فاتح
لائبریرین
جب سے محفل کی رکنیت اختیار کی ہے تب سے ہمارے تعارف کے خانے میں ہمارے "مقام" کے طور پر ایک مصرع درج ہے کہ "بس ہمیں عشق کی آشفتہ سری کھینچتی ہے"۔ یہ سلیم کوثر کی ایک خوبصورت غزل سے لیا گیا تھا۔ اب سلیم کوثر کی نئی کتاب "دنیا مری آرزو سے کم ہے" میں یہ غزل بھی شامل ہے۔ سوچا مکمل غزل آپ احباب کے ساتھ بھی بانٹتا چلوں۔
وہاں محفل نہ سجائی جہاں خلوت نہیں کی
اُس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی
اب کے بھی تیرے لیے جاں سے گزر جائیں گے
ہم نے پہلے بھی محبت میں سیاست نہیں کی
تم سے کیا وعدہ خلافی کی شکایت کرتے
تم نے تو لوٹ کے آنے کی بھی زحمت نہیں کی
دھڑکنیں سینے سے آنکھوں میں سمٹ آئی تھیں
وہ بھی خاموش تھا، ہم نے بھی وضاحت نہیں کی
رات کو رات ہی اس بار کہا ہے ہم نے
ہم نے اس بار بھی توہینِ عدالت نہیں کی
گردِ آئینہ ہٹائی ہے کہ سچائی کھلے
ورنہ تم جانتے ہو ہم نے بغاوت نہیں کی
بس ہمیں عشق کی آشفتہ سری کھینچتی ہے
رزق کے واسطے ہم نے کبھی ہجرت نہیں کی
آ! ذرا دیکھ لیں دنیا کو بھی، کس حال میں ہے
کئی دن ہو گئے دشمن کی زیارت نہیں کی
تم نے سب کچھ کیا، انسان کی عزت نہیں کی
کیا ہوا وقت نے جو تم سے رعایت نہیں کی
(سلیم کوثر کی کتاب "دنیا مری آرزو سے کم ہے" سے ایک غزل)اُس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی
اب کے بھی تیرے لیے جاں سے گزر جائیں گے
ہم نے پہلے بھی محبت میں سیاست نہیں کی
تم سے کیا وعدہ خلافی کی شکایت کرتے
تم نے تو لوٹ کے آنے کی بھی زحمت نہیں کی
دھڑکنیں سینے سے آنکھوں میں سمٹ آئی تھیں
وہ بھی خاموش تھا، ہم نے بھی وضاحت نہیں کی
رات کو رات ہی اس بار کہا ہے ہم نے
ہم نے اس بار بھی توہینِ عدالت نہیں کی
گردِ آئینہ ہٹائی ہے کہ سچائی کھلے
ورنہ تم جانتے ہو ہم نے بغاوت نہیں کی
بس ہمیں عشق کی آشفتہ سری کھینچتی ہے
رزق کے واسطے ہم نے کبھی ہجرت نہیں کی
آ! ذرا دیکھ لیں دنیا کو بھی، کس حال میں ہے
کئی دن ہو گئے دشمن کی زیارت نہیں کی
تم نے سب کچھ کیا، انسان کی عزت نہیں کی
کیا ہوا وقت نے جو تم سے رعایت نہیں کی