نور وجدان
لائبریرین
وقت کے پنجرے کا دائرہ زمانے ہیں ۔زمانے خود بھی تو دائرے ہیں ۔ اسمیں گھومنا زمین کے بس میں کہاں جبتک کہ سورج کو مرکز میں نہ رکھا جائے ! چاند بھی اسی صورت زمین کے گرد گھومتا ہے اور زندگی ------زمین کی دل کشی بڑھ جاتی ہے ۔خطِ استوا پر روشنی کی جاتی ہے اور حق حق کی ضرب سے استوا سے نور کی شعاعیں سورج کی شعاعوں میں مدغم ہوجاتیں ہیں ، زمین سے سورج کے وصال کے بعد چاند بہت اکیلا ہوجاتا ہے اور میں سمندر شور مچاتا ہے جس سے بھنور در بھنور زمین رقص کرتی ہے ، رقص زندگی ہے ، رقص خوشی ہے ، رقص نشاطِ ہستی کی کہانی ہے ۔ رقص احساس کی دڑاڑوں میں کرچیاں ڈالتی روشنیوں کے ستم کی بات ہے ، روشنی جب زمین میں بس جاتی ہے تب کالا رنگ اتر جاتا ہے ، جب کالا رنگ اترتا ہے تبھی نئے رنگوں سے نوازا جاتا ہے وہ جو افق پر قوسِ قزح ہے وہ میرے نصیب کی بات ہے ۔
پنچھی ایک پنجرے میں قید جبکہ وقت اسکے گرد رقص کر رہا ہے اک وقت وہ بھی تھا جب پنجرہ وقت کے گرد رقص میں مدہوش۔۔۔۔۔۔۔ مدہوشی کا دائرہ طویل ہوتا جارہا ہے ، پنچھی پرواز کرتا جارہا ہے ، دائرے میں گھومتا جا رہا ہے اور کبھی وادی ، کبھی جنگل کبھی پربت پر گھومتا کبھی فلک کی بلندی کو پہنچ جاتا ہے
تصویر کیسے تیری بناؤں ؟ صنم کو کیسے پہچانوں ؟
تراش رہا ہے وہ مجھے ، اس کو کیسے جانوں ؟
کائنات اسکا اثبات ہے ، میں ایک ذرہ ہوں
ذرہ کیسے کائنات بنے ، کیسے اثبات کروں؟
اے حقیقت اپنے حجاب اٹھادے جلوہ کرادے
یوں کہ نہ ہونے سے ہونے تک کا سفر چلا دے
رنگوں میں رنگا رنگی کائنات ، اس رنگ میں جلوہ کر
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! کی صدا بلند کر
سبی
زمین اس کائنات میں طور بنی ہوئی ہے اور ھو ھو کی صدائیں غاروں سے نکلتی اسے رقص کرارہی ہے، اس روشنی کو جو زمین کے بند دریچوں کو روشن کر رہی ہے ،اس نےاس پر انوار کی بارش کردی ہے اور یہ تجلی کے مصداق روشنی وجود کو روشن کیے دے رہی ہے زمین کا وجود عدم کی مٹی سے بنا ہے کہ زمین نفی ہے جبکہ فلک اسکا اثبات ہے ، زمین خلا ہے ، فلک پر وہ مکین ہے بس اسکو بقا ہے ۔زمین کو آسمان کا سفر درپیش ہے گویا اثبات کی پہلی منزل پر قدم ہے ۔ وہ سفر جو رکوع سے شروع ہوا تھا وہ سجدے میں فنا ہوجانا ہے ۔ عروج کے بعد اسنے رہ جانا ہے جبکہ فانی ذات بکھر جانی ہے ! ھو ! حق ھو ! ھو ! ھو ! سورج کی شعاعوں میں فنا ہونے کا اشارہ ہے ، ساجد نے سجدہ کرنا ہے اور روح نکل جانی ہے ، جسم بس رہ جانا ہے ، پرواز مقدر ہے پنچھیوں کے لیے کہ پنچھیوں کا ٹھکانہ فلک ہے
لا الہ پنچھیوں کے تسبیح ہے اور تسبیح سے الا اللہ کی صدا نکلی ہے۔ الا اللہ صدا ہے ،حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو،جھوم رہا ، ہےقلب دل وطن کی سرحد میں ،روح جذب باطن میں ، عشق غلامی میں ، دل میں علم رکھا ہے خزانے کی کنجی الا اللہ ہے
الا اللہ کی صدا ھو ھو ھو ، چاروں طرف ھو ھو ! یہ کون جان پایا ہے کہ وہ جس کو مل جاتا ہے بندہ بدل جاتا ہے ، اسکے وصال کے بعد حال کو حال نہیں آتا ، حال میں کوئی ساتھ نہیں رہتا ، وہ دکھتا ہے جو ساتھ رہتا ہے ! حق ھو ! ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ! حق حق ! حق! حق ! دل سے دل تک ، نقل سے عقل تک سفر شروع ہوا ، کپڑا جلا دیا گیا ، عشق کی لو بڑھا دی گئی اور کہا گیا ہے کہ صبر سے کام لینا ہے اور صبر سے کام نہیں چل رہا ، پنچھیوں کے پر کاٹ کے اڑان کی اجازت دی جاتی ہے گویا رسیوں سے باندھ دیا جاتا ہے ۔ وہ اسکے اختیار کی رسیاں ، اسکی قدر کے دھاگے ! کٹھ پتلی کی دوڑ گھماتا ہے اور دھیرے دھیرے کٹھ پتلی اسکے اشارے سمجھ جاتی ہے اور کٹھ پتلی اشارہ ہوجاتی ہے ، کن سے فیکون ہوجاتی ہے ، بے بسی سے بس میں آجاتی ہے ، خیال کی قید سے بے انتہا ہوتے خیال کو اپنی قید میں کرلیتی ہے !
پنچھی ایک پنجرے میں قید جبکہ وقت اسکے گرد رقص کر رہا ہے اک وقت وہ بھی تھا جب پنجرہ وقت کے گرد رقص میں مدہوش۔۔۔۔۔۔۔ مدہوشی کا دائرہ طویل ہوتا جارہا ہے ، پنچھی پرواز کرتا جارہا ہے ، دائرے میں گھومتا جا رہا ہے اور کبھی وادی ، کبھی جنگل کبھی پربت پر گھومتا کبھی فلک کی بلندی کو پہنچ جاتا ہے
تصویر کیسے تیری بناؤں ؟ صنم کو کیسے پہچانوں ؟
تراش رہا ہے وہ مجھے ، اس کو کیسے جانوں ؟
کائنات اسکا اثبات ہے ، میں ایک ذرہ ہوں
ذرہ کیسے کائنات بنے ، کیسے اثبات کروں؟
اے حقیقت اپنے حجاب اٹھادے جلوہ کرادے
یوں کہ نہ ہونے سے ہونے تک کا سفر چلا دے
رنگوں میں رنگا رنگی کائنات ، اس رنگ میں جلوہ کر
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! کی صدا بلند کر
سبی
زمین اس کائنات میں طور بنی ہوئی ہے اور ھو ھو کی صدائیں غاروں سے نکلتی اسے رقص کرارہی ہے، اس روشنی کو جو زمین کے بند دریچوں کو روشن کر رہی ہے ،اس نےاس پر انوار کی بارش کردی ہے اور یہ تجلی کے مصداق روشنی وجود کو روشن کیے دے رہی ہے زمین کا وجود عدم کی مٹی سے بنا ہے کہ زمین نفی ہے جبکہ فلک اسکا اثبات ہے ، زمین خلا ہے ، فلک پر وہ مکین ہے بس اسکو بقا ہے ۔زمین کو آسمان کا سفر درپیش ہے گویا اثبات کی پہلی منزل پر قدم ہے ۔ وہ سفر جو رکوع سے شروع ہوا تھا وہ سجدے میں فنا ہوجانا ہے ۔ عروج کے بعد اسنے رہ جانا ہے جبکہ فانی ذات بکھر جانی ہے ! ھو ! حق ھو ! ھو ! ھو ! سورج کی شعاعوں میں فنا ہونے کا اشارہ ہے ، ساجد نے سجدہ کرنا ہے اور روح نکل جانی ہے ، جسم بس رہ جانا ہے ، پرواز مقدر ہے پنچھیوں کے لیے کہ پنچھیوں کا ٹھکانہ فلک ہے
لا الہ پنچھیوں کے تسبیح ہے اور تسبیح سے الا اللہ کی صدا نکلی ہے۔ الا اللہ صدا ہے ،حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو،جھوم رہا ، ہےقلب دل وطن کی سرحد میں ،روح جذب باطن میں ، عشق غلامی میں ، دل میں علم رکھا ہے خزانے کی کنجی الا اللہ ہے
الا اللہ کی صدا ھو ھو ھو ، چاروں طرف ھو ھو ! یہ کون جان پایا ہے کہ وہ جس کو مل جاتا ہے بندہ بدل جاتا ہے ، اسکے وصال کے بعد حال کو حال نہیں آتا ، حال میں کوئی ساتھ نہیں رہتا ، وہ دکھتا ہے جو ساتھ رہتا ہے ! حق ھو ! ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ! حق حق ! حق! حق ! دل سے دل تک ، نقل سے عقل تک سفر شروع ہوا ، کپڑا جلا دیا گیا ، عشق کی لو بڑھا دی گئی اور کہا گیا ہے کہ صبر سے کام لینا ہے اور صبر سے کام نہیں چل رہا ، پنچھیوں کے پر کاٹ کے اڑان کی اجازت دی جاتی ہے گویا رسیوں سے باندھ دیا جاتا ہے ۔ وہ اسکے اختیار کی رسیاں ، اسکی قدر کے دھاگے ! کٹھ پتلی کی دوڑ گھماتا ہے اور دھیرے دھیرے کٹھ پتلی اسکے اشارے سمجھ جاتی ہے اور کٹھ پتلی اشارہ ہوجاتی ہے ، کن سے فیکون ہوجاتی ہے ، بے بسی سے بس میں آجاتی ہے ، خیال کی قید سے بے انتہا ہوتے خیال کو اپنی قید میں کرلیتی ہے !