وقت کبھی ایک سا تو نہیں رہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہم میں سے اکثر لوگ اس بات کو بھو ل جاتے ہیں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا ۔۔ ہمیں ہر طرح کے حالات کے لئے خود کو تیا ر کر نا چاہئے۔ ہر انسا ن یہی چاہتا ہے کہ اس کی زندگی آرام ،سکون اور اطمینان سے گزرے ۔مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کو مشکل میں ڈال کر ان کا امتحان لیتے ہیں ۔ مگر ہم اپنے دکھ اور پریشا نیوں کو بھی ہنستے ہو ئے کیوں نہیں گزار لیتے ۔۔ شاید اس لئے کہ پر یشانی میں خو ش نہیں ہو اجاتا لیکن کام کی بات یہ ہے اگر ہم اپنی پر یشانیوں میں بھی خو شی کا کوئی را ستہ ڈھو نڈ لیں تو وہ سہل ہو جاتیں ہیں۔
اور پھر یہ بھی تو ہے کہ ہر غم کے بعد ایک خو شی آ تی ہے، جیسے ہر را ت کے بعد ایک صبح اور ہر نا کامی کے بعد کامیا بی۔ ناکامی کا گر اف بھی کبھی سیدھا اوپر نہیں جا تا ۔ وہ بھی پہلے اوپر جا تا ہے پھر نیچے آ تا ہے پھر اوپر جا تا ہے مگر ناکام ہو کر بھی انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔اور پھر اللہ کے ہر کام میں کوئی نا کو ئی مصلحت ہو تی ہے جسکو کہ ہم سمجھ نہیں پاتے اور اللہ سے گلہ کرنے لگتے ہیں۔ا ب ایک گھوڑ ے کی مثال لے لیں ریس کے مید ان میں گھوڑ ے کی ڈور اس کے مالک کے پاس ہو تی ہے اور وہ چا بک مار مار کے گھو ڑے کو بھگاتا ہے ۔ ظاہر سے اسے درد بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی ایک جاندار ہے مگر یہی مار اس کی کامیابی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ اسی طر ح ہم بھو ل جاتے ہیں کہ ہماری ڈور اس کے ہا تھ جو سب کچھ جا نتا ہے۔
انسا ن ہمیشہ سے خو د غر ض رہا ہے اللہ سے ہمیشہ اپنا فا ئدہ ہی چاہتا ہے مصیبت سے نجا ت، عزت دولت، شہرت،کامیابی وغیرہ وغیرہ،
جبکہ ہمیں یہ دعا کر نی چاہیے کہ ہم تیری رضا میں را ضی ہیں تو جیسے رکھے ہمیں منظور ہے، ہمیں ویسا کر دے جیسا تو چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو تو فیق عطا فر مائے۔آمین۔

اس پہ مجھے سلطان باہو کے کلام کا ایک مصرعہ یاد آ گیا،،
جئے سوہنا میر ے دُکھا ن وچ راضی
تے سوکھا ں نو ں میں چولے دواں؟؟
 

زیف سید

محفلین
عمدہ تحریر کے لیے شکریہ۔ لیکن سلطان باہو کے دوسرے مصرعے کی سمجھ نہیں آ سکی، اگر اس کا اردو ترجمہ عنایت کر دیں تو عنایت ہو گی۔ قیاس کہتا ہے کہ یہ شعر امام غزالی کے اس شعر سے ملتا جلتا ہو گا:

ارید وصالہ و یرید ہجری
فا ترک ما ارید لما یرید
(میں اس کا وصال چاہتا ہوں اور وہ میری جدائی چاہتا ہے
اس لیے میں اس کی خواہش کے لیے اپنی خواہش ترک کرتا ہوں)

زیف
 

شمشاد

لائبریرین
شکریہ ناعمہ۔ بہت اچھی تحریر ہے۔ کوشش جاری رکھو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جئے سوہنا میر ے دُکھا ن وچ راضی
تے سکھاں نو ں میں چولے دواں؟؟

اگر میرا سوہنا میرے دکھوں میں راضی ہے تو میں سکھوں کو چولہے میں ڈال دوں۔
 

زیف سید

محفلین
فاتح اور شمشاد، مصرعے کی وضاحت کا بہت شکریہ۔

اور ہاں ایک غلطی کا ازالہ میں بھی کرتا چلوں، عربی کا جو شعر میں نے اوپر لکھا تھا، وہ امام غزالی کا نہیں ہے۔ یہ ان کی کتاب احیاالعلوم میں ضرور موجود ہے، تاہم کتاب دوبارہ دیکھی تو معلوم ہوا کہ سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کسی اور شاعر کا ہے اور امام صاحب نے صرف اس کی تشریح لکھی ہے۔ البتہ انہوں نے شاعر کا نام نہیں دیا۔

برسبیلِ تذکرہ، یہ خیال (محبوب کی مرضی پر اپنی مرضی قربان کرنا) تصوف کے موضوعات میں سے ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی نے ابھی اپنے مکتوبات میں اس پر تبصرہ کیا ہے۔

زیف
 
زیف سید صاحب آپ نے بہت عمدہ شعر نقل کیا ہے اس قحط الرجال میں عربی فارسی کا ذوق رکھنے والے اشخاص کا ملنا غنیمت ہے۔
احمد جام جن کو زندہ پیل بھی کہتے ہیں ان کا شعر عرض خدمت ہے
کشتگان خنجر تسلیم را
ہرزماں از غیب جان دیگر است
(جو تیرے صبر و رضا کے خنجر سے ہلاک ہوتے ہیں وہ ہرلمحہ ایک نئی زندگی پاتے ہیں )
 

توصیف امین

محفلین
اس پہ مجھے سلطان باہو کے کلام کا ایک مصرعہ یاد آ گیا،،
جئے سوہنا میر ے دُکھا ن وچ راضی
تے سوکھا ں نو ں میں چولے دواں؟؟

ناعمہ عزیز صاحبہ میں نے یہ اشعار کہیں خواجہ غلام فرید کے حوالے سے پڑھے تھے اور چونکہ ان میں خواجہ غلام فرید کا نام بھی آتا ہے سو میرے خیال میں غالب امکان یہی ہے کہ یہ سلطان باہو کا کلام نہیں ہو گا۔
اشعار یوں ہیں
ایہہ تن میرا جے کنگھی ہووے ، تے میں زلف محبوب دی واہواں
پوش میرے دی بن جائے جُتی، تےمیں یار دے پیری آواں
جے سوہنا میری دکھ وچ راضی ، تے میں سُکھ نوں چولہے ڈانواں
یار فرید کدی مل جائے سوہنا ، اونہوں رو رو حال سناواں

لفظ ڈاھواں یا ڈانواں کا مطلب ڈالنا ہوتا ہے۔
 
Top