وصل میں ہیں عدواتیں کتنی
ہجر میں تھیں راحتیں کتنی
دُوری ایسی کہ نہ دُور ہوئی
ہم نے کیں ملاقاتیں کتنی
مدہوشی کا سہارا ہے بہت
ہوش میں ہے ریاضتیں کتنی
تُو میرا ہم زباں بن نہ سکا
کہنے تو تھیں حکایتیں کتنی
اک ہم تھے باوفا رہے ورنہ
قبیلے میں ہوئیں بغاوتیں کتنی
سچ حق کی طرف لوٹ گیا ظفر
عدالتوں میں ہوئیں سماعتیں کتنی