فخرنوید
محفلین
بی بی سی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریکہ میں ا نٹرنیٹ پر گیم کھیلنے کےلیے مختلف اشیا خریدنے کی صنعت زبردست ترقی کر رہی ہے اور اگلے پانچ برسوں میں ان کی تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
انٹرنیٹ گیمنگ انڈسٹری کےماہرین کا کہنا ہے کہ ورچوئل مصنوعات کی صنعت دن دوگنی ترقی کر رہی ہے اور ایسی کمپنیاں جو چند سال پہلے بالکل معمولی حیثیت کی حامل تھیں اب کروڑوں روپے کی مالیت حاصل کر چکی ہیں۔
کھیل کے شائقین خصوصاً بچے بڑی تعداد میں ایسی سوشل گیم ویب سائٹوں کے ممبر بنتے ہیں جہاں انہیں کھیلنے کی مختلف اشیاء خریدنی ہوتی ہیں جس کے لیے انہیں ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ ان اشیا میں ورچوئل گھر میں رہنے کےلیے ضروری سازوسامان سے لیکر ڈجیٹل ہتھیار، مہنگی شراب شیمپئن کی بوتلیں بھی شامل ہوتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایشیاء میں ورچوئل مصنوعات کی صنعت کا حجم پہلے ہی پانچ ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
’پلے فش‘ نامی سوشل گیمنگ کپمنی صرف دو سال پہلے شروع ہوئی تھی اور اس وقت اس کی گیارہ آئن لائن گیمز ہیں اور اکسٹھ ملین لوگ یہ گیم کھیلتے ہیں۔
پلے فش کو یقین ہے کہ مستقبل قریب میں ورچوئل مصنوعات کی صنعت لوگوں کو امیر بناتی رہے گی۔
ایما کوکس ایک ایسی ہی سوشل گیمر ہیں جو ہر ماہ ورچوئل مصنوعات خریدتی ہیں۔ ایما کوکس کہتی ہیں کہ روایتی گیمز نہیں کھیلتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ سینکڑوں ڈالر خرچ کر کے گیم کنسول خریدتے ہیں اور پھر نئی گیمز خریدتے ہیں جن کی قیمتیں چالیس ڈالر تک ہوتی ہے۔
ایما کوکس کہتی ہیں کہ وہ انٹرنیٹ سوشل گیم کے ذریعے اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں اور کئی دفعہ اپنے دوستوں کے لیے ورچوئل تحفے بھی خریدتی ہیں۔ اسی طرح وہ ان سوشل نیٹ ورک پر لوگ اپنے دوستوں کے لیے ورچوئل برتھ ڈے کارڈ اور پھول بھی خریدتے ہیں۔
انٹرنیٹ گیمنگ انڈسٹری کےماہرین کا کہنا ہے کہ ورچوئل مصنوعات کی صنعت دن دوگنی ترقی کر رہی ہے اور ایسی کمپنیاں جو چند سال پہلے بالکل معمولی حیثیت کی حامل تھیں اب کروڑوں روپے کی مالیت حاصل کر چکی ہیں۔
کھیل کے شائقین خصوصاً بچے بڑی تعداد میں ایسی سوشل گیم ویب سائٹوں کے ممبر بنتے ہیں جہاں انہیں کھیلنے کی مختلف اشیاء خریدنی ہوتی ہیں جس کے لیے انہیں ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ ان اشیا میں ورچوئل گھر میں رہنے کےلیے ضروری سازوسامان سے لیکر ڈجیٹل ہتھیار، مہنگی شراب شیمپئن کی بوتلیں بھی شامل ہوتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایشیاء میں ورچوئل مصنوعات کی صنعت کا حجم پہلے ہی پانچ ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
’پلے فش‘ نامی سوشل گیمنگ کپمنی صرف دو سال پہلے شروع ہوئی تھی اور اس وقت اس کی گیارہ آئن لائن گیمز ہیں اور اکسٹھ ملین لوگ یہ گیم کھیلتے ہیں۔
پلے فش کو یقین ہے کہ مستقبل قریب میں ورچوئل مصنوعات کی صنعت لوگوں کو امیر بناتی رہے گی۔
ایما کوکس ایک ایسی ہی سوشل گیمر ہیں جو ہر ماہ ورچوئل مصنوعات خریدتی ہیں۔ ایما کوکس کہتی ہیں کہ روایتی گیمز نہیں کھیلتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ سینکڑوں ڈالر خرچ کر کے گیم کنسول خریدتے ہیں اور پھر نئی گیمز خریدتے ہیں جن کی قیمتیں چالیس ڈالر تک ہوتی ہے۔
ایما کوکس کہتی ہیں کہ وہ انٹرنیٹ سوشل گیم کے ذریعے اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں اور کئی دفعہ اپنے دوستوں کے لیے ورچوئل تحفے بھی خریدتی ہیں۔ اسی طرح وہ ان سوشل نیٹ ورک پر لوگ اپنے دوستوں کے لیے ورچوئل برتھ ڈے کارڈ اور پھول بھی خریدتے ہیں۔