محمد خرم یاسین
محفلین
گزشتہ سروس سے ایک قصہ
ایمبولینس نے بریک لگائی اور ہم دونوں دوست بڑی پھرتی سے مریض کی جانب بڑھے۔ دوست کے ہاتھ میں ایمرجنسی بیگ بھی تھا۔ اس کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ مریضہ ہے۔ نہایت نحیف اور جان کنی کے عالم میں مبتلا جواں سال مریضہ۔ اس کے گرد کچھ خواتین کھڑی تھیں جو شکل سے کم اور اپنے انداز و اطوار سے زیادہ "پروفیشنل" لگتی تھیں۔ مریضہ کا بی پی کافی ڈاون تھا۔ ہم نے فوراًً اسے ڈرپ لگائی اور ایمبولینس میں شفٹ کرنے لگے تو ان خواتین نے جو کہ خود کو اس مریضہ کی رشتہ دار بتار ہی تھیں، ہمیں مریضہ کو ہسپتال لے جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ جب سے ہم مریضہ کی پاس پہنچے تھے وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ یہ بالکل ٹھیک ہے، ذرا گھبرا گئی ہے، ہم اسے ہسپتال نہیں گھر لے کر جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے ایک خود کو اس کی والدہ بتارہی تھی اور ایک بہن۔۔۔
مریضہ کی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لیے اسے ہسپتال تو ہر صورت پہنچانا ہی تھا ویسے بھی یہ لاری اڈہ تھا، یہاں ایسے بے بس اور لاچار لڑکیوں کی کمی نہ تھی جو کسی آشنا کے ساتھ گھر سے بھاگ آئی ہوں اور پھر عصمت دری کے بعد یہاں اس حالت میں پڑی ہوں کہ پیشہ ور خواتین انھیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کھڑی ہوں کیوں کہ یہ خواتین کم از کم گھر جانے کی ہمت تو ہار ہی چکی ہوتی ہیں۔ بہرحال جب اسے ایمبولیس میں شفٹ کرنے لگے تو ان میں سے ایک عورت نے ہزابر ہزار کے چند نوٹ بھی میری جانب بڑھائے کہ یہ رکھ لیے جائیں اور ان کی "بہن" کو ہسپتال نہ لے جایا جائے۔۔۔۔ اب معاملہ بالکل صاف تھا۔ اور ہم نے ایمبولینس کو ہسپتال لے جانے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی، لیکن اس دوران ڈرپ کے ذریعے مریضہ کے جسم میں جانے والے نمکیات نے گویا اس کے جسم میں پھر سے جان ڈال دی تھی اور وہ اٹھ بیٹھی تھی۔۔ اس نے بڑی ہی غائب دماغی اور الجھی ہوئی نظروں سے بات کی۔ میں نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے، کس کے ساتھ آئی ہو اور کہاں رہتی ہو۔اس سب کے دوران وہ بس ایک لڑکے کا نام لیتی رہی تھی اور کہتی رہی تھی کہ وہ آئے گا، اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ابھی آئے گا، میں اسی کے ساتھ آئی ہوں، اس کے ساتھ اپنےگھر سے۔۔۔اس کے ساتھ رہی ہوں، رات بھر اس کے ساتھ تھی۔ہم ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور وہ باہر کچھ لینے گیا تھا کہ اچانک اس کے کچھ دوست۔۔۔ پھر وہ رونے لگی تھی۔۔۔ میں ساری کہانی سمجھ چکا تھا بہرحال ہسپتال روانہ ہوتے ہوئے اسے کہا کہ بتائے کہ وہ کہاں رکے تھے غور کرے سب عمارتوں پر مگر وہ کچھ بھی سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔۔اس کے دماغ سے ابھی تک اس کے اس نامراد اور خنزیر صفت عاشق کا بھوت نہیں اترا تھا جو اپنے ساتھیوں سمیت اس کا سب کچھ لوٹ کر لے گیا تھا اور اس نے وہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ وہ آئے گا ۔۔خیر ہم نے اسے ہسپتال شفٹ کیا اور اس کے بیگ کی تلاشی لی کہ اس کے گھر کا کوئی سراغ مل سکے اور اطلاع کریں لیکن اس میں سوائے اس کے زیور کے خالی ڈبے، شاید شادی کے لیے تیار کیے گئے لہنگے اور چند کپڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ صرف ایک پرچی ایسی ملی تھی جس پر ایک نمبر لکھا تھا جو کے بہنوئی کا تھا۔ اسی نمبر کو ٹریس کرکے اس کے گھروالوں کو ہم نے فیصل آباد بلوالیا تھا۔۔۔یقین کیجیے اب بھی کبھی کبھار نہ جانے کیوں وہ سرخ لہنگا یاد آجاتا ہے اور اس لڑکی کی بجھتی آنکھوں میں خود کو مایوسانہ انداز میں دی جانے والی جھوٹی تسلی بھی ۔۔۔۔"وہ آئے گا۔۔۔ وہ آئے گا۔۔۔وہ ضرور آئے گا۔۔۔۔"
اللہ تعالیٰ ہم سب کی عزتیں محفوظ رکھے۔ آمیں
خرم
ایمبولینس نے بریک لگائی اور ہم دونوں دوست بڑی پھرتی سے مریض کی جانب بڑھے۔ دوست کے ہاتھ میں ایمرجنسی بیگ بھی تھا۔ اس کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ مریضہ ہے۔ نہایت نحیف اور جان کنی کے عالم میں مبتلا جواں سال مریضہ۔ اس کے گرد کچھ خواتین کھڑی تھیں جو شکل سے کم اور اپنے انداز و اطوار سے زیادہ "پروفیشنل" لگتی تھیں۔ مریضہ کا بی پی کافی ڈاون تھا۔ ہم نے فوراًً اسے ڈرپ لگائی اور ایمبولینس میں شفٹ کرنے لگے تو ان خواتین نے جو کہ خود کو اس مریضہ کی رشتہ دار بتار ہی تھیں، ہمیں مریضہ کو ہسپتال لے جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ جب سے ہم مریضہ کی پاس پہنچے تھے وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ یہ بالکل ٹھیک ہے، ذرا گھبرا گئی ہے، ہم اسے ہسپتال نہیں گھر لے کر جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے ایک خود کو اس کی والدہ بتارہی تھی اور ایک بہن۔۔۔
مریضہ کی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لیے اسے ہسپتال تو ہر صورت پہنچانا ہی تھا ویسے بھی یہ لاری اڈہ تھا، یہاں ایسے بے بس اور لاچار لڑکیوں کی کمی نہ تھی جو کسی آشنا کے ساتھ گھر سے بھاگ آئی ہوں اور پھر عصمت دری کے بعد یہاں اس حالت میں پڑی ہوں کہ پیشہ ور خواتین انھیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کھڑی ہوں کیوں کہ یہ خواتین کم از کم گھر جانے کی ہمت تو ہار ہی چکی ہوتی ہیں۔ بہرحال جب اسے ایمبولیس میں شفٹ کرنے لگے تو ان میں سے ایک عورت نے ہزابر ہزار کے چند نوٹ بھی میری جانب بڑھائے کہ یہ رکھ لیے جائیں اور ان کی "بہن" کو ہسپتال نہ لے جایا جائے۔۔۔۔ اب معاملہ بالکل صاف تھا۔ اور ہم نے ایمبولینس کو ہسپتال لے جانے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی، لیکن اس دوران ڈرپ کے ذریعے مریضہ کے جسم میں جانے والے نمکیات نے گویا اس کے جسم میں پھر سے جان ڈال دی تھی اور وہ اٹھ بیٹھی تھی۔۔ اس نے بڑی ہی غائب دماغی اور الجھی ہوئی نظروں سے بات کی۔ میں نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے، کس کے ساتھ آئی ہو اور کہاں رہتی ہو۔اس سب کے دوران وہ بس ایک لڑکے کا نام لیتی رہی تھی اور کہتی رہی تھی کہ وہ آئے گا، اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ابھی آئے گا، میں اسی کے ساتھ آئی ہوں، اس کے ساتھ اپنےگھر سے۔۔۔اس کے ساتھ رہی ہوں، رات بھر اس کے ساتھ تھی۔ہم ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور وہ باہر کچھ لینے گیا تھا کہ اچانک اس کے کچھ دوست۔۔۔ پھر وہ رونے لگی تھی۔۔۔ میں ساری کہانی سمجھ چکا تھا بہرحال ہسپتال روانہ ہوتے ہوئے اسے کہا کہ بتائے کہ وہ کہاں رکے تھے غور کرے سب عمارتوں پر مگر وہ کچھ بھی سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔۔اس کے دماغ سے ابھی تک اس کے اس نامراد اور خنزیر صفت عاشق کا بھوت نہیں اترا تھا جو اپنے ساتھیوں سمیت اس کا سب کچھ لوٹ کر لے گیا تھا اور اس نے وہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ وہ آئے گا ۔۔خیر ہم نے اسے ہسپتال شفٹ کیا اور اس کے بیگ کی تلاشی لی کہ اس کے گھر کا کوئی سراغ مل سکے اور اطلاع کریں لیکن اس میں سوائے اس کے زیور کے خالی ڈبے، شاید شادی کے لیے تیار کیے گئے لہنگے اور چند کپڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ صرف ایک پرچی ایسی ملی تھی جس پر ایک نمبر لکھا تھا جو کے بہنوئی کا تھا۔ اسی نمبر کو ٹریس کرکے اس کے گھروالوں کو ہم نے فیصل آباد بلوالیا تھا۔۔۔یقین کیجیے اب بھی کبھی کبھار نہ جانے کیوں وہ سرخ لہنگا یاد آجاتا ہے اور اس لڑکی کی بجھتی آنکھوں میں خود کو مایوسانہ انداز میں دی جانے والی جھوٹی تسلی بھی ۔۔۔۔"وہ آئے گا۔۔۔ وہ آئے گا۔۔۔وہ ضرور آئے گا۔۔۔۔"
اللہ تعالیٰ ہم سب کی عزتیں محفوظ رکھے۔ آمیں
خرم