گلزیب انجم
محفلین
وہیل چئیر
تحریر:- گل زیب انجم زیب
سیری نیشنل سائنس کالج کے سامنے سے عقب تک کی ساری زمین نہایت ہی زرخیز ہوا کرتی تھی ۔ سیری اڈہ میں جہاں آج کل دانے پسائی والی مشین لگی ہوئی یے یہاں سے باوئے جلال کے کھومبھے تک کی ساری زمین ہی پوری سیری کی رونق کہلاتی تھی ۔ اس سارے کاشت کار رقبے کے درمیان سے ایک رستہ گزرتا تھا جو سیری بازار کی سڑک سے دوگنا تھا اسی لیے وہ رستے کے بجائے پارلی سڑک کہلاتا تھا ۔ بچے اس سڑک پر اٹی ٹلا اور کھنڈوری ڈنڈا بھی کھیلا کرتے تھے گھڑسوار گھوڑیوں کی ٹانگیں سیدھی کرنے کی غرض سے تھوڑی دوڑ لگوایا کرتے تھے۔ آڑک بہیڑوں کو کڑھا پر جوت کر ہالی بھی اسی سڑک پر کیا جاتا تھا ۔ پارلی بائیں(باولی) سے پانی لانے اور دہریاں کی کسی پر نہانے کے علاوہ عیدین کی نماز کے لیے بھی اسی سڑک سے جایا جاتا تھا۔ وقت بدلہ لوگوں میں زمین کی ہوس نے ڈھیرے جمائے دونوں اطراف والوں نے سڑک کو باڑی میں شامل کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی تو پارلی سڑک پارلہ راہ بن کر رہ گئی ۔ اب اس راہ پر بمشکل دو آدمی ایک ساتھ چل سکتے ہیں ۔ پارلی بائیں جاتے ہوئے اسی راہ کے آخر پر باوے جلال کا گھر تھا جس کو بہت کم لوگوں نے باوے جلال کا گھر کہا بلکہ جس سے بھی سنا باوے جلال کا کھومبا(پچھواڑ) ہی سنا ۔ یہ کھومبا دراصل راہگیروں کے لیے بطور ریسٹ ایریا کی سہولت مہیا کرتا تھا ۔ یہاں دو تین درخت بھی تھے جن کی وجہ سے یہ کھومبا ٹھنڈا رہتا تھا ۔ باولی(چشمہ) سے واپس آنے والے اس کھومبھے کو لازمی رفاقت بخشتے تھے کیونکہ باولی سے لے کر یہاں تک ساری چڑھائی ہی تھی جو گرمیوں کے علاوہ سردیوں میں بھی پسینہ نکال اور سانسیں بے ترتیب کر دیتی تھی ۔ اس لیے راہی سانسوں کو ہموار کرنے کے لیے کھومبے کو اپنی رفاقت کا ضرور شرف بخشتے تھے۔ انہی درختوں کے نیچے ایک پتھر بھی پڑا ہوتا تھا جسے مقامی زبان میں بلغوندروں کہا جاتا ہے ۔ ہمارا جب وہاں سے گزر ہوتا تو اس کو اٹھانے کی کوشش کرتے لیکن بس ہاتھ لگا کر ہی ہٹ جاتے تھے کیونکہ وہ بہت بھاری تھا ۔ اسے اگر ہم میں سے کوئی زمین سے دو تین انچ اوپر تک اٹھا سکتا تھا تو وہ اسد تھا جس کو فلاتو کہا کرتے تھے ۔ فلاتو جب اس بلغوندروں کو اٹھا پھینک رہا ہوتا تو آواز سن کر باوے جلال جی کا بھتیجا گنجی کھومبے آ جاتا ۔ اسد کو یوں بلغوندروں کے ساتھ لڑتے دیکھ کر کہتا اوے فلاتو جا مکھن کا ایک پیڑا اور کھا کر آ۔ اسد کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ گھی مکھن بہت کھاتا ہے اس لیے گنجی نے اسے کہا تھا ۔ اسد ہنس کر کہتا آلا توں چک آں ۔ یہ سن کر گنجی جس کا اصل نام ریاست تھا وہ قیمض کے دامن کو شلوار کے اندر ڈالتا اور ہاتھ کی انگلیوں کو مروڑتا پھر دونوں ہاتھوں کو ملا کر ایک انگڑائی سی لیتا ۔ سب لڑکوں کی طرف ہونٹوں کو بیھچتے ہوئے دیکھتا بلغوندروں کے پاس جاتا سیدھا ہاتھ لگا کر چومتا اور ہاتھ بلغوندروں کی ہتھی میں ڈالتے ہوئے پہلے اس کا بیلنس برابر کرتا پھر جھٹکے کے ساتھ سینے تک لاتا اسی کے ساتھ ہی کندھے پر لے جاتا علی کہہ کر سر کے اوپر کر کے ایک ہاتھ سے پتھر تھامتا اور دوسرا ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ کر سب کو دیکھتے ہوئے اوچھل کر پھینک دیتا۔ پھر مسگراتے ہوئے کہتا فلاتو تکیا ای۔
بلغوندروں اس وقت کے لوگوں کی جرآت کی نشانی ہوتا تھا ۔ بلکہ اس وقت کے کھیل بھی یہی ہوتے تھے کشتی کبڈی بازو گیری اور پتھر اٹھانا یہ پتھر دو قسم کی ہوتے تھے ایک کو تو بلغوندروں کہتے تھے یہ مربع شکل کا ہوتا تھا اور اس کو بناتے وقت اسے پکڑنے کے لیے جگہ بنائی جاتی تھی جسے ہتھی کہا جاتا تھا اور دوسرا پتھر فٹبال کی طرح گول ہوتا تھا جسے اٹھانا بلغوندروں کی بانسبت مشکل تھا کیونکہ اسے پکڑنے کے لیے جگہ نہیں بنائی جاتی تھی ۔
ریاست کشتی کبڈی کے ساتھ ساتھ بلغوندروں بھی اٹھایا کرتا تھا درمیانے قد اور فولادی جسم کا مالک تھا یہ جسم اس نے بڑی محنت سے بنایا تھا غریبی کا زمانہ تھا آج کی طرح کی کوئی سہولت میسر نہ تھی پھر بھی اس نے شوق اور محنت سے اپنے آپ کو اس قدر بنا رکھا تھا کہ پورے جسم کے مسل الگ الگ نظر آتے ۔ یہ تینوں بھائی ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والدین کی محبت سے محروم ہو گئے تھے بڑی بہن نے اپنے چچا جلال کی سرپرستی میں ماں بن کر ان کو پالا ۔ ابھی میسں ہی نہ بھیگی تھی کہ یہ خاندانی پیشے میں جت چکے تھے۔ تعظیم اور مختار نے تعمیراتی کام شروع کر دیا دونوں بھائی اچھے کاریگر مانے جاتے تھے اس لیے کافی کام ان کو ملنے لگا ۔ ریاست بھی کام جانتا تھا لیکن مسلسل وہ اس کام سے سمجھوتا نہ کر سکا ۔ کیونکہ اسے میلوں ٹھیلوں میں کشتی کبڈی بھی کرنی ہوتی تھی۔ پھر ہلہ کی پیلیوں میں ہر مہینے کی آخری اتوار کو میلہ بھی سجانا ہوتا تھا ۔
ایک وقت تھا کہ ریاست سیری کی شان سمجھا جاتا تھا ہر کوئی ریاست کا بالکل قریبی پڑوسی بنتا تھا دور دراز کے رشتے دار بھی اپنے آپ کو قریبی رشتے دار بتاتے تھے ریاست پر مکمل عروج تھا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ریاست کے ساتھ نجابت آن ملا ۔ نجابت بٹ برادری کا گورا چٹا لڑکا تھا پینڈ دادنخان کا رہنے والا سیری میں بطور مہمان آیا تو بٹ ابرار کے ساتھ ہلہ میلا دیکھنے گیا ۔ جب دیکھا کہ سیری کی طرف سے صرف ریاست ہی کھیلتا ہے تو میزبانوں سے اجازت لے کر اکھاڑے میں اترا ۔ اور سیری والوں کی طرف سے کبڈی کھیلا۔ چھوٹے قد اور کم عمری کے باوجود اس طرح کشتی کبڈی کھیلا کے سارا اکھاڑہ ہی اپنے نام کر لیا ۔ وہ خود سفید رنگت کا مالک تھا لیکن کالا لنگوٹ باندھتا تھا اس کے ساتھ ہی اس کی ایک ران پر بھی ایک روپے کے سکے جتنا سیاہ داغ تھا جو بہت خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ وہ پتہ نہیں تین چار دن کے لیے آیا تھا لیکن چار پانچ ماہ تک پھر وہ واپس جا نہ سکا ۔وہ اور ریاست کشتی کبڈی کی بہترین جوڑی ثابت ہوئے جب یہ اکھاڑ جیتتے تو ہلہ سے سیری تک ان کو کندھوں پر اٹھا کر لایا جاتا طافا ڈھول والا ڈھول بجاتا اور ہم بھنگڑا ڈالتے تالیاں اور سیٹیاں بجاتے یہ سفر کرتے۔ سیری کی طرف سے بازو گیری بھٹو (رفیق بٹ) اور اصغر کنی والا کرتے تھے یا پھر لالہ رزاق موڑ والا ۔ یہ ہار جیت دونوں کا مزا لیتے لیکن کبڈی پکی سیری کی تھی ۔ اس وقت ٹرافی وغیرہ کا رواج نہیں تھا ورنہ نجابت اور ریاست اتنی ٹرافیاں اور کپ لاتے کہ گھر والوں کو چائے اور سالن کے برتن کبھی نہ لینے پڑتے ۔ ان کے مقابلے میں دربار گھوڑے شاہ سے گجر برادری کے تین بھائی نذیر بدر اور قاسم گوڑھا سے ایک آدمی جس کو فوجی کہا کرتے تھے پیلاں سے شاہ جی انکم ٹیکس والے چوکی سے راجا جابر بارڈر سے چودھری ضمیر ملک آمین کھینٹی سے صدیق بھٹو اور منجواڑ سے چودھری عارف جگا ہوا کرتے تھے۔
ہلہ میں ہفتہ وار اور مہینہ وار کھیل مقابلے ہوا کرتے تھے گھوڑوں کے ڈانس نیزہ بازی بیلوں کی دوڑ ہوا کرتی تھی مرد ایسے میلوں میں شامل ہونے کے لیے جسمانی لحاظ سے فٹ ڈاٹ ہوتے تھے ہائی بلڈ پریشر کولیسٹرول جوڑوں کے درد وغیرہ انیس سو چوراسی پچاسی تک سنے ہی نہیں تھے ۔ صحت کے لیے کھیل نہایت ضروری ہوتے ہیں لیکن یہ کھیل سدا نہ رہ سکے کیوں کہ ایسے ہی کھیل ہو رہے تھے جب کسی نے پتھر مار کر محمد مالک عرف ماکو کو قتل کر دیا تھا ۔ یہ میری سیری کا پہلا قتل تھا اس قتل سے یوں خوف و ہراس پھیلا کہ ہلہ ہمیشہ کے لیے یاد ماضی بن کر رہ گئی ۔ لوگوں نے یہ چھوٹے چھوٹے میلوں کے انقعاد کرنے چھوڑ دیے۔
اچھے مستقبل کی غرض سے نوجوان پردیسی ہو گے ۔ انہی پردیسیوں میں ریاست بھی شامل تھا ۔ ریاست سعودیہ چلا گیا وہاں وہ اپنے کشتی کبڈی کے شوق کو تو برقرار نہ سکا لیکن گاڑیوں کی ایک کمپنی میں بطور مکینک کام شروع کر دیا بارہ تیرہ سال تک اسی ایک ہی کمپنی میں رہا۔ اچھی صحت اچھی شریک حیات اچھا روزگار ہی ہر کسی کو مطلوب ہوتا ہے یہ نعمتیں اسے میسر تھیں۔ زندگی ایک آنجانی منزل کی طرف گامزن تھی کہ ایک دن جی ایم سی ڈبل ڈور چیک آپ کی غرض سے ابھی گیراج سے نکالی ہی تھی کہ حادثے کا شکار ہو گئی۔ گاڑی کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی چوٹیں آئی جو ظاہری تھیں وہ ایک دو ہفتوں میں ہی ٹھیک ہو گئی لیکن کمر کی چوٹ سوہان روح بن گئی۔ پانچ چھ ماہ تک وہی زیر علاج رہا برٹش کمپنی کی ملازمت تھی سارے اخراجات بذمہ کمپنی تھے لیکن درد تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ پھر پردیس خود ایک بیماری ہے کسی نے گھر جانے کا مشورہ دیا تو آخر وہ کمر درد کے ساتھ ہی گھر آ گیا ۔
بیوی بچوں بہن بھائیوں کی رفاقت نے دل کی گھٹن تو کم کی لیکن مکمل علاج نہ ہونے کے باعث کمر درد ٹانگوں کو مکمل مفلوج کر گیا ۔ اب کمر سے اوپر کا حصہ تو ٹھیک تھا لیکن ٹانگیں پولیو زدہ مریض کی طرح ہو گئی تھی۔ وہ ریاست جو کبڈی میں حریف کھلاڑی کے اوپر سے جھنپ لگا کر چٹکی بجاتے ہوئے سنٹر پوائنٹ کو کراس کر جاتا تھا اب پورا دن بیٹھا مور کی طرح اپنی ٹانگوں کو دیکھتے رہتا ۔ کبھی دل بہلانے کے لیے گھر والوں سے کہہ کر چارپائی کھومبے والی اس جگہ پر رکھوا لیتا جہاں کبھی بلغوندروں پڑا ہوتا تھا ۔ رستے میں آتے جاتے لوگوں سے علیک سلیک ہوتی رہتی تو دل بہل جاتا ۔ کبھی کھینٹی والے بٹ مشتاق ادھر سے گزرتے تو زیتون کے تیل کی مالش کا مشورہ دیتے پھر خود ہی کہتے چوارہ(بےچارہ) پوری دیہاڑ ہی بہی بہی تھکی جاناں اے۔ ریاست کی اس معذوری کا یوں تو سب کو دکھ تھا لیکن خاص کر ان لوگوں کو زیادہ دکھ ہوتا جھنوں نے اس کی جوانی اور پہلوانی دونوں دیکھی ہوئیں تھیں ۔ ریاست دوران پہلوانی سانس کا اسٹیمنا بنانے کے لیے اکثر گھاس کی جڑیں جن کو کھبل کی دیرڑھ کہا جاتا وہ چبایا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہونٹوں پر ہلکی سی مٹی لگی دیکھائی دیتی رہتی تھی ۔ کہیں پرانے لوگ کہا کرتے تھے کھبل خون پیدا کرتا ہے اور سانس کو کنٹرول میں رکھتا ہے ۔ شاید درست ہی کہتے ہوں لیکن بہت عرصہ ہو گیا ہے پھر کسی کو کھبل چباتے نہیں دیکھا ۔
میری آخری ملاقات جو تقریبا بیس بائیس سال بعد ہوئی نظری ملاقات تک ہی محدود رہی، یہ نظری ملاقات بھی آج سے بارہ سال پہلے ہوئی تھی وہ بھی جہاں آج کل ملک رینٹ اے کار والوں کا شو روم ہے وہاں اپنی شریک حیات کے ساتھ ایک وہیل چئیر پر بیٹھا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا پیلی زرد رنگت شانے ایسے جھک چکے تھے جیسے اسی سال والے بوڑھے کا کوٹ لٹک رہا ہوتا ہے ورزش سے بنائی ہوئی چھاتی بس ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہی تھی کافی عرصے کے بعد دیکھا تو میں پہچان نہ سکا لیکن وہیل چئیر کی وجہ سے تھوڑا جاننے کا تجسس ہوا تو حاجی زمان ٹینٹ سروس والوں سے پوچھا کہ یہ آدمی کون ہے کہنے لگے تساں جانے ہوسو۔ میں نے کہا اگر میں جانتا ہوتا تو پوچھتا کیوں کہنے لگے جانے ہو صرف پشانے کوئی نو، میں نے کہا آپ بتا دیں کہنے لگے جی یہ مستری ریاست ہے جسے کبھی پہلوان ریاست کہتے تھے یہ سن کر نہ آنکھوں پر اعتبار آیا نہ کانوں پر ۔ ان کی منہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا صحیح آخنے او کہنے لگے آخو صحیح آخیا ۔ بس پھر کیا تھا یادیں وہاں جا پہنچی جہاں سے ریاست کی جوانی شروع ہوئی تھی یہ وہی ریاست تھا جو سیری کا فخر ہوا کرتا تھا ۔ملنے اور حال احوال پوچھنے کی سوجی لیکن ساتھ کھڑی خاتون کی وجہ سے مل نہ سکا جس کا قلق شاید عمر بھر رہے گا ۔
زندگی کے ہزاروں نشیب و فراز دیکھنے کے بعد ریاست دو ڈھائی ماہ پہلے سیری سے روٹھ گیا ہے ۔ بہت مشہور پہلوان بہت ہی خاموشی کی موت مر گیا ۔لیکن اپنی یادیں سیری کو سونپ گیا ۔ باوے جلال کا کھومبا بھی پہلے سا نہیں رہا نہ ہی وہ درخت رہے اور نہ ہی ان درختوں کے نیچے اب کوئی بلغوندروں رہا ۔
تحریر:- گل زیب انجم زیب
سیری نیشنل سائنس کالج کے سامنے سے عقب تک کی ساری زمین نہایت ہی زرخیز ہوا کرتی تھی ۔ سیری اڈہ میں جہاں آج کل دانے پسائی والی مشین لگی ہوئی یے یہاں سے باوئے جلال کے کھومبھے تک کی ساری زمین ہی پوری سیری کی رونق کہلاتی تھی ۔ اس سارے کاشت کار رقبے کے درمیان سے ایک رستہ گزرتا تھا جو سیری بازار کی سڑک سے دوگنا تھا اسی لیے وہ رستے کے بجائے پارلی سڑک کہلاتا تھا ۔ بچے اس سڑک پر اٹی ٹلا اور کھنڈوری ڈنڈا بھی کھیلا کرتے تھے گھڑسوار گھوڑیوں کی ٹانگیں سیدھی کرنے کی غرض سے تھوڑی دوڑ لگوایا کرتے تھے۔ آڑک بہیڑوں کو کڑھا پر جوت کر ہالی بھی اسی سڑک پر کیا جاتا تھا ۔ پارلی بائیں(باولی) سے پانی لانے اور دہریاں کی کسی پر نہانے کے علاوہ عیدین کی نماز کے لیے بھی اسی سڑک سے جایا جاتا تھا۔ وقت بدلہ لوگوں میں زمین کی ہوس نے ڈھیرے جمائے دونوں اطراف والوں نے سڑک کو باڑی میں شامل کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی تو پارلی سڑک پارلہ راہ بن کر رہ گئی ۔ اب اس راہ پر بمشکل دو آدمی ایک ساتھ چل سکتے ہیں ۔ پارلی بائیں جاتے ہوئے اسی راہ کے آخر پر باوے جلال کا گھر تھا جس کو بہت کم لوگوں نے باوے جلال کا گھر کہا بلکہ جس سے بھی سنا باوے جلال کا کھومبا(پچھواڑ) ہی سنا ۔ یہ کھومبا دراصل راہگیروں کے لیے بطور ریسٹ ایریا کی سہولت مہیا کرتا تھا ۔ یہاں دو تین درخت بھی تھے جن کی وجہ سے یہ کھومبا ٹھنڈا رہتا تھا ۔ باولی(چشمہ) سے واپس آنے والے اس کھومبھے کو لازمی رفاقت بخشتے تھے کیونکہ باولی سے لے کر یہاں تک ساری چڑھائی ہی تھی جو گرمیوں کے علاوہ سردیوں میں بھی پسینہ نکال اور سانسیں بے ترتیب کر دیتی تھی ۔ اس لیے راہی سانسوں کو ہموار کرنے کے لیے کھومبے کو اپنی رفاقت کا ضرور شرف بخشتے تھے۔ انہی درختوں کے نیچے ایک پتھر بھی پڑا ہوتا تھا جسے مقامی زبان میں بلغوندروں کہا جاتا ہے ۔ ہمارا جب وہاں سے گزر ہوتا تو اس کو اٹھانے کی کوشش کرتے لیکن بس ہاتھ لگا کر ہی ہٹ جاتے تھے کیونکہ وہ بہت بھاری تھا ۔ اسے اگر ہم میں سے کوئی زمین سے دو تین انچ اوپر تک اٹھا سکتا تھا تو وہ اسد تھا جس کو فلاتو کہا کرتے تھے ۔ فلاتو جب اس بلغوندروں کو اٹھا پھینک رہا ہوتا تو آواز سن کر باوے جلال جی کا بھتیجا گنجی کھومبے آ جاتا ۔ اسد کو یوں بلغوندروں کے ساتھ لڑتے دیکھ کر کہتا اوے فلاتو جا مکھن کا ایک پیڑا اور کھا کر آ۔ اسد کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ گھی مکھن بہت کھاتا ہے اس لیے گنجی نے اسے کہا تھا ۔ اسد ہنس کر کہتا آلا توں چک آں ۔ یہ سن کر گنجی جس کا اصل نام ریاست تھا وہ قیمض کے دامن کو شلوار کے اندر ڈالتا اور ہاتھ کی انگلیوں کو مروڑتا پھر دونوں ہاتھوں کو ملا کر ایک انگڑائی سی لیتا ۔ سب لڑکوں کی طرف ہونٹوں کو بیھچتے ہوئے دیکھتا بلغوندروں کے پاس جاتا سیدھا ہاتھ لگا کر چومتا اور ہاتھ بلغوندروں کی ہتھی میں ڈالتے ہوئے پہلے اس کا بیلنس برابر کرتا پھر جھٹکے کے ساتھ سینے تک لاتا اسی کے ساتھ ہی کندھے پر لے جاتا علی کہہ کر سر کے اوپر کر کے ایک ہاتھ سے پتھر تھامتا اور دوسرا ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ کر سب کو دیکھتے ہوئے اوچھل کر پھینک دیتا۔ پھر مسگراتے ہوئے کہتا فلاتو تکیا ای۔
بلغوندروں اس وقت کے لوگوں کی جرآت کی نشانی ہوتا تھا ۔ بلکہ اس وقت کے کھیل بھی یہی ہوتے تھے کشتی کبڈی بازو گیری اور پتھر اٹھانا یہ پتھر دو قسم کی ہوتے تھے ایک کو تو بلغوندروں کہتے تھے یہ مربع شکل کا ہوتا تھا اور اس کو بناتے وقت اسے پکڑنے کے لیے جگہ بنائی جاتی تھی جسے ہتھی کہا جاتا تھا اور دوسرا پتھر فٹبال کی طرح گول ہوتا تھا جسے اٹھانا بلغوندروں کی بانسبت مشکل تھا کیونکہ اسے پکڑنے کے لیے جگہ نہیں بنائی جاتی تھی ۔
ریاست کشتی کبڈی کے ساتھ ساتھ بلغوندروں بھی اٹھایا کرتا تھا درمیانے قد اور فولادی جسم کا مالک تھا یہ جسم اس نے بڑی محنت سے بنایا تھا غریبی کا زمانہ تھا آج کی طرح کی کوئی سہولت میسر نہ تھی پھر بھی اس نے شوق اور محنت سے اپنے آپ کو اس قدر بنا رکھا تھا کہ پورے جسم کے مسل الگ الگ نظر آتے ۔ یہ تینوں بھائی ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والدین کی محبت سے محروم ہو گئے تھے بڑی بہن نے اپنے چچا جلال کی سرپرستی میں ماں بن کر ان کو پالا ۔ ابھی میسں ہی نہ بھیگی تھی کہ یہ خاندانی پیشے میں جت چکے تھے۔ تعظیم اور مختار نے تعمیراتی کام شروع کر دیا دونوں بھائی اچھے کاریگر مانے جاتے تھے اس لیے کافی کام ان کو ملنے لگا ۔ ریاست بھی کام جانتا تھا لیکن مسلسل وہ اس کام سے سمجھوتا نہ کر سکا ۔ کیونکہ اسے میلوں ٹھیلوں میں کشتی کبڈی بھی کرنی ہوتی تھی۔ پھر ہلہ کی پیلیوں میں ہر مہینے کی آخری اتوار کو میلہ بھی سجانا ہوتا تھا ۔
ایک وقت تھا کہ ریاست سیری کی شان سمجھا جاتا تھا ہر کوئی ریاست کا بالکل قریبی پڑوسی بنتا تھا دور دراز کے رشتے دار بھی اپنے آپ کو قریبی رشتے دار بتاتے تھے ریاست پر مکمل عروج تھا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ریاست کے ساتھ نجابت آن ملا ۔ نجابت بٹ برادری کا گورا چٹا لڑکا تھا پینڈ دادنخان کا رہنے والا سیری میں بطور مہمان آیا تو بٹ ابرار کے ساتھ ہلہ میلا دیکھنے گیا ۔ جب دیکھا کہ سیری کی طرف سے صرف ریاست ہی کھیلتا ہے تو میزبانوں سے اجازت لے کر اکھاڑے میں اترا ۔ اور سیری والوں کی طرف سے کبڈی کھیلا۔ چھوٹے قد اور کم عمری کے باوجود اس طرح کشتی کبڈی کھیلا کے سارا اکھاڑہ ہی اپنے نام کر لیا ۔ وہ خود سفید رنگت کا مالک تھا لیکن کالا لنگوٹ باندھتا تھا اس کے ساتھ ہی اس کی ایک ران پر بھی ایک روپے کے سکے جتنا سیاہ داغ تھا جو بہت خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ وہ پتہ نہیں تین چار دن کے لیے آیا تھا لیکن چار پانچ ماہ تک پھر وہ واپس جا نہ سکا ۔وہ اور ریاست کشتی کبڈی کی بہترین جوڑی ثابت ہوئے جب یہ اکھاڑ جیتتے تو ہلہ سے سیری تک ان کو کندھوں پر اٹھا کر لایا جاتا طافا ڈھول والا ڈھول بجاتا اور ہم بھنگڑا ڈالتے تالیاں اور سیٹیاں بجاتے یہ سفر کرتے۔ سیری کی طرف سے بازو گیری بھٹو (رفیق بٹ) اور اصغر کنی والا کرتے تھے یا پھر لالہ رزاق موڑ والا ۔ یہ ہار جیت دونوں کا مزا لیتے لیکن کبڈی پکی سیری کی تھی ۔ اس وقت ٹرافی وغیرہ کا رواج نہیں تھا ورنہ نجابت اور ریاست اتنی ٹرافیاں اور کپ لاتے کہ گھر والوں کو چائے اور سالن کے برتن کبھی نہ لینے پڑتے ۔ ان کے مقابلے میں دربار گھوڑے شاہ سے گجر برادری کے تین بھائی نذیر بدر اور قاسم گوڑھا سے ایک آدمی جس کو فوجی کہا کرتے تھے پیلاں سے شاہ جی انکم ٹیکس والے چوکی سے راجا جابر بارڈر سے چودھری ضمیر ملک آمین کھینٹی سے صدیق بھٹو اور منجواڑ سے چودھری عارف جگا ہوا کرتے تھے۔
ہلہ میں ہفتہ وار اور مہینہ وار کھیل مقابلے ہوا کرتے تھے گھوڑوں کے ڈانس نیزہ بازی بیلوں کی دوڑ ہوا کرتی تھی مرد ایسے میلوں میں شامل ہونے کے لیے جسمانی لحاظ سے فٹ ڈاٹ ہوتے تھے ہائی بلڈ پریشر کولیسٹرول جوڑوں کے درد وغیرہ انیس سو چوراسی پچاسی تک سنے ہی نہیں تھے ۔ صحت کے لیے کھیل نہایت ضروری ہوتے ہیں لیکن یہ کھیل سدا نہ رہ سکے کیوں کہ ایسے ہی کھیل ہو رہے تھے جب کسی نے پتھر مار کر محمد مالک عرف ماکو کو قتل کر دیا تھا ۔ یہ میری سیری کا پہلا قتل تھا اس قتل سے یوں خوف و ہراس پھیلا کہ ہلہ ہمیشہ کے لیے یاد ماضی بن کر رہ گئی ۔ لوگوں نے یہ چھوٹے چھوٹے میلوں کے انقعاد کرنے چھوڑ دیے۔
اچھے مستقبل کی غرض سے نوجوان پردیسی ہو گے ۔ انہی پردیسیوں میں ریاست بھی شامل تھا ۔ ریاست سعودیہ چلا گیا وہاں وہ اپنے کشتی کبڈی کے شوق کو تو برقرار نہ سکا لیکن گاڑیوں کی ایک کمپنی میں بطور مکینک کام شروع کر دیا بارہ تیرہ سال تک اسی ایک ہی کمپنی میں رہا۔ اچھی صحت اچھی شریک حیات اچھا روزگار ہی ہر کسی کو مطلوب ہوتا ہے یہ نعمتیں اسے میسر تھیں۔ زندگی ایک آنجانی منزل کی طرف گامزن تھی کہ ایک دن جی ایم سی ڈبل ڈور چیک آپ کی غرض سے ابھی گیراج سے نکالی ہی تھی کہ حادثے کا شکار ہو گئی۔ گاڑی کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی چوٹیں آئی جو ظاہری تھیں وہ ایک دو ہفتوں میں ہی ٹھیک ہو گئی لیکن کمر کی چوٹ سوہان روح بن گئی۔ پانچ چھ ماہ تک وہی زیر علاج رہا برٹش کمپنی کی ملازمت تھی سارے اخراجات بذمہ کمپنی تھے لیکن درد تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ پھر پردیس خود ایک بیماری ہے کسی نے گھر جانے کا مشورہ دیا تو آخر وہ کمر درد کے ساتھ ہی گھر آ گیا ۔
بیوی بچوں بہن بھائیوں کی رفاقت نے دل کی گھٹن تو کم کی لیکن مکمل علاج نہ ہونے کے باعث کمر درد ٹانگوں کو مکمل مفلوج کر گیا ۔ اب کمر سے اوپر کا حصہ تو ٹھیک تھا لیکن ٹانگیں پولیو زدہ مریض کی طرح ہو گئی تھی۔ وہ ریاست جو کبڈی میں حریف کھلاڑی کے اوپر سے جھنپ لگا کر چٹکی بجاتے ہوئے سنٹر پوائنٹ کو کراس کر جاتا تھا اب پورا دن بیٹھا مور کی طرح اپنی ٹانگوں کو دیکھتے رہتا ۔ کبھی دل بہلانے کے لیے گھر والوں سے کہہ کر چارپائی کھومبے والی اس جگہ پر رکھوا لیتا جہاں کبھی بلغوندروں پڑا ہوتا تھا ۔ رستے میں آتے جاتے لوگوں سے علیک سلیک ہوتی رہتی تو دل بہل جاتا ۔ کبھی کھینٹی والے بٹ مشتاق ادھر سے گزرتے تو زیتون کے تیل کی مالش کا مشورہ دیتے پھر خود ہی کہتے چوارہ(بےچارہ) پوری دیہاڑ ہی بہی بہی تھکی جاناں اے۔ ریاست کی اس معذوری کا یوں تو سب کو دکھ تھا لیکن خاص کر ان لوگوں کو زیادہ دکھ ہوتا جھنوں نے اس کی جوانی اور پہلوانی دونوں دیکھی ہوئیں تھیں ۔ ریاست دوران پہلوانی سانس کا اسٹیمنا بنانے کے لیے اکثر گھاس کی جڑیں جن کو کھبل کی دیرڑھ کہا جاتا وہ چبایا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہونٹوں پر ہلکی سی مٹی لگی دیکھائی دیتی رہتی تھی ۔ کہیں پرانے لوگ کہا کرتے تھے کھبل خون پیدا کرتا ہے اور سانس کو کنٹرول میں رکھتا ہے ۔ شاید درست ہی کہتے ہوں لیکن بہت عرصہ ہو گیا ہے پھر کسی کو کھبل چباتے نہیں دیکھا ۔
میری آخری ملاقات جو تقریبا بیس بائیس سال بعد ہوئی نظری ملاقات تک ہی محدود رہی، یہ نظری ملاقات بھی آج سے بارہ سال پہلے ہوئی تھی وہ بھی جہاں آج کل ملک رینٹ اے کار والوں کا شو روم ہے وہاں اپنی شریک حیات کے ساتھ ایک وہیل چئیر پر بیٹھا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا پیلی زرد رنگت شانے ایسے جھک چکے تھے جیسے اسی سال والے بوڑھے کا کوٹ لٹک رہا ہوتا ہے ورزش سے بنائی ہوئی چھاتی بس ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہی تھی کافی عرصے کے بعد دیکھا تو میں پہچان نہ سکا لیکن وہیل چئیر کی وجہ سے تھوڑا جاننے کا تجسس ہوا تو حاجی زمان ٹینٹ سروس والوں سے پوچھا کہ یہ آدمی کون ہے کہنے لگے تساں جانے ہوسو۔ میں نے کہا اگر میں جانتا ہوتا تو پوچھتا کیوں کہنے لگے جانے ہو صرف پشانے کوئی نو، میں نے کہا آپ بتا دیں کہنے لگے جی یہ مستری ریاست ہے جسے کبھی پہلوان ریاست کہتے تھے یہ سن کر نہ آنکھوں پر اعتبار آیا نہ کانوں پر ۔ ان کی منہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا صحیح آخنے او کہنے لگے آخو صحیح آخیا ۔ بس پھر کیا تھا یادیں وہاں جا پہنچی جہاں سے ریاست کی جوانی شروع ہوئی تھی یہ وہی ریاست تھا جو سیری کا فخر ہوا کرتا تھا ۔ملنے اور حال احوال پوچھنے کی سوجی لیکن ساتھ کھڑی خاتون کی وجہ سے مل نہ سکا جس کا قلق شاید عمر بھر رہے گا ۔
زندگی کے ہزاروں نشیب و فراز دیکھنے کے بعد ریاست دو ڈھائی ماہ پہلے سیری سے روٹھ گیا ہے ۔ بہت مشہور پہلوان بہت ہی خاموشی کی موت مر گیا ۔لیکن اپنی یادیں سیری کو سونپ گیا ۔ باوے جلال کا کھومبا بھی پہلے سا نہیں رہا نہ ہی وہ درخت رہے اور نہ ہی ان درختوں کے نیچے اب کوئی بلغوندروں رہا ۔