وہاں کیسے کوئی دیا جلے، جہاں دور تک بھی ہوا نہ ہو - نواز دیوبندی

کاشفی

محفلین
غزل
(نواز دیوبندی)
وہاں کیسے کوئی دیا جلے، جہاں دور تک بھی ہوا نہ ہو
اُنہیں حالِ دل نہ سنائیے، جنہیں دردِ دل کا پتا نہ ہو

ہوں عجب طرح کی شکایتیں، ہوں عجب طرح کی عنایتیں
تجھے مجھ سے شکوے ہزار ہوں، مجھے تجھ سے کوئی گلا نہ ہو

کوئی ایسا شعر بھی دے خدا، جو تیری عطا ہو تیری عطا
کبھی جیسا میں نے کہا نہ ہو، کبھی جیسا میں نے سنا نہ ہو

نہ دیے کا ہے، نہ ہوا کا ہے، یہاں جو بھی کچھ ہے خدا کا ہے
یہاں ایسا کوئی دیا نہیں جو جلا ہو اور وہ بجھا نہ ہو

میں مریضِ عشق ہوں چارہ گر، تو ہے دردِ عشق سے بے خبر
یہ تڑپ ہی اس کا علاج ہے، یہ تڑپ نہ ہو تو شفا نہ ہو
 
بہت عمدہ شراکت

وہاں کیسے کوئی دیا جلے، جہاں دور تک بھی ہوا نہ ہو
اُنہیں حالِ دل نہ سنائیے، جنہیں دردِ دل کا پتا نہ ہو

ہوں عجب طرح کی شکایتیں، ہوں عجب طرح کی عنایتیں
تجھے مجھ سے شکوے ہزار ہوں، مجھے تجھ سے کوئی گلا نہ ہو
 
Top