مصطفیٰ زیدی وصال

غزل قاضی

محفلین
وِصال

وُہ نہیں تھی تو دِل اک شہر ِ وفا تھا،جس میں
اُس کے ہونٹوں کے تصور سے تپش آتی تھی !
اُس کے اِنکار پہ بھی پُھول کِھلے رہتے تھے
اُس کے انفاس سے بھی شمع جلی جاتی تھی

دِن اِس اُمید پہ کٹتا تھا کہ دِن ڈھلتے ہی
اُس نے کُچھ دیر کو مِل لینے کی مُہلت دی ہے
اُنگلیاں برق زدہ رہتی تھیں ، جیسے اُس نے
اپنے رُخساروں کو چُھونے کی اِجازت دی ہے

اُس سے اِک لمحہ الگ رہ کے جُنوں ہوتا تھا
جی میں تھی اُس کو نہ پائیں گے تو مر جائیں گے
وُہ نہ ہوگی تو دَرک جائے گا پیمانہء ماہ
تیرگی میں کِسے ڈُھونڈیں گے، کِدھر جائیں گے

پھر ہُوا یہ کہ لپکتے ہُوئے انگاروں میں
ہم تو جلتے تھے مگر اُس کا نشیمن بھی جلا
بجلیاں جِس کی کِنیزوں میں رہا کرتی تِھیں
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وُہ خِرمن بھی جلا
اُس میں اِک یُوسف ِ گم گشتہ کے ہاتوں کے سِوا
اِک زلیخائے خُود آگاہ کا دامن بھی جلا

مصطفیٰ زیدی

(روشنی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
وِصال

وُہ نہیں تھی تو دِل اک شہرِ وفا تھا،جس میں
اُس کے ہونٹوں کے تصور سے تپش آتی تھی
اُس کے اِنکار پہ بھی پُھول کِھلے رہتے تھے
اُس کے انفاس سے بھی شمع جلی جاتی تھی

دِن اِس اُمید پہ کٹتا تھا کہ دِن ڈھلتے ہی
اُس نے کُچھ دیر کو مِل لینے کی مُہلت دی ہے
اُنگلیاں برق زدہ رہتی تھیں ، جیسے اُس نے
اپنے رُخساروں کو چُھونے کی اِجازت دی ہے

اُس سے اِک لمحہ الگ رہ کے جُنوں ہوتا تھا
جی میں تھی اُس کو نہ پائیں گے تو مر جائیں گے
وُہ نہ ہوگی تو دَرک جائے گا پیمانۂ ماہ
تیرگی میں کِسے ڈُھونڈیں گے، کِدھر جائیں گے

پھر ہُوا یہ کہ لپکتے ہُوئے انگاروں میں
ہم تو جلتے تھے مگر اُس کا نشیمن بھی جلا
بجلیاں جِس کی کِنیزوں میں رہا کرتی تِھیں
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وُہ خِرمن بھی جلا
اُس میں اِک یُوسف ِ گم گشتہ کے ہاتوں کے سِوا
اِک زلیخائے خُود آگاہ کا دامن بھی جلا

مصطفیٰ زیدی

(روشنی)​
 
Top