مہدی نقوی حجاز
محفلین
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
جب کبھی نظام خلقت کی تحقیق میں قدم فرسائی کی، تا حد نگاہ سراب ہی نظر آیا۔ حضرت انسان کو اس صحرا میں مختلف سمتوں میں جاتے دیکھا۔
· کسی نے حیات کا مقصد خدا جانا،
· تو کسی نے اسے بے مقصد قرار دیا،
· کوئی اسے آرزو اور انتظار سے جڑ گیا بقول بہادر شاہ ظفر
· کسی نے مادیت کو اپنا مقصد حیات جانا
اسد اللہ خان غالب کے بقول؛
· کسی نے حیات کا مقصد حصول جنت قرار دیا، ان جیسے لوگوں سے ہم کلام ہو کر مرزا یگانہ رقم کرتے ہیں۔
· اور کسی نے حیات ہی کا انکار کر دیا اور یہ کہ گیا کہ ہم تو زندہ ہی نہیں بلکہ کسی کا خواب ہیں جو مختصر مدت کے بعد ختم ہو جائے گا،
· اور کسی نے اس تگ و دو میں ہار کر اپنے آپ کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا اور یہی مسلک عوام الناس کا ہے۔ ان کی مذمت میں ڈپٹی نظیر احمد فرماتے ہیں؛
اگر اقبال کے افکار کی روشنی میں شعر سنجی کے پرکار سے عقل کو مرکز بناتے ہوئے آئندہ بشر کے صفحے پر دائرہ تجسیم اعمال نصب کریں تو یقیناً اقبال کے اس شعر سے یہ مفہوم اخذ ہو جائے گا کہ اقبال لفظ "پیدا" کا استعمال کر کہ اس نکتہ ریز کی جانب نشاندہی کر رہے ہیں کہ انسان اپنا مقصد حیات جو بھی سمجھتا رہے لیکن انجام معین ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ؛
اور جب یہ سر تاج مخلوقات یعنی کہ انسان ان اہداف اصلی کو درک کر کہ کامیابی کی سرزمین کی جانب گامزن ہوتا ہے تو، ہوائیں اس کے استقبال کے لئے آتی ہیں، خوشبو کی مہک پھول سے جدا ہو کر اس کی کامرانی کا آہنگ گاتی ہے، پرندے پر توڑتے اور سر جوڑتے گروہ در گروہ خوش آمدید کے نعرے لگاتے آتے ہیں اور ساتھ ہی، خورشید و ماہ، ستارہ و کہکشاں، جن و پری سب حسرت کی ایک نظر اس پر اس طرح کرتے ہیں کہ اسے محسوس بھی نہیں ہوتا اور وہ اقبال کے اس شعر کا مصداق کہلاتا ہے۔
جب کبھی نظام خلقت کی تحقیق میں قدم فرسائی کی، تا حد نگاہ سراب ہی نظر آیا۔ حضرت انسان کو اس صحرا میں مختلف سمتوں میں جاتے دیکھا۔
· کسی نے حیات کا مقصد خدا جانا،
· تو کسی نے اسے بے مقصد قرار دیا،
· کوئی اسے آرزو اور انتظار سے جڑ گیا بقول بہادر شاہ ظفر
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دندو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
· اور کوئی اسے انسانیت کی خدمت سے جوڑ گیا، · کسی نے مادیت کو اپنا مقصد حیات جانا
اسد اللہ خان غالب کے بقول؛
کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جاآوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے
اکثر قارئین اس "ٹھنڈے مکان" سے یہ مطلب اخذ کر بیٹھتے ہیں کہ غالب کہنا چاہتے ہیں کہ یہ جہان خدا آفریدہ ایک پرسکون آرامگاہ ہے۔ جب کہ اگر کسی موقع پر کسی سرد حجرے میں گرفتار ہونے کا موقع ملے تو جناب اس سے راحت پانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ اور اگر پھر بھی راحت نہ پا سکیں تو تڑپ تڑپ کر وہیں تلف ہو جائیں۔ · کسی نے حیات کا مقصد حصول جنت قرار دیا، ان جیسے لوگوں سے ہم کلام ہو کر مرزا یگانہ رقم کرتے ہیں۔
وطن کو چھوڑ کہ پہنچا غریب جنت میں
یہاں سے اور کہاں جائے کس طرح جائے
· کسی نے مقصد حیات کو عشق ثابت کیا، اور کہا، عشق کرو، دنیا کی جھونپڑی عشق کے محاصرے میں ہے، بغیر عشق زندگانی وبال ہے، عشق میں دل باختگی کمال ہے، عشق بناتا ہے، عشق جلتا ہے، اس دنیا میں سب عشق کا ظہور ہے، آگ اس کا تپنا ہے، پانی اس کا بہنا ہے، مٹی اس کا ٹھہرنا ہے، ہوا اس کا پھڑکنا ہے، موت اس کا جھومنا ہے، دن اس کا جاگنا ہے، مسلمان اس کا جمال ہے، کافر اس کا جلال ہے، جنت اس کا شوق ہے، دوزخ اس کا ذوق ہے، عشق کا مقام عبادت و عرفان، زہد و صداقت، اخلاص و اشتیاق، سب سے بر تر ہے۔یہاں سے اور کہاں جائے کس طرح جائے
· اور کسی نے حیات ہی کا انکار کر دیا اور یہ کہ گیا کہ ہم تو زندہ ہی نہیں بلکہ کسی کا خواب ہیں جو مختصر مدت کے بعد ختم ہو جائے گا،
· اور کسی نے اس تگ و دو میں ہار کر اپنے آپ کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا اور یہی مسلک عوام الناس کا ہے۔ ان کی مذمت میں ڈپٹی نظیر احمد فرماتے ہیں؛
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
· کسی نے زندگی کا مقصد درد دل قرار دیا، بقول شخصے درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اور بقول غالبورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
غم ہستی کا اسد کیسے ہو جزو مرگ علاجشمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
اسی طرح حضرت اقبال بالِ جبریل حصہ دوم کی ایک غزل میں اس طرح اس خیال کو نظم کرتے ہیں۔وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہیں
اس مقام پر اقبال انسانی جذبات کے ساغر کو ایمان کی مہ سے لبریز کرتے ہوئے لب کشائی کر رہے ہیں کہ اس دنیا کے آسمان و فضا، چاند و چاندنی، ہوا و جھونکے، ساون و بہار، چرند و پرند، بلبل و مینا، ساون و بدلی، رم جھم و برکھا، شعلہ و شبنم، مشک و عنبر، گلاب و شباب، چمپا و لالہ، دریا و جھرنا، گلستان و بوستان، باغ و بہار، کوہستان و لالہ زار، آبشار و کوہسار، کھیتوں کا لہلہانا، چڑیوں کا چہچہانا، بلبل کا گانا گانا، یہ سب اس دنیا کا حسن تو ہیں لیکن انتہا نہیں اور انسان گلستان کے حسن سے لطف اندوز تو ہو سکتا ہے لیکن یہ گلستان عظیم مسافر کی منزل نہیں ہو سکتا۔یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہیں
اگر اقبال کے افکار کی روشنی میں شعر سنجی کے پرکار سے عقل کو مرکز بناتے ہوئے آئندہ بشر کے صفحے پر دائرہ تجسیم اعمال نصب کریں تو یقیناً اقبال کے اس شعر سے یہ مفہوم اخذ ہو جائے گا کہ اقبال لفظ "پیدا" کا استعمال کر کہ اس نکتہ ریز کی جانب نشاندہی کر رہے ہیں کہ انسان اپنا مقصد حیات جو بھی سمجھتا رہے لیکن انجام معین ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ؛
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اگر ژرف نگاہی سے اس موضوع کی طرف دیکھیں تو یہ معلوم ہو گا کہ انسان جو عمل بھی زندگی میں انجام دے گا وہ مجسم حالت میں اسکی، سزا و جزا، آتش و شبنم، قلادہ و گلو بند، دوزخ و جنت، معین کرے گا۔یہ گھڑی محشر کی ہے تْو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
ان تمام نظریات کے پیش ہونے کے بعد اقبال کا یہ شعر بہت ہی واضح الفاظ میں یہ چلاتا نظر آتا ہے کہ اے انسان آج ہی محشر ہے اور وہ میدان جس میں تو اس وقت ہے وہی میدان حشر ہے، جو کرو گے سو وہ ہی مجسم ہو کر تمہاری کامرانی حقیقی اور ناکامی ابدی کا باعث بنے گا،اور جب یہ سر تاج مخلوقات یعنی کہ انسان ان اہداف اصلی کو درک کر کہ کامیابی کی سرزمین کی جانب گامزن ہوتا ہے تو، ہوائیں اس کے استقبال کے لئے آتی ہیں، خوشبو کی مہک پھول سے جدا ہو کر اس کی کامرانی کا آہنگ گاتی ہے، پرندے پر توڑتے اور سر جوڑتے گروہ در گروہ خوش آمدید کے نعرے لگاتے آتے ہیں اور ساتھ ہی، خورشید و ماہ، ستارہ و کہکشاں، جن و پری سب حسرت کی ایک نظر اس پر اس طرح کرتے ہیں کہ اسے محسوس بھی نہیں ہوتا اور وہ اقبال کے اس شعر کا مصداق کہلاتا ہے۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے