طارق شاہ
محفلین
غزل وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
اک جاگنے والا مری تقدیر میں ہوتا
اک عالم خوبی ہے میّسر، مگر اے کاش
اس گُل کاعلاقہ، مری جاگیر میں ہوتا
اُس آہوئے رم خوردہ وخوش چشْم کی خاطر
اک حلقۂ خوشبو مری زنجیر میں ہوتا
مہتاب میں اک چاند سی صورت نظرآتی
نسبت کا شرف سِلسِلۂ میر میں ہوتا
مرتا بھی جو اُس پر تو اُسے مار کے رکھتا
غالب کا چلن عشق کی تقصیر میں ہوتا
اک قامتِ زیبا کا یہ دعویٰ ہے، کہ وہ ہے
ہوتا تو مرے حرفِ گرہ گیر میں ہوتا
افتخارعارف