اگر اسے کھولا جائے تو معلوم ہوگا کہ
ہم موجود کے اثرات دیکھ سکتے ہیں۔
وجود کو متاثر شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن ہم حقیقت میں نہ وجود کو دیکھ سکتے ہیں نہ موجود کو۔
 

سید ذیشان

محفلین
بہت شکریہ حسینی بهائی.

میں علامہ اقبال کی پی ایچ ڈی تهیس کا مطالعہ کر رہا تها تو آخری دور میں ایران کے ملا سبزواری کا نام بهی درج تها. غالبا ملا صدرہ کے ہم عصر ہیں. تو ان دونوں کے فلاسفہ میں کیا فرق ہے؟ دونوں کا تعلق وجود ہی سے ہے؟
 

حسینی

محفلین
بہت شکریہ حسینی بهائی.

میں علامہ اقبال کی پی ایچ ڈی تهیس کا مطالعہ کر رہا تها تو آخری دور میں ایران کے ملا سبزواری کا نام بهی درج تها. غالبا ملا صدرہ کے ہم عصر ہیں. تو ان دونوں کے فلاسفہ میں کیا فرق ہے؟ دونوں کا تعلق وجود ہی سے ہے؟
ملا ہادی سبزواری کا تعلق ملا صدرا کے مکتب سے ہی ہے اور یقینا ان کے بعد کا ہی ہے۔ پس ان کا بھی نظریہ نظریہ وجودی ہے۔ پس اس طرح سے ملا ہادی سبزواری کی حیثیت فلسفہ صدرایی کے شارح اور مفسر کی ہے۔
ملا سبزوای کی مشہور کتاب منظومہ ہے۔ جس میں فلسفہ اور منطق کے مسائل کو نہایت خوبصورت انداز میں عربی زبان میں نظم کیا ہے۔ منظومہ ملا ہادی اور شہید مطہری کی اس پر شرح ابھی میری میز پر پڑی ہے اور میں اس کا مطالعہ کر رہا ہوں۔
 

حسینی

محفلین
(فلسفۂ اسلامی یا تصوف سے غیر متعلق)
وجود اور موجود کو "صرفی" ساخت پر دیکھا جائے تو موجود کے لیے وجود کی ضرورت ہے۔ اس بات کی میں نے ابتدا ہی میں نفی کردی ہے کہ مجھے لفظی تضاد سے کوئی غرض نہیں لیکن مجھے موجود کے لیے موجود سے بہتر لفظ اس کی نمائندگی کے لیے نہیں مل سکا۔
موجود اثرات سے موجود ہے۔ وجود متاثر ہونے کی وجہ سے وجود ہے۔ ہم موجود کے اثرات دیکھتے ہیں۔ وجود کو متاثر دیکھتے ہیں۔
یعنی اگر اسے کھولا جائے تو معلوم ہوگا کہ
ہم موجود کے اثرات دیکھ سکتے ہیں۔
وجود کو متاثر شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن ہم حقیقت میں نہ وجود کو دیکھ سکتے ہیں نہ موجود کو۔
صرفی بحث کو چھوڑ کر۔۔۔ خارج میں وجود اور موجود دو الگ چیزیں نہیں ہیں۔۔ کہ اس طرح کے فرق کے قائل ہو جائیں۔ ایک متن وجود یا حقیقت وجود(حقیقت ہستی) ہے جس تک یا جس کی کنہ تک عام انسان کی رسائی نہیں ہے۔ ایک وجود کی حیثیات ہیں۔ وجود کے بارے ہمارا سارا علم اس کی حیثیات تک محدود ہیں۔
 
صرفی بحث کو چھوڑ کر۔۔۔ خارج میں وجود اور موجود دو الگ چیزیں نہیں ہیں۔۔ کہ اس طرح کے فرق کے قائل ہو جائیں۔ ایک متن وجود یا حقیقت وجود(حقیقت ہستی) ہے جس تک یا جس کی کنہ تک عام انسان کی رسائی نہیں ہے۔ ایک وجود کی حیثیات ہیں۔ وجود کے بارے ہمارا سارا علم اس کی حیثیات تک محدود ہیں۔

وجود وجود ہے۔ وجود ظرف مکان ہے۔ اور ظرف مکان تو کمزوری ہی مادی کائنات کے موجوداتِ غیر حقیقی کی ہے۔ میں موجود کو "وجود" سے مشتق نہیں کہہ رہا۔ آپ اسے وجود سے مشتق کہہ رہے ہیں۔ در اصل مسئلہ لفظ کا ہے۔ آپ موجود کی جگہ لفظ "ہونا" کہہ دیجئے۔ یا کچھ اور۔
 

حسینی

محفلین
وجود وجود ہے۔ وجود ظرف مکان ہے۔ اور ظرف مکان تو کمزوری ہی مادی کائنات کے موجوداتِ غیر حقیقی کی ہے۔ میں موجود کو "وجود" سے مشتق نہیں کہہ رہا۔ آپ اسے وجود سے مشتق کہہ رہے ہیں۔ در اصل مسئلہ لفظ کا ہے۔ آپ موجود کی جگہ لفظ "ہونا" کہہ دیجئے۔ یا کچھ اور۔
مزمل بھائ ! اس کائنات میں اک حقیقت ہے کہ جس کے علاوہ کو عدم کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں۔ اردو یا عربی والے اس کو وجود یا موجود سے تعبیر کرتے ہیں، فارسی والے ہستی سے مثلا اور اسی طرح سے ہر زبان۔۔۔ پس بحث اس حقیقت واحد میں ہے جس کی طرف یہ سارے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ لہذا تعبیر یا جعل اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔ بحث ساری اس حقیقت کے بارے ہونی چاہیے۔
 
مزمل بھائ ! اس کائنات میں اک حقیقت ہے کہ جس کے علاوہ کو عدم کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں۔ اردو یا عربی والے اس کو وجود یا موجود سے تعبیر کرتے ہیں، فارسی والے ہستی سے مثلا اور اسی طرح سے ہر زبان۔۔۔ پس بحث اس حقیقت واحد میں ہے جس کی طرف یہ سارے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ لہذا تعبیر یا جعل اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔ بحث ساری اس حقیقت کے بارے ہونی چاہیے۔

بالکل۔ آپ نے درست کہا۔ میں بھی اسی حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ کائنات میں جو کچھ بھی وجود رکھتا ہے وہ کسی مکان کا قیدی ہے۔ اور کائنات میں ہر وجود رکھنے والی چیز حقیقت میں کوئی "حقیقت" نہیں۔
ہم حقیقت کو نہیں جانتے۔ جان سکتے ہی نہیں۔ یہ ازلی اور ابدی طور پر نامعلوم ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقت "ہے"۔ لیکن حقیقت "کیا" ہے یہ بات کوئی نہیں جانتا۔ لیکن وہ جو بھی ہے اسے وجود سے آزاد ہونا واجب ہے۔ وہ وجود کے بغیر موجود ہے۔ آپ اس پر وجود ثابت کر ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ وجود متاثر ہے۔ موجود حقیقت ہے۔ وجود حقیقت نہیں ہے۔ وجود کی بس اتنی حقیقت ہے کہ ہم اسے اسکی "متاثر" صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور جو متاثر نہیں ہے اس کو وجود سے آزادی ضروری ہے۔ وہ "الف" ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ "الف" ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ "الف" کیا ہے۔ جان سکتے ہی نہیں۔ فلسفے میں یہ ممکن نہیں۔
 

حسینی

محفلین
بالکل۔ آپ نے درست کہا۔ میں بھی اسی حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ کائنات میں جو کچھ بھی وجود رکھتا ہے وہ کسی مکان کا قیدی ہے۔ اور کائنات میں ہر وجود رکھنے والی چیز حقیقت میں کوئی "حقیقت" نہیں۔
۔
جو کچھ بھی وجود رکھتا ہے وہ مکان کا قیدی اگر ہے۔۔۔ تو آپ فرا مکانی کا انکار کر رہے ہیں۔ مکان کو آپ ہرگز وجود کے لیے قید نہیں بنا سکتے۔ مکان تو صرف مادی چیزوں کے لیے آپ فرض کر سکتے ہیں۔ یہ مادیات کی مجبوری ہے۔
التبہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم وجود کی حقیقت بتمام المعنی تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ جو کچھ ہمارے پس حقیقت کے نام سے ہے وہ شاید ایک خاص حد تک اصل حقیت کی طرف اشارہ کرتے ہوں۔
لیکن حقیقت "کیا" ہے یہ بات کوئی نہیں جانتا۔ لیکن وہ جو بھی ہے اسے وجود سے آزاد ہونا واجب ہے۔ وہ وجود کے بغیر موجود ہے۔ آپ اس پر وجود ثابت کر ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ وجود متاثر ہے۔ موجود حقیقت ہے۔ وجود حقیقت نہیں ہے۔ وجود کی بس اتنی حقیقت ہے کہ ہم اسے اسکی "متاثر" صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور جو متاثر نہیں ہے اس کو وجود سے آزادی ضروری ہے۔ وہ "الف" ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ "الف" ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ "الف" کیا ہے۔ جان سکتے ہی نہیں۔ فلسفے میں یہ ممکن نہیں۔

حقیقت جو بھی ہے اس کو وجود سے آزاد ہونا چاہیے کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔۔ چونکہ بعد از وجود عدم ہی عدم ہے۔ وجود کے بغیر تو کوئی چیز موجود نہیں۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز موجود ہو لیکن وجود نہ ہو؟
وجود اور موجود میں فرق بھی کس اساس اور دلیل پر کیا گیا ہے ابھی تک واضح ٰ نہیں ہوا۔
 
بات شائد Perception اور Reality کی ہورہی ہے۔ جس بات کو صاحبِ دھاگہ وجود کہہ رہے ہیں شائد Perceptionکے معنوں میں کہہ رہے ہیں، اور موجود Reality کے معنوں میں۔۔۔۔
 
Top