یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
حیات جس کا نام ہے بہادروں کا جام ہے
یہ جام جھوم کر پیو، جیو تو بے دھڑک جیو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
زمین پر نہیں قدم، ہوا بھی ہاتھ میں نہیں
گزرتے وقت کا کوئی سرا بھی ہاتھ میں نہیں
چلے چلو تو پھر کدھر پہنچنا ہے کہیں اگر
وہ نفرتوں کو پیار دو، مرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہ
کسی کو زور و زر کسی کو اقتدار کا نشہ
نشے میں دھت تمام ہیں، نشے تو سب حرام ہیں
یہ سب نشے اتار دو، مرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
حرم کو جائے گی اگر یہ رہ گزر تو جاؤں گا
نہ جی سکا تو حق کے راستے میں مر تو جاؤں گا
خدا سے جو کرے وفا، چلے جو سوئے مصطفےٰ
مجھے وہ شہ سوار دو، مرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
چُنے تھے جس قدر گلاب، خار خار ہو گئے
بُنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہو گئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو، مرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو