وہ آنکھ کیسی کہ جس میں ذرا سا آب نہ ہو غزل نمبر 164 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ سر
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
خُوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی زمین میں ایک غزل۔۔۔

وہ آنکھ کیسی کہ جِس میں ذرا سا آب نہ ہو
وہ دِل بھی دِل نہیں ہے جِس میں اِضطراب نہ ہو

یہ بحث چِھڑ گئی ہے گلُستاں کے پُھولوں میں
رہے گی تِتلیاں محفوظ گر کتاب نہ ہو

وگرنہ چُپ ہی رہو خامشی ہی بہتر ہے
سوال وہ کرو جِس کا کوئی جواب نہ ہو

جو بِیج بوئے گے ہم اس کا پھل تو آئے گا
گُناہ کرتے رہیں کیسے پھر عذاب نہ ہو

جِسے تُو چاہے وہ مِل جائے تُجھ کو بے مانگے
جو بن نہ پائے حقیقت ترا وہ خُواب نہ ہو

مِزاج موسموں کا ہے اگرچہ بگِڑا ہوا
یہ ناؤ پار ہو قِسمت اگر خراب نہ ہو

ِنظام چلتا ہے کب آرزو پہ لوگوں کی
سِتارے تو یہ کہیں گے کہ آفتاب نہ ہو

خُدا سے مانگتے رہنے میں ہے سکوں
شارؔق
خُدا کرے کہ دُعا میری مُستجاب نہ ہو
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر یاسر شاہ سر
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
خُوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی زمین میں ایک غزل۔۔۔

وہ آنکھ کیسی کہ جِس میں ذرا سا آب نہ ہو
وہ دِل بھی دِل نہیں ہے جِس میں اِضطراب نہ ہو
"نہہے" باندھنا اچھا نہیں لگتا
نہ دل ہی دل ہے وہ، جس دل میں...
یہ بحث چِھڑ گئی ہے گلُستاں کے پُھولوں میں
رہے گی تِتلیاں محفوظ گر کتاب نہ ہو
رہے گی واحد، تتلیاں جمع! رہیں گی تتلیاں....
وگرنہ چُپ ہی رہو خامشی ہی بہتر ہے
سوال وہ کرو جِس کاکوئی جواب نہ ہو
مفہوم عجیب ہے

جو بِیج بوئے گے ہم اس کا پھل تو آئے گا
گُناہ کرتے رہیں کیسے پھر عذاب نہ ہو
بوئے گے؟ درست بوئیں گے
دوسرے مصرعے میں فاعل واضح نہیں
گنہ جو کرتے رہیں ہم، تو کیوں....

جِسے تُو چاہے وہ مِل جائے تُجھ کو بے مانگے
جو بن نہ پائے حقیقت ترا وہ خُواب نہ ہو
بن مانگے بہتر ہے
دوسرا مصرع
جو بن سکے نہ حقیقت، وہ تیرا.....
بہتر ہو گا

مِزاج موسموں کا ہے اگرچہ بگِڑا ہوا
یہ ناؤ پار ہو قِسمت اگر خراب نہ ہو
پار ہو گی کا محل ہے

ِنظام چلتا ہے کب آرزو پہ لوگوں کی
سِتارے تو یہ کہیں گے کہ آفتاب نہ ہو
دوسرے مصرعے کو
بھلے ستارے یہ چاہیں کہ....
کر دو

خُدا سے مانگتے رہنے میں ہے سکوں شارؔق
خُدا کرے کہ دُعا میری مُستجاب نہ ہو
درست
 

امین شارق

محفلین
شکریہ الف عین سر غزل اصلاح کے بعد۔۔
وہ آنکھ کیسی کہ جِس میں ذرا سا آب نہ ہو
نہ دل ہی دل ہے وہ، جس دل میں اضطراب نہ ہو

یہ بحث چِھڑ گئی ہے گلُستاں کے پُھولوں میں
رہیں گی تتلیاں محفوظ گر کتاب نہ ہو


وگرنہ چُپ ہی رہو خامشی ہی بہتر ہے
سوال وہ کرو جِس کا کوئی جواب نہ ہو

جو بِیج بوئیں گے ہم اس کا پھل تو آئے گا
گنہ جو کرتے رہیں ہم، تو کیوں عذاب نہ ہو

جِسے تُو چاہے وہ مِل جائے تُجھ کو بن مانگے
جو بن سکے نہ حقیقت، وہ تیرا خواب نہ ہو


مشکل پیش آرہی ہے دوسرے مصرعے میں
مِزاج موسموں کا ہے اگرچہ بگِڑا ہوا
یہ ناؤ پار ہو قِسمت اگر خراب نہ ہو

ِنظام چلتا ہے کب آرزو پہ لوگوں کی
بھلے ستارے یہ چاہیں کہ آفتاب نہ ہو

خُدا سے مانگتے رہنے میں ہے سکوں شارؔق
خُدا کرے کہ دُعا میری مُستجاب نہ ہو
 

الف عین

لائبریرین
مِزاج موسموں کا ہے اگرچہ بگِڑا ہوا
یہ ناؤ پار ہو قِسمت اگر خراب نہ ہو
ناؤ کے ساتھ "ہو" در اصل مشکل پیدا کر رہا ہے
لگے گی پار یہ کشتی.... بہتر ہے لیکن مفہوم مکمل ادا ہوتا نہیں لگتا
پہلا مصرع بھی موسم واحد لانے سے رواں ہو جاتا ہے
مزاج بگڑا ہوا ہے اگرچہ موسم کا
یہ شعر نکال ہی دو، یہی حل بہتر ہے
 
Top