زرقا مفتی
محفلین
عمار مسعود
آدمی تو یہ بھی کام کے تھے ۔ بس منصب درست نہیں ملا ٹیلنٹ کو درست سمت نہیں ملی۔ کاش وزارت دروغ گوئی کا شعبہ ہوتا تو آج دنیا بھر میں حضرت پرویز رشید کا نام ہوتا۔ بڑے بڑے لوگ ان سے مشورہ کرتے ، حکومتیں انکی خدمات حاصل کرتیں، سماجی ادارے انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے۔ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہوتی، انکی کتاب ’ دروغ گوئی کے چند زریں اصول ‘ ہاتھوں ہاتھ بکتی۔ انکی ذات اعلی پر فلم بنتی ۔ فلم کا عنوان ہو تا: دی ایشین لائر۔ بچہ بچہ ان کے نا م کے نعرے لگاتا۔ جلسے جلوسوں میں انکے نام کے پلے کارڈ اٹھائے جاتے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کی دروغ گوئی کی بے پناہ صلاحیت پر تحقیق ہوتی۔ انکی شخصیت پر سیمینار ہوتے، مقالے پڑھے جاتے مگر افسوس صد افسوس اس قوم نے قدر نہیں کی۔ پہچانا نہیں ٹیلنٹ کو۔
معاملہ دھرنوں میں کرسیوں کی تعداد کے سوال سے شروع ہوا۔کرسیاں تو کوئی بھی گن سکتا ہے مگر اس معمولی سے کام کو باقاعدہ ایک ہنر کی شکل دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اور ہنر بھی ایسا کہ ایک ایک بیان پر خلق خدا ششدر رہ جائے۔ لوگ حیرت سے منہ میں انگلیاں ڈال دیں ۔ٹی وی کیمروں ، تجزیہ نگاروں اور رپورٹروں کو چپ سی لگ جائے۔ لاکھوں کی تعداد کو سینکڑوں میں صرف ایک بیان سے تبدیل کرنا آسان کام نہیں ۔ عمران خان کا انقلاب تو خیر مسئلہ ہی نہیں لیکن ذرا چشم تصور کھولیئے اور سوچئے کہ اگر میرے ممدوح کو کوئی بڑا انقلاب درپیش ہوتا اور مظاہرین کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر کے کروڑوں میں ہوتی، تو کس سہولت سے پرویز رشید صاحب اس انقلاب کا مقابلہ کرتے۔ دنیا کی کوئی تحریک کوئی انقلاب انکے بے جگر بیانات کے سامنے کیسے ٹھہر سکتا۔کونسا انقلابی لیڈر انکا مقابلہ کر سکتا۔ کس کی اتنی جرات کے انکا سامنا کر سکتا ۔
یہاں یہ واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ بات صرف بیان تک محدود نہیں۔ ہر بیان کے پیچھے گہری سوچ و فکر واضح نظر آتی ہے۔ ہما شما وزیر تو بیان دے کر ایک طرف ہوجاتے ہیں مگر یہ اپنے بیان کے ساتھ جو مضبوط اور ناقابل یقین ستاویزی ثبوت لاتے ہیں وہ معاملے کو دو آتشہ کر دیتے ہیں۔ کیٹرنگ والوں کا بل، کرسیوں کے رنگ و نسل کی دریافت، جلسہ گاہ کے میدان کی لمبائی چوڑائی جیسے نازک موضوعات پر ہر کوئی اتنی سیر حاصل گفتگو نہیں کر سکتا۔ ان پر بات کرنے کے لیئے بے پناہ ٹیلنٹ درکا ر ہے اور اس بات پر تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ عقل ، سمجھ ، ادارک اور اطلاعات ہو نہ ہو مگر ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔
تازہ ترین بیانات کی مثال ہی لے لیں جس میں تمام تر دلیل اور تاویل سے اس جاہل عوام کو سمجھایا گیا کہ اگر دھرنے نہ ہوتے تو ملک میں کیا انقلابات آچکے ہوتے۔ دودھ شہد کی نہریں کس طرح آپس میں مدغم ہر گلی کوچے میںرواں دواں ہوتیں۔ ترقی کا کیا بے پناہ سیلاب آچکا ہوتا۔ کچھ ناہنجار لوگوں نے حسب روایت تمسخر اڑایا ۔ ٹھٹھا مخول کیا، کچھ نے جگتیں ماریں مگر پرویز رشید نے اس کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور اپنے جھوٹ پر سچ سے زیادہ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔
میرا مقام ، منصب اور مزاج تو نہیں مگر اس موقعے پر میں اپنے ممدوح کی کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھ سے ناکارہ شخص کی تجاویز پر اگر وہ اپنی گونا گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر کچھ توجہ کریں تو یہ اس خاکسار کے لئے بڑے کرم کی بات ہوگی۔
دھرنے نہ ہوتے تو کیا کیا انقلابات برپا کئے جاسکتے تھے اس حوالے سے متوقع بیانات پر خاکسار کی چند ایک تجاویز ذیل میں درج ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی دربارِ پرویز میں شرف قبولیت مل گیا تو سمجھئے زندگی سپھل ہو جائے گی ۔ گوہر مقصود مل جائے گا زندگی سنور جائے گی۔
مثلا عوامی امنگوں کی ترجمانی اس بیان سے بھی کی جا سکتی تھی کہ اگر دھرنے نہ ہوتے تو یونس خان نے ایک اننگز میں آٹھ سو ننانوے رن بنا لینے تھے
یہ بھی فرمایا جا سکتا تھا کہ بجلی ، گیس ،سی این جی اورپٹرول پانی کی طرح سستا اور دستیاب ہو سکتا تھا اگر یہ بدبخت دھرنے راہ میں حائل نہ ہوتے۔
سائنسی ترقی کے اس دور میں یہ معروف سائنسدان آغا وقار کے ساتھ ایک مشرکہ پریس کانفرنس میں یہ بیان بھی داغا جا سکتا تھا کہ دھرنے نہ ہوتے تو آج ملک بھر میں پانی سے چلنے والی گاڑیاں رواں دواں ہوتیں۔
وزیر اعظم کی ذات کے حوالے سے کسی کجی کی طرف اشارہ کرنا تو مقصود نہیں مگر کہا تو جا سکتا تھا کہ وزیر اعظم آج فر فر انگریزی بولتے مگر دھرنوں کی وجہ سے اس ترقیاتی کا م میں خلل پڑ گیا ۔
موسم کی بدلتی صورت حال پر یہ تبصرہ بھی بر ا نہیں تھا کہ اگر ارشاد ہوتا کہ ملتان میں اس دفعہ شدید گرمی میں برف پڑ ہی جانی تھی مگر افسوس دھرنوں کی وجہ سے یہ کام بھی رہ گیا۔
دھرنوں کی صورت حال کو ثقافتی رنگ دینے کے لئے کہا جا سکتا تھا کہ بپاشا باسو نے اگلی فلم میں فل بلاوز والی ساڑھی پہننی تھی مگر دھرنوں نے اس نیک کام میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔
تعلیم کے میدان کو دھرنوں کی صورت حال سے اس بیان سے جوڑا جا سکتا تھا کہ آج پاکستان میں ہر پانچ سالہ بچے نے پی ایچ ڈی کر لینی تھی مگر راہ میں دھرنے حائل ہو گئے۔
وزیر دروغ گوئی تھر کی صورت حال پر نظر فرماتے تو کہہ سکتے تھے کہ اگر عوام کو گمراہ کرنے کے لئے یہ دھرنے نہ ہوتے تو ہم نے تھر کے ریتیلے صحراوں میں بحری جہاز چلا ہی دینے تھے۔
صدر ممنون حسین نے ایک دن خاموشی کا قفل توڑ کر بول ہی پڑنا تھا مگر دھرنوں نے اس منصوبے کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا۔
گلاب کی ہر شاخ پر چنبیلی کے پھول کھلنے تھے مگر دھرنوں نے اس ترقیاتی کام میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔
وزیر آباد سے واشنگٹن تک موٹر وے بن ہی جانی تھی مگر دھرنوں کی وجہ سے یہ ترقیاتی کام بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
پنجاب اور وفاق کی سیاسی صورتِ حال اور اپوزیشن کی ابتر صورتِ حال کو صرف ایک ہی بیان میں قلم بند کیا جا سکتا تھا کہ ہم نے شہر شہر ، گاوں گاوں زرداری کو گھسیٹنا تھا مگر راہ میں دھرنے پڑتے تھے۔
حضرت علامہ اقبال نے ابھی تو میاں صاحب کے زریں دور اقتدار کا خوب دیکھنا تھا مگردھرنوں کی وجہ سے یہ ترقیاتی کام بھی رہ گیا۔
ابھی تو طاہر اشرفی نے ڈائیٹنگ شروع کرنی تھی ابھی تو قائم علی شاہ نے کچی پینی تھی مگر دھرنوں کی وجہ سے یہ لازوال منصوبے بھی پایہ ءتکمیل سے رہ گئے۔
اپوزیشن پر نظر کرتے تو کہہ سکتے تھے کہ ابھی تو ہر گھر سے بھٹو نکلنا تھا ، سب کو روٹی کپڑا اور مکان ملنا تھا مگر دھرنوں کہ وجہ سے یہ کام بھی رہ گئے۔
عامر لیاقت کی بے پناہ لیاقت کو مدنظر رکھ کر یہ الزام بھی دھرنوں کو دیا جا سکتا تھا کہ ابھی تو بچے بچے کو کیو موبائیل ملنے تھے مگر صد افسوس ۔۔۔۔
اپوزیشن کے چھکے چھوٹ جاتے اگر وزیر صاحب یہ کہہ دیتے کہ ابھی تو مفتی منیب الرحمن اور مولانا پوپلزئی نے چاند پر جا کر چاند دیکھنا تھا مگر دھرنے راہ میں آگئے۔
گستاخی کا مرتکب نہ ہوں تو وزیر موصوف کا آخر ی بیان یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ابھی تو میں نے بھی سچ بولنا تھا مگر دھرنوں کی وجہ سے یہ کام بھی رہ گیا۔
جو لوگ اس تحریر کو مذاق میں لیں گے یہ انکی اپنی کم عقلی ہے میں اپنے بیان پر قائم ہوں پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔
آدمی تو یہ بھی کام کے تھے ۔ بس منصب درست نہیں ملا ٹیلنٹ کو درست سمت نہیں ملی۔ کاش وزارت دروغ گوئی کا شعبہ ہوتا تو آج دنیا بھر میں حضرت پرویز رشید کا نام ہوتا۔ بڑے بڑے لوگ ان سے مشورہ کرتے ، حکومتیں انکی خدمات حاصل کرتیں، سماجی ادارے انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے۔ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہوتی، انکی کتاب ’ دروغ گوئی کے چند زریں اصول ‘ ہاتھوں ہاتھ بکتی۔ انکی ذات اعلی پر فلم بنتی ۔ فلم کا عنوان ہو تا: دی ایشین لائر۔ بچہ بچہ ان کے نا م کے نعرے لگاتا۔ جلسے جلوسوں میں انکے نام کے پلے کارڈ اٹھائے جاتے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کی دروغ گوئی کی بے پناہ صلاحیت پر تحقیق ہوتی۔ انکی شخصیت پر سیمینار ہوتے، مقالے پڑھے جاتے مگر افسوس صد افسوس اس قوم نے قدر نہیں کی۔ پہچانا نہیں ٹیلنٹ کو۔
معاملہ دھرنوں میں کرسیوں کی تعداد کے سوال سے شروع ہوا۔کرسیاں تو کوئی بھی گن سکتا ہے مگر اس معمولی سے کام کو باقاعدہ ایک ہنر کی شکل دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اور ہنر بھی ایسا کہ ایک ایک بیان پر خلق خدا ششدر رہ جائے۔ لوگ حیرت سے منہ میں انگلیاں ڈال دیں ۔ٹی وی کیمروں ، تجزیہ نگاروں اور رپورٹروں کو چپ سی لگ جائے۔ لاکھوں کی تعداد کو سینکڑوں میں صرف ایک بیان سے تبدیل کرنا آسان کام نہیں ۔ عمران خان کا انقلاب تو خیر مسئلہ ہی نہیں لیکن ذرا چشم تصور کھولیئے اور سوچئے کہ اگر میرے ممدوح کو کوئی بڑا انقلاب درپیش ہوتا اور مظاہرین کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر کے کروڑوں میں ہوتی، تو کس سہولت سے پرویز رشید صاحب اس انقلاب کا مقابلہ کرتے۔ دنیا کی کوئی تحریک کوئی انقلاب انکے بے جگر بیانات کے سامنے کیسے ٹھہر سکتا۔کونسا انقلابی لیڈر انکا مقابلہ کر سکتا۔ کس کی اتنی جرات کے انکا سامنا کر سکتا ۔
یہاں یہ واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ بات صرف بیان تک محدود نہیں۔ ہر بیان کے پیچھے گہری سوچ و فکر واضح نظر آتی ہے۔ ہما شما وزیر تو بیان دے کر ایک طرف ہوجاتے ہیں مگر یہ اپنے بیان کے ساتھ جو مضبوط اور ناقابل یقین ستاویزی ثبوت لاتے ہیں وہ معاملے کو دو آتشہ کر دیتے ہیں۔ کیٹرنگ والوں کا بل، کرسیوں کے رنگ و نسل کی دریافت، جلسہ گاہ کے میدان کی لمبائی چوڑائی جیسے نازک موضوعات پر ہر کوئی اتنی سیر حاصل گفتگو نہیں کر سکتا۔ ان پر بات کرنے کے لیئے بے پناہ ٹیلنٹ درکا ر ہے اور اس بات پر تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ عقل ، سمجھ ، ادارک اور اطلاعات ہو نہ ہو مگر ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔
تازہ ترین بیانات کی مثال ہی لے لیں جس میں تمام تر دلیل اور تاویل سے اس جاہل عوام کو سمجھایا گیا کہ اگر دھرنے نہ ہوتے تو ملک میں کیا انقلابات آچکے ہوتے۔ دودھ شہد کی نہریں کس طرح آپس میں مدغم ہر گلی کوچے میںرواں دواں ہوتیں۔ ترقی کا کیا بے پناہ سیلاب آچکا ہوتا۔ کچھ ناہنجار لوگوں نے حسب روایت تمسخر اڑایا ۔ ٹھٹھا مخول کیا، کچھ نے جگتیں ماریں مگر پرویز رشید نے اس کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور اپنے جھوٹ پر سچ سے زیادہ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔
میرا مقام ، منصب اور مزاج تو نہیں مگر اس موقعے پر میں اپنے ممدوح کی کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھ سے ناکارہ شخص کی تجاویز پر اگر وہ اپنی گونا گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر کچھ توجہ کریں تو یہ اس خاکسار کے لئے بڑے کرم کی بات ہوگی۔
دھرنے نہ ہوتے تو کیا کیا انقلابات برپا کئے جاسکتے تھے اس حوالے سے متوقع بیانات پر خاکسار کی چند ایک تجاویز ذیل میں درج ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی دربارِ پرویز میں شرف قبولیت مل گیا تو سمجھئے زندگی سپھل ہو جائے گی ۔ گوہر مقصود مل جائے گا زندگی سنور جائے گی۔
مثلا عوامی امنگوں کی ترجمانی اس بیان سے بھی کی جا سکتی تھی کہ اگر دھرنے نہ ہوتے تو یونس خان نے ایک اننگز میں آٹھ سو ننانوے رن بنا لینے تھے
یہ بھی فرمایا جا سکتا تھا کہ بجلی ، گیس ،سی این جی اورپٹرول پانی کی طرح سستا اور دستیاب ہو سکتا تھا اگر یہ بدبخت دھرنے راہ میں حائل نہ ہوتے۔
سائنسی ترقی کے اس دور میں یہ معروف سائنسدان آغا وقار کے ساتھ ایک مشرکہ پریس کانفرنس میں یہ بیان بھی داغا جا سکتا تھا کہ دھرنے نہ ہوتے تو آج ملک بھر میں پانی سے چلنے والی گاڑیاں رواں دواں ہوتیں۔
وزیر اعظم کی ذات کے حوالے سے کسی کجی کی طرف اشارہ کرنا تو مقصود نہیں مگر کہا تو جا سکتا تھا کہ وزیر اعظم آج فر فر انگریزی بولتے مگر دھرنوں کی وجہ سے اس ترقیاتی کا م میں خلل پڑ گیا ۔
موسم کی بدلتی صورت حال پر یہ تبصرہ بھی بر ا نہیں تھا کہ اگر ارشاد ہوتا کہ ملتان میں اس دفعہ شدید گرمی میں برف پڑ ہی جانی تھی مگر افسوس دھرنوں کی وجہ سے یہ کام بھی رہ گیا۔
دھرنوں کی صورت حال کو ثقافتی رنگ دینے کے لئے کہا جا سکتا تھا کہ بپاشا باسو نے اگلی فلم میں فل بلاوز والی ساڑھی پہننی تھی مگر دھرنوں نے اس نیک کام میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔
تعلیم کے میدان کو دھرنوں کی صورت حال سے اس بیان سے جوڑا جا سکتا تھا کہ آج پاکستان میں ہر پانچ سالہ بچے نے پی ایچ ڈی کر لینی تھی مگر راہ میں دھرنے حائل ہو گئے۔
وزیر دروغ گوئی تھر کی صورت حال پر نظر فرماتے تو کہہ سکتے تھے کہ اگر عوام کو گمراہ کرنے کے لئے یہ دھرنے نہ ہوتے تو ہم نے تھر کے ریتیلے صحراوں میں بحری جہاز چلا ہی دینے تھے۔
صدر ممنون حسین نے ایک دن خاموشی کا قفل توڑ کر بول ہی پڑنا تھا مگر دھرنوں نے اس منصوبے کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا۔
گلاب کی ہر شاخ پر چنبیلی کے پھول کھلنے تھے مگر دھرنوں نے اس ترقیاتی کام میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔
وزیر آباد سے واشنگٹن تک موٹر وے بن ہی جانی تھی مگر دھرنوں کی وجہ سے یہ ترقیاتی کام بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
پنجاب اور وفاق کی سیاسی صورتِ حال اور اپوزیشن کی ابتر صورتِ حال کو صرف ایک ہی بیان میں قلم بند کیا جا سکتا تھا کہ ہم نے شہر شہر ، گاوں گاوں زرداری کو گھسیٹنا تھا مگر راہ میں دھرنے پڑتے تھے۔
حضرت علامہ اقبال نے ابھی تو میاں صاحب کے زریں دور اقتدار کا خوب دیکھنا تھا مگردھرنوں کی وجہ سے یہ ترقیاتی کام بھی رہ گیا۔
ابھی تو طاہر اشرفی نے ڈائیٹنگ شروع کرنی تھی ابھی تو قائم علی شاہ نے کچی پینی تھی مگر دھرنوں کی وجہ سے یہ لازوال منصوبے بھی پایہ ءتکمیل سے رہ گئے۔
اپوزیشن پر نظر کرتے تو کہہ سکتے تھے کہ ابھی تو ہر گھر سے بھٹو نکلنا تھا ، سب کو روٹی کپڑا اور مکان ملنا تھا مگر دھرنوں کہ وجہ سے یہ کام بھی رہ گئے۔
عامر لیاقت کی بے پناہ لیاقت کو مدنظر رکھ کر یہ الزام بھی دھرنوں کو دیا جا سکتا تھا کہ ابھی تو بچے بچے کو کیو موبائیل ملنے تھے مگر صد افسوس ۔۔۔۔
اپوزیشن کے چھکے چھوٹ جاتے اگر وزیر صاحب یہ کہہ دیتے کہ ابھی تو مفتی منیب الرحمن اور مولانا پوپلزئی نے چاند پر جا کر چاند دیکھنا تھا مگر دھرنے راہ میں آگئے۔
گستاخی کا مرتکب نہ ہوں تو وزیر موصوف کا آخر ی بیان یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ابھی تو میں نے بھی سچ بولنا تھا مگر دھرنوں کی وجہ سے یہ کام بھی رہ گیا۔
جو لوگ اس تحریر کو مذاق میں لیں گے یہ انکی اپنی کم عقلی ہے میں اپنے بیان پر قائم ہوں پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔