فاتح
لائبریرین
تقریباً سات سال قبل عنایت علی خان صاحب کا یہ شعر محفل کے ایک دھاگے میں ارسال کیا تھا:
آج یہ مکمل غزل مل گئی تو اسے بھی شامل کر رہا ہوں:اس کے رخسار پہ ہے اور ترے ہونٹ پہ تل
تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
(تل ملانے)
(عنایت علی خان)
ورغلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
شامیانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
لان میں تین گدھے اور یہ نوٹس دیکھا
گھاس کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
ایک رقاص نے گا گا کے یہ خبر سنائی
ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے اندیشۂ فردا کی جوئیں جھڑتی ہیں
سر کھجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
بے اجازت جو مچاؤ تو بصد شوق مچاؤ
غل مچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اٹھتے اٹھتے وہ مجھے روز جتا دیتے ہیں
روز آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی
پھر تو تم سر پہ اٹھا لو گے زمانے بھر کو
سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
آپ کا گھر ہے، رہیں شوق سے اس میں، لیکن
بیچ کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اپنی کُشتی ہو میاں لاکھ فری اسٹائل
کاٹ کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
یہ شریعت کا نہیں گیس کا بل ہے بیگم
بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس کے رخسار پہ ہے اور ترے ہونٹ پہ تل
تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
بس تمہیں اتنی اجازت ہے کہ شادی کر لو
شاخسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے تجدید تمنا کی ہوا آتی ہے
دم ہلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
مکتبِ فکر ہے اسکول نہیں ہے صاحب
قومیانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے مورال مسلمان کا گر جاتا ہے
دال کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
ان کے ارشادِ گرامی کو عنایتؔ سن کر
مسکرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی
شامیانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
لان میں تین گدھے اور یہ نوٹس دیکھا
گھاس کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
ایک رقاص نے گا گا کے یہ خبر سنائی
ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے اندیشۂ فردا کی جوئیں جھڑتی ہیں
سر کھجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
بے اجازت جو مچاؤ تو بصد شوق مچاؤ
غل مچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اٹھتے اٹھتے وہ مجھے روز جتا دیتے ہیں
روز آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی
پھر تو تم سر پہ اٹھا لو گے زمانے بھر کو
سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
آپ کا گھر ہے، رہیں شوق سے اس میں، لیکن
بیچ کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اپنی کُشتی ہو میاں لاکھ فری اسٹائل
کاٹ کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
یہ شریعت کا نہیں گیس کا بل ہے بیگم
بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس کے رخسار پہ ہے اور ترے ہونٹ پہ تل
تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
بس تمہیں اتنی اجازت ہے کہ شادی کر لو
شاخسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے تجدید تمنا کی ہوا آتی ہے
دم ہلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
مکتبِ فکر ہے اسکول نہیں ہے صاحب
قومیانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے مورال مسلمان کا گر جاتا ہے
دال کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
ان کے ارشادِ گرامی کو عنایتؔ سن کر
مسکرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی