وَلَيَالٍ عَشۡرٍ۬

x boy

محفلین
الحمد للہ:



فرمان باری تعالی: {وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2)}

ترجمہ: قسم ہے فجر کے وقت کی [1] اور دس راتوں کی [الفجر : 1 - 2]

یہاں آیت میں مذکور "دس راتوں " سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کے ہاں مختلف اقوال ہیں:

1- جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اس سے مراد عشرہ ذو الحجہ ہے، بلکہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا، اور کہا ہے کہ: "اس سے مراد عشرہ ذو الحجہ کی دس راتیں مراد ہیں، کیونکہ تمام معتمد مفسرین کا اس پر اجماع ہے"انتہی

تفسير ابن جرير : (7/514)

اور ابن کثیر (4/535)رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"دس راتوں سے مراد عشرہ ذوالحجہ ہے، جیسے کہ ابن عباس، ابن زبیر، مجاہد، اور متعدد سلَف اور خلَف علمائے کرام سے منقول ہے"

"ایام"کے بارے میں "لیالی"کے لفظ سے تعبیر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

تو اسکا جواب مندرجہ ذیل انداز سے دیا جاسکتا ہے:

چونکہ عربی زبان بہت وسیع ہے، اس لئے یہاں پر "ایام" کیلئے "لیالی " کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ بسا اوقات عربی زبان میں "لیالی " بول کر "ایام" مراد لیا جاسکتا ہے، اور صحابہ کرام و تابعین عظام عام طور پر "ایام" کیلئے "لیالی" کا لفظ ہی استعمال کرتے تھے، حتی کہ روزے رکھنے کے بارے میں انکا ایک مقولہ مشہور تھا کہ " صمنا خمسا "[اس جملے میں "خمس" تمییز کی بنا پر منصوب ہے، اور عربی زبان میں "خمس" مذکر اس وقت بولا جائے گا جب اسکا معدود مؤنث ہو، یعنی اس جملے میں لفظ "ایام" کو معدود نہیں بنایا گیا، بلکہ لفظ "لیالی" کو معدود بنایا گیا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ "ایام "کی جگہ "لیالی " کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مترجم]اگرچہ روزہ دن میں رکھا جاتا ہے۔ واللہ اعلم

متعدد علمائے کرام نے اس بارے میں صراحت بھی کی ہے جن میں ابن العربی "أحكام القرآن" ( 4/ 334 ) میں اور ابن رجب "لطائف المعارف" ( 470 ) میں ، شامل ہیں۔

2- کچھ علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ ان دس راتوں سے مراد رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے، یہ قول بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انکا کہنا ہے کہ اس سے مراد رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے، جس میں لیلۃ القدر ہے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

( لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ )

ترجمہ: لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بھی افضل ہے۔ [القدر: 3]

ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:

(‏‏إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ [3]فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ)

ترجمہ: ہم نے [قرآن ] کو با برکت رات میں نازل کیا ہے، بلاشبہ ہم ہی ڈرانے والے ہیں [3] اس رات میں ہر حکمت بھرے فیصلے کو منتقل کیا جاتا ہے[الدخان: 3-4]

اسی موقف کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، کیونکہ یہ موقف آیت کے ظاہری مفہوم سے مطابقت رکھتا ہے۔

دیکھیں: تفسیر 30 واں پارہ، از شیخ ابن عثیمین .





اول: تکبیرات کی فضیلت

ذو الحجہ کے پہلے دس دنوں کی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں قسم اٹھائی ہے، اور کسی بھی چیز کی قسم اٹھانا اسکی اہمیت، اور اسکے عظیم فوائد کی دلیل ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2)} قسم ہے فجر کی[2] اور دس راتوں کی[الفجر : 1 - 2]

ان دس راتوں کی بارے میں ابن عباس، ابن زبیر، مجاہد اور انکے علاوہ متعدد علمائے سلف کا کہنا ہے کہ: اس سے عشرہ ذو الحجہ مراد ہے۔

اور ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "یہی تفسیر صحیح ہے" تفسير ابن كثير: (8/413)

اور ان ایام میں کئے جانے والے اعمال اللہ تعالی کو بہت زیادہ پسند ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی نیک عمل کسی دن میں اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند نہیں جتنا ان دس دنوں میں پسند ہے)

صحابہ کرام نے کہا: "اللہ کے رسول! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں!؟"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں جو شخص اپنے مال و جان کیساتھ جہاد کیلئے نکلا اور ان دونوں میں سے کوئی بھی چیز واپس نہیں آئی)

بخاری: (969)، الفاظ ترمذی (757)کے ہیں، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی: (605) میں صحیح کہا ہے۔

اور ان ایام کے دوران عمل صالح میں تکبیرات، اور "لا الہ الا اللہ" کہنا بھی درج ذیل دلائل کی رو سے شامل ہے:

1- فرمان باری تعالی ہے: {لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ}

ترجمہ: تا کہ وہ اپنے فائدے کی چیزوں کا مشاہد ہ کریں، اور مقررہ دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں[الحج : 28]

یہاں " أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ " سے مراد عشرہ ذو الحجہ [ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن] ہیں۔

2- اور فرمانِ الہی: {وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ}

ترجمہ: اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کا ذکر کرو [البقرة : 203]

اور " أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ "سے مراد ایام تشریق ہیں۔

3- اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایام تشریق کھانے پینے، اور ذکر الہی کے دن ہیں)مسلم: (1141)

دوم: تکبیرات کے الفاظ

علمائے کرام کے ان تکبیرات کے بارے میں متعدد اقوال ہیں:

1- اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ۔۔۔ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ۔

2- اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ۔

3- اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ اللَّهُ أَكْبَرُ ۔۔۔ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ۔

کوئی بھی الفاظ تکبیرات کیلئے آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تکبیرات کے معین الفاظ منقول نہیں ہیں۔

سوم: تکبیرات کا وقت

تکبیرات کی دو قسمیں ہیں:

1- مطلق تکبیرات: یعنی جن کیلئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے، بلکہ ہر وقت، صبح وشام، نمازوں سے پہلے اور بعد میں کسی بھی لمحے کہی جاسکتی ہیں۔

2- مقید تکبیرات: یعنی وہ تکبیرات جو صرف نمازوں کے بعد کہی جاتی ہیں۔

چنانچہ مطلق تکبیرات عشر ذو الحجہ ، اور ایام تشریق کے دوران کسی بھی وقت کہی جاسکتی ہیں، جسکا وقت ذو الحجہ کی ابتدا ہی سے شروع ہوجائےگا (یعنی: ذو القعدہ کے آخری دن سورج غروب ہونے سے وقت شروع ہوگا) اور ایام تشریق کے آخر تک جاری رہے گا (یعنی: 13 ذو الحجہ کے دن سورج غروب ہونے تک)

جبکہ مقید تکبیرات کا وقت عرفہ کے دن فجر سے شروع ہوکر آخری یوم تشریق کے ختم ہونے تک جاری رہتا ہے-اس دوران مطلق تکبیرات بھی کہی جائیں گی- چنانچہ جس وقت امام فرض نماز سے سلام پھیر کر تین بار: "اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ" کہنے کے بعد: "اَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ " کہہ لے تو تکبیرات کہے گا۔

مذکورہ بالا مقید تکبیرات کی تفصیل ان لوگوں کیلئے ہے جو حج نہیں کر رہے، جبکہ حجاج کرام مقید تکبیرات یوم نحر [دس ذو الحجہ] کی ظہر سے شروع کرینگے۔

واللہ اعلم
 
Top