وہ آس پاس ہے مرے قریب پر نہیں -

وہ آس پاس ہے مرے قریب پر نہیں
یہ داستان عشق بهی عجیب پر نہیں

ملا کبهی جدا ہوا یہ سلسلہ رہا
وہ آس تو بنا رہا نصیب پر نہیں

یہ وقت ہے دعا پہ ہے یقیں فقط ہمیں
دوا پہ اعتبار ہے طبیب پر نہیں

بڑهی جو آشنائی یہ ہی منکشف ہوا
نہیں گو دوستوں میں وہ رقیب پر نہیں

ہے تجھ پہ بهی یقین خود پہ اعتبار ہے
یہی یقیں مجھے مگر نصیب پر نہیں
 

اسد قریشی

محفلین
لیکن اس حساب سے تو بہت سے مصرعے روانی سے محروم ہیں، نیز میری ناقص عقل کے مطابق، کچھ مصرعے مفہوم کُلی طور پر ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔یعنی نا مکمل محسوس ہو رہے ہیں۔:unsure:
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ سارہ کی پسندیدہ بحر ہے
مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعو÷فعول
اور مجھے اس کی ڈبل پسند تھی۔۔۔
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن۔۔۔
لیکن ہر پسندیدہ چیز کو اپنانا ضروری نہیں ہے۔۔ جب اس میں بیان ٹھیک نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دینا ہی ٹھیک سمجھا اور چھوڑ دیا۔۔۔
 
Top