حسان خان
لائبریرین
میں تمام نوعِ انسانی کو ایک خاندان سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں، وطنیت کے اُس ناپاک تخیل کو جو خودغرضی، تنگ نظری، منافرت اور ابنِ آدم کی تقسیم چاہتا ہے انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں لیکن اس قدر وطنیت میرا ایمان ہے کہ اپنے گھر کو غاضبوں کے تسلط سے محفوظ رکھا جائے۔ (مصنف)
اے وطن، پاک وطن! روحِ روانِ احرار
اے کہ ذروں میں ترے بوئے چمن، رنگِ بہار
اے کہ خوابیدہ تری خاک میں شاہانہ وقار
اے کہ ہر خار ترا روکشِ صد روئے نگار
ریزے الماس کے، تیرے خس و خاشاک میں ہے
ہڈیاں اپنے بزرگوں کی تری خاک میں ہے
پائی غنچوں میں ترے، رنگ کی دنیا ہم نے
تیرے کانٹوں سے لیا درسِ تمنا ہم نے
تیرے قطروں سے سنی قرأتِ دریا ہم نے
تیرے ذروں میں پڑھی آیتِ صحرا ہم نے
کیا بتائیں کہ تری بزم میں کیا کیا دیکھا
ایک آئینے میں دنیا کا تماشا دیکھا
تیری ہی گردنِ رنگیں میں ہیں بانہیں اپنی
تیرے ہی عشق میں ہیں صبح کی آہیں اپنی
تیرے ہی حُسن سے روشن ہیں نگاہیں اپنی
کج ہوئیں تیری ہی محفل میں کُلاہیں اپنی
بانکپن سیکھ لیا عشق کی افتادوں سے
دل لگایا بھی تو تیرے ہی پری زادوں سے
پہلے جس چیز کو دیکھا، وہ فضا تیری تھی
پہلے جو کان میں آئی، وہ صدا تیری تھی
پالنا جس نے ہلایا، وہ ہوا تیری تھی
جس نے گہوارے میں چوما، وہ صبا تیری تھی
اولیں رقص ہُوا مست گھٹا میں تیری
بھیگی ہیں اپنی مسیں آب و ہوا میں تیری
اے وطن! آج سے کیا ہم ترے شیدائی ہیں
آنکھ جس دن سے کھلی، تیرے تمنائی ہیں
مدتوں سے ترے جلووں کے تماشائی ہیں
ہم تو بچپن سے ترے عاشق و سودائی ہیں
بھائی طفلی سے ہر اک آن جہاں میں تیری
بات تُتلا کے جو کی بھی تو زباں میں تیری
حُسن تیرے ہی مناظر نے دکھایا ہم کو
تیری ہی صبح کے نغموں نے جگایا ہم کو
تیرے ہی ابر نے جھولوں میں جھلایا ہم کو
تیرے ہی پھولوں نے نوشاہ بنایا ہم کو
خندۂ گل کی خبر تیری زبانی آئی
تیرے باغوں میں ہوا کھا کے جوانی آئی
تجھ سے منہ موڑ کے، منہ اپنا دکھائیں گے کہاں؟
گھر جو چھوڑیں گے تو پھر چھاؤنی چھائیں گے کہاں؟
بزمِ اغیار میں آرام یہ پائیں گے کہاں؟
تجھ سے ہم روٹھ کے جائیں بھی تو جائیں گے کہاں؟
تیرے ہاتھوں میں ہے قسمت کا نوشتہ اپنا
کس قدر تجھ سے بھی مضبوط ہے رشتہ اپنا
اے وطن! 'جوش' ہے پھر قوتِ ایمانی میں
خوف کیا دل کو، سفینہ ہے جو طغیانی میں
دل سے مصروف ہیں ہر طرح کی قربانی میں
محو ہیں جو تری کشتی کی نگہبانی میں
غرق کرنے کو جو کہتے ہیں زمانے والے
مسکراتے ہیں تری ناؤ چلانے والے
ہم زمیں کو تری ناپاک نہ ہونے دیں گے
تیرے دامن کو کبھی چاک نہ ہونے دیں گے
تجھ کو، جیتے ہیں تو، غمناک نہ ہونے دیں گے
ایسی اکسیر کو یوں خاک نہ ہونے دیں گے
جی میں ٹھانی ہے یہی، جی سے گذر جائیں گے
کم سے کم، وعدہ یہ کرتے ہیں کہ مر جائیں گے
(جوش ملیح آبادی)