علی احمد صاحب
محفلین
بہت لوگوں کا کہنا ہے کہ سال بدل جانا نیا آ جانا پرانا چلا جانا محض وقت کا پھیر ہے، نیا کچھ بھی نہیں اِس میں۔ دیکھا جائے تو ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ نہ صبحیں بدلی ہیں نہ شامیں، نہ دھوپ نہ ہوا۔ جیسی ٹھنڈ دسمبر میں تھی ویسی ہی ٹھنڈ جنوری میں بھی ہے۔ سورج جس وقت پر 31 دسمبر کو طلوع ہوا تھا، تقریباً اُسی وقت پر یکم جنوری کو بھی طلوع ہوا۔ تو نیا کیا اِس میں؟؟؟
ہاں! حالات و واقعات ہیں، کہ 2019 کی یادگاریں اور تھیں، اور 2020 کی یادگاریں اور ہونی ہیں۔ کسی نے بچھڑ جانا ہے، تو کوئی نیا شامل ہو جانا ہے زندگی میں۔
سوچتا ہوں کہ زندگی میں یا دنیا کے سبھی روزگار محض وقت کا پھیر ہی تو ہیں۔ جیسے انسان کی زندگی۔
انسان پیدا ہوتا ہے۔ محتاج ہوتا ہے۔ بے بس۔ اُس کے ماں باپ سہارا بنتے ہیں۔
وقت پھیر لیتا ہے۔
جب وہ طاقت پاتا ہے۔ تھوڑا بڑھتا ہے، اور پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
پھر ایک وقت آتا ہے، جب وہ بھرپور طاقت پا لیتا ہے۔ شہہ زور ہو جاتا ہے، اور لوگ اُس کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں۔
لیکن یہ وقت بھی پھیر لے لیتا ہے۔
اور اُس کی طاقت کمزوری میں بدلنے لگتی ہے۔ وہ جُھکنا شروع ہو جاتا ہے۔ بے بسی پھر سے اُس پر غالب آنا شروع ہو جاتی ہے۔
اور اِس کے بعد وہ وقت بھی آ جاتا ہے۔ جب وہ انسان اِس دنیا میں اپنا سفر پورا کر لیتا ہے، اور اُس کی روح بدن کا ساتھ چھوڑ کر کُوچ کر جاتی ہے۔
اِسی وقت میں کہیں کوئی اور زندگی جنم بھی لے رہی ہوتی ہے۔
ایک نہیں، کئی زندگیاں جنم لے رہی ہوتی ہیں، اور اتنی ہی زیادہ تعداد میں ختم بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔
یہ سب اور اِن کے علاوہ جو دنیا پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں وہ، جو چلے گئے وہ، اور جو آگے آنے والے ہیں وہ بھی۔ سب وقت کے پھیر میں ہیں۔
اپنے اپنے وقت پر سب نے آنا ہے اور اپنے وقت پر چلے جانا ہے۔ جیسے ہر نیا سال ہر پرانے سال کا وقت پورا ہونے پر اُس کی جگہ لے لیتا ہے۔
روزگارِ دنیا میں ہر شے، ہر کردار، ہر احساس کے ساتھ وقت کا یہی قانون ہے۔ سب کچھ وقت کے پھیر میں ہے۔
لیکن نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ مستقل ہے۔ مسلسل ہے۔
سوچ کہتی ہے کہ وقت بھی مستقل نہیں ہے، متغیر ہے۔
ہر آنے والا لمحہ پرانے لمحے کی نسبت جدید ہے۔ بلکل ایسے ہی ہر آنے والا انسان، ہر خیال، ہر احساس، ہر کردار، ہر جذبہ جدید ہے۔
یا میں یوں کہوں گا کہ وقت کی بھی ایک عمر ہے۔ یہ بھی سانسیں لے رہا ہے۔ اِس نے بھی بوڑھا ہو جانا ہے، اور ایک دن کُوچ کر جانا ہے، اور وہ سب کچھ جو اِس کے دم سے زندہ ہے، بے جان ہو جانا ہے۔
لفظ "فرسودہ" کا مطلب پھر یوں ہو گا کہ "سوموار" کو بھی "اتوار" ہی سمجھا جائے کہ سب کچھ ویسا ہی تو ہے۔ کہ سورج وہیں سے اُسی وقت طلوع ہوا اور اتوار کے جیسے ہی اُسی سمت اُسی وقت
غروب بھی ہو گیا تو سوموار تو نہ ہوا نا۔۔۔
از قلم: علی احمد صاحب
ہاں! حالات و واقعات ہیں، کہ 2019 کی یادگاریں اور تھیں، اور 2020 کی یادگاریں اور ہونی ہیں۔ کسی نے بچھڑ جانا ہے، تو کوئی نیا شامل ہو جانا ہے زندگی میں۔
سوچتا ہوں کہ زندگی میں یا دنیا کے سبھی روزگار محض وقت کا پھیر ہی تو ہیں۔ جیسے انسان کی زندگی۔
انسان پیدا ہوتا ہے۔ محتاج ہوتا ہے۔ بے بس۔ اُس کے ماں باپ سہارا بنتے ہیں۔
وقت پھیر لیتا ہے۔
جب وہ طاقت پاتا ہے۔ تھوڑا بڑھتا ہے، اور پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
پھر ایک وقت آتا ہے، جب وہ بھرپور طاقت پا لیتا ہے۔ شہہ زور ہو جاتا ہے، اور لوگ اُس کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں۔
لیکن یہ وقت بھی پھیر لے لیتا ہے۔
اور اُس کی طاقت کمزوری میں بدلنے لگتی ہے۔ وہ جُھکنا شروع ہو جاتا ہے۔ بے بسی پھر سے اُس پر غالب آنا شروع ہو جاتی ہے۔
اور اِس کے بعد وہ وقت بھی آ جاتا ہے۔ جب وہ انسان اِس دنیا میں اپنا سفر پورا کر لیتا ہے، اور اُس کی روح بدن کا ساتھ چھوڑ کر کُوچ کر جاتی ہے۔
اِسی وقت میں کہیں کوئی اور زندگی جنم بھی لے رہی ہوتی ہے۔
ایک نہیں، کئی زندگیاں جنم لے رہی ہوتی ہیں، اور اتنی ہی زیادہ تعداد میں ختم بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔
یہ سب اور اِن کے علاوہ جو دنیا پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں وہ، جو چلے گئے وہ، اور جو آگے آنے والے ہیں وہ بھی۔ سب وقت کے پھیر میں ہیں۔
اپنے اپنے وقت پر سب نے آنا ہے اور اپنے وقت پر چلے جانا ہے۔ جیسے ہر نیا سال ہر پرانے سال کا وقت پورا ہونے پر اُس کی جگہ لے لیتا ہے۔
روزگارِ دنیا میں ہر شے، ہر کردار، ہر احساس کے ساتھ وقت کا یہی قانون ہے۔ سب کچھ وقت کے پھیر میں ہے۔
لیکن نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ مستقل ہے۔ مسلسل ہے۔
سوچ کہتی ہے کہ وقت بھی مستقل نہیں ہے، متغیر ہے۔
ہر آنے والا لمحہ پرانے لمحے کی نسبت جدید ہے۔ بلکل ایسے ہی ہر آنے والا انسان، ہر خیال، ہر احساس، ہر کردار، ہر جذبہ جدید ہے۔
یا میں یوں کہوں گا کہ وقت کی بھی ایک عمر ہے۔ یہ بھی سانسیں لے رہا ہے۔ اِس نے بھی بوڑھا ہو جانا ہے، اور ایک دن کُوچ کر جانا ہے، اور وہ سب کچھ جو اِس کے دم سے زندہ ہے، بے جان ہو جانا ہے۔
لفظ "فرسودہ" کا مطلب پھر یوں ہو گا کہ "سوموار" کو بھی "اتوار" ہی سمجھا جائے کہ سب کچھ ویسا ہی تو ہے۔ کہ سورج وہیں سے اُسی وقت طلوع ہوا اور اتوار کے جیسے ہی اُسی سمت اُسی وقت
غروب بھی ہو گیا تو سوموار تو نہ ہوا نا۔۔۔
از قلم: علی احمد صاحب