وقت کی قیمت - ایک تحریر از شاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
وقت کی قیمت
از شاہد بھائی

ہمارا زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک واقعہ کو لے کر سارا سارا دن پریشان رہنا۔ اس شخص نے مجھے ایسے کیوں کہہ دیا؟ میں نے اسے جواب میں یہ کیوں نہیں کہا ؟ میں اسے یہ کہہ دیتا فلاں کہتا فلاں کہتا وغیرہ وغیرہ ایک نہ ختم ہونے والی سوچ ہماری دماغ کے پرزے ہلاتی رہتی ہے اور ہمیں بے قرار رکھتی ہے لیکن ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اسی سوچ میں کھوئے رہتے ہیں ۔ میں ایسے لوگوں کو دیکھ کر یہ سوچنے لگتا ہوں کہ خدا جانے آخر ان کے پاس اتنا وقت کہاں سے آ جاتا ہے جو یہ ان فضول سوچوں میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس تو کرنے کے لیے اتنا کچھ ہے اور وقت کی اتنی قلت ہے کہ کئی کام رہ جاتے ہیں اور وقت بیت جاتا ہے۔ ماضی کے بارے میں سوچنے سے تو کئی بہتر ہے کہ حال میں رہ کر مستقبل سنوارا جائے ۔ اپنے قیمتی وقت کو کارآمد کاموں میں لگایا جائے۔ اگر کوئی ہمیں کچھ بھی کہے ہمیں کیا چاہیے؟ دو گھونٹ پانی پیے۔ ایک لمبی سے سانس بھریں اور اس کی ساری باتیں دماغ سے نکال کر پھینک دیں اور سیٹی بجاتے ہوئے دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو جائیں ۔ جس شخص کا ارادہ ہمیں پریشان کرنے کا تھا وہ ہمیں اتنا پرسکون دیکھ کر خود پریشان ہو جائے گا اور ہمیں کچھ کرنا ہی نہیں پڑے گا۔ وقت بھی ضائع نہ ہوگا اور انتقام بھی ہو جائے گا۔ ہمیں پاس ہمارے رشتہ دار ہمارے گھروالے ہمیں عزیز و اقارب ہمارے دوست ہمارے چاہنے والے اتنے لوگ ہیں اور ان سب لوگوں کو چھوڑ کر ہم صرف ایک اس شخص پر اپنا وقت کھپائیں جس کا مقصد ہمیں پریشان کرنا ہے۔ ارے دشمن کو ایسی مسکراہٹ دو کہ اسے رولانے کا خواب چکنا چور ہو جائے۔ وہ خود جل کر راکھ ہو جائے اور ہمیں من ہی من کوستا رہے مگر ہم اسے دیکھ کر صرف مسکرائیں۔ کیا یہ کرنا بہتر ہے یا یہ کہ ہم اس کی باتوں کا جواب بھی دیں غصہ بھی ہوں اس کا مقصد بھی پورا کریں یعنی اگلا سارا دن اسی بات کو سوچتے رہیں کہ اس نے ہمیں ایسا کیوں کہا ؟ میں نے یہ تو کہا مگر یہ کیوں نہیں کہا؟ مجھے موقع پر یہ بات یاد کیوں نہیں آئی؟ میں یہ کہہ دیتا فلاں فلاں اور پھر نہ جانے کب تک پریشانی اور بے قراری کے عالم میں گزار دیں۔ لازمی سی بات ہے پہلی والی بات یقینا بہتر بھی ہے اور معقول بھی۔ پھر ہمارے پاس وقت ضائع کرنے کے لیے ہے بھی کہاں؟ اتنے سارے کام پھر رات کو آرام اور اگر کچھ وقت بچتا بھی ہے تو قرآن کریم کھول لیں۔ یہ تو دیکھیں کہ ہمارا رب ہم سے کیا بات کر رہا ہے ۔ کیونکہ رب تو ہمارا سب سے پہلا دوست ہے۔ وہی تو ہے جو ہمارے سب درد وغم کو دور کر سکتا ہے تو پھر ہم کیوں کسی بات کو لے کر پریشان ہو جائیں۔ ہم کیوں نہ دشمن کی بات پر صبر کریں اور قرآن کھول کر رب سے باتیں کر کے خود کو ترو تازہ کر لیں۔ آخر میں رسول اللہ کی زندگی میں ہی جھانک کر دیکھیے ۔
اللہ کے رسول اونٹ پر سوار تھے کہ ایک شخص آیا اور رسول اللہ ﷺ کی چادر کھینچی اور اس قدر زور سے کھینچی کہ رسول اللہ کی کمر پر چادر کھینچنے کے نشان پڑ گئے ۔ اس شخص نے چادر کھینچ کر کہا کہ اے محمد ﷺ ! تمھارے پاس جو مال غنیمت ہے اس میں سے مجھے بھی کچھ دو۔ اللہ کے رسول مسکرائے اور اصحاب سے کہا کہ اسے مال کی کثیر مقدار دے دو۔
یہ تو ہمارے نبی کا طرز عمل ہے اور ہمارے آقا محبوب دو عالم کا یہی طرز عمل ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین۔
 
Top