میں نے وجود کی جو تعریف اپنے اول مراسلے کے حوالے سے اوپر کی ہے اس سے وجود کا جو معنی میں نے مراد لیا ہے وہ جسم، جسامت یا ظاہری لباس کا ہے۔ اگر مادی دنیا میں دیکھو تو ہر وہ چیز موجود ہے جس کا جسم ہے۔ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ وجود متاثر ہے۔ اس لیے وجود کا حقیقی ہونا ممکن نہیں۔ یوں وجود بھی در حقیقت عدم ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وجود کی حقیقت تب تک ظاہر ہی نہیں ہوسکتی جب تک وہ متاثر ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات میں ذرہ ذرہ متاثر ہے۔ اسی لیے کوئی وجود حقیقی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے فرمایا کہ نقیضین کا جمع ہونا محال ہے۔ تو اس کو اگر مزید کریدا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نقیضین کی سطح کیا ہے؟ اگر یہ بیان ایک سطح تک محدود ہے تو اسے دلیل بنانا بے کار ہے۔ مثلاً دن اور رات نقیض ہیں۔ لیکن یہ سطحی سچ ہے۔ حقیقت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دن اور رات ایک مقام تک نقیض ہیں۔ اس مقام کی حدود سے باہر یہ دونوں ایک دوسرے کی نفی نہیں کریں گے۔
اسی طرح دوسری بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
عدم عدم ہے اسی لیے متاثر ہے۔ عدم بھی وجود کے لیے ہے۔ اور وجود سے عدم کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ وجود حقیقی نہیں تو عدم بھی حقیقی نہیں ہوسکتا۔ عدم وجود کے اثر سے متاثر ہے۔
جی اس بات کا مجھے اقرار ہے۔ یہ میں اوپر واضح کر چکا ہوں کہ عام پہلو سے یہ بات درست ہے۔
سارے علوم وہم اور گمان بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی ناممکنات میں سے تو نہیں۔ فی الوقت تو علوم، ان کے مصادر، دماغی سطح اور دماغ کی رہنمائی میں کیے گئے فیصلے کے سچ ہونے کی دلیل پر بھی انسان کی حد صرف اس کائنات اور اس میں چلتے ہوئے "وقت" کی حدود تک موقوف ہیں۔ نہ انسان "وقت" کے علاوہ کچھ سوچ سکتا ہے نہ کائنات سے آگے۔ تو یہاں پیمانہ تو مقرر ہوجاتا ہے۔ لیکن اب نا معلوم کو نامعلوم رکھ کر ایک انجان حقیقت کو بنا کوئی نام دیے دریافت کرنا ممکن ہے۔ اس میں کچھ لوگ آگے ہیں کچھ لوگ پیچھے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ پیچھے ہیں۔
نہیں جناب۔ مجھے برا منانے والی کوئی بات بھی نہیں لگتی جب تک بحث علمی اور منطقی دائروں کو پار نہ کردے۔