وہ آئے گا۔۔۔وہ ضرور آئے گا، اس نے وعدہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ سروس سے ایک قصہ
ایمبولینس نے بریک لگائی اور ہم دونوں دوست بڑی پھرتی سے مریض کی جانب بڑھے۔ دوست کے ہاتھ میں ایمرجنسی بیگ بھی تھا۔ اس کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ مریضہ ہے۔ نہایت نحیف اور جان کنی کے عالم میں مبتلا جواں سال مریضہ۔ اس کے گرد کچھ خواتین کھڑی تھیں جو شکل سے کم اور اپنے انداز و اطوار سے زیادہ "پروفیشنل" لگتی تھیں۔ مریضہ کا بی پی کافی ڈاون تھا۔ ہم نے فوراًً اسے ڈرپ لگائی اور ایمبولینس میں شفٹ کرنے لگے تو ان خواتین نے جو کہ خود کو اس مریضہ کی رشتہ دار بتار ہی تھیں، ہمیں مریضہ کو ہسپتال لے جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ جب سے ہم مریضہ کی پاس پہنچے تھے وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ یہ بالکل ٹھیک ہے، ذرا گھبرا گئی ہے، ہم اسے ہسپتال نہیں گھر لے کر جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے ایک خود کو اس کی والدہ بتارہی تھی اور ایک بہن۔۔۔
مریضہ کی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لیے اسے ہسپتال تو ہر صورت پہنچانا ہی تھا ویسے بھی یہ لاری اڈہ تھا، یہاں ایسے بے بس اور لاچار لڑکیوں کی کمی نہ تھی جو کسی آشنا کے ساتھ گھر سے بھاگ آئی ہوں اور پھر عصمت دری کے بعد یہاں اس حالت میں پڑی ہوں کہ پیشہ ور خواتین انھیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کھڑی ہوں کیوں کہ یہ خواتین کم از کم گھر جانے کی ہمت تو ہار ہی چکی ہوتی ہیں۔ بہرحال جب اسے ایمبولیس میں شفٹ کرنے لگے تو ان میں سے ایک عورت نے ہزابر ہزار کے چند نوٹ بھی میری جانب بڑھائے کہ یہ رکھ لیے جائیں اور ان کی "بہن" کو ہسپتال نہ لے جایا جائے۔۔۔۔ اب معاملہ بالکل صاف تھا۔ اور ہم نے ایمبولینس کو ہسپتال لے جانے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی، لیکن اس دوران ڈرپ کے ذریعے مریضہ کے جسم میں جانے والے نمکیات نے گویا اس کے جسم میں پھر سے جان ڈال دی تھی اور وہ اٹھ بیٹھی تھی۔۔ اس نے بڑی ہی غائب دماغی اور الجھی ہوئی نظروں سے بات کی۔ میں نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے، کس کے ساتھ آئی ہو اور کہاں رہتی ہو۔اس سب کے دوران وہ بس ایک لڑکے کا نام لیتی رہی تھی اور کہتی رہی تھی کہ وہ آئے گا، اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ابھی آئے گا، میں اسی کے ساتھ آئی ہوں، اس کے ساتھ اپنےگھر سے۔۔۔اس کے ساتھ رہی ہوں، رات بھر اس کے ساتھ تھی۔ہم ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور وہ باہر کچھ لینے گیا تھا کہ اچانک اس کے کچھ دوست۔۔۔ پھر وہ رونے لگی تھی۔۔۔ میں ساری کہانی سمجھ چکا تھا بہرحال ہسپتال روانہ ہوتے ہوئے اسے کہا کہ بتائے کہ وہ کہاں رکے تھے غور کرے سب عمارتوں پر مگر وہ کچھ بھی سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔۔اس کے دماغ سے ابھی تک اس کے اس نامراد اور خنزیر صفت عاشق کا بھوت نہیں اترا تھا جو اپنے ساتھیوں سمیت اس کا سب کچھ لوٹ کر لے گیا تھا اور اس نے وہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ وہ آئے گا ۔۔خیر ہم نے اسے ہسپتال شفٹ کیا اور اس کے بیگ کی تلاشی لی کہ اس کے گھر کا کوئی سراغ مل سکے اور اطلاع کریں لیکن اس میں سوائے اس کے زیور کے خالی ڈبے، شاید شادی کے لیے تیار کیے گئے لہنگے اور چند کپڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ صرف ایک پرچی ایسی ملی تھی جس پر ایک نمبر لکھا تھا جو کے بہنوئی کا تھا۔ اسی نمبر کو ٹریس کرکے اس کے گھروالوں کو ہم نے فیصل آباد بلوالیا تھا۔۔۔یقین کیجیے اب بھی کبھی کبھار نہ جانے کیوں وہ سرخ لہنگا یاد آجاتا ہے اور اس لڑکی کی بجھتی آنکھوں میں خود کو مایوسانہ انداز میں دی جانے والی جھوٹی تسلی بھی ۔۔۔۔"وہ آئے گا۔۔۔ وہ آئے گا۔۔۔وہ ضرور آئے گا۔۔۔۔"
اللہ تعالیٰ ہم سب کی عزتیں محفوظ رکھے۔ آمیں
خرم​
 

ہادیہ

محفلین
ایسی بہت سی کہانیوں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں ۔۔۔ اللہ بچانے والا ۔۔۔ اللہ ہی حفاظت فرمانے والا۔۔۔ اللہ ہداہت دے ہم سب کو...آمین ثم آمین۔۔۔
 
طہارت شرط اول ہے
وفا کے ذر اُصولوں میں
ہوس کی گندگی لیکر
محبت کی نہیں جاتی
ہمارا معاشرہ کس طرف کو جارہاہے دو منٹ کے میٹھے بول کو کس طرح ایک لڑکا اور ایک لڑکی محبت سمجھ لیتے ہیں؟ اور اپنے ماں باپ گھر والوں کو چھوڑ کر اپنے اُس عاشق کے ساتھ بھاگ جانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں جس کو محبت لڑکی سے نہیں بلکہ اُسکے جسم سے ہوتی ہے اور اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہی اُسکی محبت دفن ہوجاتی ہے لیکن
تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی ۔۔۔!
اللہ تعالیٰ ہم سب کی عزتوں کی حفاظت فرمائے اور اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین
 
میرے خیال میں آج کی عورت با شعور ہو چکی ہے، ایسے قصے کہانیاں ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، بہرحال اللہ سب کی حفاظت کرے
 

عاطف ملک

محفلین
گزشتہ سروس سے ایک قصہ
ایمبولینس نے بریک لگائی اور ہم دونوں دوست بڑی پھرتی سے مریض کی جانب بڑھے۔ دوست کے ہاتھ میں ایمرجنسی بیگ بھی تھا۔ اس کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ مریضہ ہے۔ نہایت نحیف اور جان کنی کے عالم میں مبتلا جواں سال مریضہ۔ اس کے گرد کچھ خواتین کھڑی تھیں جو شکل سے کم اور اپنے انداز و اطوار سے زیادہ "پروفیشنل" لگتی تھیں۔ مریضہ کا بی پی کافی ڈاون تھا۔ ہم نے فوراًً اسے ڈرپ لگائی اور ایمبولینس میں شفٹ کرنے لگے تو ان خواتین نے جو کہ خود کو اس مریضہ کی رشتہ دار بتار ہی تھیں، ہمیں مریضہ کو ہسپتال لے جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ جب سے ہم مریضہ کی پاس پہنچے تھے وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ یہ بالکل ٹھیک ہے، ذرا گھبرا گئی ہے، ہم اسے ہسپتال نہیں گھر لے کر جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے ایک خود کو اس کی والدہ بتارہی تھی اور ایک بہن۔۔۔
مریضہ کی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لیے اسے ہسپتال تو ہر صورت پہنچانا ہی تھا ویسے بھی یہ لاری اڈہ تھا، یہاں ایسے بے بس اور لاچار لڑکیوں کی کمی نہ تھی جو کسی آشنا کے ساتھ گھر سے بھاگ آئی ہوں اور پھر عصمت دری کے بعد یہاں اس حالت میں پڑی ہوں کہ پیشہ ور خواتین انھیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کھڑی ہوں کیوں کہ یہ خواتین کم از کم گھر جانے کی ہمت تو ہار ہی چکی ہوتی ہیں۔ بہرحال جب اسے ایمبولیس میں شفٹ کرنے لگے تو ان میں سے ایک عورت نے ہزابر ہزار کے چند نوٹ بھی میری جانب بڑھائے کہ یہ رکھ لیے جائیں اور ان کی "بہن" کو ہسپتال نہ لے جایا جائے۔۔۔۔ اب معاملہ بالکل صاف تھا۔ اور ہم نے ایمبولینس کو ہسپتال لے جانے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی، لیکن اس دوران ڈرپ کے ذریعے مریضہ کے جسم میں جانے والے نمکیات نے گویا اس کے جسم میں پھر سے جان ڈال دی تھی اور وہ اٹھ بیٹھی تھی۔۔ اس نے بڑی ہی غائب دماغی اور الجھی ہوئی نظروں سے بات کی۔ میں نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے، کس کے ساتھ آئی ہو اور کہاں رہتی ہو۔اس سب کے دوران وہ بس ایک لڑکے کا نام لیتی رہی تھی اور کہتی رہی تھی کہ وہ آئے گا، اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ابھی آئے گا، میں اسی کے ساتھ آئی ہوں، اس کے ساتھ اپنےگھر سے۔۔۔اس کے ساتھ رہی ہوں، رات بھر اس کے ساتھ تھی۔ہم ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور وہ باہر کچھ لینے گیا تھا کہ اچانک اس کے کچھ دوست۔۔۔ پھر وہ رونے لگی تھی۔۔۔ میں ساری کہانی سمجھ چکا تھا بہرحال ہسپتال روانہ ہوتے ہوئے اسے کہا کہ بتائے کہ وہ کہاں رکے تھے غور کرے سب عمارتوں پر مگر وہ کچھ بھی سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔۔اس کے دماغ سے ابھی تک اس کے اس نامراد اور خنزیر صفت عاشق کا بھوت نہیں اترا تھا جو اپنے ساتھیوں سمیت اس کا سب کچھ لوٹ کر لے گیا تھا اور اس نے وہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ وہ آئے گا ۔۔خیر ہم نے اسے ہسپتال شفٹ کیا اور اس کے بیگ کی تلاشی لی کہ اس کے گھر کا کوئی سراغ مل سکے اور اطلاع کریں لیکن اس میں سوائے اس کے زیور کے خالی ڈبے، شاید شادی کے لیے تیار کیے گئے لہنگے اور چند کپڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ صرف ایک پرچی ایسی ملی تھی جس پر ایک نمبر لکھا تھا جو کے بہنوئی کا تھا۔ اسی نمبر کو ٹریس کرکے اس کے گھروالوں کو ہم نے فیصل آباد بلوالیا تھا۔۔۔یقین کیجیے اب بھی کبھی کبھار نہ جانے کیوں وہ سرخ لہنگا یاد آجاتا ہے اور اس لڑکی کی بجھتی آنکھوں میں خود کو مایوسانہ انداز میں دی جانے والی جھوٹی تسلی بھی ۔۔۔۔"وہ آئے گا۔۔۔ وہ آئے گا۔۔۔وہ ضرور آئے گا۔۔۔۔"
اللہ تعالیٰ ہم سب کی عزتیں محفوظ رکھے۔ آمیں
خرم​
ایسے واقعات پڑھ کے دل سے ایسی ایسی بددعائیں نکلتی ہیں کہ بعد میں خود بھی ان بددعاؤں کی شدت پر حیرت ہوتی ہے :-(
میرے خیال میں آج کی عورت با شعور ہو چکی ہے، ایسے قصے کہانیاں ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، بہرحال اللہ سب کی حفاظت کرے
میرے خیال میں عورت کتنی ہی باشعور اور مضبوط کیوں نہ ہو،
مرد اس کے دفاع کے قلعوں میں دراڑ ڈالنے کا ہنر جانتا ہے۔
اللہ ہی سب کی عزت و حرمت کی حفاظت کرنے والا ہے۔
 
کیسے ہیں خرم صاحب؟ کیا میں پوچھ سکتی ہوں یہ تحریر ہے یا سچا واقعہ؟
الحمد للہ۔ یہ بالکل سچا واقعہ ہے۔ بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ ریسکیو لائف کے دوران ایسے سینکڑوں واقعات خود دیکھے۔ اللہ تعالیٰ سب کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین ۔
 
طہارت شرط اول ہے
وفا کے ذر اُصولوں میں
ہوس کی گندگی لیکر
محبت کی نہیں جاتی
ہمارا معاشرہ کس طرف کو جارہاہے دو منٹ کے میٹھے بول کو کس طرح ایک لڑکا اور ایک لڑکی محبت سمجھ لیتے ہیں؟ اور اپنے ماں باپ گھر والوں کو چھوڑ کر اپنے اُس عاشق کے ساتھ بھاگ جانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں جس کو محبت لڑکی سے نہیں بلکہ اُسکے جسم سے ہوتی ہے اور اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہی اُسکی محبت دفن ہوجاتی ہے لیکن
تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی ۔۔۔!
اللہ تعالیٰ ہم سب کی عزتوں کی حفاظت فرمائے اور اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین
درست۔ متفق۔
 
میرے خیال میں آج کی عورت با شعور ہو چکی ہے، ایسے قصے کہانیاں ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، بہرحال اللہ سب کی حفاظت کرے
آپ اس سے شاید اتفاق نہ کریں یہ واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ اور وقار علی صاحب کے مطابق "تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی" میں متفق ہوں۔ 2006 میں جب سروس کا آغاز کیا تو ان واقعات کی تعداد اتنی نہ تھی جتنی 2016 میں سروس چھوڑنے کے ہوچکی تھی۔ ہر روز ایسے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔
 
ایسے واقعات پڑھ کے دل سے ایسی ایسی بددعائیں نکلتی ہیں کہ بعد میں خود بھی ان بددعاؤں کی شدت پر حیرت ہوتی ہے :-(

میرے خیال میں عورت کتنی ہی باشعور اور مضبوط کیوں نہ ہو،
مرد اس کے دفاع کے قلعوں میں دراڑ ڈالنے کا ہنر جانتا ہے۔
اللہ ہی سب کی عزت و حرمت کی حفاظت کرنے والا ہے۔
بے شک۔ آمین۔ جزاک اللہ۔
 

امان زرگر

محفلین
ان تمام مسائل کا حل مذہبی اور معاشرتی اقدار سے آگاہی اور ان پر عمل پیرا ہونے نیز خاندانی نظام کی مضبوطی اور رشتوں کی پاسداری میں مضمر ہے. اللہ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عصمتوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہم سب کو شرم و حیا عطا فرمائے.
 
بھائی میں خود گواہ ہوں ایسے واقعات کا۔میں 2006 سے 2009 تک ایدھی فانڈیشن کا حصہ رہا ہوں۔گھر سے بھاگی اپنے عاشق کی ٹھکرائی لڑکیوں کو بلقیس ایدھی ہوم میں داخل کروایا ہے۔اللہ کریم ہم سب کی عزت اور عصمتوں کی نگہبانی فرمائیں۔آمین
 
بھائی میں خود گواہ ہوں ایسے واقعات کا۔میں 2006 سے 2009 تک ایدھی فانڈیشن کا حصہ رہا ہوں۔گھر سے بھاگی اپنے عاشق کی ٹھکرائی لڑکیوں کو بلقیس ایدھی ہوم میں داخل کروایا ہے۔اللہ کریم ہم سب کی عزت اور عصمتوں کی نگہبانی فرمائیں۔آمین
آپ جو خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں اس کے مطابق آپ یقیناً گواہ ہوں گے کیوں کہ ایسی سروسز کے دوران ایسے واقعات معمول ہوتے ہیں۔
 
ان تمام مسائل کا حل مذہبی اور معاشرتی اقدار سے آگاہی اور ان پر عمل پیرا ہونے نیز خاندانی نظام کی مضبوطی اور رشتوں کی پاسداری میں مضمر ہے. اللہ ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عصمتوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہم سب کو شرم و حیا عطا فرمائے.
متفق۔ آمین۔
 
آپ جو خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں اس کے مطابق آپ یقیناً گواہ ہوں گے کیوں کہ ایسی سروسز کے دوران ایسے واقعات معمول ہوتے ہیں۔
ہاں بھائی میں ایدھی ناظم آباد سینٹر پر آفس کلرک وائرلیس آپریٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا تھا۔
 
Top