وحدت الوجود ایک غیر اسلامی نظریہ از الطاف احمد اعظمی

“ہر وہ تصوف جس کے ساتھ پاکیزگی اور پارسائی نہیں فریب ہے ، تکلف ہے مگر تصوف نہیں۔ ہر وہ باطن جس کا ظاہر مخالف ہو باطل ہے ، باطن نہیں۔ ہر وہ فقر جس کو صبر و قناعت کے ساتھ مضبوط نہ کیا گیا ہو بد بختی اور محرومیت ہے فقر نہیں ہر وہ علم جس کی تصدیق عمل سے نہ ہو جہل و ظلم ہے ، علم نہیں۔ ہر وہ توحید جسے کتاب و سنت صحیح قرار نہ دیں ، الحاد ہے نہ کہ توحید “۔
( امام ابو القاسم قشیری رحمتہ ، الرسائل الا قشیریتہ ٥٣ )
 
دل طور سینا و فاران دو نیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم

مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک زنار پوش

تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام
بتان عجم کے پجاری تمام

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی

( اقبال )
 
فہرست مضامین

دیباچہ

باب اول؛ تصوف اور اس کے ارتقائی مدارج

باب دوم؛ وحدت الوجود کے اہم ماخذ
ویدانت
نوفلاطونیت

باب سوم؛ وحدت الوجود۔۔۔۔۔۔۔۔ معنی و مفہوم

باب چہارم؛ مشہور وجودی صوفیہ
ذولنون مصری
بازید بسطامی
جنید بغدادی
حسین بن منصور بن حلاج
ابو بکر شبلی
جلال الدین رومی
محی الدین ابن عربی
مولانا جامی
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

باب پنجم ؛ وحدت الشہور
معنی و مفہوم
مشاہدہ حق کے مراتب
مقام حال مقامِ ظلیت مقام ابدیت
کیا وحدت الشہود اور وحدت الوجود میں نزاع لفظی ہے ؟
نظریہ ظلال و عکوس
وجودی تنزلات
شہودی تنزلات
خالق و مخلوق میں تعلق کی نوعیت
تصورِ فنا

بابِ ششم؛ وحدت الوجود کا تنقیدی جائزہ
کشفی جائزہ
علمی جائزہ
عملی جائزہ

باب ہفتم؛ وحدت الوجود اور قرآن مجید
کیا وحدت الوجود کی تائید قرآن مجید سے ہوتی ہے ؟
صوفیا کا آیاتِ قرآنی سے غلط استدلال
وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنی مخلوق سے جدا ہے
خالق و مخلوق میں تعلق کی نوعیت
تفکر فی اللہ کی ممانعت

باب ہشتم ؛ وحدت الوجود اور احادیث
صوفیا کا صحیح احادیث سے غلط استدلال
موضوع احادیث سے استدلال
وہ احادیث جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اپنی مخلوق سے جدا ہے

باب نہم؛ متقدمین کا مسلک
صحابہ کا مسلک
علما کا مسلک
حقیقی توحید
مراجع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اشاریہ
 
دیباچہ

سب سے پہلے راقم اللہ تعالی کا صمیمِ قلب سے شکر بجا لاتا ہے اس نے اس کو کم سواد و کم علم کو اس کتاب کے لکھنے کی توفیق عطا فرمائی اور اپنے لطف باپایاں اور کرمِ بے نہایت سے تکمیل کار کے ضرور اسباب و وسائل فراہم کیے۔

ہم نے جس وقت اپنی کتاب “ توحید کا قرآنی تصور “ لکھنی شروع کی تو خیال تھا کہ کتاب کے آخر میں اختصار کے ساتھ وحدت الوجود پر گفتگو کافی ہوگی لیکن اس سلسلہ میں ہمارا مطالعہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا ہم نے محسوس کیا کہ اس موضوع پر مختصر گفتگو تشنہ رہے گی اس لیے یہی مناسب معلوم ہوا کہ اس پر ایک علیحدہ کتاب میں شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی جائے تاکہ اس نظریے کی خطرناکی پورے طور پر ظاہر ہوجائے۔
صوفیائے وحدت الوجود کو اصل توحید سمجھتے ہیں۔ ان کے یہاں توحید کے معنی وجود کی وحدت کے ہیں یعنی وجود حقیقی صرف ایک ہے اور وہ تمام موجودات میں ان کا عین وجود بن کر سرایت کیے ہوئے ہے۔ موجوداتِ عالم کی حیثیت محض حجاب کی ہے یا وجودی زبان میں وجودِ مطلق کے تشخصات اور تعینات ہیں اس لیے عالم عین حق ہے ( العالم عین الحق ) ۔
وجودی صوفیا کے دو بڑے گروہ ہیں ایک کو وجودیہ عینییہ اور دوسرے کو وجودیہ ورایہ کہا جاتا ہے۔ اول الذکر یعنی وجودیہ عینییہ ہی عالم کو عین حق کہتا ہے۔ صوفیا کی اکثریت اسی گروہ سے تعلق رکھتی ہے اور شیخ محی الدین ابن عربی اس گروہ صوفیا کے سرخیل ہیں۔ زیر نظر کتاب میں اسی گروہ کے فکر و فلسفہ پر بحث و تنقید کی گئی ہے۔
دوسرا گروہ جو ورایہ کہلاتا ہے اس سے اس کتاب میں تعرض نہیں کیا گیا ہے۔ یہ لوگ ذاتِ حق ( لاہوت ) کو کائنات سے ماوراء بلکہ وراء الورا خیال کرتے ہیں بالفاظ دیگر کائناتی کثرت اور ذات حق میں موقع و محل اور ظرف وجود کا جو فرق ہے اسے ملحوظ رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ کائناتِ موجودات ذات حق کے ذاتی کمالات اور صفاتی محاسن ( اسماء و صفات ) کی مظہر ہے۔ اس کو سادہ زبان میں یوں سمجھ لیں کہ اللہ تعالی باعتبارِ ذات کائنات خلقت سے جدا ہے لیکن باعتبار صفاتِ کمالات اس سے قرب و اتصال رکھتا ہے اور یہ عالم رنگ و بو اس کے صفاتِ کمال کی جلوہ گری ہے۔ اس نظریے پر علمی حیثیت سے بحث و تنقید تو کی جاسکتی ہے لیکن اس میں کوئی چیز خلافِ اسلام نہیں۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے “شاہ ولی اللہ اور ان کا فلسفہ میں “ اور مولانا شاہ اسماعیل شہید میں “ عبقات “ میں لکھا ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے رسالے “سطعات“ اور کسی قدر “لمعات“ سے اس کی تائید ہوتی ہے لیکن ان کی بعض دوسری تحریروں میں معاملہ اس کے برعکس ہے مثلا “ تفہیمات الہیہ “ میں جو خط “ مکتوب مدنی“ کے نام سے ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ عینی مسلک رکھتے تھے۔ اس میں انہوں نے کھل کر ابنِ عربی کے خیالات کی حمایت کی اور وحدت الوجود اور وحدت الشہود میں تطبیق دینے کی کوشش کی اور یہ بات ثابت و مسلم ہے کہ ابنِ عربی گروہِ عینیہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود راقم کا خیال ہے کہ شاہ صاحب فی الواقعہ ورائی فکر رکھتے تھے ۔ مکتوب مدنی میں جو عینی خیالات ملتے ہیں وہ ان کی فکر کے ابتدائی نقوش کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہمارے جن علماء و متکلمین نے وحدت الوجود کی مخالفت کی ہے ان میں امام ابنِ تیمیہ اور ابنِ جوزی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ طبقہ صوفیا میں شیخ علاؤالدین سمنانی ( متوفی ٧٣٦ ھ ) حضرت محمد سید گیسو دراز متوفی ٨٢٥ ھ اور مجدد الف ثانی متوفی ١٠٣٤ ھ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اول الذکر دو اصحاب نے وحدت الوجود کی مخالفت تو کی لیکن انہوں نے اس نظریے کے بالمخالف کوئی نظریہ پیش نہ کیا اور نہ ہی کشف کی بنیاد پر اس کی تردید کی۔ اس اعتبار سے مجدد صاحب کا مرتبہ بہت بلند ہے انہوں نے عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ کشف کی بنیاد پر بھی اس نظریے کی تغلیط کی اور اس کے بالمقابل ایک دوسرا نظریہ وحدت الشہود پیش کیا۔
شہودی نظریہ دراصل وحدت الوجود کی اصلاح کرتا ہے ۔ یہ نظریہ کثرتِ موجودات میں وجودِ حقیقی کا مشاہدہ ہے اس میں وجودِ اشیا کی نفی نہیں کی جاتی کہ وہ امرِ واقع ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا وجود غیر حقیقی اور ظلی ہے ان کا قیام و بقا وجودی حقیقی کی مشیت پر موقوف ہے۔ مجدد صاحب نے موجوداتِ عالم کو اللہ تعالی کے اسما و صفات کے عکوس و ظلال سے تعبیر کیا۔ اس تعبیر کے مطابق کائنات خلقت کی حیثیت اللہ تعالی کے علمی کمالات و محاسن کی مظہر ہے جبکہ وجودی صوفیا خود حق تعالی کو اس کی باطنی حقیقت ( عین ) بتاتے ہیں ۔
فی لواقع وجودی صوفیہ نے وحدت الوجود کی صورت میں جس مسئلہ کو حل کرنا چاہا ہے وہ قدیم و حادث یا دوسرے لفظوں میں خالق و مخلوق میں ربط و تعلق کا مسئلہ ہے۔ علامہ اقبال نے Reconstruction of Religious thought in islam کے بالکل آغاز میں چار سوالات قائم کیے ہیں۔

١۔ وہ عالم جس میں ہم رہتے ہیں اس کی ساخت و ترکیب کیا ہے ؟
٢۔ کیا اس ترکیب میں دوامی عنصر موجود ہے یعنی کیا وہ قدیم ہے ؟
٣۔ اس کائنات سے انسان کا کیا تعلق ہے اور اس میں اس کا کیا مقام ہے؟
٤۔ اس مقام کے اعتبار سے اس کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟

تصوف کے بھی کم و بیش یہی بنیادی سوالات ہیں۔ ہم کو اس پر اعتراض نہیں کہ صوفیہ نے بابعد الطبیعاتی مسائل سے تعرض کیا بلکہ اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے ان سوالات کا جواب یونانی ، ویدانتی اور نوفلاطونی افکار کی شکل میں کیوں دیا اور کیوں انہوں نے اس بحث میں قرآن مجید کو بطور ضمیمہ استعمال کیا یہانتک کہ وجودی فکر کی حمایت کے جوش میں اس کی آیات کی غلط تاویل کی اور تحریف کی سرحد تک پہنچ گئے ۔ یہی سلوک انہوں نے حدیث صحیحہ کے ساتھ کیا اور حد یہ ہے کہ اس معاملہ میں انہوں نے کذب بیانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔

چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
قرآن مجید میں بتکرار یہ بات کہی گئی ہے کہ کائنات موجودات کا ایک ہی خالق و مالک ہے اور وہی براہ راست اس پر حاکم و متصرف بھی ہے۔ نہ خلق میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ تدابیرمیں ( الا لہ الخلق و الا مر تبارک اللہ رب العلمین ) اسی بات کو ایک جامع کلمہ “لا الہ الا اللہ“ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کلمہ کائناتی اقتدار کی وحدت کا اعلان ہے یعنی اس بات کا اعلان کہ عالم موجودات کا مقتدر اعلی (الہ ) واحد ہے اور وہ اللہ رب العزت ہے اس کے سوا اس کائنات میں جو وجود بھی ہے وہ عاجز و بے اختیار ہے، خالق نہیں مخلوق ہے مالک نہیں مملوک ہے، معبود نہیں عبد ہے۔
 
Top