کاشفی

محفلین
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)

وقتِ پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

اُسکے گھر لے چلا مجھے دیکھو
دلِ خانہ خراب کی باتیں

واعظا چھوڑ ذکرِ نعمت خُلد
کر شراب و کباب کی باتیں

تجھ کو رسوا کریں گی خوب، اے دل
تیری یہ اضطراب کی باتیں

سُنتے ہیں اُس کو چھیڑ چھیڑ کے ہم
کس مزے سے عتاب کی باتیں

ذکر کیا جوشِ عشق میں اے ذوقؔ
ہم سے ہوں صبر و تاب کی باتیں

کچھ ذوق کے بارے میں:
شیخ ابراہیم متخلص بہ ذوق دہلی مولد و مدفن 1271 ھ سال وفات۔
یہ بڑا ہی ذی علم اور ذہین شاعر تھا۔ غالب اس کا ہمعصر تھا۔ غالب کے بعض بعض کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذوق کے پایہء شاعری کو اُردو میں خود سے کمتر نہیں سمجھتا تھا۔ اور بعض متقدین کی تو یہ رائے ہے کہ غالب سے ذوق بڑھا ہوا تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ کثرت رائے ہمیشہ غالب کی طرفدار رہی ہے اور رہے گی۔ ذوق دہلی کے برائے نام بادشاہ "بہادر شاہ ظفر" کا استاد تھا۔ پادشاہ اپنے کلام برابر اسے دکھاتا تھا۔ اور اسکی بڑی عزت کرتا تھا۔ غالب بھی وظیفہ خوار شاہی تھا اس لیئے وہ اپنے مزاج کے خلاف ذوق سے زیادہ منحصر آنا مناسب نہیں سمجھتا تھا۔ اب اسے ذوق کے پایہء شاعری کی سطوت سمجھئیے یا کہ توسل شاہی کی برکت خیال فرمائیے ۔ ایک مرتبہ غالب نے ایک شاہزادے کے بیاہ میں سہرا لکھا اُسکا ایک شعر تھا


ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا


اسکے جواب میں بادشاہ کے ایما سے ذوق نے بھی ایک سہرا لکھا اور بہت اچھا لکھا اُسکا ایک شعر یہ ہے

جن کو دعویٰ ہو سخن کا یہ سُنا دو ان کو
دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا


غالب نے معذرت کے طور پر جو قطعہ لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا اُسکے دو شعر یہ ہیں


مقطع میں آ پڑی ہے، سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

روئے سخن کسی کی طرف ہو، تو رو سیاہ
سودا نہیں، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے


ذوق کے قبل کسی اور شاعر نے دربار شاہی میں وہ رسوخ لازوال نہ پایا تھا جو ذوق کو نصیب ہوا اسے یا تو ظفر اور ذوق کے اعتدال طبیعت پر محول کریں یا یہ سمجھیں کہ نہ ظفر کو اختیارتِ شاہی کا غرور تھا اور نہ ذوق نے اپنے بزرگوں کی تمکنت دیکھی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ذوق کی معدودے چند خوبصورت غزلوں میں سے ایک غزل پوسٹ کی آپ نے، بہت شکریہ کاشفی صاحب۔

جہاں تک ذوق کی شاعری کی بات ہے تو وہ استادِ شاہ ہونے یا پھر الفاظ کی جادوگری اور قافیہ پیمائی کی وجہ ہی سے اب جانے جاتے ہیں۔ اور جہاں تک سہرے اور قطعۂ معذرت والا معاملہ ہے تو اسے مولانا غلام رسول مہر نے "نوائے سروش" میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور ذوق کے سہرے کی قلعی بھی کھولی ہے۔

جب تک ذوق زندہ رہے، دلی میں غالب کی کسی نے نہیں سنی اور نہ کسی نے انہیں "شاعر" مانا، لیکن وقت کا امتحان بہت کڑا ہوتا ہے اور فیصلہ انتہائی سچا، ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں اور اب ساری دنیا جانتی ہے کہ ذوق اور غالب میں سے "شاعر" کون تھا اور فقط "استاد" کون :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت عمدہ غزل ہے کاشفی صاحب۔ اگر ذوق کے اس شعر کی پوری غزل مل سکے تو وہ بھی پوسٹ کیجیے گا۔ بہت شکریہ!

اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
 

کاشفی

محفلین
ذوق کی معدودے چند خوبصورت غزلوں میں سے ایک غزل پوسٹ کی آپ نے، بہت شکریہ کاشفی صاحب۔

جہاں تک ذوق کی شاعری کی بات ہے تو وہ استادِ شاہ ہونے یا پھر الفاظ کی جادوگری اور قافیہ پیمائی کی وجہ ہی سے اب جانے جاتے ہیں۔ اور جہاں تک سہرے اور قطعۂ معذرت والا معاملہ ہے تو اسے مولانا غلام رسول مہر نے "نوائے سروش" میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور ذوق کے سہرے کی قلعی بھی کھولی ہے۔

جب تک ذوق زندہ رہے، دلی میں غالب کی کسی نے نہیں سنی اور نہ کسی نے انہیں "شاعر" مانا، لیکن وقت کا امتحان بہت کڑا ہوتا ہے اور فیصلہ انتہائی سچا، ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں اور اب ساری دنیا جانتی ہے کہ ذوق اور غالب میں سے "شاعر" کون تھا اور فقط "استاد" کون :)

آپ درست فرما رہے ہیں۔۔ جناب استاد محترم ۔۔ شکریہ بیحد ۔ :happy:
 

کاشفی

محفلین
بہت عمدہ غزل ہے کاشفی صاحب۔ اگر ذوق کے اس شعر کی پوری غزل مل سکے تو وہ بھی پوسٹ کیجیے گا۔ بہت شکریہ!

اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

شکریہ بیحد جناب سخنور صاحب۔۔

جی انشاء اللہ بالکل۔۔
 

ابن جمال

محفلین
جب تک ذوق زندہ رہے، دلی میں غالب کی کسی نے نہیں سنی اور نہ کسی نے انہیں "شاعر" مانا، لیکن وقت کا امتحان بہت کڑا ہوتا ہے اور فیصلہ انتہائی سچا، ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں اور اب ساری دنیا جانتی ہے کہ ذوق اور غالب میں سے "شاعر" کون تھا اور فقط "استاد" کون
’نہ کسی نے انہیں ماناشاعرمانا‘وارث صاحب غور کریں کیایہ مبالغہ کی حدود میں داخل نہیں ہوگیا۔وہ زمانہ تہذیب اوروضعداری کاتھا اورغالب کی جو’حرکتیں‘تھیں اسی وجہ سے ان کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کے وہ مستحق تھے۔میں بھول رہاہوں لیکن کہیں پڑھاہے کہ خود وہ جب اپنے گھر میں قمار خانہ چلانے کے الزام میں پکڑے گئے اورجیل گئے اورپھربدقت رہائی ہوئی توکسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ایسے میں کون ان کی شاعری کی فکرکرتا۔آج زمانہ بدل چکاہے ۔آج صرف ان کی شاعری زیر بحث ہے۔اُس زمانہ میں یہ بات ممکن نہ تھی۔
’’لیکن وقت کا امتحان بہت کڑا ہوتا ہے اور فیصلہ انتہائی سچا، ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں اور اب ساری دنیا جانتی ہے کہ ذوق اور غالب میں سے "شاعر" کون تھا اور فقط "استاد" کون‘‘
یہ بھی سابقہ کی طرح مبالغہ ہی ہے۔غالب کے ذوق سے بڑے شاعر ہونے میں شک نہیں۔لیکن ذوق کو بھی اس کا جائز مقام دیناچاہئے اور’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘کی جگہ ’ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں‘والامعاملہ نہیں ہوناچاہئے۔
اگرکوئی گستاخی ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
قبلہ میں آپ سے واقعی بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن میرے خیال میں اس موضوع پر کچھ "مزید" مطالعہ آپ کیلیے مفید رہے گا :)
 

ابن جمال

محفلین
شکریہ استاد محترم،اگرکچھ کتابوں کی بھی نشاندہی کردیتے تومزید مہربانی اور’بندہ‘ممنون ہوتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ استادِ محترم تو آپ کے، نہ جانے کون صاحب ہیں، بہرحال

-فارسی کلیات غالب، جس میں ایک قطعہ ہے، "خطاب بہ ذوق"، ذوق اور غالب کی چپقلش کے تناظر میں کم ہی لوگوں کو اس قطعے کا علم ہے۔ مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے غالب کا جو کلام تاریخی دور کے حوالے سے مرتب کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قطعہ غالب کے قلعے سے منسلک ہونے سے پہلے کا ہے۔ سیاق و سباق یہ کہ ذوق نے شاہی دربار میں غالب کی عدم موجودگی میں طعنہ مارا تھا کہ وہ "فلاں" بڑا شاعر بنا پھرتا ہے، وہ کہاں کا شاعر ہے، جب کہ میں نے ہزار ہا اشعار کہہ رکھے ہیں۔ غالب نے جواب دیا تھا کہ جس "پُر گوئی" پر تمھیں فخر ہے وہ میرے لیے ننگ ہے۔

خاصے کی چیز ہے، خاکسار نے اس قطعے کو دنیا کے "سامنے" لانے کیلیے ایک مضمون لکھنا شروع کیا تھا، دو سال سے ادھورا ہے کہ سخن فہمیِ عالمِ بالا معلوم شد۔

- آبِ حیات از مولانا محمد حسین آزاد: یقیناً آپ کی نظر سے گزری ہوگی لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ آزاد نے اپنے استاد ذوق کے والد کو 'نائی' سے 'سپاہی' کیوں بنا دیا؟ یا بقول مشتاق احمد یوسفی "ممدوح کے ہاتھ سے استرا چھین کر تلوار تھما دی"۔ کیوں؟

- ابنِ انشاء کے خطوط اور مختلف مضامین: مولانا آزاد لاہور میں جس گھر میں رہتے تھے وہ تقسیم کے بعد انشا کے کچھ جاننے والوں کو ملا، وہاں سے مولانا کے مسودے اور مخطوطے ملے، جن سے ثابت ہوا کہ چونکہ 1857ء کے غدر میں ذوق کا تقریباً کل کا کل کلام تلف ہو گیا تھا سو مولانا نے بچے کچھے کلام کے ساتھ خود غزلیں وغیرہ کہہ کر ذوق کے نام سے چھپوا دیں۔ کیوں؟

-نوائے سروش از مولانا مہر: آپ نے دیکھی ہے تو جانتے ہونگے کہ غالب صنفِ سہرا کا موجد ہے، اور ذوق فقط بادشاہ کی پشت پناہی کی وجہ سے قوالوں کے پیچھے تان لگانے والا یا تالیاں بجانے والا :)

- مروجہ دیوانِ ذوق: ذوق کی جو پانچ سات، آٹھ دس، بارہ چودہ، غزلیں انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں یا جو مخلتف درسی کتب اور انتخابات کی کتب میں ملتی ہیں بس وہی اسی قابل ہیں کہ پڑھی جا سکیں، یا کچھ اشعار زبانوں پر ہیں لیکن کبھی دیوانِ ذوق دیکھیئے گا، چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار کی غزلیں دیکھیں، طبیعت مغنض ہو جاتی ہے قافیوں کی جادوگری دیکھتے دیکھتے۔ نہ شعریت، نہ غزلیت، قافیے پر قافیہ چڑھا رکھا ہے۔

ذوق کا شمار کبھی بھی اردو شاعری کے صفِ اول کے شعراء میں نہیں ہوا، سوائے قلعے کے زمانے کے، غالب کا شمار ہمیشہ خدائے سخن کے طور پر ہوا سوائے قلعے کے زمانے کے، افسوس کہ ہم فقط ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
 

ابن جمال

محفلین
- ابنِ انشاء کے خطوط اور مختلف مضامین: مولانا آزاد لاہور میں جس گھر میں رہتے تھے وہ تقسیم کے بعد انشا کے کچھ جاننے والوں کو ملا، وہاں سے مولانا کے مسودے اور مخطوطے ملے، جن سے ثابت ہوا کہ چونکہ 1857ء کے غدر میں ذوق کا تقریباً کل کا کل کلام تلف ہو گیا تھا سو مولانا نے بچے کچھے کلام کے ساتھ خود غزلیں وغیرہ کہہ کر ذوق کے نام سے چھپوا دیں۔ کیوں؟
- مروجہ دیوانِ ذوق: ذوق کی جو پانچ سات، آٹھ دس، بارہ چودہ، غزلیں انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں یا جو مخلتف درسی کتب اور انتخابات کی کتب میں ملتی ہیں بس وہی اسی قابل ہیں کہ پڑھی جا سکیں، یا کچھ اشعار زبانوں پر ہیں لیکن کبھی دیوانِ ذوق دیکھیئے گا، چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار کی غزلیں دیکھیں، طبیعت مغنض ہو جاتی ہے قافیوں کی جادوگری دیکھتے دیکھتے۔ نہ شعریت، نہ غزلیت، قافیے پر قافیہ چڑھا رکھا ہے۔
مجھے تویہ دونوں بیانات اپس میں ایک دوسرے کی تردید کرتے ہوئے لگتے ہیں۔اگر یہ بات صحیح ہے کہ ذوق کے کلام کااکثر حصہ غائب ہوچکاہے اوربہت کم بچاہے اوراسی کے ساتھ یہ بیان بھی اگرمان لیاجائے کہ مولاناازاد نے اپنی جانب سے غزل کہہ کر ذوق سے منسوب کیاہے تو کیاجن چالیس پچاس اشعار والی غزلوں سے آپ کی طبعیت ’منغض‘ہوتی ہو وہ ذوق کے نہ ہوکر آب حیات کے مصنف کے ہوں،اورجو کچھ کلام ذوق زبان زد عام ہے وہ ان کے اپنے ہوں؟کیونکہ یہ امر تومسلم ہے کہ زبان کی صفائی ،محاورہ پر عبور میں ذوق کسی سے ہٹیے نہیں ہیں۔
پھرویسے بھی ذوق کو موقع کہاں ملا کہ وہ غالب کی طرح کانٹ چھانٹ اورحذف واضافہ کرکے اپنادیوان ترتیب دیتے:)
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے شاید غور سے پڑھا نہیں، آزاد، ذوق کے شاگرد تھے، سو یادداشت سے بھی وہی کہا ہوگا جو استاد سے سنا، لیکن یہ امر مسلمہ ہے کہ آزاد نے الحاق کیا، آپ کے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ جو کچھ تو میں عرض کرنا چاہ رہا تھا اس کو تو سنا نہیں، تردید خوب نظر آ گئی جناب کو۔ آپ مجھ پر کیا ثابت کیا کرنا چاہتے یا مجھ سے کیا ثابت کروانا چاہتے ہیں، آپ کو ذوق پسند ہے تو یہ آپ کا ذوق ہے (لیکن ایک دفع اسے پڑھ ضرور لیں، بغیر پڑھے رائے قائم کرنا ایسے ہی ہے جیسے رائی کا پہاڑ بنانا)، مجھے کیوں زبردستی آپ "کچھ" منوانا چاہتے ہیں۔ میری اسطرح کی زبردستی کی ٹھونسی ہوئی ابحاث سے بھی طبیعت سخت مغنض ہوتی ہے جیسا کہ میں نے پہلے مراسلے میں ہی لکھ دیا تھا سو والسلام، لکم دینکم ولی دین۔
 

ابن جمال

محفلین
استاد محترم!
نہ کچھ ثابت کرانامقصود ہے اورنہ منوانا،گزارش احوال واقعی صرف اس قدر ہے کہ ذوق ’’استاد‘‘ بھی تھے اور’’شاعربھی‘‘،یہ اوربات ہے کہ کسی کو’استادذوق‘ ذوق سے کوئی ذوق نہ ہو۔
آنجناب کی طبیعت منغض ہوئی ۔بندہ اس کیلئے معذرت خواہ ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل مکمل کر کے دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔

وقتِ پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

اُسکے گھر لے چلا مجھے دیکھو
دلِ خانہ خراب کی باتیں

واعظا چھوڑ ذکرِ نعمت خُلد
کر شراب و کباب کی باتیں

حرف آیا جو آبرو پہ مری
ہیں یہ چشمِ پُر آب کی باتیں

یاد ہیں مہ جبیں کہ بھول گئے؟
وہ شبِ ماہتاب کی باتیں

تجھ کو رسوا کریں گی خوب اے دل
تیری یہ اضطراب کی باتیں

جاؤ ہوتا ہے اور بھی خفقان
سن کے ناصح جناب کی باتیں

جامِ مے لب سے لو لگا اپنے
چھوڑو شرم و حجاب کی باتیں

سُنتے ہیں اُس کو چھیڑ چھیڑ کے ہم
کس مزے سے عتاب کی باتیں

دیکھ اے دل نہ چھیڑ قصۂ زلف
کہ یہ ہیں پیچ و تاب کی باتیں

ذکر کیا جوشِ عشق میں اے ذوق
ہم سے ہوں صبر و تاب کی باتیں

(استاد ابراہیم ذوق)
 
یہ استادِ محترم تو آپ کے، نہ جانے کون صاحب ہیں، بہرحال

-فارسی کلیات غالب، جس میں ایک قطعہ ہے، "خطاب بہ ذوق"، ذوق اور غالب کی چپقلش کے تناظر میں کم ہی لوگوں کو اس قطعے کا علم ہے۔ مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے غالب کا جو کلام تاریخی دور کے حوالے سے مرتب کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قطعہ غالب کے قلعے سے منسلک ہونے سے پہلے کا ہے۔ سیاق و سباق یہ کہ ذوق نے شاہی دربار میں غالب کی عدم موجودگی میں طعنہ مارا تھا کہ وہ "فلاں" بڑا شاعر بنا پھرتا ہے، وہ کہاں کا شاعر ہے، جب کہ میں نے ہزار ہا اشعار کہہ رکھے ہیں۔ غالب نے جواب دیا تھا کہ جس "پُر گوئی" پر تمھیں فخر ہے وہ میرے لیے ننگ ہے۔

خاصے کی چیز ہے، خاکسار نے اس قطعے کو دنیا کے "سامنے" لانے کیلیے ایک مضمون لکھنا شروع کیا تھا، دو سال سے ادھورا ہے کہ سخن فہمیِ عالمِ بالا معلوم شد۔

- آبِ حیات از مولانا محمد حسین آزاد: یقیناً آپ کی نظر سے گزری ہوگی لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ آزاد نے اپنے استاد ذوق کے والد کو 'نائی' سے 'سپاہی' کیوں بنا دیا؟ یا بقول مشتاق احمد یوسفی "ممدوح کے ہاتھ سے استرا چھین کر تلوار تھما دی"۔ کیوں؟

- ابنِ انشاء کے خطوط اور مختلف مضامین: مولانا آزاد لاہور میں جس گھر میں رہتے تھے وہ تقسیم کے بعد انشا کے کچھ جاننے والوں کو ملا، وہاں سے مولانا کے مسودے اور مخطوطے ملے، جن سے ثابت ہوا کہ چونکہ 1857ء کے غدر میں ذوق کا تقریباً کل کا کل کلام تلف ہو گیا تھا سو مولانا نے بچے کچھے کلام کے ساتھ خود غزلیں وغیرہ کہہ کر ذوق کے نام سے چھپوا دیں۔ کیوں؟

-نوائے سروش از مولانا مہر: آپ نے دیکھی ہے تو جانتے ہونگے کہ غالب صنفِ سہرا کا موجد ہے، اور ذوق فقط بادشاہ کی پشت پناہی کی وجہ سے قوالوں کے پیچھے تان لگانے والا یا تالیاں بجانے والا :)

- مروجہ دیوانِ ذوق: ذوق کی جو پانچ سات، آٹھ دس، بارہ چودہ، غزلیں انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں یا جو مخلتف درسی کتب اور انتخابات کی کتب میں ملتی ہیں بس وہی اسی قابل ہیں کہ پڑھی جا سکیں، یا کچھ اشعار زبانوں پر ہیں لیکن کبھی دیوانِ ذوق دیکھیئے گا، چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار کی غزلیں دیکھیں، طبیعت مغنض ہو جاتی ہے قافیوں کی جادوگری دیکھتے دیکھتے۔ نہ شعریت، نہ غزلیت، قافیے پر قافیہ چڑھا رکھا ہے۔

ذوق کا شمار کبھی بھی اردو شاعری کے صفِ اول کے شعراء میں نہیں ہوا، سوائے قلعے کے زمانے کے، غالب کا شمار ہمیشہ خدائے سخن کے طور پر ہوا سوائے قلعے کے زمانے کے، افسوس کہ ہم فقط ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
ایک دم سچ فرمایا آپ نے
 
Top