وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے لیگی ارکان اسمبلی کے نام منظرعام پر آگئے

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے لیگی ارکان اسمبلی کے نام منظرعام پر آگئے
201869_4501952_updates.jpg

میری قیادت میں 15 ایم پی ایز اور 5 ایم این ایز نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی، لیگی رکن یونس انصاری کا دعویٰ۔ فوٹو: فائل

لاہور: وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے اراکین کے نام سامنے آگئے جب کہ سابق لیگی رکن اسمبلی یونس انصاری نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی قیادت میں 15 ایم پی ایز اور 5 ایم این ایز نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والے 11 لیگی اراکین میں غیاث الدین، شعیب اویسی، چوہدری اشرف انصاری، فیصل خان نیازی، غلام قاسم ہنجرا، محمد ارشد، اظہر چانڈیہ، غضنفر لنگاہ، جلیل احمد شرقپور، نشاط احمد خان ڈاہا شامل تھے۔

سابق لیگی رہنما اور آزاد حیثیت سے انتخابات میں کامیاب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی یونس انصاری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے ممبران اسمبلی نے میری قیادت میں عمران خان سے ملاقات کی اور جلد ہی پارٹی کے سندھ کے بڑے گروپ کی وزیر اعظم سے ملاقات کرائی جائے گی۔

یونس انصاری کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نااہل سیاستدان ہیں، جنھیں اپنے گھر کی خبر نہیں، اقبال گوجر نے انہیں مسلم لیگ (ن) میں واپسی کی دعوت دی جو ٹھکرا دی تھی۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے ملنے والوں میں سابق لیگی رکن اسمبلی یونس انصاری کے بھائی ایم پی اے اشرف انصاری بھی شامل تھے۔

دوسری جانب لیگی رکن صوبائی اسمبلی مولانا غیاث الدین کا کہنا ہے کہ عمران خان سے میں اور جلیل شرقپوری اپنے حلقے کے مسائل بارے ملے تھے تاہم میں مسلم لیگ (ن) میں ہی ہوں۔
 

فرقان احمد

محفلین
عمران خان صاحب روایتی سیاست دان ہی ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل، یہ سیاسی کمزوری کی اہم علامت ہے کہ اپنوں کو ساتھ رکھنے کے لیے پرایوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے۔ چھانگا مانگا سیاست کو ایک نیا تسلسل ملا ہے، آپ کو مبارک ہو، یہ تبدیلی! :)
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان صاحب روایتی سیاست دان ہی ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل، یہ سیاسی کمزوری کی اہم علامت ہے کہ اپنوں کو ساتھ رکھنے کے لیے پرایوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے۔ چھانگا مانگا سیاست کو ایک نیا تسلسل ملا ہے، آپ کو مبارک ہو، یہ تبدیلی! :)
یعنی عمران خان صحیح معنوں میں "پاکستانی" سیاست دان بن چکے ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان صاحب روایتی سیاست دان ہی ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل، یہ سیاسی کمزوری کی اہم علامت ہے کہ اپنوں کو ساتھ رکھنے کے لیے پرایوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے۔ چھانگا مانگا سیاست کو ایک نیا تسلسل ملا ہے، آپ کو مبارک ہو، یہ تبدیلی! :)
ویسے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت کے باوجود عمران خان کوچھانگا مانگا کی سیاست کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟ شاید اس کی ایک اہم وجہ 2013 کے الیکشن سے "سبق" سیکھنا ہے۔ اس وقت انتخابات میں الیکٹ ایبلز کی بجائے پارٹی کے پرانے نظریاتی امیدوار ہی کھڑے کئے گئے تھے۔ مگر پارٹی 40 سیٹیں بھی حاصل نہ کر سکی۔
ہسپتال میں متعدد ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ قومی اپیل کے باوجود جب ن لیگ واضح اکثریت کے ساتھ جیت گئی تو عمران خان نے سوچا تو ہوگا کہ یہ غلام قوم سیاسی منشور کی بجائے ہمیشہ سلیکٹڈ سیاسی شخصیات کو ووٹ دیتی ہے۔ اس کے سدھرنے کا کوئی امکان موجود نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی نظام اس ملک کے لئے موذوں نہیں۔ جہاں ڈکٹیٹر کی نرسری میں پل کر جوان ہونے والا بھٹو اور نواز شریف عوام سے دو تہائی اکثریت لے کر "منتخب" ہوتا رہا ہے۔ حالانکہ دونوں ماضی میں ان فوجی جرنیلوں کی "سلیکشن" تھے جنہوں نے جمہوری حکومتوں کا نہ صرف تختہ اُلٹا بلکہ آئین بھی معطل کیا۔
اس تاریخی قومی رویہ سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ فوج کی سلیکشن ہی دراصل قومی الیکشن ہے۔ کیونکہ حقیقی جمہوریتوں میں ڈکٹیٹر کے تلوے چاٹنے والا وزیر اعظم نہیں ، غداری کے جرم میں جیل میں ہوتا ہے۔ ادھر پاکستان میں وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بن جاتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت کے باوجود عمران خان کوچھانگا مانگا کی سیاست کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟ شاید اس کی ایک اہم وجہ 2013 کے الیکشن سے "سبق" سیکھنا ہے۔ اس وقت انتخابات میں الیکٹ ایبلز کی بجائے پارٹی کے پرانے نظریاتی امیدوار ہی کھڑے کئے گئے تھے۔ مگر پارٹی 40 سیٹیں بھی حاصل نہ کر سکی۔
ہسپتال میں متعدد ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ قومی اپیل کے باوجود جب ن لیگ واضح اکثریت کے ساتھ جیت گئی تو عمران خان نے سوچا تو ہوگا کہ یہ غلام قوم سیاسی منشور کی بجائے ہمیشہ سلیکٹڈ سیاسی شخصیات کو ووٹ دیتی ہے۔ اس کے سدھرنے کا کوئی امکان موجود نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی نظام اس ملک کے لئے موذوں نہیں۔ جہاں ڈکٹیٹر کی نرسری میں پل کر جوان ہونے والا بھٹو اور نواز شریف عوام سے دو تہائی اکثریت لے کر "منتخب" ہوتا رہا ہے۔ حالانکہ دونوں ماضی میں ان فوجی جرنیلوں کی "سلیکشن" تھے جنہوں نے جمہوری حکومتوں کا نہ صرف تختہ اُلٹا بلکہ آئین بھی معطل کیا۔
اس تاریخی قومی رویہ سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ فوج کی سلیکشن ہی دراصل قومی الیکشن ہے۔ کیونکہ حقیقی جمہوریتوں میں ڈکٹیٹر کے تلوے چاٹنے والا وزیر اعظم نہیں ، غداری کے جرم میں جیل میں ہوتا ہے۔ ادھر پاکستان میں وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بن جاتا ہے۔
عمران خان صاحب کو یہ سب کچھ کر کے دے دیا جاتا ہے۔ انہیں خود سے کچھ کرنے کی ضرورت ہے کب؟ اسی لیے انہوں نے ان عظیم شخصیات سے ملاقات کے لیے محض چند منٹ ہی صرف کیے۔دراصل، یہ قاف لیگ کی ممکنہ بے وفائی کا پیشگی توڑ ہے۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ نون لیگ قاف لیگ کو پنجاب میں وزارت اعلیٰ دینے پر آمادہ ہو جائے۔ پس، یہ جوڑ توڑ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ کون سی سیاست ہے ؟ مختصراََ بیان کردیں تو کچھ پتہ چلے ۔
یہ میاں صاحب کی سیاست تھی جب وہ غالباً قصور کے قریب واقع چھانگا مانگا کے جنگل میں مخالف جماعت کے ارکان کو ہارس ٹریڈنگ کی غرض سے لے گئے تھے؛ اب اس طرزِ سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ سازشیں اُس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ہی ہوتی تھیں اور آج بھی یہ سلسلہ بدقسمتی سے جاری و ساری ہے۔ فرق یہ پڑا ہے کہ اب میاں صاحب کی جگہ عمران خان صاحب نے لے لی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ کون سی سیاست ہے ؟ مختصراََ بیان کردیں تو کچھ پتہ چلے ۔
نومبر 1989ء میں وزیر اعظم بے نظیر کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں ایک تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی، اس میں اصل رول وزیرِ اعلیٰ پنجاب نواز شریف، صدر اسحاق اور آئی ایس آئی نے ادا کیا تھا۔ آپریشن مڈنائٹ جیکال اس آپریشن کا کوڈ نام تھا۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے پی پی کے منحرف ارکان کو چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤس میں رکھا تھا اور تبھی سے چھانگا مانگا اور ہارس ٹریڈنگ کا پاکستانی سیاست میں نام ہوا۔ وزیر اعظم نے اپنے ارکان کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کو سوات بھیج دیا تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک 12 ووٹوں سے ناکام ہو گئی تھی، متبادل کے طور پر کچھ مہینوں کے بعد صدر اسحاق نے بدنامِ زمانہ آٹھویں ترمیم کے تحت بے نظیر حکومت کو فارغ کر دیا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے "منتخب کردہ" نمائندوں کی اکثریت "مفاد پرست" ہوا کرتی ہے۔ اور ہمارے ہاں نظریاتی سیاست صرف نعروں میں نظر آتی ہے ۔ ہمارے سیاسی نمائندوں کے ہاں وفاداری بھی محض شخصیات کے لئے ہوا کرتی ہے اور ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
 
Top