شفیق الرحمان وجہ

نظام الدین

محفلین
پھر کوئی پوچھ بیٹھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں۔۔۔؟
شادی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جوانی جہان گردی اور فیلڈ سروس کی نذر ہوگئی۔ ادھیڑ عمر کا ہوا تو پھر خیال چھوڑ دیا۔ دراصل محبت فقط نوعمروں کے لیے ہے۔ اس عمر میں ہر چیز خوامخواہ رنگین معلوم ہوتی ہے۔ ہر جذبے میں بے ساختگی ہوتی ہے اور بلا کا خلوص۔ محبوب ایک دفعہ مسکرا دے تو ہفتے مہینے خوشی خوشی گزر جاتے ہیں اور یقین ہو جاتا ہے کہ امتحان میں ضرور کامیابی ہوگی، مالی حالت بہتر ہو جائے گی ، دوست دشمن سب مہربان ہو جائیں گے اور محبوب کی بے رخی سے سب تہس نہس ہو جائے گا۔ آئرلینڈ کی وہ جھلمل جھلمل کرتی ندیاں ، وہ لہلہاتے کھیت ، شاداب کنج گھنے جنگل مجھے اب تک یاد ہیں۔ اگرچہ ان لڑکیوں کے نام اور چہرے یاد نہیں جو ان دنوں میرے ساتھ ہوا کرتیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتاتھا کہ کب بادل آئے تھے اور کب بوندیں تھم گئیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد اتنی جلدی چاند کیسے نکل آیا۔۔۔ذرا دیر پہلے گھپ اندھیرا تھا، دفعتاً یہ روشنی کہاں سے آگئی۔ وہ جگمگاتی صبحیں۔۔۔۔وہ رنگین شامیں ۔۔۔۔وہ مستی کے شب و روز۔۔۔۔محبت کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دکھاوا ہے۔ اگرچہ میں شادی کے قضیے سے بالکل مبرا ہوں اور تم لڑکوں کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنی کمر پر زین نہ کسوانا لیکن اگر خدانخواستہ کبھی پھنسنے لگو تو جذبات کے دھارے میں مت بہہ جانا۔ ایسا چہرہ چننا جس کی کشش اور دلربائی دیرپا ہو۔ شاید تم نہیں جانتے کہ گزرتے ہوئے ایام چہروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اورمحض دس پندہ سال کا وفقہ چہروں میں کیسی کیسی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔

(شفیق الرحمن کی کتاب دجلہ سے اقتباس)
 
Top