وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی

نمرہ

محفلین
ہم نے نوازی میں کمال کا دعوی تو نہیں رکھتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ کہیں بھی ، کچھ بھی کبھی ہمارے کام نہیں آتا اس حد تک کہ خود پر شک ہونے لگتا ہے کہ ہماری پیشانی پر کہیں جلی حروف میں ہمیں ناکام رہنا ہے ہمیں ناکام رہنے دے کندہ ہے، ہر ممکنہ نگاہ لطف کو پہلے ہی خبردار کرنے کے لیے۔


ایک زمانہ تھا کہ ہم اپنے ملک کی ایک اچھی یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے۔ پڑھنا تو خیر محاورے کی رعایت سے کہتے ہیں، اہم کام تو صرف فیل ہونے کا ہوتا تھا ہمارا اس خرابے میں ایک دو لوگوں کے علاوہ۔ پھر ایک وقت آیا کہ ہم ادھر سے فارغ التحصیل تھے اور بیروزگار۔ ہر دو زمانوں میں ہم نے اپنی برگشتہ طالعی پر بساط بھر ہنگامہ کیے رکھا اور دنیا سے خوب خوب شکایت رکھی دل میں کہ ہم آخر کیوں پوری کائنات کی اگنور لسٹ پر سر فہرست پائے جاتے ہیں۔ دل میں رکھنے کا ذکر بھی کچھ غلط ہے کہ اس غریب کو تو ہم خلا کی طرح خالی رکھا کرتے ہیں اور گلے شکوے رکھنے کے لیے زبان کی نوک سے بڑھ کر کون سی جگہ بنائی گئی ہے۔ یوں بھی کم از کم ایک معاملے میں تو ہم میر کی برابری کا دعوی کر سکتے ہیں، یعنی اس طرح رونے دھونے میں کہ آس پاس کے لوگ سونے سے تو کیا، اپنی زندگی تک سے بیزار ہو جائیں۔ حال ہی میں ہمارے طرز بیان کی تشخیص کی گئی ہے اور بلاشبہ درست کی گئی ہے کہ ہم سے پانچ منٹ تک گفتگو کرنے کے بعد شبہ ہونے لگتا ہے کہ دنیا میں چہار سو ایک عظیم آگ برپا ہے، زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ رہی ہیں، آتش فشاں ابل رہے ہیں، آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر آ رہا ہے اور لوگ دس کے ملٹپل والی منزلوں سے جوق در جوق چھلانگ لگا رہے ہیں۔ سچ بات ہے کہ جس رنجیدہ فکری، دو رنگی اور ڈوئیلیٹی کی لوگ میر اور غالب میں تحسین کرتے ہیں اسی کے سبب تیسرے درجے کے شعرا کو ذلیل کیا جاتا ہے۔ وہی معاملہ ہے کہ سیاہ رنگ یا صفر کا پکسل کہیں سے کہیں پہنچ کر کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔


لیکن اس کے باوجود ہمارے ناکام ہونے میں گرچہ یک گونہ گہرائی ہوا کرتی تھی جسے اور کوئی نہیں تو کم از کم ہم خود محسوس کر لیا کرتے تھے مگر اب جب پلٹ کر نظر دوڑاتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری ناکامیاں اس نوعیت کی نہیں تھیں جن کا پرزور انداز میں ذکر کیا جا سکے۔ اس کے علاج کے لیے قسمت اور گھر والوں نے مل جل کر ہمیں اٹھا کر دنیا کی ایک اچھی یونیورسٹی میں پھینک دیا جس میں ہم اب ناکام پھرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ مریخ پر تعلیمی ادارے نہیں وگرنہ ہمارے ارتقا کا اگلا مرحلہ انٹر گلیکٹک سطح پر فیل ہونا ٹھہرتا۔


ناکامی سے ہمیں ویسے کوئی خاص تکلیف نہیں اور دنیا کے رواج کے برعکس ہم اپنی ہر ناکامی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں بلکہ گلے لگاتے ہیں کہ رہنا ہے ان کے ساتھ میاں عمر بھر ہمیں مگر یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ نارمل انسان اپنی زندگی میں کامیابیوں کے مدارج طے کرتے ہیں اور ہم ہمیشہ ناکامیوں کے زینے چڑھتے جاتے ہیں۔ کبھی اپنی زندگی کی کہانی ضابطہ تحریر میں لائیں تو بعینہ یہی الفاظ استعمال کریں۔ خیر یہاں ہمیں ندرت خیال نہ سہی تو ندرت حال کے نمبر ملنے چاہئیں لیکن دنیا کا معیار ہمارے معیار سے ملتا ہی کب ہے۔


پھر ہمیں ایک نظریاتی اختلاف بلکہ احساس تو ہوتا ہے کہ ناکامی کہیں موجود ہے لیکن اس کے علاوہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یوں بھی ہمارا ایمان ہے کہ کچھ ہے تو ٹھیک ہے اور نہیں ہے تو بھی ٹھیک ہے۔ اس قدر درویشی کام کے بندوں پر ہی سجتی ہے، ہم سے سہل طلب تو فقط خوبصورت نام والے بہانے ڈھونڈا کرتے ہیں حرکت سے بچنے کے۔ دنیا کو ٹھکرانے کا تصور بڑا دل فریب ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دنیا ہاتھ آئے۔ ہم کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر جوتے مرمت کرنے کا کام آج ہی سے شروع کر دیں مگر اس سے پہلے ایک طرف پھینکنے کے لیے ایک عدد تاج بھی ہونا چاہیے کہ زندگی اور دل کی طرح خالی رہنے والے بینک اکاؤنٹ کے ساتھ یہ منطقی آپشن ہے، درویشانہ نہیں۔ عام انسانوں کو اس قدر بھی سٹوئک نہیں ہونا چاہیے ورنہ دنیا کا نظام چلنا بند ہو جائے۔ کوئی دو مہینے ادھر ہمارے ایک عدد پرچے میں چلو بھر نمبر آئے اور ہم نے لوگوں کوبتایا کہ اس مضمون کی تاریخ میں کبھی کسی کے اتنے گنے چنے نمبر نہیں آئے ہوں گے۔ حیران کن امر یہ تھا کہ کمرہ امتحان سے نکل کر بھی ہمارے دانت اسی طرح نکلے ہوئے تھے جیسا کہ نکلے رہتے ہیں۔ وہ جو کسی نے حادثے کو دیکھ کر اپنی رو میں مگن رہنے والے لوگوں کو عظیم تر حادثے سے تعبیر کیا ہے تو ہمارے کیس میں بھی پریشان کن امر یہ تھا کہ اس کے بعد بھی کلاس کے وقت پر گھر میں سوئے رہنے کے ہمارے معمول پر سرمو اثر نہ پڑا اور نہ ہی ہم نے کتاب کی زیارت کرنے کی زحمت کی۔ یہاں تکنیکی مسئلہ یہ بھی تھا کہ کتاب کے پیسے ہم کھلونے خریدنے میں اڑا چکے تھے۔ ایسے ہی واقعات کے سبب ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ ہم نوع انسانی سے نہیں بلکہ گھڑوں کی کسی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔


ناکامیوں کے زینے چڑھنے کی تمثیل یوں بھی منطبق ہوتی ہے ہمارے حالات پر کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی ذمہ داریاں بڑھتی ہیں مگر ہماری طرف تو صرف ناکامیوں کا دائرہ پھیلتا جاتا ہے۔ پہلے ہم اپنے کمرے میں سامان بکھیر کر رکھتے تھے، اب پورے گھر میں پھیلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد پانچ چھ سے بڑھ کر بیس پچیس ہو گئی ہے جنھیں ہم دوستی کے نام پر دھوکا دیتے ہیں۔ کبھی ہم لوگوں سے بات نہیں کیا کرتے تھے، اب سننا بھی چھوڑ رکھا ہے۔ پہلے ڈویلیپمینٹ میں ڈرامے کیا کرتے تھے، اب ریسرچ میں کرتے ہیں۔ ویسے اسے ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آڈئینس کے ساتھ ساتھ ہمارا سٹیج بھی وسیع ہو رہا ہے مگر ہر قسم کی مثبت باتوں کا داخلہ منع ہے ہمارے ہاں۔ پہلے گھر آئے مہمانوں کی سوشل آکورڈنیس سے تواضع کی جاتی تھی، اب خود دعوت دے کر بلاتے ہیں اور اپنا پکایا ہوا کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ ان پر ترس کھاتے جاتے ہیں۔


بیروزگاری اور اس سے جنم لینے والی مفلوک الحالی، دونوں ہی ہماری زندگی کے اہم تھیمز ہیں اور ہم ان کا شعر و نثر میں صراحت سے ذکر کیا کرتے ہیں۔ ذکر کیا کرتے ہیں، رونا رویا کرتے ہیں اور یوں بھی ادب کا اس کے علاوہ کیا مصرف ہے ادیب کے لیے۔ ہم اسے ہی بیچ ڈالیں اور وہ بھی اخلاقی اندیشوں کے بغیر مگر یہ تو لوگ ردی کے بھاؤ بھی خریدنے کو تیار نہیں ہوا کرتے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی تحریروں سے آگ لگانا چاہتے ہیں دنیا میں تو ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ یہ آگ لگنے کی اہلیت رکھتی ہیں، لگانے کی نہیں۔ لیکن بیروزگار پھرنا اور وہ بھی ہماری یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد اور اس حد تک کہ ہم خود کو اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرنے کا مشورہ دینے پر غور کرنے لگیں، ذرا اچنبھے کی بات ہے اور اس پر ہمیں سراہے جانا چاہیے کہ ہم شاید یہ اہلیت رکھنے والے واحد انسان ہوں۔ لیکن زیادہ اچنبھے کی بات ہمارے خیال کی رو میں فیض کا در آنا ہے کہ ہم دیکھیں گے اور ہاتھ اٹھائیں قسم کے نعروں کے باعث انھیں ہم چھوٹے بچوں کا شاعر گردانا کرتے ہیں اور وہ بھی برملا۔


یہاں ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا روزگار کا معیار ذرا مختلف ہے اس طریقے سے جو دنیا میں رائج ہے۔ مثلا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے کونے کھدرے میں رہتے ہوئے ہی ہم سے آ کر درخواست کی جائے کہ فلاں مقام پر ایک پیچیدہ مسئلہ درپیش ہے اور بی بی آپ کے بغیر تو حل ہونے والا نہیں۔ ہم دور سے بہت امیدیں لے کر آئے ہیں تو آپ ذرا غور فرمائیے ورنہ ہمارا اور ہماری کاروں کا کیا بنے گا جنھیں چلنے کو ایندھن درکار ہوتا ہے اور ایندھن کے لیے دھن اور دھن کے لیے ایک آپریشنل دفتر۔ پھر ہم غور کریں سائنس اور شعر و ادب کے جہان میں پیدا ہونے والے اس خلا پر جس کا سبب ہماری دفتری مصروفیات بنیں گی مگر اپنی ازلی نرم دلی کے باعث ترس کھا جائیں ان تازہ تازہ کاروں پر جو ہماری بے نیازی سے چلنے والے چین ری ایکشن کے باعث اپنے اپنے گیراجوں میں کھڑی رہیں گی۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ہمارے جاننے والے ان فقروں پر پچاس مختلف زاویوں سے ہنس سکتے ہیں مگر ہم ایک تو سچ یعنی اپنی دلی آرزوئیں بلکہ فینٹسیز چھپاتے نہیں اور پھر لوگوں کو ہنسانے سے زیادہ اچھی بات ہے ہی کیا۔ یہ ضرور ہے کہ پھر ہم حسب عادت اپنی پسند پر چلتے ہیں اور کسی سے گفت و شنید کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ سمجھوتوں سے ہم یوں بھی گھبراتے ہیں کہ معاملہ بندی سے کہیں زیادہ آسان کام یہی ہے کہ تمام فریقین چپ چاپ اپنا اپنا راستہ لیں ، شامیں کسی کو مانگتی ہیں آج بھی فراق والا شعر کبھی کبھار پڑھنے کی اجازت کے ساتھ۔ پھر یہ شاید منافقت ہے کہ جب یہی اصول دنیا اور خصوصا ویسٹ کوسٹ کی دنیا ہم پر لاگو کرتی ہے اور ہم اپنی یونیورسٹی کے سنسان باغیچوں میں بھوت بن کر پھرا کرتے ہیں تپتی دوپہروں میں تو پھر ہمیں اعتراض ہوتا ہے۔


ویسٹ کوسٹ کے دفاع میں اتنی بات ضرور کہیں گے کہ پہلے کبھی ہم ڈیڈ لائن سے دو گھنٹے پہلے کام جمع کرایا کرتے تھے لیکن پھر ہم نے اوقیانوس پار کر لیا اور ہمیں ڈیڈ لائن کے دو ہفتے بعد کام کرنے کی عادت پڑ گئی۔ غلط بیانی تو ہم کرتے نہیں تو صاف صاف بتا دیا کرتے ہیں کہ ہم کام کرنے میں لیٹ ہو گئے تھے اور ہماری غریب الوطن صورت پر ترس کھا کر عموما ہمیں ڈانٹنے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ عذر پرستی اور بندہ پروری کی بھی انتہا ہوتی ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں ہمارے ساتھ بالکل برعکس سلوک کیا جاتا تھا، گھر کے اندر اور باہر۔ یہ ضرور ہوتا ہے کہ پھر لوگوں کے پاس ہمیں سرے سے نظر انداز کرنے کا آپشن بھی موجود ہوتا ہے اور وہ اسے استعمال بھی کر لیتے ہیں بلکہ آج کل کر رہے ہیں۔ آزادی کا یہ بڑا ٹیڑھا معاملہ ہے کہ جب موجود ہو تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے ، اس کا کچھ کرنا چاہیے۔ خیر مشرق وسطی میں لوگوں نے اس کا حل نکالا ہوا ہے مگر ادھر کوئی ڈکٹیٹر کی نشست خالی ہوتی نظر نہیں آتی کہ ہم قسمت آزمانے کا سوچیں۔


ناکامیوں سے اتنی جان پہچان کے بعد اصولا ہماری ان سے دوستی ہونی چاہیے مگر وہ ہمارے اور بہت سے تعلقات کی طرح یک طرفہ ہے اور ہم ہنوز ان سے کچھ ڈرا کرتے ہیں۔ رسک دشمنی کے مارے ہم بہت سارے کام کرنے پر تیار نہیں ہوتے کہ جن میں ناکامی کا صفر سے ذرا بھی اوپر امکان ہو۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہم کام ٹیک میں کیا کرتے ہیں مگر محتاط پرستی میں فائنانس والوں سے آگے ہیں۔ ادھر ہمیں اقبال کا مجموعہ اضداد ہونے کا دعوی یاد آتا ہے مگر پھر اقبال اقبال ہیں اور ہم ہم اور یوں بھی ہم لندن جرمنی تو پڑھا نہیں کرتے کہ وہ خود بھی ہمارے پڑھنے کی حمایت کریں۔ اب کہنہ سالی میں اندازہ ہوتا ہے کہ کتابیں اور نظریات لاکھ زندگی کے محدب عدسے سہی مگر اپنی اصل میں زندگی برتنے اور محسوس کرنے کی چیز ہے، صرف دور سے مطالعہ کرنے اور مضمون لکھنے کی نہیں۔ کانٹ کی استقامت سے ہم متاثر ہیں کہ اس نے ساری زندگی ایک ہی شہر میں بسر کی لیکن پھر اس غریب نے کچھ ڈھنگ کے کام بھی تو کیے۔ ہم یوں بھی دن میں پچاس سو مرتبہ ناکام ہوا کرتے ہیں تو سال میں ایک آدھ مرتبہ اپنی مرضی کی ناکامی حاصل کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ ہے کہ ہمیں اپنے سوال کا خیال ہے کہ اگر ہمیں عرض مدعا کے بعد بھی کہیں نظرانداز کر دیا گیا تو پھر خدا جانے کیا کریں دنیا کے ساتھ۔ ابھی تو یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ انسانوں کا پیری فرل وژن اتنا اچھا نہیں ہوتا اور پھر ہم خاموش بھی تو رہا کرتے ہیں اور لوگ اہل نظر نہیں ہوتے۔


ناکامیوں کا خوف اپنی جگہ مگر ان سے کہیں زیادہ تباہ کن ہمارے لیے ایک آدھ فی دہائی کے حساب سے آنے والی نام نہاد کامیابیاں ثابت ہوئی ہیں۔ ناشکرے پن کے لیبل سے ہمیں لاکھ اختلاف ہو لیکن اتنا تسلیم کریں گے کہ ہمارا ماضی اور حال گواہ ہے کہ پہلے جن چیزوں کی شان میں مضمون کہتے ہیں، بعد میں انھیں ہی اپنی زندگی کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مثلا ایف پی جی ایز ، کارنیگی میلن اور جی آر ای وغیرہ۔ بعض اوقات انسان کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس شے کو پسند کر رہا ہے اور وہی مستقبل میں کس طرح اس کے گلے پڑے گی۔ ہمیں تو کبھی نہیں ہوتا اور اب اگر ہم شے کی حقیقت کو سمجھنے والی نظر نہیں رکھتے تو اسے لائیں کہاں سے۔ پھر یہ تو قدیم مسئلہ ہے کہ انسان کو قریب کی چیزیں بےکار اور دور کی چیزیں کام کی دکھائی دیتی ہیں اور اس وقت تک دکھائی دیتی رہتی ہیں جب تک کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر رہیں۔ خیر ہمیں اپنی چیزوں پر شک یوں ہوتا ہے کہ اگر ان کا معیار بلند ہوتا تو وہ ہمارے قریب آتیں ہی کیوں، جیسا کہ کسی نے اعتراض کیا تھا کہ میں ہرگز ایسے کلب کا ممبر کہلانے کی توہین برداشت نہیں کر سکتا جو مجھے رکنیت دینا گوارا کر لے۔ پھر اگر انسان دور پار سے آنے والی چمک کوروشنی ستاروں کی سمجھ کر اس کا تعاقب نہ کرے اور تخیل کے چاک پر امکانات کے جہاں نہ تراشا کرے تو اس کا شمار ہومو سیپینز میں نہیں بلکہ نباتات اور جمادات میں کرنا چاہیے کہ انھی میں نہ تو اپنے مقام سے ہلنے کا حوصلہ ہوتا ہے اور نہ ہی سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کی ہمت۔ معلوم کو چھوڑ کر نامعلوم کی تلاش میں نکلنے کو بہرحال بڑا کردار درکار ہے اور ہرچند کہ آج کل ہمارے ہاں روایت سے جڑ کر اور غرابت سے ڈر کر رہنے کا رواج ہے مگر یہ رواج پرانا معلوم نہیں ہوتا کہ اگر پہلے بھی ایسا ہی ہوا کرتا تو انسانی تمدن کا قافلہ آج کہیں قرنوں پیچھے ہوتا۔ شب کی تاریکی کو چراغ سے کاٹنے اور پتھر کو آئینے میں ڈھالنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سویدا میں سیر عدم دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہمارا مسئلہ شاید فقط اس قدر ہے کہ ہم کام کرنے کے وقت پر بھی خواب دیکھا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
 
بہت عمدہ تحریر اور اندازِ تحریر۔ لاجواب
معلوم کو چھوڑ کر نامعلوم کی تلاش میں نکلنے کو بہرحال بڑا کردار درکار ہے اور ہرچند کہ آج کل ہمارے ہاں روایت سے جڑ کر اور غرابت سے ڈر کر رہنے کا رواج ہے مگر یہ رواج پرانا معلوم نہیں ہوتا کہ اگر پہلے بھی ایسا ہی ہوا کرتا تو انسانی تمدن کا قافلہ آج کہیں قرنوں پیچھے ہوتا۔ شب کی تاریکی کو چراغ سے کاٹنے اور پتھر کو آئینے میں ڈھالنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سویدا میں سیر عدم دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہمارا مسئلہ شاید فقط اس قدر ہے کہ ہم کام کرنے کے وقت پر بھی خواب دیکھا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بے نیازی کیساتھ زیاں ، یاس کیساتھ اُمید ، یاس کیساتھ تخییل ، بے ساختگی میں ربط ، بیان میں حلاوت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھی تحریر ہے ! ویسے کیا آپ کبھی خوش بھی ہوتی ہیں ؟ خوشی شاید آپ کے معیار کیمطابق ڈھلی بھی نہیں ہے ابھی تک
 

نمرہ

محفلین
بے نیازی کیساتھ زیاں ، یاس کیساتھ اُمید ، یاس کیساتھ تخییل ، بے ساختگی میں ربط ، بیان میں حلاوت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھی تحریر ہے ! ویسے کیا آپ کبھی خوش بھی ہوتی ہیں ؟ خوشی شاید آپ کے معیار کیمطابق ڈھلی بھی نہیں ہے ابھی تک
شکریہ۔۔۔کیا سوال پوچھ لیا ہے آپ نے!
 

نمرہ

محفلین
بے نیازی کیساتھ زیاں ، یاس کیساتھ اُمید ، یاس کیساتھ تخییل ، بے ساختگی میں ربط ، بیان میں حلاوت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھی تحریر ہے ! ویسے کیا آپ کبھی خوش بھی ہوتی ہیں ؟ خوشی شاید آپ کے معیار کیمطابق ڈھلی بھی نہیں ہے ابھی تک
کل ہی اقبال کے انگریزی سے ترجمہ شدہ خطوط نظر سے گزرے، یہ اقتباس دیکھیے:
'یہ نہ خیال کیجیے کہ میں ایک قنوطی ہوں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مصیبت بےحد لذیذ شے ہے۔ میں اپنی بدنصیبی سے لطف اندوز ہوتا ہوں اور ان لوگوں پر ہنستا ہوں جو خود کو شاد کام تصور کرتے ہیں۔ دیکھیے میں کس خوبصورتی سے اپنے لیے مسرت چرا لیتا ہوں!'
 

نور وجدان

لائبریرین
کل ہی اقبال کے انگریزی سے ترجمہ شدہ خطوط نظر سے گزرے، یہ اقتباس دیکھیے:
'یہ نہ خیال کیجیے کہ میں ایک قنوطی ہوں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مصیبت بےحد لذیذ شے ہے۔ میں اپنی بدنصیبی سے لطف اندوز ہوتا ہوں اور ان لوگوں پر ہنستا ہوں جو خود کو شاد کام تصور کرتے ہیں۔ دیکھیے میں کس خوبصورتی سے اپنے لیے مسرت چرا لیتا ہوں!'

خوشی ریلیٹو نہیں ہے مگر ہم نے خود کو کردیا ہے شاید کوئی چیز حتمی بھی نہیں ہے ۔

آپ نے سوال کے جواب میں کس خوبصورتی سے اقبال کا جوابی اقتباس رکھا ہے کہ مجھے اپنا ہی شعر یاد آگیا

مداوا غمِ دل کا ہو نورؔ کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت


خوش رہنا بھی کمال ہے ! ایسے ہی سہی ، چلو خوش رہیے !
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمیشہ کی طرح لاجواب تحریر۔۔۔۔۔ اور یہ بھی درست ہے کہ میرے پاس کبھی بھی ایسے الفاظ نہیں ہوتے کہ کما حقہ ہو آپ کی تحریر کی تعریف کی جائے۔ بس اسی بات پر خوش ہیں کہ اچھا پڑھنے کو ملتا ہے۔ اور اس پر شکریہ کر کے ہی سمجھتے ہیں کہ اپنا حق ادا ہوگیا۔

کل ہی اقبال کے انگریزی سے ترجمہ شدہ خطوط نظر سے گزرے، یہ اقتباس دیکھیے:
'یہ نہ خیال کیجیے کہ میں ایک قنوطی ہوں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مصیبت بےحد لذیذ شے ہے۔ میں اپنی بدنصیبی سے لطف اندوز ہوتا ہوں اور ان لوگوں پر ہنستا ہوں جو خود کو شاد کام تصور کرتے ہیں۔ دیکھیے میں کس خوبصورتی سے اپنے لیے مسرت چرا لیتا ہوں!'
میں اس پر کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر فساد خلق کے اندیشے نے مجھے روک لیا ہے۔ میں یقیناً کہتا کہ "ضائع کر دیا"، لیکن اب چونکہ کہہ نہیں سکتا سو خاموش ہوں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
کل ہی اقبال کے انگریزی سے ترجمہ شدہ خطوط نظر سے گزرے، یہ اقتباس دیکھیے:
'یہ نہ خیال کیجیے کہ میں ایک قنوطی ہوں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مصیبت بےحد لذیذ شے ہے۔ میں اپنی بدنصیبی سے لطف اندوز ہوتا ہوں اور ان لوگوں پر ہنستا ہوں جو خود کو شاد کام تصور کرتے ہیں۔ دیکھیے میں کس خوبصورتی سے اپنے لیے مسرت چرا لیتا ہوں!'
مصائب اور تنہائی کو ہمیشہ منفی نظر سے دیکھا جائے تو اس سے کچھ کشید نہیں ہوتا سوائے خود ترسی کے حالانکہ یہی مصائب ہمیں جینا سکھاتے ہیں ، وہ اسباق جو کسی کتاب اور صحیفے میں نہیں وہ انہی مصائب سے سیکھے جاتے ہیں ۔
میری نظر میں ہماری تربیت بھی یہی کرتے ہیں سو میں انہیں مثبت سمجھتی ہوں کردار سازی میں ۔
 
میں اگر آپ جتنا کامیاب رہا تو میری صورتحال بھی ایسی ہی ہوگی. خیر
از ما مپرس لذتِ تنہا گریستن

ناکامیوں کا بھی اپنا مزا ہے.
تحریر عمدہ اور لاجواب ہے.
 
آخری تدوین:

نمرہ

محفلین
ہمیشہ کی طرح لاجواب تحریر۔۔۔۔۔ اور یہ بھی درست ہے کہ میرے پاس کبھی بھی ایسے الفاظ نہیں ہوتے کہ کما حقہ ہو آپ کی تحریر کی تعریف کی جائے۔ بس اسی بات پر خوش ہیں کہ اچھا پڑھنے کو ملتا ہے۔ اور اس پر شکریہ کر کے ہی سمجھتے ہیں کہ اپنا حق ادا ہوگیا۔


میں اس پر کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر فساد خلق کے اندیشے نے مجھے روک لیا ہے۔ میں یقیناً کہتا کہ "ضائع کر دیا"، لیکن اب چونکہ کہہ نہیں سکتا سو خاموش ہوں۔

تحریر پڑھ لی آپ نے، کافی ہے۔
کہہ دیجئے ایک نئی لڑی کھول کر، کس نے روکا ہے۔
 

نمرہ

محفلین
مصائب اور تنہائی کو ہمیشہ منفی نظر سے دیکھا جائے تو اس سے کچھ کشید نہیں ہوتا سوائے خود ترسی کے حالانکہ یہی مصائب ہمیں جینا سکھاتے ہیں ، وہ اسباق جو کسی کتاب اور صحیفے میں نہیں وہ انہی مصائب سے سیکھے جاتے ہیں ۔
میری نظر میں ہماری تربیت بھی یہی کرتے ہیں سو میں انہیں مثبت سمجھتی ہوں کردار سازی میں ۔
آپ ٹھیک کہتی ہیں، پریشان ہونا ایک وقت تک تو ٹھیک ہوتا ہے لیکن اس کے بعد مقابلہ کرنا پڑتا ہے حالات کا۔
 

نمرہ

محفلین
میں اگر آپ جتنا کامیاب رہا تو میری صورتحال بھی ایسی ہی ہوگی. خیر
از ما مپرس لذتِ تنہا گریستن

ناکامیوں کا بھی اپنا مزا ہے.
تحریر عمدہ اور لاجواب ہے.
بھئی تمہیں تو خدا بہت ساری کامیابیاں نصیب کرے۔ تحریر پسند کرنے کا شکریہ۔
 
اب اس تحریر کے بارے میں کیا کہوں ۔۔ جہاں جہاں ناکامیوں کا ذکر آتا ہے وہیں اپنی کہانی کا گُمان گزرتا ہے ۔
اک شخص اپنے ہاتھ کی تحریر دے گیا
جیسے میرا نوشتہءِ تقدیر دے گیا

برسوں کے بعد اُس سے ملاقات جب ہوئی
بیتے دنوں کی چند تصاویر دے گیا
اصغر راہی
 
درجہ بندی ختم کر کے دوبارہ دی گئی ہے تاکہ سند ہو کہ اس دفعہ پڑھ کر دی ہے، البتہ درجہ بندی پڑھنے کے بعد بھی وہی ہے کہ یہی ہونا بھی تھا۔ :) :) :)
آزادی کا یہ بڑا ٹیڑھا معاملہ ہے کہ جب موجود ہو تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے ، اس کا کچھ کرنا چاہیے۔
یہ جملہ تو لطف ہی دے گیا! :) :) :)
شکایت سننی ہے تو عرض کر دیں کہ کاما سے قبل اسپیس چہ معنی دارد؟ :) :) :)
 
Top