وزیراعظم کا 10 سالہ کرپشن کا پتہ لگانے کیلئے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کا 10 سالہ کرپشن کا پتہ لگانے کیلئے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کا اعلان
5d0001b504994.jpg


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ 10 سال کی کرپشن کا پتہ لگانے کے لیے اپنی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔

قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اب تک ان پر ملک کو بحران سے نکالنے کا دباؤ تھا لیکن اب وہ ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے 8 سال کے دور میں 2 ارب ڈالرز کا غیرملکی قرضہ بڑھا لیکن آصف زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں بیرونی قرضہ 41 ارب سے97 ارب ڈالر ہوگیا جب کہ ان دس سالوں میں ملکی قرضہ چھ ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے ذریعے ان 10 سالوں میں لیے گئے قرضے کی تحقیقات کی جائے گی جس میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہوں گے۔


انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے ذریعے پتا لگائیں گے، یہ 24 ہزار ارب روپے کا قرضہ کیسے چڑھا، قوم کو پتا ہونا چاہیے کہ انہوں کے ملک کےساتھ کیا کیا، میری جان بھی چلی جائے ان چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، پاکستانی قوم کا مجھ پر اعتماد ہے، ایف بی آر کو ٹھیک کروں گا۔

پاکستان میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اتنے بڑے برج جیل میں ہوں گے
ان کا کہنا تھا کہ جب سے اقتدار ملا ہے پہلے دن سے مخالفین کہتے ہیں کہاں ہے نیا پاکستان؟ بڑے بڑے برج جو آج جیل کے اندر ہیں، یہ تبدیلی ہے، پاکستان میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے بڑے برج جیل میں ہوں گے، یہ ہے قانون کی بالادستی جو آہستہ آہستہ نظر آرہی ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نیب میرے نیچے نہیں، آج کی عدلیہ آزاد ہے، نیب کا چیئرمین ہمارا لگایا ہوا نہیں بلکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے لگایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے اپوزیشن نے مجھے پارلیمنٹ میں تقریر نہیں کرنے دی، اپوزیشن پر کیسز میں نے نہیں بنائے، آصف زرداری کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کا کیس (ن) لیگ نے بنایا، شہبازشریف کے خلاف بھی کیس ہم نے نہیں بنایا۔

اپوزیشن چاہتی ہے ان کو این آر او دیا جائے
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کے خلاف کیسز پی ٹی آئی نے نہیں بنائے پھر شور کیوں مچاتے ہیں؟ اپوزیشن چاہتی ہے ان کو این آر او دیا جائے، دو این آر اوز کی قیمت ملک نے ادا کی، ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے، میثاق جمہوریت سے دونوں جماعتوں نے طے کیا تھا ایک دوسرے کومدت پوری کرنے دیں گے اور دونوں نے کھل کر کرپشن کی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج شور مچ رہا ہے کہ زرداری جیل میں ہے، ن لیگ اور پیپلزپارٹی اکٹھی ہوگئی، ن لیگ نے اپنے دور میں آصف زرداری کو جیل میں ڈالا تھا، ان دونوں کی حکومتیں کرپشن کی وجہ سے ختم ہوئیں۔

ایک خاتون پانچ لاکھ ڈالرز باہر لے جاتے ہوئے پکڑی گئی
انہوں نے کہا کہ 2008 کے بعد ملک پر جو قرضہ چڑھا، اس کی وجہ دونوں جماعتوں کی کرپشن ہے، دونوں جماعتوں نے کرپشن کرکے پیسا ہنڈی کے ذریعے باہر بھجوایا، ن لیگ نے 10 سال میں چار کمپنیوں سے 30 کمپنیاں بنائیں، زرداری کی ایک سو ارب روپے کی منی لانڈرنگ سامنے آئی، ایک خاتون پانچ لاکھ ڈالرز باہر لے جاتے ہوئے پکڑی گئی، وہ 75 مرتبہ باہر جاچکی تھی، اندازہ لگائیں کہ وہ کتنی رقم باہر لے گئی ہوگی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے 8 سال کے دور میں 2 ارب ڈالرز کا غیرملکی قرضہ بڑھا لیکن ان دونوں کے ادوار میں بیرونی قرضہ 41 ارب سے97 ارب ڈالر ہوگیا جب کہ ان دس سالوں میں ملکی قرضہ چھ ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے ہوا۔

ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھائیں ورنہ 30 جون کے بعد بے نامی اثاثے اور اکاؤنٹس ضبط ہوجائیں گے
وزیر اعظم کا خطاب میں کہنا تھا کہ شبرزیدی سے مل کر ایف بی آر کو ٹھیک کروں گا، خودار قوم بننا ہے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ لوگوں سے پیسے مانگتے پھریں لہٰذا سب کو مل کر ملک کو مشکل وقت سے نکالنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھائیں ورنہ 30 جون کے بعد بے نامی اثاثے اور اکاؤنٹس ضبط ہوجائیں گے، چند مہینے مشکل ہیں اس کے بعد پاکستان اوپر اٹھے گا اور سرمایہ کاری ہوگی۔

نیا پاکستان ریاست مدینہ کے اصولوں کے تحت بنے گا
بجٹ کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے پہلا بجٹ پیش کیا، یہ بجٹ نئے پاکستان کے نظریے کی عکاسی کرےگا اور نیا پاکستان ریاست مدینہ کے اصولوں کے تحت بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست جدید ریاست تھی، مدینےکی ریاست کے اصول مغربی ممالک میں ہیں، مدینے کی ریاست کے اصول برابری کی بنیاد پر بنے تھے، مدینہ کی ریاست کی وجہ سے مسلمانوں نے دنیا کی امامت کی۔

وزیراعظم کے خطاب کے دوران بدمزگیاں
وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب کے دوران کئی بدمزگیاں ہوئیں، پہلے دو بار خطاب کا وقت تبدیل ہوا۔

پہلے سوا نو اور پھر ساڑھے دس بجے کا وقت بتایا گیا۔ 12 بجے سے تھوڑا پہلے تقریر شروع ہوئی تو کچھ دیر بعد آواز بند ہو گئی۔

خطاب دوبارہ نشر کیا گیو تو کچھ دیر بعد پھر آواز چلی گئی۔ یہ کس کی غلطی تھی ؟ اوقات کیوں بدلے گئے ؟ سوشل میڈیا پر عوام سوالات اٹھارہے ہیں۔

خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے حالیہ دنوں میں بڑی گرفتاریاں کی ہیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری کی جعلی بینک اکاؤنٹس کیس اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں گرفتار کیا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف پہلے ہی احتساب عدالت کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو بھی نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کیس میں گرفتار کیا تھا تاہم ان دنوں وہ ضمانت پر ہیں۔

اب وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے دنوں میں ایک اور بڑی گرفتاری ہوگی اور اس بار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نمبر ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آواز ''خاص'' مواقع پہ بند ہونا تو یقینا محسوس ہوا تھا۔ شاید دو مرتبہ۔
پی ٹی وی کے 80 کی دہائی کے مواصلاتی نظام کی کرامات ہیں۔
سوشل میڈیا پر پورا خطاب ایچ ڈی کوالٹی میں من و عن شائع ہو چکا ہے۔ اوپر ویڈیو پر کلک کر کے سُن لیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آدھے گھنٹے کے خطاب کا خلاصہ:
’’یہ مجھے بلیک میل کرتے ہیں کہ حکومت چلی جائے گی ۔حکومت جانی تو چھوٹی چیز ہے۔ اگر میری جان بھی چلی جائے نا، تو میں نے ان چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑنا‘‘ وزیراعظم عمران خان
 

آصف اثر

معطل
یار ایک تو عمران خان جب تقریر کے دوران یہ کھسیانی مسکراتے ہیں، سارا مزا خراب کردیتے ہیں۔ یقین ہوجاتاہے اس کو خود بھی اپنی باتوں پر بھروسا نہیں۔ کچھ باتوں کا عوام کو پتا ہونا نہایت ضروری ہے۔ عوام کے شعوری پختگی کے لیے یہ ناگزیر ہے۔ تقریر کا انداز منفرد۔ اتنا ضرور ہے کہ عوام ستر سال سے روایتی خشک اور غیر متحرک چہروں کی تقریریں دیکھ کر اُکتا چکے تھے۔
جہاں تک عملی طور پر ان باتوں کا تعلق ہے تو مدینہ کی ریاست میں صرف پیسوں کی برابری نہیں تھی، محض کاروباری احتساب نہیں تھا بلکہ شخصی کردار سے لے کر معاشرتی زندگی کا بھی ایک باب تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ یہاں اس کی جھلک تو کیا الٹا سیاحت کے فروغ کے نام پر ایک اور تباہ کن ثقافتی طوفان آنے والا ہے۔
مدینے کی ریاست میں سپاہی سے لے کر جرنیل تک جواب دہ تھے، یہاں تو جرنیل ہی بادشاہ گر بنے ہوئے ہیں۔ احتساب کہاں کا۔
یہ تماشا صرف منتخب سیاسی کرپشن تک محدود رہے گا۔ پھر عمران خان کو بھی چلتا کردیا جائے گا۔ اور پھر چند جرنیلی خاندانوں کا دوردورا ہوگا۔ ریاست کے مرکزی ستون عدلیہ کے معزز اور باکردار ججوں کو بلیک میل کرنے اور دباؤ میں لانے کے حربے ابھی سے شروع ہوگئے ہیں۔ تبدیلی مبارک ہو۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یہ تماشا صرف منتخب سیاسی کرپشن تک محدود رہے گا۔ پھر عمران خان کو بھی چلتا کردیا جائے گا۔ اور پھر چند جرنیلی خاندانوں کا دوردورا ہوگا۔ تبدیلی مبارک ہو۔
جب جرنل مشرف ملک جمہوریوں کے حوالہ کر کے گئے اس وقت ڈالر تھا 65 روپے۔ ملک کا کل قرضہ تھا 6000 ارب روپے۔
دس سالوں میں جمہوریوں نے ڈالر بڑھا کر کر دیا 120 روپے۔ ملک کاکل قرضہ بڑھا دیا 30000 ارب روپے۔
نئے بجٹ میں کل 7000 ارب روپے میں سے 3000 ارب صرف اس قرضے کی ادائیگی کیلئے جائے گا جو سابقہ جمہوری حکومتوں نے لیا۔
یوں ملک چلانے کیلئے ہر سال مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے اور مزید قرضے۔
ایسا کب تک چلے گا؟ جب تک وہ جمہوریے جنہوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا کا احتساب نہیں ہوتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ تبدیلی مبارک ہو۔
مقروض کا مقروضوں سے ایک سوال
حسن نثار
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا منظر دیکھ کر خود میری آنکھیں بھی بھیگ جائیں گی۔ بیٹی نے جتنی محبت، وارفتگی کے ساتھ گلے لگا کر باپ کو رخصت کیا وہ واقعی دل د کھا دینے والا لمحہ تھا۔ بیٹا پیچھے کھڑا ہنس رہا تھا بلکہ ہنسی کی اداکاری کررہا تھا کیونکہ یہ ہنسی نہیں بےبسی کی انتہا تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا داماد، بینظیر بھٹو مرحومہ کا شوہر، سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جیل جارہا تھا اور کس جرم میں؟ادھر چند روز پہلے عید ملنے کی اجازت نہ ملنے پر مریم نوازنے بھی’’ مکافات عمل‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ تب مجھے بچوں کو گود میں اٹھائے اور انگلی سے لگائے عدالت در عدالت دھکے کھاتی بینظیر یاد آئی جو ان دنوں نواز کی نوازشات کا شکار تھی۔ مدتوں چوہے بلی کا یہ کھیل جاری رہا جو دیار غیر میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر ختم ہوا حالانکہ یہ میثاق جمہوریت نہیں’’میثاق محترمہ و میاں‘‘ سے بڑھ کر کچھ بھی نہ تھا لیکن اس سب کے باوجود گینگز کے سرغنوں نے اصل سبق نہیں سیکھا۔ خدا جانے مریم نواز کے کسی منشی نے کیا سوچ کر ’’مکافات عمل‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی جو اس نے سوچے سمجھے بغیر بول یا لکھ دی۔پہلی بار احساس ہورہا ہے کہ میں بہت کمزور آدمی ہوں جسے آج یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس صورتحال پر خوشی منائے یا سوگ منائے، اسے سیلیبریٹ کرے یا اس پر ماتم کرے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ اندر ہیں اور ایک جیسے الزاموں میں اندر ہیں۔
دونوں کے انداز اور ا نجام میں اتنی مماثلت ہے تو ایسا کیوں ہے؟ ایک تین بار وزیر اعظم رہا، دوسرے کی اہلیہ دو بار وزیر اعظم اور وہ خود ایک بار صدر رہا۔ ایک اپنی بیٹی اور دوسرا اپنے بیٹے کے لئے پاکستان نامی بیش قیمت ’’پراپرٹی‘‘ وراثت میں چھوڑ جانا چاہتا ہے جس میں 22کروڑ جیتے جاگتے انسان بھی شامل ہیں۔ دونوں میں کیسی کیسی مماثلت پائی جاتی ہے تو کیا یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے؟ان دونوں ’’پارٹیوں‘‘ کو عوام نےجو کچھ دیا جواباً انہیں جان بھی دے دیتے تو کم تھا لیکن یہ قسم قسم کے قرضے اور خسارے چھوڑ گئے، عوام کو اجتماعی دیوالیہ پن کی دہلیز پر چھوڑ گئے۔
10جون 2019جس کسی نے مشیر خزانہ کی بریفنگ سنی ہوگی، وہ کانپ اٹھا ہوگا بشرطیکہ اس کا ضمیر اورذہن زندہ ہو لیکن اس کے باوجود میں اداسی اور شرمندگی کے درمیان مسلسل ایک ہی بات سوچ رہا ہوں کہ ایک دو کیا، پانچ چھ نسلوں کے لئے بھی زیادہ سے زیادہ کتنی دولت کی ضرورت ہوتی ہوگی؟ کیا کرنے ہوتے ہیں اتنے اربوں کھربوں ڈالرز؟ کس کام آتے ہیں یہ سرے محل، پارک لین، جاتی عمرے.........
. ابھی کل ’’پرسوں‘‘ نرسوں کی بات ہے مغلوں، صفویوں، عثمانیوں کے نام و نشان تک مٹ گئے۔ تین براعظموں پر حکومت کرنے والوں کا غریب الدیار شہزادہ بس کنڈکٹری کرتا رہا، صفویوں کا ایک شہزادہ مجھے کیلگری کینیڈا میں ملا تھا، آخری روسی زار کا پڑپوتا لاہور میں ہوتا ہے اور کوئی نہیں جانتا یہ بیحد ہنڈسم ڈاکٹر کون ہے؟جگہ جگہ ’’مغل بریانی‘‘ کے بورڈ لگے ہیں اور کدھر گئے صدام حسین جیسے مرد آہن کے اتھرے بیٹے، کیا ہوا قذافی کے صاحبزادگان کے ساتھ اور کس حال میں ہے شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا فرزند ارجمند؟ انہیں یقین کیوں نہیں آتا کہ خالق و مالک و رازق و قادر مطلق واقعی انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے لیکن یہاں تو مائنڈ سیٹ ہی کچھ اور ہے کہ خود اپنی زبان سے خود کو سرعام’’ حکمران خاندان‘‘ کہتے ہوئے نہ جھجکتے ہیں نہ شرماتے ہیں اور مجھے وہ بھی یاد ہیں جنہوں نے فرمایا تھا۔"Bhuttos are born to rule"اللہ توفیق دے تو قیام پاکستان سے پہلے گورے افسروں کے لکھے گینریٹیرز ہی دیکھ لیں۔ تب کے اور اب کے شرفا، رئوسا، معززین، عمائدین میں زمین و آسمان کا سا فرق ہے۔ تب کے خاندانیوں کے نام و نشان مٹ چکے اور جو تب بےنام و نشان اور کمی کامے تھے، وہ آج سپر معززین میں شامل ہیں۔ وقت کا بےرحم پہیہ ازل تا ابد یونہی رواں دواں ہے ورنہ آج بھی فرعونوں اور قارونوں کے علاوہ اور کوئی دکھائی نہ دیتا۔کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ قانون کا ہاتھ حمزہ شہباز تک پہنچنے کی خبر بھی آگئی ہے۔ کہنااس کا بھی یہی ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا، اس کا دامن صاف ہے جسے نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں۔ اسی حمزہ کا ایک برادر اور ایک برادر نسبتی بھی باہر ہے اور کہنا ان کا بھی یہی ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا اور ان کے دامن بھی دودھ کے دھلے ہیں جبکہ میں مسلسل یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی کچھ نہیں کیا تو اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہوچکا....... وہ کس نے کیا؟نہ نواز شریف، نہ شہباز شریف، نہ آصف زرداری، نہ حمزہ نہ سلمان نہ اسحاق ڈار........
کسی نے کچھ نہیں کیا تو ہر کنگلا ننگلا پاکستانی کچھ کئے بغیر گھر بیٹھے بٹھائے ہی ایک لاکھ 64ہزار 9سو بائیس روپے کا مقروض کیسے ہوگیا؟اور ان سب سیاسی جادوگروں کے اثاثوں میں کچھ کئے بغیر ہی ہزاروں گنا اضافے کیسے ہوگئے؟آئیے کچھ دیر کے لئے بھول جائیں کہ ہماری ہمدردیاں کس سیاسی پارٹی اور سیاستدان کے ساتھ ہیں۔ صرف پاکستان کو دھیان میں رکھیں اور سوچیں اس ملک کے ساتھ ہوا کیا ہے اور کس نے کیا ہے؟سوال کا جواب اس سے اوپر والے دو سوالوں کے جواب میں موجود ہے۔ ایک لاکھ 64ہزار 9سو بائیس روپے کا یہ مقروض اپنے مقروض بھائیوں سے اس سوال کا جواب چاہتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس، انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز طے
ویب ڈیسک بدھ 12 جون 2019

انکوائری کمیشن 2008 سے 2018 تک 24 ہزار ارب كے قرضے كی تحقیقات کرے گا ۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس میں انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز طے کرلئے گئے۔

وزیراعظم عمران خان كی زیرصدارت اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعظم كی جانب سے غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے مجوزہ تحقیقاتی كمیشن كے قیام سے متعلق (ٹی او آرز) پرمشاورت كی گئی۔

وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے كے مطابق انكوائری كمیشن پاكستان كمیشن آف انكوئری ایكٹ 2017 كے تحت قائم كیاجائے گا جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی كے سینئر افسران، سیكیورٹی ایكسچینج كمیشن آڈیٹر جنرل آفس اور ایف آئی اے كے حكام بھی كمیشن میں شامل ہوں گے۔

اجلاس میں فیصلہ كیا گیا كہ كمیشن 10سالوں میں لئے گئے قرضہ جات كی تحقیقات كرے گا، 2008 سے 2018 تک 24 ہزار ارب كے قرضے كی تحقیقات ہوں گی، كمیشن مختلف وزراتوں میں استعمال كی گئی رقم كی تحقیقات بھی كرے گا۔

اس کے علاوہ كمیشن یہ بھی دیكھے گا كہ عوام كے پیسے كا غلط استعمال تو نہیں ہوا، غیر ملكی سفر، بیرون ملک علاج پر آنے والے اخراجات كی تحقیقات بھی ہوں گی، سڑكوں كی تعمیر اور كیمپ آفسز كے نام پر ذاتی گھروں كی تعمیر كی تحقیقات كا بھی فیصلہ كیا گیا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ عوامی رقم كا غلط استعمال كرنے والوں سے پیسہ واپس لیا جائے گا جب کہ كمیشن ممبران كو فرانزک ایكسپرٹ كی خدمات حاصل كرنے كا اختیار ہوگا۔

واضح رہے وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں گزشتہ دو حکومتوں کے 10 سال کے دوران ملک پر 24 ہزار ارب قرضہ چڑھنے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ کسی کو بھی این آر او نہیں ملے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بات 30 سال سے 10 سال پر کیوں پہنچ گئی؟
یا شاید 10 سے پہلے مشرف دور کا جائزہ لینا اختیار میں نہیں۔
1947 سے 2008 تک قرضہ 6000 ارب روپے
61سالوں میں اضافہ: 6000 ارب روپے
2008 سے 2018 تک قرضہ 30000ارب روپے
10 سالوں میں اضافہ: 24000 ارب روپے
اس لئے :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
آواز ''خاص'' مواقع پہ بند ہونا تو یقینا محسوس ہوا تھا۔ شاید دو مرتبہ۔
پی ٹی وی کے 80 کی دہائی کے مواصلاتی نظام کی کرامات ہیں۔
میری بات درست ثابت ہوئی۔ وہ دن گئے جب حکومت کی ہر خرابی کو فوجی سازش پر ڈال کر جان چھڑا لی جاتی تھی۔ تحریک انصاف ذمہ دار پارٹی ہے۔

وزیر اعظم کے خطاب کے دوران آواز کیوں غائب ہوئی؟

وزیر اعظم عمران خان کا منگل کو قوم سے خطاب کئی بار تاخیر اور تکنیکی مسائل سے دوچار رہا، کبھی آواز غائب تو کبھی سکرین غائب ہوتی رہی۔ اس پر سرکاری چینل پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اس کے پرانے سسٹمز پر سوال بھی اٹھائے گئے۔

نو بجے کا مقررہ وقت پہلے بڑھ کر ساڑھے دس ہوا اور پھر 11 بجے کے بعد جا کر تقریر نشر ہونا شروع ہوئی، لیکن خطاب کے چند منٹ بعد ہی عمران خان کی آواز غائب ہوگئ جس کی وجہ سے پی ٹی وی کو بیچ میں تقریر کاٹنی پڑی۔پوری تقریر کو دوبارہ چلایا گیا لیکن دوسری بار بیچ ہی میں سکرین تاریک ہوگئی۔

آواز کیوں غائب ہوگئی، سکرین کیوں تاریک ہوگئی اور اس تکنیکی خرابی کے ذمہ دار کون لوگ تھے؟ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پی ٹی وی اسلام آباد کے ایک اہلکار سے بات کی ہے جو خطاب کے دوران ڈیوٹی پر موجود تھے ۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ان اہلکار نے بتایا کہ پہلے تو یہ بات کہنا ضروری ہے کہ پی ٹی وی سات منٹ سے زیادہ دورانیے کی ویڈیو سسٹم میں ڈال کر چلانے کی حامل نہیں ہے کیونکہ ویڈیوز کا دورانیہ جب زیادہ ہوجاتا ہے تو سسٹم پر بوجھ پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کا خطاب پی ٹی وی نے ریکارڈ نہیں کیا، بلکہ ایک نجی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ۔’حکومت نے کہا تھا کہ پی ٹی وی کے آلات جدید نہیں ہیں اسی وجہ سے اس کی ریکارڈنگ پرائیوٹ کمپنی سے کروائیں گے اور انہوں نے ہی سب کچھ ریکارڈ کیا ہے۔‘

اہلکار نے مزید بتایا کہ جب کمپنی نے ریکارڈنگ مکمل کی تو وہ پوری ویڈیوز کو بغیر ایڈیٹنگ کے لے کر پی ٹی وی دفتر پہنچ گئے کیونکہ حکومت نے نو بجے خطاب چلانے کا بتایا تھا۔ جب پی ٹی وی کے دفتر میں ریکارڈنگ کو چیک کیا گیا تو انتظامیہ نے نجی کمپنی کو کہا کہ اس میں کچھ مسائل ہیں اور مشورہ دیا کہ وہ ویڈیوزکو ایک مرتبہ ایڈیٹ کریں اور پھر اس کے بعد چلائیں گے۔

اہلکار کے مطابق: ’اس کے بعد ویڈیوز کو وہیں پر ایڈیٹ کیا گیا جس کی وجہ سے خطاب کا وقت نو بجے سے10 بج کر 30 منٹ تک پہنچ گیا لیکن پھر بھی کچھ کام باقی تھا تاہم پی ٹی وی نے تقریباً 11 بجے کے وقت خطاب کو چلایا۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ پوری تقریر 37 منٹ کی تھی اور میموری کارڈ میں موجود تھی۔ جب ان کو ماسٹر کنٹرول روم جہاں سے ٹی وی کے سب پروگرام نشر ہوتے ہیں کے سسٹم میں ڈالا گیا اور چلانا شروع کیا تو سسٹم کچھ منٹوں کے بعد کریش ہوگیا۔

’جب ویڈیوز کا دورانیہ سات منٹ سے زیادہ ہوتا ہے تو پی ٹی وی میں ویڈیوز کو ٹیپ یا کیسٹ اور میموری کارڈ دونوں میں ڈال کر اس کو سسٹم پر اپلوڈ کیا جاتا ہے تو اس سے سسٹم پر بوجھ کم ہوجاتا ہے اور پھر چلانے میں مسئلہ نہیں ہوتا۔ عمران خان کا خطاب چونکہ صرف میموری کارڈ میں تھا اسی وجہ سے فائل کا سائز زیادہ ہونے کی وجہ سے اس نے سسٹم کو فریز کر دیا۔‘

اہلکار کے مطابق سسٹم کریش ہونے کی وجہ سے خطاب کی آواز غائب ہوگئی اور اس کو دوبارہ چلایا گیا۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ دوبارہ چلانے کے بعد بھی ایک جگہ پر سکرین بلیک کیوں ہوگئی، تو انہوں نے بتایا کہ ’نجی کمپنی نے ایڈیٹنگ کے دوران کچھ جگہ خالی چھوڑی تھی اور جب ایڈٹ میں جگہ خالی چھوڑی جائے تو پھر سکرین پر کچھ نظر نہیں آتا۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ عمران خان سے پہلے کے وزرا کا خطاب کون ریکارڈ کرتا تھا، تو انہوں نے بتایا کہ پی ٹی وی ہی سب کچھ کرتا تھا اور اس کے لیے باقاعدہ ایس اوپی یعنی طریقہ کار وضع کیا گیا کہ فریم کس طرح رکھنا ہےاورریکارڈنگ کس طرح کرنی ہے۔

’اس دفہ ایک پرائیوٹ کمپنی سے یہ کرایا گیا اسی وجہ سے پی ٹی وی سسٹم کے لیے ان کی بنائی ہوئی ویڈیو میں مسئلہ پیش آیا۔ دوسری طرف ویڈیوز کی فریمنگ میں بھی مسئلہ تھا۔ کچھ جگہوں پر فریم بہت ٹائیٹ رکھا گیا تھا اور کچھ جگہوں پر بہت دور سے فریم بنایا گیا تھا۔‘

پی ٹی وی میں کام کرنے والے ایک پروڈیوسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کا ایک نجی کمپنی کو تقریر ریکارڈ کرنے کے لیے ہایر کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پی ٹی وی کئی سالوں سے وزرا کا خطاب ریکارڈ کرتے ہیں اور اس کی ریکارڈنگ کے لیے ایسے کوئی جدید ٹیکنالوجی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی وی کے آلات پرانے ضرور ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ ایک تقریر ریکارڈ نہ کر سکیں جس میں کوئی زیادہ تکنیکی مہارت یا جدید آلات کی ضروت ہو۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک سوال یہ بھی ہیدا ہوتا ہے۔ کہ اس ساری تحقیق ہوجانے کے بعد یقینا بڑے پیمانے کی کرپشن اور اس کی تفصیل اور اصل ذمہ دار سامنے آئیں گے تو کیا موجودہ عدالتی نظام ان مجرموں کو وہ سزائیں دینے پر قادر بھی ہوگا جس کے یہ ذمہ دار مستحق ہیں ۔ یا پھر لوپ ہولز سے کھیل کر وہی اندر باھر کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔؟
 
پی ٹی وی میں کام کرنے والے ایک پروڈیوسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کا ایک نجی کمپنی کو تقریر ریکارڈ کرنے کے لیے ہایر کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پی ٹی وی کئی سالوں سے وزرا کا خطاب ریکارڈ کرتے ہیں اور اس کی ریکارڈنگ کے لیے ایسے کوئی جدید ٹیکنالوجی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی وی کے آلات پرانے ضرور ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ ایک تقریر ریکارڈ نہ کر سکیں جس میں کوئی زیادہ تکنیکی مہارت یا جدید آلات کی ضروت ہو۔

سمجھ سے بالاتر کچھ نہیں ہوتا، بس سرکاری لوگ خود سے بولنا نہیں چاہتے۔ میڈاس کو چیک کر لیں، ہائیر کرنے کی وجہ سمجھ آ جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک سوال یہ بھی ہیدا ہوتا ہے۔ کہ اس ساری تحقیق ہوجانے کے بعد یقینا بڑے پیمانے کی کرپشن اور اس کی تفصیل اور اصل ذمہ دار سامنے آئیں گے تو کیا موجودہ عدالتی نظام ان مجرموں کو وہ سزائیں دینے پر قادر بھی ہوگا جس کے یہ ذمہ دار مستحق ہیں ۔ یا پھر لوپ ہولز سے کھیل کر وہی اندر باھر کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔؟
وہی عدالتی نظام ان قومی چوروں کو سزائیں سنائے گا جو عمران خان کی آمد سے قبل انہیں کلین چٹ دیا کرتا تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بات 30 سال سے 10 سال پر کیوں پہنچ گئی؟
یا شاید 10 سے پہلے مشرف دور کا جائزہ لینا اختیار میں نہیں۔
دو تین وجوہات ہو سکتی ہیں ۔
مشرف کے دور کی کرپشن ان دونوں جمہوری بھائیوں سے بہت کم ہے۔
زیادہ طویل اور قدیم عرصے کی تحقیقات زیادہ وقت اور وسائل صرف کریں گی ۔
نتائج اور ممکنہ ثمرات میں تاخیر کا سبب ہوں گی ۔
اختیار کا معاملہ بھی ہوسکتاہے مگر یہ وجوہات اس کو فی الوقت پس پردہ ڈال سکتی ہیں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
وہی عدالتی نظام ان قومی چوروں کو سزائیں سنائے گا جو عمران خان کی آمد سے قبل انہیں کلین چٹ دیا کرتا تھا۔
اچھی بات ہو گی لیکن کیا عملی طور پر ایسا ہو سکے گا ۔ میرے خیال میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا ۔ موجودہ بڑی گرفتاریوں کی مستقل بینادوں پر قرار واقعی تنفیذ (امپلی مینٹیشن) کے بعد کچھ صورت حال واضح ہو گی ۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈپٹی چیئرمین نیب کو قرضہ تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنانے کا فیصلہ
ویب ڈیسک منگل 18 جون 2019
1709496-nabe-1560855593-972-640x480.jpg

حسین اصغر کو کمیشن کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا ۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کو قرضہ تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کو قرضہ تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، حسین اصغر کو کمیشن کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا جب کہ توقع ہے کہ حسین اصغر ڈپٹی چیئرمین نیب کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ 10 سال کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ملک پر 24 ہزار ارب روپے قرضہ چڑھنے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اب پاکستان استحکام کی جانب گامزن ہے، گزشتہ دونوں حکومتوں کے خلاف ایک اعلیٰ سطح کمیشن تشکیل دینے جارہا ہوں جس میں ایف آئی اے، آئی بی، آئی ایس آئی، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور دیگر ادارے شامل ہوں گے جو تحقیقات کریں گے۔
 
Top