عیشل

محفلین
موت کی حقیقت اور
زندگی کے سپنے کی
بحث گو پرانی ہے
پھر بھی اک کہانی ہے
اور کہانیاں بھی تو
وقت سے عبارت ہیں
لاکھ روکنا چاہیں
وقت کو گذرنا ہے
ہنستے بستے شہروں کو
ایک دن اجڑنا ہے
راحتیں ہوائیں ہیں
چاہتیں صدائیں ہیں
کیا ہوائیں بھی
دسترس میں رہتی ہیں
کیا کبھی صدائیں بھی
کچھ پلٹ کے کہتی ہیں
اور پیار کا دکھ بھی
آنسوؤں کے دریا کو
ایک دن اترنا ہے
خواہشوں کو مرنا ہے
وقت کو گذرنا ہے
وقت کو گذرنا ہے

(فرحت عباس شاہ)
 

شیہک طاہر

محفلین
اس نظم کے دو تین مصرعے میں نے اس وقت پڑھے تھے جب میں آٹھویں کلاس میں تھا۔ تب سے اس نظم کے ساتھ ایک عجیب قسم کی جذباتی اور تاریخی وابستگی محسوس ہوتی ہے۔
خاص طور سے یہ مصرعے:
راحتیں ہوائیں ہیں
چاہتیں صدائیں ہیں
کیا کبھی ہوائیں بھی
دسترس میں رہتی ہیں
کیا کبھی صدائیں بھی
کچھ پلٹ کے کہتی ہیں
 
Top