جیلانی صاحب، گزارش ہے کہ ایک موضوع کو ایک ہی دھاگے میں شروع کیا کیجیے۔ میں نے آپ کے شروع کئے گئے دونوں دھاگے یک جا کردیے ہیں۔
واہ جیلانی کیا بات ہے۔
غالبا شکیل بدایونی کا کلام ہے
وہی آبلے ہیں وہی جلن کوئی سوزِ دل میں کمی نہیں
جو لگا کے آگ گئے تھے تم وہ لگی ہوئی ہے بجھی نہیں
میری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کاالم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ بہار خزاں سے کم نہیں
تیری یاد ایسی ہے باوفا پسِ مرگ بھی نہ ہوئی جدا
تیری یاد میں ہم مٹ گئے تیری یاد دل سے مٹی نہیں
وہی کارواں ، وہی راستے وہ زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں
نہ فنا میری نہ بقا میری مجھے اے شکیل نہ ڈھونڈیے
میں کسی کا حسن خیال ہوں میرا کوئی و جود و عدم نہیں
دیر سے جواب دینے کے لئے معذرت چاہتا ہوں لیکن قوی امکان یہی ہے کہ یہ غزل شکیل بدایونی کی ہے۔ کسی زمانے میں میرے پاس شکیل کا دیوان موجود تھا کوشش کرتا ہوں ڈھونڈنے کی، اگر مل گیا تو دیکھ کر مزید وثوق سے مطلع کر سکوں گا۔