مرزا عبدالعلیم بیگ
محفلین
وقتِ قبولیت ہے یہ
ہاتھ اُٹھتے ہیں دعا کے لئے
ضبطِ غم تھم گیا
حوصلہ اور بڑھ گیا
خوابِ وصل آنکھوں میں لئے
شامِ ہجراں ڈھلنے کو ہے
سانس رُکنے لگی ہے اب
دل ڈھڑکنے لگا ہے اب
مایوس نہ ہو‘ اُمید کی جلو میں
ختم ہونے کو ہے ستم شاید
محبت کا تو ہے یہ دستور
تو مجھ سے‘ میں تجھ سے دور
تیرے ہجر کی اداسیوں میں
طبیعت اور گھبرا رہی ہے
کڑے کوسوں کے سناٹے میں
تیری آواز اب تک آ رہی ہے
محبت نہ سہی‘ رسم و راہ کیا کم ہے؟
الفت نہ سہی‘ بے قرار دل کیا کم ہے؟
ہاتھ اُٹھتے ہیں دعا کے لئے
ضبطِ غم تھم گیا
حوصلہ اور بڑھ گیا
خوابِ وصل آنکھوں میں لئے
شامِ ہجراں ڈھلنے کو ہے
سانس رُکنے لگی ہے اب
دل ڈھڑکنے لگا ہے اب
مایوس نہ ہو‘ اُمید کی جلو میں
ختم ہونے کو ہے ستم شاید
محبت کا تو ہے یہ دستور
تو مجھ سے‘ میں تجھ سے دور
تیرے ہجر کی اداسیوں میں
طبیعت اور گھبرا رہی ہے
کڑے کوسوں کے سناٹے میں
تیری آواز اب تک آ رہی ہے
محبت نہ سہی‘ رسم و راہ کیا کم ہے؟
الفت نہ سہی‘ بے قرار دل کیا کم ہے؟